شہید کا لخت جگر بھی شہید

اشفاق اللہ جان ڈاگیوال|| کالم نگار روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘

شہید اسلام مولانا سمیع الحقؒ کے جانشین میرے عزیز و محترم بھائی اور دوست مولانا حامد الحق حقانیؒ کی شہادت کی اطلاع نے ہلاکے رکھ دیا ہے، ایک لمحے کے لیے بھی اس خبر کی صداقت پر یقین نہیں ہورہا، ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے یہ خود کش حملہ مولانا حامد الحق حقانیؒ پر نہیں میرے سگے بھائی یا میرے جگر گوشوں پر ہوا ہے،مولانا حامد الحق حقانی بہت اعلیٰ و ارفع نسبتوں کے امین تھے، وہ شیخ الحدیث مولانا عبد الحق ؒکے پوتے اور مولانا سمیع الحق شہیدؒ کے بیٹے تھے۔ ان کا جامعہ دارالعلوم حقانیہ پاکستان کی سب سے بڑی اور بین الاقوامی شہرت یافتہ اسلامی یونیورسٹی ہے جسے دارالعلوم دیوبند ثانی بھی کہا جاتا ہے، اس ادارے سے لاکھوں علماء فیوض و برکات اپنی جھولیوں میں سمیٹنے کے بعد دنیا کے کونے کونے میں بانٹ رہے ہیں، مولانا حامد الحق حقانی ؒکی المناک شہادت پر سبھی دکھی ہیں، سب کی آنکھیں نمناک ہیں، سب کے سب غمزدہ ہیں مگر میرا درد تھوڑا سا مختلف ہے کیونکہ میری پوری کائنات میرے مرشد و مربی باباجانؒ کے گرد گھومتی ہے اور ان سے جڑی ہر نسبت میرے لیے جان سے عزیز ہے اور ان شاء اللہ تادم مرگ رہے گی۔
علماء وشہداء کے اس گھرانے کے جد امجد ولی کامل شیخ الحدیث مولانا عبدالحقؒ کے ساتھ میرے باباجان کا ایسا روحانی قلبی تعلق تھا کہ ان کی زندگی میںان کی ملاقاتوں اور مولانا عبدالحقؒ کی رحلت کے بعد باباجانؒ جس انداز میں ان کو یاد کرتے تھے دونوں پر رشک آتا تھا، تادم مرگ وہ کئی تحاریک میں ایک ساتھ مل کر جدوجہد کرتے رہے،مولانا عبدالحقؒ کی رحلت کے بعد شہید اسلام مولانا سمیع الحق شہید صاحبؒ کے ساتھ میرے باباجان ؒکے اس بے تکلف اور قلبی تعلق کا خاکہ کھینچنے سے میرا قلم قاصر ہے۔مولانا سمیع الحق صاحبؒ کی شہادت پر میں نے اپنے باباجان کو جتنا غمگین اور نڈھال پایا یہ صرف میرے بڑے بھائی مولانا فضل اللہ کلیم کی وفات یا جب ۹؍۱۱کے امریکا بدمست ہاتھی کی طرح امارت اسلامیہ افغانستان پر چڑھ دوڑا اور باباجانؒ افعانستان سے واپس پہنچے ان دو مواقع کے بعد تیسرا موقع مولانا سمیع الحقؒ کی شہادت پر دلگیر پاپا۔
مولانا سمیع الحق ؒکی شہادت کے بعد مولانا حامد الحق حقانیؒ نے باباجانؒ کو اپنے روحانی باپ کی طرح عزت دی اور ہر موقع پر حاضری دی، پھر جب باباجانؒ رحلت کر گئے تو لاکھوں عقیدت مندوں کے درمیان ہزاروں اکابرین و بزرگان ایسے تھے جن کی خواہش تھی اور ہماری بھی خواہش تھی کہ مظہرالعلوم سے جنازگاہ تک ایمبولینس میں باباجانؒ کے ساتھ بیٹھ جائیں مگر یہ سعادت بھی چند افراد کے علاوہ مولانا حامد الحق حقانی ؒکو ملی جو میرے باباجانؒ کے ساتھ ان کی قلبی تعلق پر مہر تصدیق ثبت کرنے کے لیے کافی ہے اور باباجان کی رحلت کے بعد مولانا حامد الحق حقانی ؒمجھ سے ایسے جڑ گئے کہ مجھے یقین نہیں آتا۔
میری ان سے طویل اور خوشگوار ملاقات امارت اسلامیہ افغانستان کے دوبارہ فتح مبین اور افعانستان سے نیٹو فورسز کے بھاگ جانے کے بعد لاہور پریس کلب میں ہوئی جس کے بعد وہ پورے وفد کے ساتھ میرے گھر تشریف لائے اور مجھے ان کی خدمت کی سعادت حاصل کرنے کا موقع ملا، اس طویل نشست میں کئی بار باباجان ؒاور شہید اسلام مولانا سمیع الحق ؒکا ذکرخیر کچھ اس طرح آیا کہ افعانستان میں امارت اسلامیہ کی فتح پر دونوں کی روح مسرور ہوں گی۔
مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ میری مولانا حامد الحقؒ کے بڑے صاحبزادے سے پہلی بار ملاقات ہوئی اور اس طرح مجھے ایک تابعدار اور دل موہ لینا والا بھتیجا مولانا عبدالحق ثانی کی شکل میں ملا اور اس دن کے بعد تقریباً روازنہ کی بنیاد پر میرا بھتیجا میرے ساتھ رابطے میں رہا،اللہ رب العزت مولانا حامد الحق حقانی ؒکے جانشین مولانا عبدالحق ثانی کو کامل روحانی جسمانی صحت کے ساتھ اپنے دادا مولانا عبدالحق ؒکی طرح لمبی عمر اور نافع علم اور عمل سے نوازے، ان شاء اللہ ان کے ذریعے میں یہ رشتہ اور تعلق اپنی اولاد محمد ابوبکر اور محمد عمر کے ساتھ اپنے خاندان کی آئندہ نسلوں کے لیے چھوڑ کر جاؤںگا کیونکہ دونوں خاندانوں کا یہ قلبی اور روحانی تعلق دو چار برس کی بات نہیں بلکہ تین صدیوں پر محیط طویل داستان ہے اور میرے پاس میرے باباجانؒ کی میراث ہے جو میں اپنی اولاد کو وراثت میں چھوڑ کر جاؤں گا۔
آج میں اپنے باباجانؒ کی طرح کرب و اذیت سے دوچار نڈھال ہوں کیونکہ میں آج اپنے باباجانؒ سے میراث میں ملے مولانا حامد الحق حقانیؒ کی رفاقت سے محروم ہو گیا ہوں، وہ دارالعلوم حقانیہ کی جامع مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد مسجد سے باہر نکلے، مسجد کے سیڑھیوں کے سامنے ان کے گھر کا دروازہ تھا، مسجد سے باہر نکل کر وہ حسب روایت اپنے عقیدت مندوں سے مل رہے تھے، اس دوران کچھ غرباء ومساکین بھی ان سے مدد کی غرض سے ملنے آتے تھے، مولانا حامد الحق حقانیؒ انہی میں مشغول تھے کہ ایک بدبخت خود کش بمبار بھکاری کے روپ میں ان سے ملنے آیا، مولانا نے اسے دیکھ کر جیب سے کچھ رقم نکالی اور اسے دینے کے لیے پدرانہ شفقت کے ساتھ ہاتھ آگے بڑھایا، بھکاری کے روپ میں بدبخت خودکش بمبار نے وہ رقم مولانا سے وصول کی اور ان کا ہاتھ چوما، ان سے گلے ملا اور اسی دوران اس نے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا کر جہنم واصل ہوا اور مولانا حامد الحق اپنے سینے پر تمغہ شہادت سجا کر اپنے پروردگار کے دربار میں پیش ہوئے۔ عینی شاہدین کے مطابق اگر خود کش بمبار تین منزلہ مسجد کے اندر خود کو دھماکے سے اڑاتا تو جانی نقصان کہیں گنا بڑھ جاتا۔خود کش دھماکے میں مولانا حامد الحقؒ کے ساتھ کئی اور مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا۔
مجھے ا س بات کا یقین ہے کہ مولانا عبدالحقؒ، مولانا سمیع الحق شہیدؒ اور باباجانؒ نے مل کر جنت الفردوس میں حامد الحق حقانی شہیدؒ کا استقبال کیا ہوگا کیونکہ اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے عمریں گزارنے، قربانیاں دینے اور جانوں کے نذرانے پیش والوں کو اللہ کریم ان کی شایان شان ابدی زندگی عطا کرتا ہے۔ مولانا حامد الحق حقانی کو شہیدؒ کرنے والا خود کش بمبار تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم کا ایندھن بن چکا ہے اور ان شا اللہ اس کے سہولت کار، سرپرست اور تمام کھلے چھپے مددگار بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ ایک مومن مسلمان کو قصداً عمدا قتل کرنے والے کی ذلت آمیز سزا کا اندازہ یہاں سے لگا لیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ہی آیت میں نہ صرف ایسے قاتل کیلئے دوزخ کی سزا کا ذکر کیا ہے بلکہ اسے اللہ نے اپنے غضب، لعنت اور زبردست عذاب کا بھی حقدار قرار دیا ہے۔ سورئہ النساء آیت ۹۳میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرے تو اس کی سزا دوزخ ہے کہ مدتوں اس میں رہے گا اور اس پر اللہ غضب ناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور اس نے اس کیلئے زبردست عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘حضور نبی اکرم ؐنے مسلمانوں کا خون بہانے، انہیں قتل کرنے اور فتنہ و فساد برپا کرنے کو نہ صرف کفر قرار دیا ہے بلکہ اسلام سے واپس کفر کی طرف پلٹ جانا قرار دیا ہے۔ علماء فرماتے ہیں کہ اسے اصطلاحِ شرع میں اِرتداد کہتے ہیں اور مرتد واجب القتل ہوتا ہے۔ امام بخاری حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ؐنے فرمایا کہ تم میرے بعد ایک دوسرے کو قتل کرنے کے سبب کفر کی طرف نہ لوٹ جانا یعنی اس طرح کے قاتل ایمان سے فارغ ہو کر دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتے ہیں۔
تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ولی کامل شیخ الحدیث مولانا عبدالحقؒ کے اس عظیم خانوادے نے ہمیشہ اسلام کی سربلندی کے لیے مثالی اور قابل تحسین و قابل تقلید جدوجہد کی، اسلام کی تعلیمات اور قرآن و سنت کی ترویج و اشاعت کو مشکل سے مشکل گھڑی میں بھی نہیں چھوڑا،اس بات کا عملی ثبوت مولانا سمیع الحق ؒکی شہادت ہے، اتنا بڑا سانحہ رونما ہونے کے باوجود ان کے خانوادے، دارالعلوم حقانیہ اور ان کی جماعت جمعیت علما اسلام(س) نے نہ سڑکیں بلاک کیں، نہ جلاؤگھیراؤ کیا اور نہ ہی توڑ پھوڑ کی مگر ریاست نے بلا کی بے حسی کا مظاہرہ کیا اورسات سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود قاتل گرفتار ہوئے نہ اس بہیمانہ قتل کے منصوبہ ساز، مگر قاتل اور منصوبہ ساز یہ جان لیں کہ اللہ کے حکم کے مطابق شہید اسلام مولانا سمیع الحق شہیدؒ کے خاندان نے صبر کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا مقدمہ اللہ رب العزت کے دربار میں اسی وقت پیش کیا تھا اور ان شاء اللہ منتقم اللہ ان سفاک قاتلوں، ان کے سہولت کاروں اور منصوبہ سازوں سے اپنی شان کے مطابق انتقام لے گا اور مولانا سمیع الحق شہیدؒ کو اپنے وعدے کے مطابق جنت الفردوس میں اعلی مقام اور اپنے محبوب خاتم النبیین حضرت محمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کے قرب سے نوازے گا۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق رحمہ اللہ کے اعلیٰ ظرف اورمحب وطن خاندان کے روایات کو دیکھتے ہوئے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ مولانا عبدالحقؒ کے علمی گلشن دارالعلوم حقانیہ میں ان کے پوتے اور شہید اسلام مولانا سمیع الحق شہیدؒ کے لخت جگر مولانا حامد الحق حقانیؒ کی خود کش حملے میں شہادت پر بھی نہ احتجاج ہوگا، نہ سڑکیں بلاک ہوں گی، نہ توڑ پھوڑ اور نہ جلاؤگھیراؤ کیا جائے گا مگر ریاست کے ذمے داروں نے کبھی سوچا ہے کہ آخر کب تک یہ ظلم برداشت کیا جاسکتاہے؟جہاں تک مولاناعبدالحقؒ کے خاندان کاتعلق ہے، اللہ کی رضا پر راضی اس خانوادے نے ایک بار پھر اپنی روایات کے مطابق اپنا مقدمہ اور ایف آئی آر منتقم اللہ کے دربار و عدالت میں جمع کردی ہے، اس اذیت ناک اور جذباتی موقع پر جس طرح مولانا انوار الحق دامت برکاتہم عالیہ سے لے کر شہید ابن شہید حامد الحق حقانی کے مجاہد بیٹوں، مولانا عبدالحق ثانی اور ان کے چھوٹے بھائی نے کیا ہے وہ قابل رشک اور قابل تقلید ہے۔جس طرح مولانا عبد الحق ؒسے مولانا سمیع الحق شہیدؒ اورمولانا سمیع الحق شہیدؒ سے مولانا حامد الحق حقانی شہیدؒ تک اس خانوادے، ان کے علمی گلشن اور قرآنی علوم کے مرکز دارالعلوم حقانیہ کے شیوخ، اساتذہ کرام، طلبائے کرام ، جامعہ کے منتظمین اور ان کی جماعت نے اسلام اور پاکستان کا پرچم مضبوطی سے تھام کے رکھا ہے ان شاء اللہ ان کے بھائی، بیٹے، شاگرد اور کارکنان آئندہ بھی اسلام اور پاکستان کا پرچم تھامے رکھیں گے، مگرکیا ریاست ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لئے ان سفاک قاتلوں کے سہولت کاروں کو نشان عبرت بنانے کا ارادہ رکھتی ہے،یا مولانا سمیع الحق شہیدؒ کے کیس کی طرح بھول جائیں گے؟جمعیت علما اسلام پاکستان کے قائد مولانا فضل الرحمن جو اس وقت سعودی عرب کے سفر پر ہیں نے اس ظالمانہ اور سفاکانہ خود کش حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے بالکل درست کہا کہ دارلعلوم حقانیہ اور مولانا حامد الحق حقانی پر حملہ میرے گھر اور مدرسے پر حملہ ہے، ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے، جمعہ اور ماہ رمضان کی آمد کی حرمت کو پامال کیا، دہشت گردی اور بے امنی معاشرے کے لیے ناسور بن چکی ہے، امن و آمان کی ناگفتہ بہ صورتحال قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے، کسی کی جان، مال، عزت اور آبرومحفوظ نہیں، خیبر پختونخوا میں بے امنی کے بارے میں عرصے سے رونا رو رہے ہیں لیکن ریاست خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے،ریاست کی بے حسی اور لاتعلقی کو دیکھ کر لگتا نہیں کہ ہمارے حکمرانوں کے سینوں میں دل اور دل میں خوف خدا موجود ہے اگر ریاست شہید اسلام مولانا سمیع الحق شہیدؒ کے سفاک قاتلوں کو نشان عبرت بناکر دارلعلوم حقانیہ کے لان میں الٹا لٹکا دیتے تو آج مولانا حامد الحق حقانیؒ کی شہادت کا سانحہ رونما نہ ہوتا۔
ریاست کو اب ہوش کے ناخن لے کر یہ ماننا پڑے گا کہ دارالعلوم حقانیہ اورمولانا حامد الحقؒ پر حملہ پاکستان کی سلامتی کے اداروں پر حملہ ہے، یہ جس نے کیا انہوں نے پاکستان کی بنیادوں میں بارودی سرنگ بچھانے کی کوشش کی ہے، خیبر پختونخوا میں کافی عرصے سے حکومت صرف دھرنوں اور جلسوں کی سرکار بنی ہوئی ہے مگر مولانا حامد الحق حقانی ؒکی شہادت صوبائی حکومت کی کارکردگی پر بہت بڑا سوالیہ نشان اور داغ ہے، صوبائی حکومت عوام کی جان و مال، عزت آبرو کی حفاظت میں جس بری طرح ناکام ہوچکی ہے ، وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، اس کی پوری تصویر چند روز قبل مولانا فضل الرحمن نے قومی اسمبلی میں تقریر کے دوران دکھا دی ہے، پاکستان کے مقتدر حلقے مولانا کی اس تقریر کو سنجیدگی سے سنیں، اس میں دہشت گردی سے نمٹنے کا ٹھوس حل موجود ہے۔
اللہ کریم مولانا حامد الحق حقانیؒ کی شہادت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے، ان کے تمام پسماندگان خصوصاً ان کے جواں سال جانشین مولانا عبدالحق ثانی اور ان کے اہل خانہ کو اپنے حفظ و آمان میں اور ان کے خاندان سمیت ہم سب کو صبر جمیل عطا کرے۔ (آمین )