مغرب کی اسلام دشمنی

جناب شاہنواز فاروقی

مغرب کی اسلام دشمنی

جناب شاہنواز فاروقی|| ایڈیٹر و کالم نگار رونامہ ’’جسارت‘‘ کراچی

مغرب کی اسلام دشمنی کبھی ایک مرض تھی جسے اب مغرب نے ایک تماشا بنادیا ہے، مغرب کبھی پیغمبر اسلام پر حملہ کرتا ہے، کبھی قرآن کی توہین کی راہ ہموار کرتا ہے، یہ کل ہی کی بات ہے کہ ڈنمارک میں قرآن پر حملہ ہورہا تھا اور اب سویڈن میں قرآن کو نذر آتش کردیا گیا ہے،مغرب کی اسلام دشمنی کی تاریخ نئی نہیں ہے عیسائیوں اور یہودیوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ہی اسلام سے مخالفت مول لے لی تھی۔ سیدہ صفیہؓ اسلام لانے سے پہلے یہودی تھیں ان کا بیان ہے کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا اعلان ہوا تو ان کے والد اور چچا نے اس امر کی تحقیق کرائی کہ آپؐ کی بعثت کی خبر صحیح ہے یا غلط ہے جب ان کو معلوم ہوا کے آپؐ کی بعثت کی خبر سچی ہے تو دونوں نے گواہی دی کہ یہ وہی پیغمبر ہیں جن کی آمد کی پیشگوئی توریت میں موجود ہے۔ سیدہ صفیہؓ کے بقول ان کے والد نے ان کے چچا سے یہ بھی کہ اب کیا کرنے کا ارادہ ہے ان کے چچا نے کہا جب تک دم میں دم ہے ان کی مخالفت کرتے رہیں گے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے یہودی اور عیسائی کہا کرتے تھے کہ اگر ہمیں آخری پیغمبر کا زمانہ میسر آیا تو ہم نہ صرف یہ کہ ان پر ایمان لائیں گے بلکہ ان کے دشمنوں کے خلاف جہاد بھی کریں گے مگر جب رسول اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو اکثر یہودیوں اور عیسائیوں نے آپؐ پر ایمان لانے سے انکار کردیا۔
اہل مغرب نے اسلام اور مسلمانوں کی نفرت میں ان کے نام بگاڑے ہیں۔ اسلام کا نام اسلام ہے مگر اہل مغرب نے اسلام کو ’’محمڈن ازم‘‘ اور مسلمانوں کو ’’محمڈن‘‘ کہہ کر پکارا، اہل مغرب نے مسلمانوں کو سیدنا ابراہیم ؑ کی اہلیہ سیدہ حاجرہؑ کی نسبت سے Hagarinیا ہاجرائی بھی کہا۔ یہ نام بھی انہوں نے تحقیر میں رکھا۔ اس لیے کہ سیدنا ابراہیم ؑکی اہلیہ سیدہ حاجرہؑ سیدنا ابراہیم ؑ کی پہلی اہلیہ سیدہ سارہؑ کی ملازمہ تھیں مگر سیدنا اسماعیل ؑسیدہ حاجرہؑ کے بطن سے پیدا ہوئے۔ رسول اکرمؐ کا سلسلہ نسب سیدنا اسماعیل ؑسے جاملتا ہے اسی تناظر میں اہل مغرب نے مسلمانوں کو ہاجرائی کہہ کر مخاطب کیا کہ وہ دراصل یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ مسلمان ایک ملازمہ کی اولاد ہیں ان کی کوئی تاریخی اوقات ہی نہیں۔
مسلمان اپنی گفتگوئوں اور تحریروں میں صلیبی جنگوں کا ذکر تو کرتے ہیں مگر مسلمانوں کی عظیم اکثریت کو صلیبی جنگوں کا پس منظر معلوم نہیں۔ صلیبی جنگیں مسلمانوں کی ایجاد نہیں تھیں بلکہ انہیں مغرب نے ایجاد کیا تھا اور ان کے پس منظر میں وہ نفرت موجود تھی جو عیسائی دنیا اسلام اور مسلمانوں کے لیے اپنے دل میں رکھتی تھیں یہ۱۰۹۵ء کا زمانہ تھا اس وقت کے پوپ اربن دوم نے ایک چرچ میں کھڑے ہوکر تقریر کی اس نے کہا ’’اسلام ایک شیطانی مذہب ہے اور میرے دل پر یہ بات القا کی گئی ہے کہ عیسائیوں کا فرض ہے کہ وہ اس شیطانی مذہب اور اس کے ماننے والوں کو صفحہ ہستی سے مٹادیں۔‘‘
پوپ اربن دوم نے اسلام کو شیطانی مذہب قرار دیا تھا تو اس کی کوئی تاریخی یا علمی بنیاد موجود نہیں تھی، پوپ اربن نے یہ بات توریت یا انجیل کی روشنی میں نہیں کہی تھی، اس نے یہ بات سیدنا موسیٰ ؑ یا سیدنا عیسیٰ ؑ کے کسی قول کی روشنی میں نہیں کہی تھی۔ اس کی یہ بات قرآن و حدیث کے تجزیے کا حاصل نہیں تھی۔ اس کی یہ بات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک پر غور کا نتیجہ نہیں تھی اس کی یہ بات صرف اس کی ذہنی اختراع تھی، اس نے کہا کہ میرے قلب پر یہ بات القاء کی گئی ہے کہ اسلام ایک شیطانی مذہب ہے۔ تمام مذاہب کے ماننے والے جانتے ہیں کہ ایک الہام ربانی ہوتا ہے اور ایک الہام شیطانی ہوتا ہے اور ان میں تمیز کرنے کے لیے ایک روحانی، اخلاقی اور علمی اہلیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ پوپ اربن کے قلب پر جو بات القاء ہوئی تھی وہ سو فی صد الہام شیطانی تھی مگر اسے اس نے الہام ربانی سمجھا۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ پوپ کی آواز صدا بہ صحرا ثابت نہیں ہوئی، پوپ نے ۱۰۹۵ء میں اسلام کو ایک شیطانی مذہب قرار دے کر اس مذہب اور اس کے ماننے والوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا اعلان کیا تھا اور ۱۰۹۹ء میں پورا یورپ عملاً ایک صلیبی جھنڈے کے نیچے جمع ہوا اور ان صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا جو کم و بیش دو سو سال جاری رہیں، ان جنگوں کے آغاز میں صلیبی فوجوں نے بیت المقدس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، انہوں نے بیت المقدس میں اتنے بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام کیا کہ مغربی مورخین کے مطابق بیت المقدس کی گلیوں میں اتنا خون تھا کہ گھوڑے چلانے میں دشواری ہو رہی تھی۔
پھر بیت المقدس میں ایک وقت وہ بھی آیا جب سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کی فوجوں نے بیت المقدس کا محاصرہ کر لیا، بیت المقدس میں اس وقت ایک لاکھ عیسائی موجود تھے، یہ بیت مقدس میں مسلمانوں کے قتل عام کا حساب بے باق کرنے کا بہترین موقع تھا مگر سلطان صلاح الدین ایوبیؒ اسلام کے علمبردار تھے چنانچہ انہوں نے عیسائیوں کا قتل عام کرنے کے بجائے انہیں معمولی سی رقم دے کر بیت المقدس سے چلے جانے کا موقع دیا۔ بہت سے عیسائی غریب تھے، وہ صلاح الدین ایوبی کو معمولی سی رقم بھی نہیں دے سکتے تھے۔ چنانچہ ان کی رقم صلاح الدین ایوبی ؒاور ان کے عزیزوں نے ادا کی۔
مسلمانوں کی عظیم اکثریت کو آج بھی یہ معلوم نہیں کہ عیسائی چرچ کی سرکاری پوزیشن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں یہ ہے کہ چرچ رسول اکرمؐ کو تاریخ کی بڑی شخصیت مانتا ہے، انہیں تاریخ کے عبقریوں یا Geniuses میں شمار کرتا ہے مگر چرچ رسول اکرمؐ کو نبی نہیں مانتا۔ مغرب کا دعویٰ ہے کہ معاذ اللہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ چیزیں توریت سے لیں۔ کچھ چیزیں انجیل سے لیں اور انہیں جوڑ جاڑ کر قرآن تخلیق کر ڈالا۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ الزام وہ عیسائی دنیا عائد کرتی ہے جس کے پاس انجیل کا کوئی اصل مسودہ نہیں۔ مغربی دنیا کا تصور محمدؐ دراصل ان کے تصور عیسیٰ سے ماخوذ ہے۔ سیدنا عیسیٰ نے کبھی جہاد نہیں کیا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کیا۔ سیدنا عیسیٰ نے کوئی ریاست قائم نہیں کی، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ریاست مدینہ کو وجود بخشا، سیدنا عیسیٰ کی شادی ہی نہیں ہوئی اور انہوں نے تجرد کی زندگی بسر کی۔ اس کے برعکس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی گیارہ بیویاں تھیں۔ مغربی دنیا اس تناظر میں جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتی ہے تو انہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عیسیٰ سے بہت مختلف نظر آتے ہیں، چنانچہ عیسائی دنیا انہیں پیغمبر ماننے ہی سے انکار کر دیتی ہے بلکہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین پر آمادہ ہو جاتی ہے، وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معاذ اللہ دنیا پرست کہتی ہے، مغرب کے ممتاز شاعر دانتے کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنی نفرت تھی کہ اس نے اپنی نظم ’’ڈیوائن کومیڈی‘‘ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معاذ اللہ جہنم میں دکھایا ہے۔
تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کمیونزم کی شکست اور سوویت یونین کے تحلیل ہونے کے بعد مغرب کی اسلام دشمنی میں اچانک کئی سو فی صد اضافہ ہو گیا، نائن الیون نے اس سلسلے میں مرکزی کردار ادا کیا، نائن الیون کے بعد امریکا کے صدر جارج بش نے امریکی قوم سے خطاب کرتے ہوئے نائن الیون کے جواب میں ’’کروسیڈ‘‘ شروع کرنے کا اعلان کیا۔
’’ کروسیڈ‘‘ کی اصطلاح صلیبی جنگوںکے لیے استعمال کی جاتی تھی، چنانچہ اس کا مفہوم یہ تھا کہ مغرب نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نئی صلیبی جنگ چھیڑ دی ہے، جارج بش کے بعد اٹلی کے اس وقت کے وزیراعظم سلویو برلسکونی نے اخباری نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’عیسائی تہذیب اسلامی تہذیب سے برتر ہے اور اس نے جس طرح کمیونزم کو شکست دی ہے، اس طرح وہ اسلامی تہذیب کو بھی شکست دے گی۔‘‘ اٹلی کے وزیراعظم کے بیان کے بعد امریکا کے اس وقت کے اٹارنی جنرل ایش کرافٹ نے حد ہی کر دی، انہوں نے واشنگٹن ڈی سی میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عیسائیت کا خدا اسلام کے خدا سے برتر ہے اس لیے کہ عیسائیت کے خدا نے انسانیت کی نجات کے لیے اپنے بیٹے عیسیٰ کی قربانی دے دی۔ اس کے برعکس اسلام کا خدا اپنی برتری کے اظہار کے لیے مسلمانوں سے شہادت کی صورت میں جان کی قربانی طلب کرتا ہے۔ مغرب کے رہنما جب یہ بیانات دے رہے تھے تو ان کی سرکاری پوزیشن یہ تھی کہ وہ گویا دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے نکلے ہیں مگر حقیقت یہ تھی کہ وہ اسلام پیغمبر اسلام اور خود مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے نکلے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ۲۰۰۹ء میں پوپ بینی ڈکٹ شش دہم نے کھل کر توہین رسالت کا ارتکاب کیا۔ انہوں نے چودھویں صدی کے عیسائی بادشاہ مینوئل دوم کا یہ قول دہرایا کہ ’’محمد کیا نیا لائے ہیں‘‘ اور یہ کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے، یہ عیسائیت کی سب سے بڑی شخصیت کی طرف سے توہین رسالت کی اتنی بڑی واردات تھی کہ اس پر اگر تیسری عالمی جنگ چھڑ جاتی تو معمولی بات ہوتی مگر بدقسمتی سے مسلمانوں کا یہ حال ہو گیا ہے کہ ان پر اقبال ؒکے اس شعر کا پوری طرح اطلاق ہوتا ہے…

بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے

مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے

مسلمانوں بالخصوص مسلم دنیا کے بادشاہوں، سیاسی رہنمائوں اور جرنیلوںکا یہ حال ہے کہ وہ مسلمانوں کی آزادی اور خودمختاری کا کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی حرمت تک کا دفاع کرنے میں بری طرح ناکام ہیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ۹؍مئی کے واقعات کے خلاف فوجی اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ کس طرح آگ بگولہ ہو چکی ہے مگر قرآن اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین پر ہم ڈنمارک اور سویڈن کے سفیروں تک کو ملک بدر کرنے میں بری طرح ناکام ہیں۔