مائیکرو فنانس :چھوٹا قرضہ فراہم کرنے والی ایپلی کیشن

ڈاکٹر مبشر حسین رحمانی

مائیکرو فنانس :چھوٹا قرضہ فراہم کرنے والی ایپلی کیشن

(ڈاکٹر مبشر حسین رحمانی (لیکچرر مِنسٹر ٹیکنالوجی یونیورسٹی آف آئرلینڈ

کمپیوٹر سائنس، انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز میں ہونے والی ترقی کی وجہ سے معاشی و مالیاتی نظاموں کی جدید شکلیں وجود میں آرہی ہیں نیز اس وقت ترقی یافتہ ممالک میں قرضہ فراہم کرنے کے حوالے سے نِت نئے طریقے بھی عوام کے سامنے تجربات کیلئے لائے جارہے ہیں۔ان نِت نئے مالی معاملات میں سے کچھ کے پیچھے انسانیت کی بھلائی کا جذبہ کارفرما ہے جبکہ کچھ کے پیچھے لالچ اور ہوس ہے نیز چونکہ آج کل کے جدید معاشی نظام میں مائیکرو سیکنڈز کے حساب سے مالی معاملات کی انجام دہی کی جارہی ہے اور بعض لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نت نئے مالی معاملات بھی مارکیٹ میں متعارف کرواچکے ہیں لہٰذا عالمی سطح پر اسی پیشرفت کی وجہ سے پاکستان میں بھی مائیکرو فنائنس یعنی چھوٹا قرضہ فراہم کرنے والی کئی ایپلی کیشنز (لون ایپس)کا آغاز ہوچکا ہے جن کے ذریعے صارفین موبائل فون کے ذریعے چھوٹے قرضے (مائیکرو فنائنس)حاصل کرسکتے ہیں اور صارفین کو یہ قرضہ محدود مدت میں واپس کرنا پڑتا ہے۔

آج سے کچھ سالوں پہلے بڑے قرضوں کے حصول کے لیے بینکوں سے رجوع کرنا پڑتا تھا ، پھر چھوٹے قرضوں کی فراہمی کا سلسلہ شروع ہوا جس سے مائیکروفنائنس بینکنگ کا نظام وجود میں آیا پھر حال ہی میں مختلف کمرشل کمپنیوں اور اداروں کو چھوٹے قرضے فراہم کرنے کا لائسنس جاری ہونے کا سلسلہ شروع ہوا جن میں موبائل فون کمپنیاں سرفہرست تھیں جو کہ موبائل فون اور انٹرنیٹ کی سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ قرضہ بھی فراہم کرنے لگیں،کچھ کمپنیاں چھوٹے قرضے مختلف عنوانات سے جاری کرتی ہیں جن میں اسکول کی فیس، کاروبار کے لیے قرضہ، گاڑی کی خریداری کے لیے قرضہ اور کاشتکاری کے لیے قرضہ کی فراہمی تک شامل ہیں۔ 

چھوٹا قرضہ فراہم کرنے والی ایپلی کیشنز (لون ایپس)سے قرضے کی فراہمی اتنی آسان ہو گئی ہے کہ صرف چند گھنٹوں میں قرضے کا حصول ممکن ہے۔چھوٹا قرضہ فراہم کرنے والی یہ ایپلی کیشنز کبھی سودسے پاک مالیاتی خدمات فراہم کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں تو کبھی تجارت کا عنوان، کبھی سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کا لائسنس دکھاتی ہیں تو کبھی شریعہ ایڈوائزر کا جاری کردہ فتویٰ، غرض عوام الناس کے سامنے مختلف طریقوں سے اپنی ایپلی کیشنز کی ترویج و اشاعت کرتی ہیں، بعض مرتبہ چھوٹا قرضہ فراہم کرنے والی یہ ایپلی کیشنز اسلامک فنائنس کے عنوان سے اپنے آپ کو پیش کرتی ہیں۔ عوام الناس کو چونکہ شرعی معاملات کا اتنا گہرائی میں علم نہیں ہوتا لہٰذا وہ سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کا لائسنس اور شریعہ ایڈوائزر کے جاری کردہ فتویٰ پر بھروسہ کرتے ہیں اور ان ایپلی کیشنز سے چھوٹا قرضہ لے لیتے ہیں،جب ان ایپلی کیشنز کا گہرائی میں جائزہ لیا گیا تو چشم کشا تفصیلات سامنے آئیں،ہم اپنے قارئین کے سامنے ان ہی میں سے ایک ایپلی کیشن کے کام کا طریقہ کار پیش کرتے ہیں ۔

چھوٹا قرضہ فراہم کرنے والی ایک ایپلی کیشن کا طریقہ کار یہ ہے کہ اگر کسی کو دس ہزار روپے قرض درکار ہوں تو وہ اس ایپلی کیشن کے ذریعے قرض کی درخواست دے گا۔ یہ ایپلی کیشن  صارف کے کوائف کی جانچ پڑتال کے بعد کچھ گھنٹوں کے اندر دس ہزار کی رقم فراہم کر دے گی۔اگر صارف نے قرضہ لیتے وقت ایک ماہ میں یہ رقم لوٹانے کا کہا ہے تو ایک ماہ بعد صارف کو 12,250 روپے واپس کرنے ہوں گے (جبکہ پندرہ دن میں لوٹانے کی صورت میں گیارہ ہزار ایک سو پچیس روپے لوٹانا ہوں گے)۔بارہ ہزار دو سو پچاس روپے جو صارف کو لوٹانے ہوں گے اس میں اس ایپلی کیشن کا مقرر کردہ اے پی آر (Annual Percentage Rate – APR) جو کہ تقریباً 273.75 فیصد ہے شامل ہے، جبکہ یہ کوئی فیس چارج نہیں کرتے یعنی فیس صفر روپے ہے۔ اس قرضہ فراہم کرنے والی ایپلی کیشن کی ویب سائٹ پر مہیا کی گئی معلومات کے مطابق اس میں کوئی پروسیسنگ فیس شامل نہیں ہے اور نفع کی شرح روزانہ0.75% ہے جو کہ دو ہزار دو سو پچاس روپے بنتے ہیں،تاخیر سے ادائیگی کا خیراتی عطیہ 75 روپے ہے(مثال کے طور پر ایک دن کی تاخیر کے لیے 75 روپے کا خیراتی عطیہ ادا کرنا ہوگا جو پرنسپل اور نفع میں شامل ہوگا اور یہ رقم چیریٹی صدقہ و فلاحی کاموں میں جائے گی)۔

اس قرضہ فراہم کرنے والی ایپلی کیشن کی ویب سائٹ پر درج ہے کہ یہ کمپنی سود سے پاک مالیاتی خدمات فراہم کرتی ہے اور ان کا دعوی ہے کہ یہ سود نہیں بلکہ تجارت ہے۔ اس کا طریقہ کار انہوں نے یوں بیان کیا ہے کہ جب صارف کو دس ہزارروپے دیے جاتے ہیں، تو بنیادی طور پر سب سے پہلے وہ اپنے پارٹنر ( ایک کموڈیٹی بیچنے والے)سے کموڈتی خریدتے ہیں دس ہزار روپے کی، پھر کموڈیٹی بیچنے والا اس کموڈیٹی کی ملکیت اس پارٹنر کو منتقل کر دیتی ہے۔ اس کے بعد پاٹنر یہ کموڈیٹی (سامان)صارف کو بارہ ہزار دو سو پچاس روپے کی مؤخر ادائیگی (Deferred Payment)کی بنیاد پر فروخت کرتا ہے، جس میں قیمت مع نفع شامل ہے،اس کے بعد صارف یہ کموڈیٹی کیش قیمت پر مارکیٹ قیمت پر (دس ہزار روپے)میں کموڈیٹی خریدنے والے کو بیچ دیتا ہے۔ کموڈیٹی خریدنے والا کیش پیمنٹ دس ہزار روپے صارف کو دے دیتا ہے۔اس طریقے سے صارف کو دس ہزار روپے کیش قرضہ مل جاتا ہے،یہاں یہ بات پیشِ نظر رہے کہ صارف کو یہ سارا عمل نظر نہیں آرہا ہوتا، وہ تو بس موبائل اپیلی کیشن پر دس ہزار قرضہ کی درخواست دیتا ہے اور یہ سارا عمل پیچھے ہورہا ہوتا ہے۔ پھر جب صارف کو قرضہ لوٹانا ہوتا ہے تو وہ بارہ ہزار دو سو پچاس روپے پاٹنر کو مؤخر ادائیگی کی مد میں ادا کرے گا مستقبل کی تاریخ پر، اس پر یہ پورا عمل انجام پاتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ یہ تمام عمل ایپلی کیشن خود انجام دیتی ہے اور صارف دس ہزارروپے کی درخواست دے گا اور ایک ماہ بعد بارہ ہزار دو سو پچاس روپے واپس کرے گا۔ اس ایپلیکیشن کو سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن (SECP)نے منظور کیا ہے اور ان کے پاس شریعہ ایڈوائزر بھی ہیں۔

اس ایپلی کیشن کی ویب سائٹ پر ایک فتوی موجود ہے جس میں تحریر ہے کہ 

’’یہ ایپلی کیشن مختلف ٹیلی کمیونیکیشن سروس پرووائیڈرز سے مخصوص ایئر ٹائم خریدتی ہے اور اسے اپنے ان صارفین کو فروخت کرتی ہے اور یہ فروخت مؤخر ادائیگی کی بنیاد پر ہوتی ہے، اسکے بعد صارفین کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ ایئر ٹائم کو اپنے موبائل سم میں منتقل کریں یا ایک ایجنٹ مقرر کریں جو ایئر ٹائم کو اپنی کسٹمرز؍ریٹیلرز کو فروخت کرے اور فروخت کی کامیابی پر صارفین کو نقد رقم فراہم کرے، مالی نظم و ضبط کو فروغ دینے اور بروقت قیمت کی ادائیگی میں تاخیر کو روکنے کے لئے یہ ایپلی کیشن صارفین کی اپنی مرضی کے مطابق چیریٹی جمع کرتی ہے اور اس کو صارفین کی جانب سے خیراتی مقاصد کیلئے استعمال کرتی ہے۔‘‘

چونکہ یہ ایپلی کیشن ائیر ٹائم کو استعمال کرتی ہے لہٰذا ہم ائیر ٹائم کی تعریف بیان کرتے ہیں۔ ائیر ٹائم کی تعریف یہ ہے کہ جتنی دیر موبائل فون پر صارف کال، میسیج یا انٹرنیٹ استعمال کرتا ہے اس ائیر ٹائم کہا جاتا ہے، ایئرٹائم ( Airtime)پیدا نہیں ہوتا، خرچ نہیں ہوتا بلکہ انٹرنیٹ سروس مہیا کرنے والے یا موبائل فون کمپنیاں صرف اس بات کا حساب رکھتے ہیں کہ کس نے کتنا انٹرنیٹ ایئرٹائم استعمال کیا، یا کال کی یا میسج کیے اور پھر اسی کے حساب سے اپنے اخراجات اور منافع کو ذہن میں رکھتے ہوئے صارفین سے فیس مختلف پیکجز کی صورت میں وصول کرتے ہیں۔اس قرضہ فراہم کرنے والی ایپلی کیشن کے کام کا طریقہ کار اور تکنیکی تفصیلات مع چند سوالات پاکستان بھر کے مستند دارالافتا اور مفتیانِ کرام کی خدمت میں پیش کیے گئے، ہم پہلے وہ سوالات قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ۔

سوال نمبر۱ :  کیا اس طریقے سے قرض لینا جائز ہے؟ اگر کسی نے 10,000 روپے کا قرض لیا اور اسے ایک ماہ بعد 12,250 روپے کی صورت میں واپس کر رہا  ہے تو کیا یہ جائز ہوگا یا نہیں؟

سوال نمبر۲ :  اس ایپلی کیشن کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں اگر ایک دن میں دس ہزار افراد 10,000 روپے قرضے کی درخواست کرتے ہیں الگ الگ ، اور انہیں یہ قرض چند گھنٹوں میں مل جاتا ہے تو کیا یہ عملی طور پر ممکن ہے؟ یعنی اگر ہم اصلی کموڈتی کی بات کریں جیسے گیہوں، چاول وغیرہ تو ان کو رکھنا، ان کو بیچنا مشکل کا م ہوگا۔ اس کمپنی نے بجائے ان حقیقی کموڈتی کے ائیر ٹائم کو بطور کموڈتی اختیار کیا ہے۔جب یہ کمپنی دس ہزار 10,000 روپے کی کموڈیٹی (ایئرٹائم)خرید رہی ہو اور پھر اسے بارہ ہزار دو سو پچاس 12,250 روپے میں صارفین کو بیچ رہی ہو، کیونکہ یہ قرض چند گھنٹوں میں فراہم کرتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ صارفین کی تعداد بڑھتی چلے جائے گی تو سوال یہ ہے کہ کیا یہ شرعی طور پر مناسب ہے؟

سوال نمبر۳ :  جب یہ طریقہ کار اختیار کیا جا رہا ہے کہ ایک کمپنی ہے جو قرضہ دے رہی ہے اور بڑے پیمانے پر دے رہی ہے اور عنوان بھی قرضے کا ہی ہے اور لوگ قرضہ ہی لے رہے ہیں لیکن اس کے پیچھے طریقہ کار فائننس کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ فنائنس کو طریقہ کار ہے تو اتنے بڑے پیمانے پر اس کو قرضہ کے عنوان سے کیوں کیا جارہا ہے؟ یعنی صارف کا مقصد قرضہ لینا ہے تو قرض تو شریعت میں بطور احسان کے لیا جاتا ہے اور اس پر منافع لینا سود ہے۔ قرض دینے والے اگر مقروض کو کوئی رعایت دیتا ہے قرضہ واپس لینے میں تو اس کو آخرت میں ثواب ملے گا تو سوال یہ ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر قرضہ فراہم کیا جارہا ہے اور اسکے پیچھے فنائنس کو استعمال کیا جارہا ہے، کیا ایسا کرنا شرعی طور پر مناسب ہے؟یعنی اگر کوئی کمپنی یہ کہے کہ ہمارے پاس انویسٹ کریں اور ہم آپ کو منافع دیں گے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے لیکن یہاں تو صارف کو قرضہ چاہئے اور وہ قرضہ لے بھی رہا ہے اور واپسی میں زیادہ پیسے دے رہا ہے، پھر اس عمل کو تمویل یا فنانسنگ کا نام کیوں دیا جا رہا ہے؟

سوال نمبر۴ :  یہاں بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ ایک کمپنی قرض دینے کے نام پر فنانسنگ کا عمل انجام دے رہی ہے، اگر یہ کمپنی انویسٹمنٹ یعنی سرمایہ کاری کے طور پر منافع دینے کا اعلان کرے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے لیکن یہاں تو صارف قرض لے رہا ہے اور اسے زیادہ رقم واپس کرنی ہوتی ہے، مفتی صاحب، کیا اس طرح کا عمل جائز ہے؟ کیا ایسا کرنا درست ہے؟

سوال نمبر۵ : اور کیا اس طرح بڑے پیمانے پر کمپنیوں کو اس بات کی اجازت دینا کہ وہ قرضے کے نام پر فنانسنگ کر رہی ہوں، مناسب عمل ہے؟ پوری معیشت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو پورے پاکستان میں یہ جو سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن (SECP) لائسنس جاری کر رہا ہے، یہ عملی طور پر رائج ہو چکا ہے اور لوگ قرضے لے رہے ہیں، کیا یہ اصولی طور پر صحیح ہے؟

سوال نمبر۶ :  جب ہم روزمرہ کی زندگی میں کسی سے قرضہ لیتے ہیں تو وہ بطور احسان ہمیں قرضہ دیتا ہے اور ہم اسکو کچھ عرصے بعد لوٹانے کا کہتے ہیں اور اس میں شرعی طور پر وہ ہم سے کوئی چیز گروی بھی رکھ سکتا ہے، ہم جب اسکو قرضہ لوٹائیں گے تو وہ مالیت وہی ہونی چاہیے جو اس نے قرضہ دیتے وقت دی تھی ورنہ اضافہ سود کہلائے گا اگر کسی نے روپے میں قرضہ لیا ہے اور چونکہ روپے کی گراوٹ کو وجہ سے اگر وہ یہ کہے کہ تین سال پہلے تم نے دو لاکھ روپے قرضہ لیا تھا، اب چونکہ روپے کی قدر میں گراوٹ آئی ہے اور ہم اتنی مالیت کے اثاثے اس سے نہیں خرید سکتے لہٰذا زیادہ پیسے دیے جائیں تو اس کو ہمیشہ سے سود کہا جا تا رہا ہے، اگر کسی کو قدر کو محفوظ رکھنا ہے تو وہ سونے کو بطور قرضہ دے دے، اس سے اگر کچھ سال بعد بھی قرضہ واپس ادا کیا جائے گا تو اسکی قدر برقرار رہے گی تو کیا اب ہمیں قرضے کے نظریہ کو سرے سے شریعت میں سے ختم کردینا چاہیے نعوذ باللہ اور اسکے بجائے جب کو شخص قرضہ فراہم کرے تو اس کمپنی کا حیلہ اختیار کرلے تو کیا اس کرنا جائز ہوگا؟

سوال نمبر۷ : کیا ائیر ٹائم کو بطور کموڈٹی خریدوفروخت کرنا جائز ہے اور اس کمپنی کا اسے بطور کموڈتی قرضہ کے حیلہ کے طور پر استعمال کرنا جائز ہے؟

مندرجہ بالا سوالات کے جوابات پاکستان بھر کے جن مستند دارالافتاؤں سے موصول ہوئے ان میں سے چند کے نام یہ ہیں: دارالافتا جامعہ دارالعلوم الصفہ کراچی، دارالافتا جامعہ خیر المدارس ملتان، دارالافتا جامعہ الحسنین فیصل آباد، دارالافتا جامعہ دارالعلوم رحمانیہ کراچی، دارالافتا جامعہ نعیمیہ لاہور، دارالافتا و التحقیق جامع مسجد ابو بکر صدیق کراچی اور دارالافتا جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی شامل ہیں۔پاکستان بھر کے یہ تمام مستند مدارسِ دینیہ، جید مفتیانِ کرام اور دارالافتا چھوٹا قرضہ فراہم کرنے والی اس ایپلی کیشن سے متعلق متفقہ طور پر کہتے ہیں کہ اس ایپلی کیشن سے قرضہ لینا جائز نہیں اور یہ سود ہونے کی وجہ سے ناجائز و حرام ہے۔

   ا ب ہم قارئین کی سہولت کے لیے ان تمام مستند دارالافتاؤں کے جوابات کا خلاصہ پیش کرتے ہیں۔

’’دس ہزار قرض لینا اور ایک مہینہ بعد بارہ ہزاردوسو پچاس واپس کرنا ، قرض پر نفع کا لین دین ہے، جو کہ سود ہونے کی وجہ سے شرعا ناجائزوحرام ہے۔کمپنی کا ایئر ٹائم کی بطورِ کموڈیٹی خریدو فروخت چوں کہ قرض پر نفع لینے کا ایک حیلہ ہے، جس کا اختیار کرنا شرعا جائز نہیں؛ کیوں کہ اس کا مقصد وہی قرض پر نفع لینا ہے، جو کہ سود ہونے کی وجہ سے ناجائز وحرام ہے۔قرض دے کر اس پر اضافی نفع لینا اور اس کو فائنانسنگ کا نام دینا قطعا درست نہیں۔شریعت میں تجارت کی جائز ایسی کوئی صورت نہیں ہے کہ قرضہ دے کر از خود مقروض کو خریدار اور پھر بائع شمار کرکے اضافی رقم کو نفع تصور کیا جائے۔اس ایپلی کیشن کے پیچھے پاٹنر کا کموڈٹی کی خریدوفروخت کرنا ایک فرضی صورت ہے اور مقروض کو دھوکہ دینا بھی ہے۔اس کے علاوہ ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے بطور جرمانہ جو خیراتی عطیہ پچھتر روپے فی یومیہ وصول کیا جاتا ہے یہ بھی ناجائز ہے کہ یہاں قرض کے ساتھ تاخیر کی وجہ سے خیراتی عطیہ دوسری شرط ہے۔اس طرح مشروط خیراتی عطیہ جبرا لینا جائز نہیں۔یہ بیع عینہ ہے جو کہ سود کا حیلہ اور ناجائز ہے۔اس عمل کو فائنانسنگ کا نام اس لیے دیا جارہا ہے کیوں کہ اس میں بیع عینہ کو اختیار کیا گیا ہے جو کہ سودی نفع حاصل کرنے کا تجارتی طریقہ ہے۔‘‘

’’یہ محض زبانی کلامی ایک دعوی اور دھوکہ کے سوا کچھ نہیں، اس لیے کہ ائیر ٹائم موبائل کمپنیاں فراہم تو کرتی ہیں واپس خریدتی نہیں ہیں، مثلا اگر موبائل فون میں سو روپے کا ایزی لوڈ کروایا جائے تو ٹیکس وغیرہ کی کٹوتی کے بعد وہ کم و بیش نوے روپے میسر ہوتا ہے، پھر اس نوے روپے کو کسی جگہ کیش نہیں کرایا جاسکتا کہ کمپنی موبائل بیلنس کی شکل میں نوے روپے واپس لے کر اس کے بدلے نقد رقم دیدے، البتہ اپنے کسی عزیز دوست کو یہ بیلنس شئیر کرکے اس سے نقد رقم وصول کی جاسکتی ہے، لیکن اس میں بھی کٹوتی ہوجاتی ہے۔ اس طرح بیلنس کے خریدار ناپید ہیں، لہٰذا ائیر ٹائم فراہم کرنے اور پھر اس کو مارکیٹ میں بیچنے کا دعویٰ محض زبانی کلامی بات ہے، حقیقت یہی ہے کہ کمپنی اکانٹ میں رقم ہی فراہم کرتی ہے،اگر تسلیم کرلیا جائے کہ کمپنی دس ہزار روپے قرض نہیں دیتی بلکہ دس ہزار روپے کا ائیر ٹائم ہی دیتی ہے اور مستقرض یہ ائیر ٹائم اسی کمپنی کو ہی دے کر ان سے رقم وصول کرلیتا ہے تو یہ بیع عینہ کی وہ صورت ہے جس کے مکروہ تحریمی میں کسی کا اختلاف نہیں اور امام محمدؒ یہ فرماتے ہیں کہ یہ سود خوروں کی ایجاد کردہ بیع ہے۔

قارئین غور فرمائیں کہ کس طریقے سے پاکستانی معاشرے میں چھوٹا قرضہ فراہم کرنے والی ایپلی کیشن کو رائج کیا گیا ہے، اس کو استحکام دینے کے لیے مختلف عنوانات دیے گئے مگر جب پاکستان بھر کے مستند دارالافتاؤں سے پوچھا گیا تو انہوں نے اس ایپلی کیشن سے قرضہ لینے کو سود قرار دے کر ناجائز اور حرام قرار دیا ہے۔ہمیں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیسے اس طرح کی کمپنیوں کو سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کی جانب سے لائسنس فراہم کیا گیا؟ کیسے اس کمپنی کی شریعہ ایڈوائزی کمیٹی نے اس قرضہ فراہم کرنے کے معاملہ کے جائز ہونے پر فتوی جاری کیا؟ کیا اس کمپنی کے شریعہ ایڈوائزی کمیٹی کے سامنے پاکستان بھر کے مستند دارالافتاؤں کا مؤقف نہیں؟ ہم امید کرتے ہیں کہ متعلقہ ادارے اور صاحبانِ علم ان تمام گزارشات پر غور فرمائیں گے نیز ہم عوام الناس سے بھی گزارش کریں گے کہ وہ کوئی بھی معاملہ انجام دینے سے پہلے پاکستان کے مستند دارالافتاؤں سے رجوع کریں تاکہ وہ غیر شرعی معاملات سے بچ سکیں۔

آخر میں ہم قارئین کی خدمت میں اکابرینِ امت کے قرض سے متعلق ارشادات پیش کرتے ہیں، قرض (دین)سے متعلق شریعت کے واضح احکامات موجود ہیں جن کا خلاصہ حضرت مفتی رفیق احمد بالاکوٹی صاحب دامت برکاتہم اپنے مضمون ’’سود اور اس کے متعلقہ مباحث‘‘، پہلی قسط، جمادی الاخری ۱۴۳۵ھ۲۰۱۴ء مئی ، ’’ماہنامہ‘‘ بینات میں تحریر فرماتے ہیں کہ :

٭ قرض ایک معاوضاتی معاملے کے بجائے ایک تبرعاتی معاملہ ہے، جس میں عبادت کا پہلو غالب ہے۔

٭ قرض دینا صدقہ کرنے سے بھی بڑھ کر عبادت قرار دیا گیا ہے۔

٭ قرض لینا حاجت پر مبنی ہے، یعنی قرض ضرورتِ شدیدہ کی بنا پر ہی لیا جانا چاہیے۔

٭ قرض لے کر لوٹانا حقوق العباد میں سے ایک بہت اہم حق ہے، حتی کہ ایک موقع پر اس کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے والے شخص پر بنی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے جنازہ پڑھانے سے بھی انکار فرمادیا اور قرض کی ادائیگی کے باوجود ادائیگی کی استطاعت رکھنے کے ٹال مٹول کرنے کو ظلم فرمایا گیا ہے جو کہ قیامت میدانِ حشر میں اندھیریوں کا سبب ہوگا۔

  حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سود پر تاریخی فیصلہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ:

’’موجودہ سیکولر سرمایہ داری نظام اور اسلامی اصولوں کے درمیان ایک اور بنیادی فرق یہ ہے کہ سرمایہ داری نظام میں قرضوں کا مقصد صرف تجارتی ہوتا ہے تاکہ قرضوں کے ذریعے قرض دینے والے ایک متعین نفع کما سکیں، اسکے برخلاف اسلام قرضوں کو نفع کمانے کا ذریعہ قرار نہین دیتا، اس کے بجائے ان کا مقصد یا تو انسانیت کی بنیاد پر دوسروں کی مدد کرکے ثواب کمانا ہوتا ہے یا پھر کسی محفوظ ہاتھ میں اپنی رقم کو محفوظ کرناہوتا ہے۔ جہاں تک سرمایہ کاری کا تعلق ہے، اسلام میں اس کیلئے دوسرے طریقے ہیں مثلاً شرکت وغیرہ، لہذا قرضوں کے عقد کے ذریعے نفع اندوزی نہیں کی جاسکتی۔‘‘