زمین ساکن ہے یا متحرک؟
زمین ساکن ہے یا متحرک؟قدیم وجدید نظریات اور بائبل وقرآن کے بیانات کی روشنی میں(مولانا انیس الرحمن ندوی(جنرل سیکرٹری فرقانیہ اکیڈمی وقف، ومدید مجلہ تعمیر فکر، بنگلور
’’زمین ساکن ہے یا حرکت کر رہی ہے؟‘‘ یہ ایک قدیم اور پیچیدہ سوال ہے جو فلسفہ، سائنس اور مذہب تینوں کے درمیان صدیوں سے بحث کا موضوع رہا ہے۔ اس پر مختلف ادوار میں مختلف نظریات پیش کئے جاتے رہے اور وقت، مشاہدات اور عقائد کے مطابق تبدیل بھی ہوتے رہے۔ یہاں ہم اس موضوع کا تاریخی، سائنسی اور مذہبی تجزیہ پیش کریں گے۔
قدیم فلاسفہ کے نظریات
ارسطو (Aristotle) اور بطلیموس (Ptolemy) یہ نظریہ رکھتے تھے کہ زمین ساکن ہے اور کائنات کا مرکز ہے، اس نظریہ کو سائنسی اصطلاح میں زمین مرکزی کائنات (Geocentric Universe) کہا جاتا ہے، اس کے مطابق سورج، چاند، ستارے سب زمین کے گرد گھومتے ہیں۔ یہ نظریہ ’’بطلیموسی ماڈل‘‘ (Ptolemaic Model) بھی کہلاتا ہے۔ اس نظریہ کی بنیاد روز مرہ کے مشاہدات پر تھی، چونکہ انسان کو زمین کی حرکت محسوس نہیں ہوتی، اس لئے اسے ساکن سمجھا گیا۔ اس نظریہ کو چرچ نے بھی اپنایا۔ یورپ میں یہ نظریہ سترہویں صدی تک رائج رہا۔
زمین کی حرکت پر قدیم مذہبی نظریات
ہندو مت اور بدھ مت میں کائنات، زمین اور فلکیات کے سلسلے میں جو نظریات پائے جاتے ہیں وہ زیادہ تر اساطیری (mythological) اور فلسفیانہ بنیادوں پر قائم ہیں۔ قدیم ہندومت میں زمین کو ’’پرتھوی‘ کہا گیا ہے جو ساکن ہے اور مرکز کائنات میں قائم ہے۔ مثلا رگ وید، وشنو پران، اور بھگوت پران میں ذکر ہے کہ : ’’زمین آسمانی ہاتھیوں، کچھوے یا سانپ کے اوپر ساکن رکھی گئی ہے۔‘‘ وشنو پران میں ہے : ’’زمین شیش ناگ کی پشت پر قائم ہے۔‘‘ بدھ مت میں بھی زمین کو ’’ساکن‘‘ او ر مرکز کائنات میں مانا گیا ہے۔بدھ مت کے مطابق ہندوستان میں واقع میرو پہاڑ Mount Meru کائنات کا مرکز ہے اور چاند اور سورج اس کے گرد گھومتے ہیں۔
زمین کی حرکت پر بائبل کا موقِف
بائبل کے مطابق ہماری زمین ساکن ہے اور چپٹی ہے، مثلاً زبور (Psalms) میں ہے :
"Who laid the foundations of the earth, that it should not be moved forever.” (Psalms: 104:5)
’’جس نے زمین کی بنیادیں رکھی کہ وہ ابد تک جنبش نہ کرے۔‘‘ (زبور: ۵:۱۰۴)
بائبل میں ایک اور جگہ ہے:
"The world also shall be stable, that it be not moved.” (Chronicle: 16:30)
’’دنیا بھی قائم رہے گی، وہ نہیں ہلے گی۔‘‘ (تواریخ : ۳۰:۱۶)
ایک اور جگہ ہے: "The world also is established, that it cannot be moved.” (Psalms: 93:1)
’’دنیا مضبوطی سے قائم ہے، وہ نہیں ہل سکتی۔‘‘
بائبل کے انہی عقائد ونظریات کا اثر تھا کہ یورپ میں جو کوئی سائنسدان بھی زمین کے گول ہونے یا اسکی حرکت کرنے کا نظریہ رکھتا یا اس کی تشہیر کرتا تو اسے کافر قرار دے کر سخت ترین سزائیں دی جاتیں کیونکہ یہ عقیدہ بائبل کی تعبیرات اور کلیسائی عقائد سے متصادم سمجھا جاتا تھا جن مشہور سائنسدانوں کو کلیسا نے سخت سزائیں دیں ان میں جیورڈانو برونو (Giordano Bruno)–(1548–1600)،گیلیلیو گلیلی (Galileo Galilei)–(1564–1642) اور نکولس کوپرنیکس (Nicolaus Copernicus)–(1473–1543)شامل ہیں، جیورڈانو برونو کو زمین کے حرکت کرنے کا نظریہ رکھنے کی وجہ سے ۱۶۰۰ء میں کافر قرار دے کر زندہ جلادیا گیا، گیلیلیو کو سورج کے مرکز کائنات ہونے کا نظریہ رکھنے کی بنا پر اپنی زندگی کے آخری ۹ سال اپنے گھر میں نظر بندی میں گزارنے پڑے اور اسی حالت میں اس کا انتقال ہوا۔ کوپرنیکس نے کلیسا کے خوف سے اپنی کتاب جس میں اس نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ سورج کائنات کے مرکز میں ہے اور زمین سمیت دوسرے سیارے اس کے گرد گھوم رہے ہیںاس کو اپنی زندگی کے آخری سال شائع کروایا مگر پھر بھی کلیسا نے اس کی کتاب پر پابندی عائد کردی۔یہ رہا زمین کے ساکن یا متحرک ہونے پر قدیم فلاسفہ اور مذاہب کے نظریات۔ اب ہم یہاں اسلامی دور میں زمین سے متعلق کی جانی والی سائنسی تحقیقات کا جائزہ پیش کرتے ہیں۔
مسلمانوں کا عہد زریں
مسلمانوں کے عہد زریں (۸۰۰-۱۵۰۰) میں سائنس ، فلکیات، ریاضی اور دیگر سائنسی علوم میں بے مثال ترقی ہوئی۔ اس دور کے بعض مسلم سائنسدانوں اور ماہرین فلکیات نے نہ صرف زمین کی کرویت Sphericity of the Earth کو ثابت کیا بلکہ زمین کی حرکت (motion of the Earth) کے مسئلے پر بھی سنجیدہ سائنسی تحقیقات پیش کیں، اس کی بعض تفصیلات اس طرح ہیں:
(۱) مسلمانوں نے اپنے علمی سفر کے ابتدائی دور ہی میں بطلیموس کے زمین مرکزی کائنات کے نظریہ کو ناقص قرار دے دیا تھا۔ متعدد سائنسدانوں نے بطلیموس کے نظریہ پر تنقید کی جن میں کندی اور ابن الہیثم وغیرہ شامل ہیں لہٰذا کندی ((801-873 بطلیموس کے زمین مرکزی کائنات کے نظریہ پر تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ فلکی اجسام کی حرکت کو سمجھنے کے لئے نئے ماڈلز کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ابن الہیثم ((965-1040 نے بطلیموس کے نظریات پر سوال اٹھائے اور کہا کہ سائنسی نظریات کو مشاہدے اور تجربے سے پرکھنا چاہئے۔
(۲) ابو اسحاق نظام (م 845)
ابو اسحاق نظام یہ پہلا مسلمان سائنسدان تھا جس نے کہا کہ:’’زمین حرکت کرتی ہے اور کائنات ساکن ہے۔‘‘ یہ بات اس وقت کے عام مذہبی اور فلسفیانہ نظرئے سے بہت مختلف تھی۔
(۳) البیرونی (973–1048)
البیرونی نے زمین کی گردشRotation اور گریویٹی gravity کے بارے میں انقلابی خیالات پیش کئے، اس کا کہنا تھا کہ ’’زمین اپنے محور پر گھومتی ہے‘‘ جس کی وجہ سے رات اور دن آتے ہیں، اس نظریہ کو یورپ میں بعد میں گیلیلیو نے اپنایا لیا لہٰذا آج یورپ میں اس نظریہ کو البیرونی کے بجائے گیلیلیو کی طرف منسوب کیا جاتا ہے،بیرونی نے زمین کے محیط Circumference کا بھی تقریباً درست حساب لگایا۔
(۴) الفرغانی Al-Farghani (۹ ویں صدی)
الفرغانی نے ایک اہم کتاب کتاب فی الحرکات السماویہ لکھی، جس میں سیاروں کی حرکت کا تفصیلی جائزہ لیا۔ الفرغانی نے زمین کے محور پر جھکاؤ Axial Tilt کا حساب لگایا اور کہا کہ زمین پر موسمی تبدیلیوں کے لئے زمین کا محوری جھکاؤ ذمہ دار ہے۔
(۵) قطب الدین شیرازی (۱۲۳۶-۱۳۱۱) اور نصیر الدین طوسی (۱۲۰۱-۱۲۷۴)
ان دونوں سائنسدانوں نے رصدگاہِ مراغہ میں مل کر فلکیاتی ماڈل تیار کئے۔ طوسی نے ’’طوسی جوڑے‘‘ Tusi Couple کا نظریہ دیا جو بعد میں کوپرنیکس نے بھی اپنایا۔ اگرچہ انہوں نے زمین کی حرکت کو تسلیم نہیں کیا لیکن ان کے کام نے بطلیموسی ماڈل کی پیچیدگیوں کو آسان کردیا۔
(۶) ابن الشاطر (۱۳۰۴-۱۳۷۵)
اس سلسلے کا سب سے بڑا نام دمشق کے عظیم سائنسدان اور ماہر فلکیات ابن شاطر کا ہے جس نے فلکیات کی دنیا میں ایک زبردست انقلاب برپا کرتے ہوئے پہلی مرتبہ بطلیموسی ’’زمین مرکزی کائنات‘‘ Geocentric Universe کے نظریہ کو غلط ثابت کرتے ہوئے ’’شمسی مرکزی کائنات‘‘ Heliocentric Universe کا نظریہ پیش کیا۔ اس نئے فلکیاتی ماڈل کے مطابق مرکزِ کائنات پر زمین نہیں بلکہ سورج ہے اور زمین سمیت تمام اجرام سورج کے گرد محوری گردش کررہے ہیں۔ اس نے یہ بھی ثابت کیا کہ ہمارا چاند ہماری زمین کی گرد گردش کررہا ہے۔
تعجب ہے کہ ابن شاطر کے تقریباً سو سال بعد کوپرنیکس آتا ہے اور یورپ میں ابن شاطر کا ہوبہو یہی نظریہ متعارف کراتا ہے اور اہل یورپ اس نظریہ کو دریافت کرنے کا سہرا بن شاطر کے بجائے کوپرنیکس کے سر باندھ دیتے ہیں۔ یہی نہیں آج زمین کے اپنے محور میں گردش کرنے، زمین کے محور پر جھکاؤ axial tilt جس کی وجہ سے زمین پر موسمی تبدیلیاں آتی ہیں اور اس طرح کے کئی دیگر انقلابی نظریات جن کو مسلمان سائنسدانوں نے متعارف کرایا وہ سب آج کوپرنیکس، گیلیلیو اور کیپلر کے ناموں کے ساتھ منسوب ہیں۔ اس سلسلے میں تاریخی ثبوت فراہم ہونے کے باوجود آج اسکولوں اور کالجوں میں یہی پڑھایا جارہا ہے کہ ان کے موجد مغربی سائنسدان ہیں مسلمان سائنسدان نہیں۔
بہر حال !مسلم سائنسدانوں نے زمین کی حرکت کے بارے میں قدیم یونانی نظریات کو چیلنج کیا اور جدید انقلابی نظریات پیش کئے جنہوں نے فلکیات میں ایک نئے انقلاب کی راہ ہموار کی۔ اس نئے فلکیاتی انقلاب کے معمار البیرونی، ابن الہیثم، طوسی، الفرغانی اور ابن الشاطر جیسے عظیم مسلم سائنسدان ہیں جنہوں نے بعد میں یورپ کے سائنسی انقلاب میں ایک اہم کردار ادا کیا۔
زمین کی محوری اور مداری گردش کا تذکرہ قرآن مجید میں
اب ہم اخیر میں زمین کی گردش کے بارے میں قرآنی بیانات کا جائزہ لیتے ہیں کہ قرآن زمین کی گردش کے بارے کیا کہتا ہے؟قرآن مجید میں متعدد آیات ایسی ہیں جو ایسی تعبیرات اور الفاظ استعمال کرتی ہیں جو اشارۃ زمین کی اپنے محور میں حرکت اور سورج کے گرد ایک مدار میں حرکت کی طرف دلالت کرتی ہیں۔ قرآن کی یہ آیات حسب ذیل ہیں:
(۱) وَہُوَ الَّذِی خَلَقَ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ، کُلٌّ فِی فَلَکٍ یَسْبَحُونَ (أنبیاء: ۳۳)
’’(اللہ) وہی ہے جس نے رات اور دن اور سورج اور چاند پیدا کئے، ہر ایک ایک مدار میں تیر رہا ہے۔‘‘
اس آیت میں واضح طور پر کہا جارہا ہے کہ چانداور سورج سمیت تمام اجرام جس میں ہماری زمین بھی ایک ہے وہ ایک مدار میں تیررہے ہیں۔ اس آیت میں دو الفاظ کا استعمال کافی اہم ہے۔ پہلا ’فلک‘ جس کے معنی ’مدار‘ کے ہیں، یعنی تمام اجرام کا اپنا ایک مدار ہے جس میں وہ تیر رہے ہیں۔
یہ بات جدید سائنسی تحقیقات سے بھی بخوبی ثابت ہوچکی ہے۔ مثلاً چاند ہماری زمین کے گرد گردش کررہا ہے، ہماری زمین ہمارے چاند سمیت ہمارے سورج کے گرد گردش کررہی ہے۔ہمارا سورج ہمارے پورے نظام شمسی سمیت ہماری کہکشاں کے مرکزکے گرد گردش کررہا ہے اور پھر ہماری کہکشاں بھی اپنے تمام ستاروی نظاموں اور اجرام سمیت فضا میں حرکت کررہی ہے۔
اس آیت میں دوسرا اہم لفظ یَسْبَحُونَ ہے جو ’سبح‘ سے مشتق ہے۔ اس کے معنی ’’تیرنے‘‘ کے ہیں، تیرنے کے مفہوم میں دو بنیادی قسم کی حرکات شامل ہوتی ہیں:(۱) کسی شے کی اپنے آپ میں حرکت جسے داخلی حرکت in-place motion کہا جاتا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ شے خود اپنی جگہ پر حرکت کررہی ہے، جیسے پانی میں ہاتھ پیر چلانا یا جسم کو حرکت دینا۔ یہ اندرونی حرکت ہی ہے جو تیرنے کے عمل کو ممکن بناتی ہے۔(۲) اس شے کا آگے بڑھنا ، جسے انتقالی حرکت forward motion کہا جاتا ہے، اس سے مراد ہے کہ وہ شے اپنی جگہ سے آگے کی طرف بڑھ رہی ہے، یعنی محض حرکت نہیں بلکہ پیش قدمی بھی ہورہی ہے، تیرنے میں یہ دونوں حرکات لازم وملزوم ہیں۔ پہلی حرکت اجرام کا اپنے محور میں گردش کرنا ہے لہٰذا آج جدید سائنس نے یہ ثابت کردیا کہ زمین سمیت تمام اجرام سماوی اپنے اپنے محور میں بھی گھوم رہے ہیں، لہٰذا چاند، زمین، سورج، ہمارا نظام شمسی، ہماری کہکشاں سب اپنے محور میں گھوم رہے ہیں جبکہ دوسری حرکت ان تمام اجرام کا اپنے اپنے مدار میں بھی تیرنا ہے ۔ اس طرح یہ تمام اجرام دوہری گردش میں مصروف ہیں،لہٰذا اس آیت میں مستعمل لفظ ’’سبح‘‘ میں زمین سمیت تمام اجرام کی ان دونوں قسم کی گردش یعنی محوری گردش اور مداری گردش دونوں کی طرف انتہائی بلیغ اشارہ موجود ہے۔ (اس موضوع پر مکمل تفصیل کیلئے دیکھئے ہماری ویڈیو ’’کائنات کی ہر چیز اپنے مدار میں تیر رہی ہے‘‘)
(۲) یُکَوِّرُ اللَّیْلَ عَلَی النَّہَارِ وَیُکَوِّرُ النَّہَارَ عَلَی اللَّیْلِ (الزمر:۵)
’’وہ رات کو دن پر لپیٹتا ہے اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے۔‘‘
اس آیت میں مستعمل لفظ یُکَوِّرُ کا مطلب ہے لپیٹنا، جیسے سر پر عمامہ لپیٹا جاتا ہے، اس لفظ کے مفہوم میں گردش اور دائرہ نما حرکت دونوں کا تصور شامل ہے۔ اس سے زمین کے گول ہونے اور اس کے گھومنے دونوں کی طرف اشارہ ملتا ہے، کیونکہ رات اور دن کا اس انداز میں آنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک زمین گول ہو اور اور اپنے مدار میں حرکت نہ کر رہی ہو۔اسی معنی کی ایک اور آیت حسب ذیل ہے:
یُولِجُ اللَّیْلَ فِی النَّہَارِ وَیُولِجُ النَّہَارَ فِی اللَّیْلِ (حج: ۲۲)
’’وہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں۔‘‘
لہٰذا رات اور دن کی یہ گردش بھی زمین کی محوری گردش اور زمین کے کرئہ نما ہونے کی طرف واضح اشارہ کرتی ہے۔
(۳) وَتَرَی الْجِبَالَ تَحْسَبُہَا جَامِدَۃً وَہِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ۔ (النمل: ۸۸)
’’اور تم پہاڑوں کو دیکھتے ہو اور سمجھتے ہو کہ وہ ساکن ہیں حالانکہ وہ بادلوں کی مانند چل رہے ہیں‘‘
اس آیت میں زمین کے اوپر موجود پہاڑوں کے متعلق کہا جارہا ہے کہ وہ بادلوں کے مانند حرکت کررہے ہیں۔ جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ تو ساکن، اور غیر متحرک ہیں۔اس آیت کی تفسیر یہ ہے کہ زمین کی حرکت کی وجہ سے پہاڑ بھی بادلوں کی مانند حرکت کر رہے ہیں، اگرچہ ہمیں وہ جامد (ساکن) نظر آتے ہیں یعنی یہ ایک ظاہری احساس ہے، حقیقت میں حرکت ہو رہی ہے۔اگر اس آیت کا یہ مطلب نہ لیا جائے تو پھر پہاڑوں کی حرکت کو ثابت نہیں کیا جاسکتا۔
زمین کی چار گردشیں
یہاں پر حیران کن اور دلچسپ بات یہ ہے کہ زمین صرف اپنے محور اور ہمارے سورج کے گرد ہی نہیں گھوم رہی ہے بلکہ وہ ہمارے نظام شمسی اور ہماری کہکشاں کے ساتھ مل کر کئی اور گردشوں میں مصروف ہے۔ زمین کی ان تمام قسموں کی گردشوں کو ذیل میں بیان کیا جاتا ہے:
(۱) زمین اپنے محور میں 1670 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہی ہے اور تقریبا ۲۴ گھنٹوں میں ایک چکر پورا کرتی ہے، جس سے زمین پر دن اور رات آتے ہیں۔
(۲) زمین سورج کے گرد اپنے مدار میں 107200 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے حرکت کررہی ہے، اور تقریبا ۳۶۵ دنوں میں سورج کا ایک چکر پورا کرتی ہے جس سے زمین پر موسموں seasons) ( میں تبدیلی واقع ہوتی ہے۔
(۳) ہمارا نظام شمسی جس میں ہماری زمین بھی شامل ہے ہماری کہکشاں ملکی وے کے مرکز کے گرد 828,000 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہی ہے۔
(۴) ہماری کہکشاں ’’ملکی وے‘‘ بھی ہماری زمین اور ہمارے نظام شمسی سمیت خلا میں ۲۱ لاکھ کلومیٹرفی گھنٹہ کی رفتار سے حرکت کررہی ہے۔
زمین کی محوری اور مداری گردش پر قرآن کا استدلال اوپر سورئہ انبیاء کی آیت نمبر ۳۳، سورئہ زمر کی آیت ۵ ، سورئہ حج کی آیت نمبر ۲۲ اور سورئہ نمل کی آیت نمبر ۸۸میں ثابت کیا جاچکا ہے۔ اب یہاں سوال یہ ہے کہ زمین کی دوسری گردشوں کا کوئی اشارہ قرآن مجید میں ملتا ہے یا نہیں؟ اس کا جواب اثبات میں ہے۔ سورئہ انبیاء کی آیت ۳۳ کو ایک اور مرتبہ غور سے پڑھیں:
کُلٌّ فِی فَلَکٍ یَسْبَحُونَ (الانبیاء: ۳۳) ’’ہر ایک ایک مدار میں تیر رہا ہے۔‘‘
یہ آیت انتہائی بلیغ انداز میں کائنات میں موجود تمام اجرام سماوی کی حرکات پر دلالت کررہی ہے کہ تمام اجرام اپنے اپنے مدار میں تیررہے ہیں۔ اس آیت میں لطیف اشارہ زمین کی تین طرفہ حرکت کی جانب بھی ہے یعنی جس طرح زمین چاند کے ساتھ مل کر بطور اکائی سورج کے گرد اپنے مدار میں حرکت کررہی ہے، اسی طرح ہمارا سورج بھی بطور اکائی زمین سمیت اپنے نظام شمسی کے تمام اجرام کے ساتھ ہماری کہکشاں کے مرکز کے گرد حرکت کررہا ہے۔ اسی طرح ہماری کہکشاں بھی بطور اکائی ہماری زمین اور ہمارے نظام شمسی سمیت خلا میں حرکت کررہی ہے۔اس طرح قرآن کی مذکورہء بالا آیت کے ان چار الفاظ کی تشریح میں پورے علم فلکیات کو پیش کیا جاسکتا ہے اور اس کی تشریح میں کئی ضخیم جلدیں سیاہ کی جاسکتی ہیں۔یہ آیت قرآن مجید کے علمی اعجاز کا ایک شاہکار کہی جاسکتی ہے۔
زمین کے ساکن ہونے کے قائل علماء اور ان کے دلائل
قرآن مجید کی بعض آیات سے بعض علماء یہ مفہوم اخذ کرتے ہیں کہ زمین حرکت نہیں کررہی ہے بلکہ ساکن ہے، مثلاً ماضی قریب میں ایک بڑے عالم دین مولانا احمد رضا خان بریلوی ؒ نے اس موضوع پر ایک کتاب بعنوان ’’نزول آیات فرقان بسکون زمین وآسمان‘‘ تحریر کی ہے جس میں انہوں نے قرآنی حوالوں سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ زمین ساکن ہے۔ اسی طرح انہوں نے زمین کے ساکن ہونے پر سائنسی دلائل پر ایک اور کتاب بعنوان ’’فوز مبین در رد حرکت زمین‘‘ تحریر کی ہے۔ جس میں انہوں سائنسی دلائل کے ذریعہ زمین کی حرکت کے نظریہ کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ زمین کو غیر متحرک کہنے والوں کا سب سے اہم استدلال مندرجہ ذیل آیت کریمہ ہے:
إِنَّ اللَّہَ یُمْسِکُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ أَنْ تَزُولَا وَلَئِنْ زَالَتَا إِنْ أَمْسَکَہُمَا مِنْ أَحَدٍ مِنْ بَعْدِہِ إِنَّہُ کَانَ حَلِیمًا غَفُورًا (فاطر:۴۱)
’’بیشک اللہ ہی آسمانوں اور زمین کو تھامے ہوئے ہے کہ وہ اپنی جگہ سے ہٹ نہ جائیں اور اگر وہ ہٹ جائیں تو اللہ کے سوا انہیں کون تھامے گا، یقینا وہ بردبار اور بہت بخشنے والا ہے۔‘‘
یہ آیت دراصل زمین اور آسمانوں کے درمیان جو قوت کشش gravity ہے اس کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اللہ نے ان اجرام کے مابین قوت کشش رکھی ہے جس کی وجہ سے فضا میں ان اجرام کی اتنی تیز اور قسماقسم کی گردشوں کے باوجود یہ فضا میں بغیر کسی اختلال اور آپسی تصادم کے اپنے اپنے مداروں میں حرکت کررہے ہیں، ورنہ اگر یہ قوت کشش نہ ہو تو یہ سب آپس میں ٹکرا کر ختم ہوجائیں گے۔
اس آیت کا یہ مفہوم مراد لینے کے بجائے اس سے زمین کی حرکت مراد لی جائے کہ اللہ زمین کو حرکت کرنے سے روکے رکھے ہوئے ہے تو مفہوم درست نہیں ہوگا کیونکہ اس آیت میں زمین کے علاوہ دیگر تمام اجرام سماوی (celestial bodies) کا تذکرہ بھی موجود ہے لہٰذا ان کو بھی زمین ہی کی طرح ساکن ماننا پڑے گا کہ وہ بھی حرکت نہیں کررہے ہیںجو ظاہر ہے کہ ایک غلط نظریہ ہے۔ اس کو خود زمین کو ساکن کہنے والے نہیں مانتے لہٰذا اس سے یہ ثابت ہوا کہ اس آیت میں ’’زوال‘‘ سے حرکت نہیں بلکہ قوت کشش مراد ہے۔اس کے علاوہ بعض قرآنی آیات جن میں زمین کو بچھائے جانے یا زمین کو ’جائے قرار‘ بنائے جانے کا تذکرہ ہے ان سے بھی زمین کے ساکن ہونے سے استدلال کیا جاتا ہے۔ یہ آیات اس طرح ہیں:
وَإِلَی الْأَرْضِ کَیْفَ سُطِحَتْ (الغاشیۃ: ۲۰)
’’اور (کیا وہ نہیں دیکھتے کہ) زمین کو کیسے بچھایا گیا؟‘‘
اللَّہُ الَّذِی جَعَلَ لَکُمُ الْأَرْضَ قَرَارًا (غافر: ۶۴)
’’اللہ ہی ہے وہ جس نے زمین کو تمہارے لئے جائے قرار بنایا۔‘‘
جدید سائنسی تحقیقات کر روشنی میں ان آیات سے جو مفہوم نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ زمین اپنی گولائی اور متعدد حرکات جن میں اس کی محوری گردش، مداری گردش، شمسی گردش اور کہکشانی گردش شامل ہیں ان سب کے باوجود اللہ نے زمین کو ایسا بنایا ہے کہ وہ انسانوں کے لئے مسطح لگتی اور زمین کی قوت کشش (gravity) کی وجہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زمین بالکل بھی حرکت اور جنبش نہیں کررہی ہے بلکہ وہ انسانوں کے لئے جائے قرار اور سکونت ومسکنت کا ٹھکانہ ہے۔