سفرنامہ انڈونیشیا(تیسری قسط)

 انڈونیشین کی حکومت کی دعوت پر پاکستانی علماء ،دانشوروں کا دورہ

دن بھر کے سخت شیڈول اور تعلیمی اداروں کے وزٹ کے بعد ہوٹل میں آتے ہی کچھ دیر آرام کے لئے لیٹا ہی تھا کہ فوراً آنکھ لگ گئی پھر رات گیارہ بجے کے قریب آنکھ کھلی تو رات کے کھانے کا وقت بھی گزر چکا تھا،کمرے سے باہر نکلا توجناب ظفر اللہ خان صاحب بھی اپنے کمرے سے نکل کر لابی میں گزر رہے تھے اور مجھے دیکھ کرکہاکہ آپ نے کھانا کھایا ہے ؟ تو میں نے عرض کیا کہ حضرت نہیں ! گروپ کے سب لوگوں نے تو کھالیا ہے مگر مجھے اُس وقت بھوک نہیں تھی، توانہوں نے کہاکہ فوراً تیار ہوجائیں خورشید ندیم صاحب بھی میرے ساتھ جارہے ہیں تو آپ بھی ہمارے سا تھ چلیں لہٰذا ہم تینوں اپنے ہوٹل سے ریسٹورنٹ کی تلاش میں نکل پڑے،زیادہ تر ریسٹورنٹ بند ہوچکے تھے پھر بھی ایک پیزا کا ریسٹورنٹ ہمیں مل ہی گیا ، مزیدار کھانا تناول کرنے کے بعد جناب ظفراللہ خان صاحب نے بتایا کہ ساتھ ہی اسٹار بکس کافی کی خوبصورت شاپ ہے وہیں سے کافی بھی پیتے ہیں، لہٰذا وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ کافی ہاؤس بند ہوگیا ہے جس پر ظفر اللہ صاحب کا موڈ قدرے آف ہوگیا لیکن میں نے انہیں بتایا کہ کل رات میں نے اسی سٹریٹ میں ایک انڈونیشین روایتی چائے خانہ دریافت کیا ہے جس کی انڈونیشین چائے کے ذائقے کا کیا کہنا۔لہٰذا ہم تینوں مشتاقانِ چائے مطلوب مقام پر پہنچے تو گیٹ پر کھڑے شخص نے یہ مژدہ سنایا کہ ریسٹورنٹ کا ٹائم ختم ہوچکا ہے،معذرت کے ساتھ آپ لوگ اندر نہیں جاسکتے۔ جناب ظفر اللہ صاحب کمال کے بے تکلف ومتوکل انسان ہیں ، انہوں نے دروازہ کھٹکھٹا یا اور سراندر کرکے انگریزی میں ہوٹل والوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ دور سے آئے ہوئے مہمانوں کو آپ چائے نہیں پلائیں گے؟ اور انہیں اندر آنے نہیں دیں گے؟ جس پر وہ لوگ بہت حیران ہوکر مسکرائے اور مروت میں اندر آنے دیا، میں نے کل رات والی مزیدار، خوشبودار انڈونیشین چائے کا آرڈر دیا، تین چینکیں کچھ دیر میں اپنی بھینی خوشبووں کے ساتھ ہمارے سامنے سج گئی تھیں اور روایتی گلاس نما جام بھی رکھ دیئے گئے تھے، چائے کی میز پر ظفر اللہ خان صاحب اور خورشید ندیم صاحب بھی میرے ہمراہ تھے ہمارے ارد گرد کافی تعداد میں انڈونیشین لوگ بھی ’’چاہ‘‘ کے ماحول میں چائے پی رہے تھے۔ بہرحال! چائے کے ساتھ محفل شروع ہوگئی ،ظفراللہ خان صاحب ماشاء اللہ قادر الکلام شخصیت ہیں ہرموضوع پر ان کے منہ سے پھول جھڑ رہے تھے ،جناب خورشید ندیم صاحب بھی علم کے گہرے شناور ہیں۔آپ پہلے تو زیادہ گفتگو نہیں کرتے اگر کچھ بولتے بھی ہیں تو بہت قیمتی علمی ،ادبی گفتگو کرتے ہیں اور اس میں بھی موتی پروتے ہیں۔ہم لوگ آپس میں گپ شپ کررہے تھے اور ہم نے انڈونیشن ریسٹورنٹ کو قصہ خوانی کا قہوہ خانہ بنا دیا تھا۔بہرحال! اتنے میں برادرم اسرار مدنی، جناب رشاد بخاری اور مجتبیٰ راٹھور صاحب بھی اچانک اندر داخل ہوئے، ہمیں دیکھ کر وہ لوگ حیران رہ گئے اور ہم لوگ ان کو دیکھ کر حیران ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ پریشان بھی ہوگئے تھے کہ یہ ’’بن بلائے مہمان‘‘ آدھی رات کو کہاں سے آدھمکے ؟ان لوگوں نے بتایا کہ ہمیں نیند نہیں آرہی تھی ہم لوگ بھی مٹر گشت کرنے کے لئے باہر نکلے تو سب کچھ بند تھا یہی ایک چائے خانہ تھا جس کا دروازہ آدھا کھلا تھااس لئے اندر آگئے۔ ان کے آنے سے ہماری محفل ’’بزم داستاں گویاں‘‘ پررونق و دوبالا ہوگئی ،یا یوں سمجھئے کہ انار کلی بازا رکے بجائے جکارتہ میں آدھی رات کو ’’حلقہ ارباب ِ ذوق ‘‘سج گیا اوریہاں بھی ’’پاک ٹی ہاؤس‘‘ لاہور والا ماحول بن گیا۔
چائے، شاعری، نغمے، لطیفے، رت جگے
اپنے حصے میں یہی دیسی دوائیں رہ گئیں
ان لوگوں کے لئے مزید چائے کا آرڈر دیااس کے بعد تو مسلسل چائے پر چائے کے دور چل پڑے تھے۔ ہم نے گپ شپ میں انڈونیشین چائے کے اتنے زیادہ فنجان اور خم کے خم پیئے کہ افغانیوں کی کثرت چائے نوشی و قہوہ خوری کے ریکارڈ توڑ دیئے۔ چائے کے ساتھ خوبصورت اشعار، قابل فاضل دوستوں کی پرحکمت باتیں اور چائے کے دھوئیں کے ساتھ چاہ کے تڑکے نے بھی طبیعتوں کو گرما دیا تھااور ہماری جوشیلی گفتگو اور اشعار سے چائے کی پیالیوںمیں طوفان بپا ہو گیا تھا اور دوستوں کے لب شیریں کی چٹک سے پژمردہ طبیعت اوراداس دل نشاط انگیز مشروبِ مشرق سے بحال ہوگئے۔ چائے کے ’’بادہ خانہ ‘‘ کے حوالے سے جگرمراد آبادی کا یہ شعر میں نے انہیں سنایا تو شرکاء کافی محظوظ ہوئے۔
آج کل میخانے میں تقسیم ہوتے ہیں جگر
زہر کے ساغر شرابِ زندگی کے نام سے
مصر میں جامعۃ الازھر میں دوران طالب علمی عرب چائے خانوں اور کافی ہائوسز سے مجھے بڑا واسطہ رہاہے ،صبح کا ناشتہ اور خصوصاً شام کے وقت بازارِ مصر (خان خلیلی) میں کافی کی تندہی اور مصری قہوہ کے تلخ کپوں سے اپنی اداس مسافرزدہ طبیعت کو اس سے شاد اور خوش رکھتا تھا۔
یہ ’’ہجر‘‘ کے ستائے ہوئے لوگ
کاٹتے ہیں ہجر اپنا چائے خانوں میں
دراصل چائے میری گھٹی میں پڑی ہوئی ہے،میرے ناناجان الحاج میاں کرم الٰہی ؒ پشاور کے پی کے بہت بڑے چائے کے سوداگر تھے اور ان کا آباو اجداد سے چائے کا پیشہ تھا۔اب بھی چوک یادگار پشاور میں ماموں زاد بھائی چائے کے ماشاء اللہ بہت بڑے کاروباری سیٹ اپ سے وابستہ ہیں۔ یوں گزشتہ ایک صدی سے بھی زیادہ ننھیال چائے کی پتی کے کاروبار سے وابستہ ہے۔
بچپن میں ہم پشاور میں نانا جان کی فرم کے دفتر میں جایا کرتے تو وہاں درجنوں چائے کے نمونے رکھے ہوتے تھے، ماموں اور ان کے خاندان کے افراد گاہکوں کو چائے کاغذمیں ڈال کر پہلے سنگھاتے اور پھر مختلف چائے کے نمونوں کی چائے بنوا کر گاہک اور ہم سب کو پلایا کرتے تھے تو زمانہ طفلی ہی سے چائے کی مختلف اقسام ،خوشبوؤں اور ذائقوں سے زبان آشنا ہوگئی تھی۔ہماری والدہ محترمہ ایسا زبردست پشاوری دم شدہ قہوہ بنوایا کرتی تھیں کہ اس جیسی چائے کی ترکیب اور لذت میں نے کہیں بھی محسوس نہیں کی۔ تو مطلب یہ تھا کہ چائے کے ساتھ میرا لگاؤخاندانی ہے۔ اسی طرح  حضرت دادا جان حضرت مولانا عبدالحق ؒ ہندوستان میں کافی عرصہ رہے،توانہوں نے وہاں پر کچھ عرصہ اپنے اساتذہ و مشائخ کے درمیان رہتے ہوئے تیز پان بھی کھانا شروع کردیا تھا جب تقسیم کے بعد آپ اکوڑہ خٹک گاؤں تشریف لائے تو یہاں پر اکوڑہ ،نوشہرہ مردان وغیرہ میں ستر اسی برس قبل پان کا ملنا کہاں ممکن تھاتو اس لئے انہوں نے تیز چائے پینے کا سہارا لیا۔پشاور کے بازاروں میں اچھی قسم کا قہوہ اور کالی چائے ہمیشہ سے لوگ دور دور سے آکر خریدتے ہیں، اسی لئے حضرت دادا جان ؒ دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ ا وردوستوں کو اِسے ہدیہ کرکے بھیجا کرتے تھے اور اُن لوگوں نے اپنے خطوط میں اس کا تذکرہ بھی کیا ہے ۔اس سلسلے میں شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمدمدنی ؒ کوبھی ہدیۃً چائے بھیجی گئی اور حضرت مولانا قاری محمدطیب صاحبؒ مہتمم دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا عبدالغفور عباسی صاحبؒ (مدینہ منورہ)،حضرت مولانا عبدالخالق کبیر والا کو بھی چائے کا درویشانہ ہدیہ بھیجا کرتے تھے یعنی
ع   برگ سبز است تحفہ درویش…
ایک دفعہ حضرت دادا جان ؒ ٹرین میں کہیں جارہے تھے تو شیخ الحدیث حضرت مولانا شیر علی شاہ صاحبؒ زمانہ طالب علمی میں بطور خادم ان کے ہمراہ تھے ، انہوں نے ہمیں بتایا کہ میں اسٹیشن میں اتر کر حضرت کے لئے چائے خرید کر ان کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے چسکی لیتے ہوئے فرمایا کہ یہ تیز نہیں ہے تو اپنے سامان سے چائے کی خشک پتی لے کر اس کپ میں ڈال دی اور مجھے فرمایا کہ میرے لئے تیز چائے بنوایا کرو،اسی طرح گھر میں بھی بچپن میں دادا جان ؒ کے سرہانے چائے کا ڈبہ رکھا ہوتا تھا جب بھی چائے ان کے مزاج کے مطابق نہ ہوتی تووہ اس میں مزید چائے کے ایک دو چمچ ملا دیا کرتے تھے۔کثرت مطالعہ کی تھکاوٹ کے بعد ان کی مصروف زندگی کی بڑی تفریح یا سرور کے لمحات تیز چائے کے دو تین گرم کپ ہوا کرتے تھے۔ یہی ذوق چائے نوشی میرے خون میں بھی شامل ہے کہ چائے بہت تیز اور اتنی گرم ہو کہ سلور کی کیتلی، اسٹیل کا تھرماس اور شیشے کی پیالی بھی بلاشبہ پگھل جائے مگر چائے لب سوز ہونی چاہیے تاکہ مزید سوختہ سامانی کا ایندھن فراہم ہو سکے اورچائے کی گرمی و حرارت سے دل کو اور بھی بھونا اور سلگایا جاسکے دراصل میری شعلہ جوالہ طبیعت کو انگارے اور شرر فسوں لمحے ہمہ وقت درکار ہوتے ہیں۔اسی بھاپ کی توانائی سے تو دل دھڑکتا ہے اور دماغ کی انگھیٹی سے افکار و مضامیں الفاظ کے سانچوں میں ڈھلا کرتے ہیں ، یوں بھی مدت دراز سے اپنا چشمہ ء حیات اور سلگتا جسم خشک سالی کا شکا رہے، ٹھنڈے موسم اور سرد و یخ بستہ پانی میری پیاسی روح کو تر نہیں کرسکتے، اِسے کھولتے ہوئے آفتاب کی حدت اوردھوپ کا ایندھن ہی سیراب کرسکتا ہے اور ویسے بھی میری روح کے آنگن میں دھوپ کا ہی بسیرا ہوتا ہے، چاند تاروں کی ٹھنڈک اور خنکی اپنے تنِ سوختہ کی بھٹی میں نہ اُتر سکتی ہے اور نہ ٹھہر سکتی ہے ۔
بہرحال ! انڈونیشیا کے سفر کے دوران بار بار ان بدذوق ٹھنڈے مزاج لوگوں سے یہی مطالبہ اور ہرجگہ یہی معاملہ رہا کہ آپ لوگ چائے اور کافی ٹھنڈا شربت بنا کر کیوں لا رہے ہیں؟ اور میری ساری انگلش چائے کے مزید گرم کروانے میں خرچ ہوجاتی مگر مجال ہے کہ اُن یخ بستہ لوگوں کو سمجھ آئی ہو کہ چائے کی ساری رونق ،مزہ اور بانکپن توحدت ،بھاپ اور اس کی تپش میں پنہاں ہے۔ شاید اسی گرم نوشی کے باعث میری آتش بجاں طبیعت میں بھی تھوڑی بہت گرمی کا اثر انہی چائے کے آتش داں کپوں کا ہو۔ بقول غالب
سایہ میرا مجھ سے مثل دود بھاگے ہے اسد
پاس مجھ آتش بجاں کے کس سے ٹھہرا جائے ہے
لڑکپن میں امام الہندحضرت مولانا ابوالکلام آزاد ؒ کی ’’غبار خاطر‘‘ ہاتھ لگ گئی تھی،اس میں چائے کے ذکر خیراور منافع کثیر کی وجہ سے بھی اپنا نفاست پر مبنی ذوقِ چائے نوشی کا مزاج بن گیا ہے، اب چائے میرے لئے مثل ’’آب حیات‘‘ کے درجے میں ہے اور اسی چائے کے بارے میں کسی خوش مزاج باذوق انسان نے کیا خوب کہا ہے کہ چائے ’’اشرف المشروبات‘‘ ہے۔اس خوبصورت مجلس کا اختتام چائے کے آخری گھونٹوں اور خوبصورت اشعار پر ہوا۔جناب ظفر اللہ خان صاحب نے آخر میں بل طلب کیا تو معلوم ہوا کہ کئی لاکھ روپے (انڈونیشین) آج کی اس خوبصورت محفل پر خرچ ہوئے (جو پاکستانی صرف چار پانچ ہزار روپے بنتے تھے) مگر پھر بھی یہ سودا سستا تھا۔
اے کہ می گوئی، چرا جامے بجانے می خری؟
ایں سخن با ساقیِ ما گو کہ ارزاں کردہ است
’’اے تو کہ جو پوچھتا ہے کہ،تو ایک جام اپنی جان کے بدلے میں کیوں خریدتا ہے؟، یہ بات ہمارے ساقی سے کہہ دو کہ وہ کیوں سستی بیچ رہا ہے ۔‘‘
آخر میں ہم لوگ نیند کی وادیوں میں اترنے کے لئے اپنی اپنی خوابگاہوں کی طرف چل پڑے۔
کس کی تلاش کون سی منزل نظر میں ہے
صدیاں گزر گئیں کہ زمانہ سفر میں ہے

  بلٹ ٹرین کے ذریعے تاریخی شہر بنڈونگ روانگی

دو دسمبر:  آج ہم لوگ انڈونیشیا کے دارالخلافہ جکارتہ سے رخصت ہورہے تھے۔ہماری نئی منزل اور پڑاؤ انڈونیشیا کے تیسرا سب سے بڑے تاریخی شہر بندونگ کی طرف تھا ۔صبح ناشتے کے بعد قافلہ تازہ دم ہوکر تیار تھا اور بذریعہ بس ہم لوگ ریلوے اسٹیشن کی طرف چل پڑے۔یہ ریلوے اسٹیشن نئی بلٹ ٹرین کے لئے نیا بنا ہے۔ وسعت ،جدت اور نئی ٹیکنالوجی کا حامل یہ اسٹیشن خوبصورت اور صاف ستھرا ہے ۔ہم لوگ صبح ساڑھے دس بجے ٹرین میں بیٹھے ا ور تقریباً ۴۰ منٹ میں ہم نے 144کلومیٹر کے لگ بھگ کا فاصلہ برق رفتاری کے ساتھ طے کرلیا تھا۔یہ بلٹ ٹرین چین کے روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے کا حصہ ہے(جس کی تفصیلات میں نے سفرنامہ چین میں ذکر کی ہیں) یہ منصوبہ 2015میں چین کی شراکت سے جکارتہ سے بندونگ تک شروع کیا گیا تھا،تقریباً آٹھ سال میں ساڑھے سات ارب ڈالرز کی لاگت سے یہ مکمل کیا گیا ہے۔اس میگاپراجیکٹ پر 75فیصد سرمایہ کاری چین نے کی ہے کیونکہ چین اس کا سب سے بڑا تجارتی سرمایہ کار پارٹنر ہے۔ یہ ٹرین 350کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہے، اس سے ہائی سپیڈ والی ٹرین اس وقت چین میں چل رہی ہیںاور جاپان نے تو بلٹ ٹرین کی اسپیڈ 600کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار تک پہنچا دی ہے،یعنی پشاور سے کراچی تک کا فاصلہ صرف ڈھائی گھنٹہ میں طے ہوسکتا ہے۔مقامی زبان میں اس ٹرین کو ٹرین کی آواز کی مناسبت سے ’’ووش ‘‘رکھا گیا ہے۔یہ منصوبہ ماحول دوست اربن ٹرانسپورٹ کی جدید شکل ہے۔جاوا صوبے کا شہر بندونگ جکارتہ کے بعد دوسرا بڑا شہر ہے جسے ثقافتی ہب بھی قرار دیا جاتا ہے۔
میں نے متعدد ممالک کی بلٹ ٹرین میں سفر کیا مگر یہ اُن سب میں سے جدید ترین ٹرین ہے،مستقبل میں فاصلے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی بدولت سمٹ رہے ہیں ،ٹرینیں بھی ہوائی جہاز کی رفتار کے برابر ہونے جارہی ہیں۔برطانیہ کے انجینئر جارج سٹیفن سن کی ایجاد کردہ کوئلے بھاپ والی ٹرین1825ء سے شروع ہونے والا سفر اب بلٹ ٹرین اور زمین دوز سب وے میں چلنے والی ٹیوب ٹرین تک پہنچ گیا ہے ۔جو دنوں کا سفر گھنٹوں اور منٹوں میں طے کروارہی ہے۔
مسافر بند کھڑکیوں کے شیشوں سے جکارتہ شہر کی بلڈنگوں،سڑکوں اور درختوں کے مناظر کو دیکھ رہے تھے جو کسی ٹی وی اسکرین پر تیزی سے چلنے والے خوبصورت مناظر کے طورپر چل رہے تھے۔حضرت انسان کی نت نئی ایجادات نے علامہ اقبالؒ کو آج سے سوا صدی قبل ہی متحیر کردیا تھا ۔
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
عہد جدید کی بلٹ ٹرین کی تیز رفتاری کے علاوہ اور بھی کئی خصوصیات ہیں ،یہ ماحول دوست ہوتی ہیںیعنی اس کا دھواں وغیرہ بھی نہیں ہوتا اور یہ بالکل شور نہیں کرتیں،حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ اس قدر پرسکون ہوتی ہیں کہ اگر آپ ٹرین کی کھڑکی میں کوئی سکہ وغیرہ کھڑا کردیں تو یہ نہ ہلے گا اور نہ ہی گرے گا ،اس حال میں کہ گاڑی کی رفتار ساڑھے تین سو کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے۔باقی اگر آپ پاکستان میں پشاور ،راولپنڈی سے کراچی دو دن ایک رات کا سفر طے کریں تو وہاں پہنچ کر آپ اس قدر لرز اور چکرا گئے ہوتے ہیں کہ کافی وقت تک انسان خود ٹرین بن کر اُسی طرح ہلتا رہتا ہے۔ ہمارے پاکستان کی بدقسمت ریلوے نظام تو دنیا کے ناقص اور بدترین نظاموں میں سے ایک ہے ،ہم سے ہزار گنابہتر تو ہندوستان کا ریلوے نظام ہے جو برق رفتار اورجدید ترین ہے۔ہندوستان نے اس پر بہت زیادہ فوکس کیا ہوا ہے،روزانہ کروڑوں افراد ٹرین کے ذریعے سفر کرتے ہیں اور ہمارے ہاں تو بہت کم افراد مجبوراً ٹرین کا سہارا لیتے ہیں۔ہم قافلے والے ابھی آپس میں بات چیت ہی کررہے تھے کہ اناونسمنٹ ہوگئی کہ کچھ ہی دیر میں بندونگ شہر پہنچنے والے ہیں ، یعنی چند ہی لمحوں میں ہم ڈیڑ سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرچکے تھے۔ریلوے اسٹیشن سے ہم لوگ بندونگ شہر کی نہایت ہی خوبصورت وسیع و عریض منفرد مسجد ’’الجبار‘‘ کو دیکھنے کے لئے سیدھا چلے گئے۔

  جامع مسجد ’’الجبار‘‘ فن تعمیر کا شاہکار

جامع مسجد ’’الجبار‘‘ انڈونیشیا کے مغربی صوبے جاوا کے بندونگ شہر میں واقع ہے، اس کا شمار انڈونیشیا کی خوبصورت ترین اور بڑی مساجد میں ہوتاہے، مسجد کی خوبصورت فن تعمیر کو دیکھ کر بندہ ورطہ حیرت میں رہ جاتا ہے ، جامع مسجد ’’الجبار‘‘ میں 33 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے اور اس خوبصورت مسجد کی تعمیر پر تقریباً چونسٹھ ملین امریکی ڈالر لاگت آئی ہے،اس کے چاروں طرف پانی کے حوض بنائے گئے ہیں جس میں خوبصورت دلکش فوارے ایک حسین منظر پیش کرتے ہیں ،یہ جھیل گیڈبیج کے اوپر ہے۔جس کی وجہ سے وہاں اس کو ’’الجبار فلوٹنگ مسجد ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔ اس مسجد کی تعمیر 29 دسمبر 2017 کو شروع ہوئی اور 5 سال بعداس مسجد کا باضابطہ افتتاح 30 دسمبر2022 کو گورنر رضوان کامل نے کیا۔اس مسجد کا کل رقبہ 21,799.20 مربع میٹر ہے، مسجد کے چار 99 میٹر اونچے مینار ہیں، مسجد میں داخل ہونے کے 27 دروازے ہیں، جو مغربی جاوا کے 27 شہروں یا ریاستوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔مسجد کے فرش کے لیے ترکی کے بنے ہوئے قالین استعمال کیے جاتے ہیں۔مسجد میں ایک باغ اور ایک میوزیم بھی ہے ۔
مسجد ہمیں بہت دور سے نظر آرہی تھی ،یہ انتہائی جاذب نظر ،حسین اور منفرد ڈیزائن پر مبنی ہے،ہزاروں افراد اسے دیکھنے کے لئے اس کے اطراف و اکناف میں جمع تھے،ہم بس سے اترے اورمسجد کے قریب پہنچے تو جامعہ بنوریہ کے فضلاء کی ایک بڑی تعداد وہاں جمع تھی،وہ برادرم مولانا محمد نعمان نعیم صاحب سے ملنے کے لئے پہلے جکارتہ میں جمع ہوئے تھے اور کچھ نئے ساتھی بھی بندونگ شہر میں ملنے کیلئے پہنچے ہوئے تھے،انہوں نے مسجد کے صدر دروازے میں خوش آمدید پر مبنی بینزراٹھائے ہوئے تھے اور اپنے استاد و مہتمم سے ملنے کے لئے بچھے جارہے تھے،انڈونیشین ویسے بھی خلیق اور ملنسار طبیعت کے مالک ہوتے ہیں مگر وہاں کے علماء وطلباء تو اور بھی محبت وعقیدت کی مٹی سے رچے بسے اور سنوارے ہوئے ہوتے ہیں۔انہوں نے ہمارا بھی بڑا پرتپاک استقبال کیا ،سب سے پہلے ہم نے وضو کیا اور پھر میں ،برادرم مولانا نعمان نعیم صاحب گراونڈ فلور پر نماز پڑھنے کے لئے گئے، مولانا نعمان صاحب نے نمازپڑھائی اور طلبا ء سے ملاقات کی۔برادرم مولانا محمد نعمان نعیم صاحب جامعہ بنوریہ عالمیہ کراچی کے مہتمم ہیں ،اللہ تعالیٰ نے انہیں متعدد صلاحیتیوں اور خوبیوں سے نوازا ہے، تواضع، انکساری اور اعلیٰ اخلاق بنیادی عناصرہیں،ہمارے ساتھ سفر میں ایک ساتھ رہے،انہوں نے ہمارے ساتھ بہت اپنائیت اور چاہت کا مظاہرہ کیا۔ آپ اپنے عظیم والد کی خوبیوں اور صفات کی جیتی جاگتی تصویر ہیں ،حضرت مولانا مرحومؒ نے میرا اور ان کا تعارف مسجد نبویؐ میں ایک دوسرے سے بہت عرصہ پہلے کرایا تھا۔ حضرت ؒ کے انتقال کے بعد جامعہ بنوریہ کی تعمیر ترقی میں اپنے بھائی مولانا فرحان نعیم صاحب کے ساتھ مل کر مزید چار چاند لگا دئیے ہیں ،مولانا نعمان صاحب سفر میں ساتھیوں کا خیال رکھنے والے ایک بہترین رفیق سفر ثابت ہوئے اوران کے فضلاء نے بھی ہمارا بڑا خیال رکھااور شاندار مہمان نوازی کی۔انڈونیشین حکومتی حکام جامعہ بنوریہ کی خدمات اوراس کے سینکڑوں فضلاء کی جامعہ بنوریہ سے فراغت سے بہت زیادہ خوش تھے۔میں مسجد جبار کے حسن و جمال اوراس کے آرکیٹکٹنگ اور انٹیرئیر ڈیزائن میں مدہوش ہوگیا تھا، یہ جکارتہ کی مسجد سے بھی زیادہ خوبصورت اورمنفرد تھی،جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ ملائیشیا انڈونیشیا کے لوگوں میں مساجد کی تعمیر کے حوالے سے نہایت نفیس اورعمدہ ذوق پایا جاتاہے۔میں خود چونکہ گزشتہ نو برس سے الحمدللہ دارالعلوم کی تمام نئی تعمیرات اور ڈیزائنگ کے کاموں میں مصروف رہا ہوں اور کچھ نہ کچھ اس کی شدبد ہوگئی ہے اس لئے اس نوع کے بڑے پراجیکٹس کو تھوڑا بہت جانچنے کا اندازہ ہوگیا ہے۔مسجد میں نماز کے بعد بڑا سکون محسوس ہوا،اس کے خوبصورت اور آرام دہ ترکی قالین بھی چھتوں اور اردگرد کے ماحول کے مطابق ڈیزائن کئے گئے تھے۔ اس مسجد کی بہت سی امتیازات ہیں خصوصاً اس کے منفرد آرائشی ستون سب سے زیادہ جاذب نظر و دلکش ہیں۔ پوری مسجد میں سیاحوں کی ایک بہت بڑی تعداد پھیلی ہوئی تھی، باہر برآمدے اور صحن میں خوبصورت سفید ماربل لگایا گیا ہے۔کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ اس مسجد جبار کے بیرونی ڈیزائن میں فیصل مسجد کے ڈیزائن کا عکس نظر آرہا ہے،بہرحال! جس نے بھی اس کو ڈیزائن و تخلیق کیا ہے وہ داد و تحسین کے قابل ہے۔ یہ عظیم مساجد اسلام کی عظمت اوراس سے وہاں کی عوام کی بے پناہ محبت کا مظہر ہیں ،اللہ تعالیٰ ان شعائر اللہ کو تا ابد یونہی قائم و دائم اور نمازیوں سے آباد رکھے۔

بندونگ میموریل میوزیم اور افریقی کانفرنس ہال

مسجد کے بعد ہم لوگ میوزیم گئے،یہ تاریخی میوزیم شہر بندونگ کے بالکل قلب میں واقع ہے۔بندونگ شہر تاریخی اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل ہے یہ پہلے انڈونیشیا کا دارالخلافہ بھی رہا ہے ، اس میوزیم کو 24 اپریل 1980 کو کھولا گیا تھا ،یہ میوزیم تاریخی اہمیت کا حامل مقام ہے کیونکہ یہیں پہ سب سے پہلے افریقی ایشیائی کانفرنس 1955 منعقد ہوئی تھی۔ اسی وجہ سے اس کانفرنس کا نام بندونگ کانفرنس رکھ دیا گیاتھا،جس ہال میں یہ تاریخی کانفرنس منعقد ہوئی اب اس کو میوزیم میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ہم سب کو میوزیم کے منتظمین نے بریف کرنا شروع کیا اور مختلف مجسموں ،تصاویر اور الماریوں میں رکھی گئیں دستاویزات اور متعلقہ اشیاء کے بارے میں ہمیں آگاہ کیا گیا،میوزیم والوں یہ سب اشیاء بڑے سلیقے سے محفوظ رکھی ہوئی تھیں، جس پر انگریزی زبان میں بھی ان کی تاریخ اور تعارف وغیرہ لکھا ہوا تھا۔ اس کے بعد ہم لوگ مرکزی ہال میں گئے جہاں پر ساٹھ پینسٹھ ممبر ممالک کے پرچم لگے ہوئے تھے۔

کانفرنس کے اغراض ومقاصد

اس کانفرنس کے اہم اصول بنائے گئے تھے :
(۱) پرامن بقائے باہمی
(۲) عدم جارحیت،
(۳) مساوات اور باہمی مدد،
(۴) علاقائی سالمیت کا باہمی احترام
(۵) عدم مداخلت

سرد جنگ امریکہ اورسوویت یونین کے درمیان زوروں پر تھی اس دوران غیر وابستہ ممالک کے اراکین نے اس کانفرنس کا سوچاجس کے کامیاب بنانے میں انڈونیشیا،چین، ہندوستان اوردیگر افریقی و ایشیائی ممالک نے کلیدی کردار ادا کیا ۔انڈونیشیا کے صدر سورئیکارنو نے میزبانی کے فرائض سرانجام دئیے،پاکستان کے وزیراعظم محمد علی بوگرا،چین کے وزیراعظم چواین لائی ،بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرواور مصر کے جمال عبدالناصر وغیرہ جیسے بڑے عالمی لیڈروں نے شرکت کی۔
کانفرنس میں ایشیائی اور افریقی لوگوں کے درمیان اتحاد اور تعاون کااشتراک، عالمی امن کا تحفظ اور اس میں غیروابستہ ممالک کے کردارکا تعین ، قومی آزادی کے لیے جدوجہد اور قومی معیشت کی ترقی اور اختلافات کے باوجود مشترکہ بنیادوں کی تلاش میں تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے اور مختلف سماجی نظاموں کے حامل ممالک کے درمیان اتحاد کے ذریعے ترقی کے حصول کے لئے کوششوں کا آغاز ہوا ۔یہ الگ بات کہ اس اتحاد نے کوئی خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ کی اور نہ ہی عالمی مسائل کے حل میں اس کا کوئی موثر کردار رہاالبتہ چین اور ایشیائی اور افریقی ممالک کے درمیان وسیع تبادلوں کے دروازے کھل گئے ۔
عشاء کے وقت ہم کھانے کے لئے اپنے ہوٹل سے باہر نکلے، ہماراہوٹل بندونگ شہر کے براگا اسٹریٹ Braga Street)) کے پاس ہے ، اس کے اطراف میں شہر کے بڑے بڑے معروف شاپنگ مالز اور بازار واقع ہیں ،بازار میں ایسا لگ رہا تھا کہ ہزاروں لاکھوں لوگ شہر کے اس مرکزی ایریا میں امڈ آئے ہیں۔دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ آج ویک اینڈ نائٹ ہے لہٰذابندونگ اوراس کے اطراف کے چھوٹے بڑے شہروں کے لوگ بھی ہر ویک اینڈ نائٹ پر ان بازاروں میں شاپنگ، کھانے اور تفریح وغیرہ کے لئے جمع ہوتے ہیں۔باہر عید کی رات کا سماں تھا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انڈونیشین لوگ بہت زندہ دل واقع ہوئے ہیں،اس بازار کو آپ پیرس کی شانزے لیزے اسٹریٹ کی طرح سمجھ سکتے ہیں،جہاں ریسٹورنٹس اور عالمی برانڈز کی دکانوں اور سیاحوں کی بہتات ہوتی ہے، اسی طرح یہاں پر بھی یہی کیفیت تھی، ہم کھانے کی تلاش میں ادھر ادھر نظریں دوڑا رہے تھے کہ کیا انڈونیشین روایتی کھانوں میں کیا کھایا جائے؟ کیونکہ انڈونیشین کھانے ہمارے مروجہ کھانوں سے بہت زیادہ مختلف ہوتے ہیں، چین کے پڑوسی ہونے کے ناطے بہت کچھ انڈونیشین کلچر کا چائنیز سے ملتا جلتا ہے جو ہمارے دلوں کو نہیں بھاتا۔بہرحال! اسرار صاحب کے ہمراہ مغربی ریسٹورنٹ کا ہی سہارا لینا پڑا اور پیزا، برگر وغیرہ سے کام چلایا کہ ہم پاکستانیوں کا مزاج مغرب کے فاسٹ فوڈز وغیرہ کے ساتھ اب قدرے ایڈجسٹ ہوگیا ہے۔
ریسٹورنٹ سے فارغ ہونے کے بعد ہم باہر نکلے تو سٹرک پر انڈونیشین عوام ہمارے ساتھ تصویریں بنوانے کے لئے مشتاق نظر آئے،متعدد افراد اور خصوصاً نوجوانوں نے ہمارے ساتھ سیلفیاں بنوائیں ،وہ ہمیں اپنے درمیان دیکھ کر بہت خوش تھے۔پاکستانیوں اور علماء کے لئے ان کی  تعظیم و تکریم اور محبت سے بھرجذبات ان کے چہروں سے عیاں تھے۔ بندونگ شہرمیں باہر کے سیاح ہمیں بہت کم دیکھنے کو ملے، صرف اِکا دُکا انگریز جکارتہ میں نظر آئے اور بندونگ میں بھی بہت کم، معلوم نہیں کہ کیوں مغربی سیاح انڈونیشیا کے شہروں میں کم دلچسپی رکھتے ہیں؟شاید اسی لئے سارا مغرب بلکہ پوری دنیا انڈونیشیا میں صرف بالی جزیرہ دیکھنے کے لئے آتے ہیں اوروہ لوگ انڈونیشیا کو بھی اس جزیرے کی وجہ سے جانتے ہیں کہ یہ بھی شاید کوئی ملک ہو۔(جاری ہے )
مولانا سید حبیب اللہ شاہ حقانی

نگران شعبہ تخصص فی التفسیر