بدعاتِ محرم کا جائزہ

نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوْرِ عِنْدَ اللّٰہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ مِنْہَا اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْہِنَّ اَنْفُسَکُمْ وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِکِیْنَ کَآفَّۃً کَمَا یُقَاتِلُوْنَکُمْ کَآفَّۃً وَ اعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ

’’بیشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہیں جب سے اس نے آسمان اور زمین بنائے، ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں، یہ سیدھا دین ہے تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے ہر حال میں لڑو جیسا وہ تم سے ہر وقت لڑتے ہیں اور جان لو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔‘‘
وَعَن عَطاء بْنِ یَسَارٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسلم: اللَّہُمَّ لَا تجْعَل قَبْرِی وثنا یعبد اشْتَدَّ غَضَبُ اللَّہِ عَلَی قَوْمٍ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِیَائہمْ مَسَاجِد’’عطا بن یسار ؒ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! میری قبر کو بت نہ بنانا کہ اس کی پوجا کی جائے، اللہ ان لوگوں پر سخت ناراض ہو جنہوں نے انبیاء علیہم السلام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔‘‘

معزز سامعین کرام! محرم الحرام ایک مقدس اور متبرک مہینہ ہے جس کے بہت سے فضائل اور امتیازی خصوصیات قرآن کریم میں(صراحتاً یا اشارۃً) حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں اور اسلامی فکر سے وابستہ محققین و اسکالرز کے فرموادت میں ذکر کئے گئے ہیں۔ محرم کی عظمت کے پیشِ نظر شریعت نے اس ماہ میں چند اعمال کی ادائیگی کو مستحسن قرار دیا اور امت کو مجموعی طور پر ان اعمال کی ترغیب دی گئی۔ جیسے ماہِ محرم الحرام میں روزے رکھنا اور بالخصوص یو مِ عاشوراء کا روزہ اور اپنے اہل و عیال پر بقدرِ استطاعت خرچ کرنا وغیرہ وغیرہ۔
سانحہِ کربلا کے بعد اس ماہ کو اسلامی تاریخ میں مزید اہمیت ملی اور اس ماہ کے ساتھ مسلمانوں کا ایک نیا رشتہ استوار ہوا۔ابتداء میں سانحہ کربلا کی وجہ سے اس ماہ کے متعلق کوئی غلط تصور موجودنہ تھا اور نہ کسی غیر شرعی عمل کو پذیرائی ملی تھی لیکن جوں ہی زمانہ عہد رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہوتا گیا،غلط افکار و نظریات بڑھتے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے محرم الحرام کے متعلق ایک خود ساختہ نظریات کی عمارت کھڑی کر دی گئی۔ علمی و فکری نظریات کے ساتھ ساتھ بہت سی عملی کمزوریاں اور کوتاہیاں بھی سامنے آئیں جن کی وجہ سے محرم الحرام کی دینی حیثیت دھندلا گئی۔ علمی و فکری طبقہ نے غلط نظریات کو فروغ دینے میں کردار ادا کیا تو عوام الناس نے عملی کجروی یعنی بدعات و رسومات کی ترویج و تشہیر میں اپنا حصہ ڈالا اور یوں ایک مشترکہ کوشش سے محرم الحرام اور محرم کے متعلق شریعت کے اساسی تصور کو پامال کیاگیا۔ ہم ان بدعات و رسومات کا جائزہ لیں گے لیکن اس سے پہلے ہم بدعت کو سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ بدعت کیا ہے؟

بدعت کیا ہے؟

بدعت اور احداث فی الدین ایک معنیٰ میں مستعمل ہوتے ہیں۔ بدعت عربی زبان کا لفظ ہے جو بَدَعَسے مشتق ہے۔بدع کا معنیٰ یہ ہے کہ کسی سابقہ مادہ۔ مثال، نمونہ یا وجود کے بغیر کوئی نئی چیز ایجاد کرنا۔ یعنی کسی شے کو عدمِ محض سے وجود میں لانے کو عربی زبان میں ’’اِبداع‘‘ کہتے ہیں۔ بدعت یعنی بغیر کسی سابقہ نمونہ کے ایجاد، کی آسان تعبیرما أحدث علی غیر مثال سابقسے کی جاتی ہے۔ قرآن مجید میں ذکر شدہ مختلف مشتقاتِ بدعت سے لغوی معنیٰ کی تائید ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں کہ: بَدِیعُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَإِذَا قَضَی أَمْراً فَإِنَّمَا یَقُولُ لَہُ کُن فَیَکُونُ’’وہی آسمانوں اور زمین کو (عدم سے) وجود میں لانے والا ہے اور جب وہ کسی چیز (کی اِیجاد) کا فیصلہ فرما لیتا ہے تو پھر اس کو صرف یہی فرماتا ہے تو ہو جا، پس وہ ہوجاتی ہے۔‘‘
بدعت کی اصطلاحی تعریف ذکر کرتے ہوئے علمائے کرام فرماتے ہیں کہ:’’اصطلاحِ شرع میں بدعت وہ نیا کام ہے جو خیر القرون کے زمانے میں نہ ہو اور سلف خلف اس کی طرف محتاج ہوں اور کوئی شخص حصولِ ثواب کی نیت سے کریں۔ بدعت کی اس تعریفِ شرعی کے پیش نظر اس کا کوئی فرد حسنہ نہیں بلکہ ہر فرد سئیہ اور قبیح ہے۔‘‘
بدعت ایک انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے جس کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گمراہی قرار دیا ہے کہ:
عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَیْرَ الْحَدِیثِ کِتَابُ اللَّہِ وَخَیْرَ الْہَدْیِ ہَدْیُ مُحَمَّدٍ وَشَرَّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُہَا وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ
’’جابر ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حمدوثنا اور صلوۃ و سلام کے بعد، سب سے بہترین کلام، اللہ کی کتاب ہے اور بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے، بدترین امور وہ ہیں جو نئے جاری کئے جائیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدعت کوشرالشرک یعنی شرک کا تسمہ اور شاخ قرار دیا ہے جس سے بدعت کی قباحت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ بدعت یا دین میں کسی جدید چیز کا اضافہ کرنا درحقیقت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر عدمِ اعتماد کا اظہار کرنا ہے کہ العیاذ باللہ یہ امر بھی دین کا حصہ ہے اور اس پر بھی ثواب ملتا ہے لیکن حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم ہم تک نہیں پہنچایا۔ یہ حکم یا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم نہ تھا یا نعوذ باﷲ من ذالک حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابلاغِ دین میں بخل سے کام لیا۔ یہ دونوں صورتیں شرعاً و عقلاً محال ہے کیونکہ ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابلاغ ما انزل اللہ کی ذمہ داری بطریقِ احسن سرانجام دی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فرض کی ادائیگی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ اس پر دال حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ استفسار ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں صحابہ کرام سے کیا تھا کہ کیا میں نے آپ لوگوں تک دین پہنچایا تو تمام حاضرین نے بیک وقت اور بیک زبان اقرار کیا کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دین پہنچایا دیا ہے۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی ذمہ داری پوری کی توپھر دین میں کچھ اضافہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس لئے علمائے کرام بدعات کے خلاف سخت رویہ اپناتے ہیں کیونکہ بدعات و رسومات کی وجہ سے دین کی اصلی روح مجروح ہوتی ہے۔

ماہِ محرم الحرام کی بدعات و رسومات

ماہِ محرم اور بالخصوص یومِ عاشوراء کے متعلق عوام الناس میں بے شمار بدعات و رسومات نے جنم لیا اور محرم الحرام کے آغاز سے ہی بدعات و خرافات کی رسمیں شروع ہو جاتی ہیں اور آخر تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ہم ان میں سے چند بدعات کا جائزہ لیتے ہیں۔

قبرستان جانا

محرم الحرام سے متعلق بڑی اور مشہور بدعت قبور کو بارونق بنانا ہے، محرم الحرام اور خصوصاً نویں اور دسویں محرم کو سب لوگ قبرستان جاتے ہیں اور وہاں قبروں پر تازہ مٹی، پھول اور ہار وغیرہ رکھ کر مزین کرتے ہیں۔ بعض علاقوں میں تو محرم کی ابتداء سے قبرستان کی صفائی شروع ہو جاتی ہے۔ چھوٹے بڑے سب قبروں کی لپائی اور قبرستان کی نقش و نگاری میں مشغول ہوجاتے ہیں اور سب لوگ دل کھول کر پیسہ خرچ کرتے ہیں اور اس کو انفاق فی سبیل اللہ کہتے ہیں۔ قبرستان کی صفائی کے بعد مردوعورت، جوان بوڑھے، چھوٹے بڑے سب لوگ ہجوم کی شکل میں قبرستان پہنچتے ہیں اور وہاں قبروں پر دال، چاول، مٹھائی وغیرہ پھینکتے ہیں، پھول مالے اور اگربتی وموم بتی کی رسمیں انجام دینا، قل و فاتحہ سے مردوں کو ثواب بخشنا اور ان سے استغاثہ کرنا جیسے سینکڑوں بدعات و خرافات کئے جاتے ہیں جو سراسر گناہ اور خلافِ شرع ہے۔ قبور کی زیارت کرنا کوئی گناہ نہیں بلکہ مستحب اور مسنون ہے لیکن یوں جانا جس طرح محرم الحرام میں لوگ جاتے ہیں، گناہ ہے۔ قبروں کی اس طرح تزئین کرنا اور پھر خاص ایام میں قبرستان کے اندر میلہ لگانا جائز نہیں۔ ان تمام چیزوں سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما یا ہے۔ مشکوٰۃ میں روایت ہے کہ وَعَن عَطاء بْنِ یَسَارٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسلم: اللَّہُمَّ لَا تجْعَل قَبْرِی وثنا یعبد اشْتَدَّ غَضَبُ اللَّہِ عَلَی قَوْمٍ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِیَائہمْ مَسَاجِد’’عطا بن یسار ؒ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ؐنے فرمایا: اے اللہ! میری قبر کو بت نہ بنانا کہ اس کی پوجا کی جائے، اللہ ان لوگوں پر سخت ناراض ہو جنہوں نے انبیاء علیہم السلام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔‘‘
اس طرح اگر کوئی قبر خراب ہوگئی ہے اور سطح زمین سے نیچے ہوگئی ہے تو اس پر مٹی ڈالنے یا برابر کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن محرم الحرام اور خاص ایام میں قبروں کی تزئین یا ان پر مٹی ڈالنا یا بلاضرورت قبر کو تازہ کرنا وہ بھی خاص دن میں، ثواب کی نیت سے یقیناً بدعت ہے جس سے احتراز لازم ہے، یہ عمل نہ تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین نے یہ عمل کیا ہے بلکہ ان سب بدعات و رسومات کو خیرالقرون کے بعد فروغ ملا اور تاحال یہ رائج ہے۔

غیر شرعی نذر و نیاز

نذر منت ماننے کو کہتے ہیں اور نذر، اصطلاح شرع میں وہ عبادت مقصودہ ہے جوجنس واجب سے ہواوروہ خود بندہ پرواجب نہ ہو،مگربندہ نے اپنے قول سے اسے اپنے ذمہ واجب کرلیاہومثلاً یہ کہا کہ اگر میں امتحان میں کامیاب ہو ئی تو دس رکعت نفل ادا کروں گی، اسے نذر شرعی کہتے ہیں۔ معنیٰ شرعی قرآن کریم میں بھی مستعمل ملتا ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ:وَمَا أَنفَقْتُم مِّن نَّفَقَۃٍ أَوْ نَذَرْتُم مِّن نَّذْرٍ فَإِنَّ اللّہَ یَعْلَمُہُ وَمَا لِلظَّالِمِینَ مِنْ أَنصَارٍ ’’جو کچھ تم خرچ کرویانذر مانو کوئی نذر، اللہ اسے جانتا ہے۔‘‘
نذر کی مشروعیت میں تو کوئی کلام نہیں کیا جاسکتا لیکن یہاں محرم الحرام میں نذر و نیاز کے نام سے ایک بڑی بدعت اور رسم عروج پر ہے کہ محرم میں سب لوگ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور دیگر شہدائے کربلا کے نام پر نذر و نیاز کی غیر شرعی صورتوں پر عمل کرتے ہیں۔ جگہ جگہ پر شہدائے کربلا کے نام پر شربت اور سبیلیں لگائی جاتی ہیں اور شروع دن سے خواتین گھروں میں نذرونیاز کا خوب اہتمام کرتی ہیں،کھچڑا، حلیم،بریانی، زردہ اور فرنی وغیرہ پکائے جاتے ہیں۔اسے لوگوں میں بھی تقسیم کیا جاتا ہے اور قبروں ودرگاہوں پر بطور نذر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ غیراللہ کے نام کی قربانی، نذر اور ذبیحہ وغیرہ سب شرک کے قبیل سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں کہ إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِیرِ وَمَا أُہِلَّ بِہِ لِغَیْرِ اللَّہِ ’’تم پر مردہ اور (بہاہوا) خون اور سور کا گوشت اور ہروہ چیز جس پراللہ کے سوا دوسروں کا نام پکاراگیاہوحرام ہے۔‘‘ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ارشاد فرماتے ہیں کہ: التَّحِیَّاتُ لِلَّہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ’’میری قولی، فعلی اور مالی تما م عبادات اللہ ہی کے لئے ہیں۔‘‘ جب عبادات کے تینوں اقسام (قولی، فعلی اور مالی) صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے خاص ہیں تو پھر غیر اللہ کے نام پر نذر و نیاز کرنا یا دیگر عبادات میں غیر اللہ کو شریک کرنا ہی شرک ہے جس کو ظلم عظیم کہا گیا ہے کہ ان الشرک لظلم عظیم ’’بیشک شرک ظلم عظیم ہے‘‘۔
سو، غیر اللہ کے نام پر نذر و نیاز دینا صرف بدعت نہیں بلکہ شرک بھی ہے جس سے اجتناب لازمی ہے۔محرم الحرام میں یہ سب جو ہوتا ہے وہ بھی غیر اللہ کے نام پر ہوتا ہے اور اس میں تقرب الی اللہ کی نیت شامل نہیں ہوتی، اگر تقرب کی نیت ہوتی تو پھر محرم الحرام کے ساتھ تخصیص نہ کی جاتی کیونکہ اللہ کیلئے اور صدقہ کی نیت سے کوئی بھی چیز دینے کیلئے کسی خاص دن یا ماہ کی تعین ضروری نہیں۔

مختلف تقریبات کا انعقاد

محرم الحرام کی آمد پر مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور دیگر شہدائے کربلا کو خراجِ عقیدت و تحسین پیش کیا جاتا ہے اور ان محافل و مجالس میں تلاوت، حمد و نعت اور مرثیہ خوانی کا طویل سلسلہ ہوتا ہے جو مغرب سے شروع ہوکر عموماً فجر تک جاری رہتا ہے۔ ان تقریبات میں مرد و عورتیں، بوڑھے، جوان اور بچے وغیرہ سب شریک ہوتے ہیں اور آزادنہ طور پر ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل جاتے ہیں، ان کا یوں آزادنہ میل جول اور اختلاط کئی مفاسد و بدعنوانیوں کی راہ ہموار کرتا ہے لیکن حاضرین کے آنکھوں پر عقیدت و احترام کی ایسی پٹی باندھی جاتی ہے کہ ان کو کچھ نظر نہیں آتا اور ان کے نیز سب سے بڑا ثواب یہی ہے کہ ایک نوجوان ساری رات نوجوان دوشیزاؤں کے ساتھ دھمال ڈالے اور ان کے بانہوں میں ماتم منائے۔ ایک نوجوان بچی کا پوری رات گھر سے باہر بغیر کسی ضرورت کے گزارنے اور پھر یوں ہجوم میں گزارنے سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس بدعت کے کس قدر بھیانک نتائج سامنے آتے ہوں گے؟

محرم الحرام کو منحوس سمجھنا

ماہ محرم کی بدعات و رسومات میں محرم کو منحوس سمجھنا بھی ہے، سادہ لوح مسلمانوں کا یہ خیال ہے کہ محرم منحوس اور سوگ کا مہینہ ہے جس میں کوئی خوشی کی تقریب انجام دینا درست نہیں، اگر کسی نے محرم میں شادی وغیرہ کی تو وہ محرم کی نحوست کی نذر ہوجائے گی اور کامیاب نہیں ہوگی،یہ تصور دین اسلام کے متصادم نظر آتا ہے کیونکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَا عَدْوَی وَلَا طِیَرَۃَ، وَلَا ہَامَۃَ وَلَا صَفَرَ، وَفِرَّ مِنَ الْمَجْذُومِ کَمَا تَفِرُّ مِنَ الْأَسَدِ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چھوت لگنا، بدشگونی لینا، الو کا منحوس ہونا اور صفر کا منحوس ہونا یہ سب لغو خیالات ہیں البتہ جذامی شخص سے ایسے بھاگتا رہ جیسے کہ شیر سے بھاگتا ہے۔‘‘
اس روایت پر غور کرنے کے بعد کم از کم ایک مسلمان کو ان خیالات اور تصورات سے متاثر نہیں ہونا چاہیے کہ وہ بلادلیل محرم کے متعلق ان غلط تصورات پر یقین رکھتے ہوئے محرم میں شادی بیاہ یا دیگر تقریبات کے انعقاد کو ناجائز یا نتیجہ کے اعتبار سے نادرست سمجھتا ہو۔

نوحہ کرنا

محرم کے مہینہ میں عاشورا کے دن حضرت حسین اور دیگر اہل بیت رضی اللہ عنہم کی شہادت کے غم میں نوحہ اور ماتم کرنے کا رواج عام ہوچکا ہے اور اس عمل کو باقاعدہ ثواب کی نیت سے کیا جاتا ہے حالانکہ اسلام میں اس عمل کی گنجائش نظر نہیں آتی اور اس وجہ سے علماء کرام نوحہ سے منع فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو صبر کی تلقین کی ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں بھی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مصائب پر صبر کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ نوحہ کرنا اور پھر اس طریقے سے غم کا اظہار کرنا جس طرح آج کل کیا جاتا ہے، یقیناً صبر کے خلاف ہے۔

سوگ منانا

اس ماہ میں شیعہ مکتب فکر سوگ مناتے ہیں اور زیب و زینت کو مکمل ترک کر دیتے ہیں اور شرعی حدود کے اندر بھی زیب و زینت کو جائز نہیں سمجھتے اور ترکِ زینت کو باعثِ اجر قرار دیتے ہیں۔ شروع دن سے سیاہ لباس پہنتے ہیں اور غسل وغیرہ بھی نہیں کرتے۔خواتین زیورات اتاردیتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔اولاً تو یہ جاننا اہم ہے کہ شریعت میں سوگ صرف تین دن تک جائز ہے اور اس کے بعد چوتھے دن بھی سوگ منانا درست نہیں اور نہ ہی اگلے یا تیسرے سال سوگ کی گنجائش ہے۔ اس کے علاوہ ماتم منانا جائز نہیں اور پھر اس طریقے پر ماتم اور سوگ منانا جس طرح آج کل منایا جاتا ہے اور تقریباً ہر شرعی حد کو پامال کیا جاتا ہے، ہرگز جائز نہیں، حضور نبی کریمؐ کا یہ ارشاد مبارک ہے کہ:
من سنَّ فی الإسلامِ سُنَّۃً حسنۃً، فعُمِل بہا بعدہ، کُتِبَ لہ مثلُ أجرِ مَن عمل بہا، ولا ینقصُ من أجورِہم شیئٌ،ومن سنَّ فی الإسلامِ سُنَّۃً سیئۃً، فعُمِل بہا بعدَہ، کُتب علیہ مثلُ وِزرِ من عمل بہا، ولا ینقصُ من أوزارِہم شیئٌ’’جس کسی نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ جاری کیا اور اس پر بعد میں عمل ہونے لگا تو اس کے لئے بھی اس پر عمل کرنے والے کے برابر اجر لکھا جائے گااور کسی کے اجروثواب میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی اور جس کسی نے اسلام میں برا طریقہ جاری کیا اور بعد میں اس پر عمل کیا جانے لگا تواس کیلئے اس پر عمل کرنے والے کے برابر گناہ لکھا جائے گا اس میں کوئی کمی نہیں کی جائیگی۔‘‘
ظاہری بات ہے کہ اس ماتم اور سوگ کا آغاز جس نے بھی کیا، اس کو برابر گناہ ملے گا لیکن اگر کوئی آج اس پر عمل کر رہا ہے اور آنے والی نسل کو بھی عملاً اس کی ترغیب دے رہاہے تو اس کا بھی یہی حکم ہے اور اس کو برابر گناہ ملے گا۔
یوم عاشوراء کو کاروبارسے روزی میں تنگی کا تصور: عملی بدعات کی طرح محرم الحرام اور بالخصوص یومِ عاشوراء کے متعلق یہ غلط اور خود ساختہ تصور عوام کے ذہنوں میں بٹھایا گیا ہے کہ دس محرم یعنی یومِ عاشوراء کو کاروبار کرنے کی وجہ سے پورے سال رزق میں تنگی رہتی ہے۔ سال بھر کی تنگدستی اور غربت سے بچنے کیلئے ضرور ی ہے کہ کوئی بھی مسلمان اس مقدس ماہ محرم میں بالعموم اور بالخصوص پہلے عشرہ میں کاروبارنہ کریں بلکہ کچھ وقت کے لئے کاروباری مشاغل کو موقوف کر دینا چاہیے اور محرم کے گزرنے کے بعد پھر معمولِ زندگی کو بحال کرنا چاہیے،یہ عقیدہ وخیال بے بنیاد اورباطل ہے کیوں کہ شریعت میں ایسی کوئی ممانعت نہیں ہے۔ اسلام میں کوروبار کی ممانعت یا تجارت کی پابندیوں وغیرہ کا جو بھی تصور ہے وہ واضح اور بے غبار ہے لیکن اس میں یہ کہیں بھی نہیں۔اسلامی تعلیمات سے ناواقفیت اور لاعلمی کی بنیاد پر لوگ ان دنوں میں کاروبار بند کرکے ماتم اور نوحہ کی مجلسوں میں شریک ہوتے ہیں جو گناہ ہے۔ غالباً یہ نافرمانی اور شرعی رہنمائی سے منہ موڑنے کی سزا ہی رزق میں تنگی کا اصل سبب ہے۔
واقعہ کربلا کی غلط تشہیر: ماہ محرم الحرام میں عام دستور و رواج کے مطابق شہادت حسینؓ اور دیگر شہدائے کربلا کے متعلق اور ان کے مناقب و فضائل کو بیان کرنے کے لئے ایک انتہائی غلط طریقہ کار اپنایا جاتا ہے بلکہ واقعہ کربلا کی غیر ضروری تشہیر و اشاعت کا سلسلہ شروع کیا جاتا ہے جس میں سے مکذوبہ، موضوعہ، ضعیف اور من گھڑت داستانیں اور قصے بڑی رنگ آمیزی سے بیان کئے جاتے ہیں۔ اس کے لئے نہ صرف باقاعدہ تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے بلکہ بازاروں، دکانوں، ریڈیو، ٹی وی اور آج کل سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلائے جاتے ہیں۔ یہ لوگ اس عمل کو ثواب کی نیت سے کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ان تقاریب میں شریک کرتے ہیں۔
افسوسناک پہلو: معزز سامعین کرام! اسلامی فکر کا یہ انتہائی افسوسناک پہلو ہے کہ جہاں ہمیں محرم الحرام کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر عبادت و رجوع الی اللہ میں مصروف ہونا چاہیے تھا وہاں مسلم معاشرے کی ایک بڑی تعداد رسوم و بدعات کی ادائیگی میں مصروف ہوتی ہے حالانکہ ان بدعات و رسومات کا دین و شریعت سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں اور ان کی ادائیگی میں سراسر نقصان اور ضرر پنہاں ہے۔ فصل میں صرف چند خاص بدعات و رسومات کا ذکر کیاگیا ورنہ تو ان کی تعداد شمار سے باہر ہونے کو ہے، انسانی معاشرے کو بدعت نے جس طرح بھاری نقصان پہنچایا اسی طرح رسم ورواج نے بھی نسل انسانی کی ارتقائی ترقی کو انتہائی سست رفتار بنایا۔
بدعات و رسومات سے اجتناب : رسم و رواج سماجی زندگی کی علامت اور تہذیب کے اجتماعی پہلوؤں کی عکاس ہوتے ہیں، رسوم ورواج نے ہمیشہ ذہنی رجحانات، تہذیب وثقافت، مذہبی عقائد اور طرز معاشرت کو متاثر کیا اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔ہمیں کم از کم ان بدعات و رسومات سے اجتناب کرنا چاہیے اور ان ایام میں عوام کو یہ مسئلہ سمجھانا انتہائی ضروری ہے کہ ان بدعات و رسومات سے حتیٰ الوسع اجتناب کریں۔
ادارہ