انسانی اعضاء کی پیوند کاری کا شرعی جائزہ

مولانا مفتی محمد سفیان حقانی
ابن حضرت مولانا مفتی ذاکر حسن نعمانی
خطباتِ حکیم الاسلامؒ میں ایک مضمون ’’اعضاء کی پیوند کاری‘‘ کے نام سے نظرسے گزرا،جس میں حضرت حکیم الاسلامؒ قاری محمد طیب ؒفرماتے ہیں کہ اس جسم کے ہم مالک نہیں ہیں،یہ سرکاری مشین ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے۔اگر آپ مالک ہوتے یا آپ کے قبضے میں ہوتا تو آپ کبھی اس جسم کو بیمار نہ ہونے دیتے،کبھی کسی عضو کو اپنی جگہ سے ٹلنے نہ دیتے مگر آپ مالک نہیں ہیں۔بیماری آتی ہے تو آپ کوسر جھکا دینا پڑتا ہے۔صحت آتی ہے جب بھی سرجھکا دیتے ہیں،تو اگرآپ اپنے جسم کا کوئی عضو کسی دوسرے کو دینا چاہیں تواول تو مالک نہیں۔اس کے علاوہ آپ نے ایک شخص کو اپنی آنکھ دے دی تو قیامت کے دن وہ کہے گا کہ اب چونکہ یہ میری ملک ہوگئی لہٰذاتم اندھے رہواور یہ جسم جو ہے، برزخ ہو یا آخرت،عذاب اسی پر واقع ہوگا،لہٰذا آپ کو کیا حق ہے کہ آپ جسم کاکوئی عضو کسی دوسرے کو دے دیں؟کچھ تقدیم وتاخیر اور اختصار کیساتھ حضرت حکیم الاسلامؒ کے اس مضمون سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسانی اعضا کی نہ بیع جائز ہے نہ تبرع لیکن یہ معاملہ آج کل عام ہوچکا ہے لہٰذا اس موضوع پر کچھ لکھنا مناسب معلوم ہوا،تاکہ یہ معلوم ہو کہ شرعی نقطہ نظر سے انسانی اعضا کی بیع یا ہبہ جائز ہے یا نہیں؟لیکن یہ کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہے بلکہ علمائے کرام کی غوروفکر کیلئے اپنی ایک رائے کا اظہار ہے۔

انسانی اعضاء کی بیع یا ہبہ

انسان کے اجزا دراصل دو قسم کے ہیں۔ایک وہ جوپیدا ہوتے رہتے ہیں،جیسے خون، پسینا، بال، ناخن، عورت کا دودھ وغیرہ۔دوسری قسم وہ ہے جو متولد نہیں ہیں یعنی بار بار پیدا نہیں ہوتے، جیسے ہاتھ، پاؤں،آنکھ،دل، گردہ اور جگر وغیرہ۔

اول قسم کی بیع اور ہبہ

انسانی جسم میں پہلی قسم کے اجزا جو کہ متولد ہوتے رہتے ہیں،ان میں سے صرف خون کے بارے میں شریعت نے نجاست کا حکم لگایا ہے،باقی اجزا پاک ہیں۔مذکورہ اجزا میں عورت کے دودھ کی خریدوفروخت کے بارے میں فقہائے کرام کا اختلاف ہے۔احناف اور موالک عدم جواز کے قائل ہیںجبکہ شوافع اور حنابلہ کے ہاں جائز ہے۔اس کے علاوہ خون نجاست اور دیگر اجزا قابل منفعت نہ ہونے کی وجہ سے خریدوفروخت کے قابل نہیں ہیں،البتہ خون کی اگر ضرورت پڑجائے اور کوئی ایسا نہ ملے جو خون ہدیہ کرے،تو ایسی صورت میں خون خریدنے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے لیکن بیچنے والے کے لئے پیسے لینے حرام ہوں گے۔یہ بالکل رشوت جیسا معاملہ ہے کہ شدید ضرورت کے وقت رشوت دینا تو جائز ہوتا ہے لیکن لینا حرام ہوتا ہے۔یہی رائے شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ کی فقہ البیوع میں ہے اور انہوں نے خنزیر کے بالوں کے مسئلے پر قیاس فرمایا ہے، ہمارے فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ بوقت ضرورت خنزیر کے بالوں کو خریدنا جائز ہے اور فروخت ناجائز ہے لہٰذا بائع پیسوں کا مالک نہیں بنے گا۔حضرت شیخ الاسلام مد ظلہ فرماتے ہیں کہ یہی معاملہ پھر خون میں بھی ہوگا۔

متولد اجزا کا تبرع

مذکورہ تمام اجزا کے تبرع میں قدرے وسعت ہے یعنی ان سب کا تبرع جائز معلوم ہوتی ہے۔

بالوں کاتبرع

صحیحین کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے موقع پر اپنے بال مبارک تقسیم فرمائے تھے۔اس سے بالوں کے تبرع کا جوازمعلوم ہوتا ہے۔اسی طرح علامہ شامیؒ فرماتے ہیں:
لو اخذ شعر النبیؐ ممن عندہ،واعطاہ ھدیۃ عظیمۃ لا علی وجہ البیع،فلا باس بہ  (شامی کتاب البیوع،مطلب:الآدمی مکرم شرعاًولو کافراً)

پسینے کاتبرع

صحیح مسلم کی روایت ہے کہ حضرت ام سلیم ؓنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینے کو ایک بوتل میں جمع کردیاتھا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وجہ پوچھی تو عرض کیا کہ یہ ہم خوشبو میں ملاتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تصویب فرمائی۔

خون کاتبرع

البدایہ والنہایہ میں علامہ ابن کثیر ؒنے حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کے ترجمہ اور تاریخ میں ان کا ایک قصہ نقل فرمایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجامہ لگوایا اورخون بہانے کی غرض سیان کودیا،لیکن وہ مبارک خون انہوں نے پی لیا،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکیر نہیں فرمائی بلکہ انہیں دوزخ کی آگ سے نجات کی بشارت سنائی۔اب کوئی شخص کسی کا خون پی تو نہیں سکتالیکن تبرع کا جواز معلوم ہوتا ہے۔

ناخن کا تبرع

مسند احمد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلمکااپنے ناخن مبارک تقسیم فرمانے کی روایت بھی موجود ہے۔

عورت کے دودھ کا تبرع

دودھ کی جب بعض فقہائے کرام کے ہاں بیع جائزہے،تو ہبہ بھی جائز ہوگالیکن عورت کے دودھ کا ملک بینک(Milk Bank)بنانا اوران کودودھ ہدیہ کرنا کسی کے ہاں جائز نہیں۔مجمع الفقہ الاسلامی کا اس پر متفقہ فیصلہ ہے کہ نہ ایسے بینک بنانا جائزہے اور نہ ایسے بینکوں سے بچوں کو(مدتِ رضاعت میں) دودھ پلاناجائز ہے۔(بحوالہ فقہ البیوع،بنوک الحلیب)

دوسری قسم کے اجزاکی بیع اور ہبہ

انسانی جسم میں دوسری قسم کے غیر متولداجزا جو کہ اصل کی حیثیت رکھتے ہیں،ان کی خرید و فروخت کے عدم جواز پر بھی فقہائے کرام کا اتفاق ہے۔اس پر بھی مجمع الفقہ الاسلامی کا فیصلہ ہے۔یہ فتوی حضرت شیخ الاسلام مدظلہ نے فقہ البیوع میں بنوک الحلیب کے عنوان کے تحت ذکر فرمایا ہے،نیز علامہ قہستانیؒ بیوع فاسدہ میں فرماتے ہیں:
ولا بیع اجزاء الآدمی کالشعر، والعظم واللبن(جامع الرموز،کتاب البیوع، فصل: البیع الفاسد)
انہوں نے بات عام فرمادی کہ انسان کے تمام اجزا،خوا ہ متولد ہوں یا غیر متولد،ان کی بیع جائز نہیں ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ ان اجزا کا تبرع جائز ہے یا نہیں؟المحیط البرہانی میں امام برہان الدین بن مازہ البخاری نے ایک جزئیہ ذکر فرمایا ہے،جس میں غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسانی اعضا میں جب ہلاکت کا خطرہ نہ ہوتو تبرع جائز ہے، وہ فرماتے ہیں:
وفی فتاوی ابی اللیث: رجل مضطر،لا یجد میتۃ،خاف الھلاک،فقال لہ رجل:اقطع یدی، وکلھا،او اقطع منی قطعۃ،وکلھا،لا یسعہ ذلک؛لانہ ربما یؤدی الی اتلافہ(المحیط البرہانی،کتاب الاستحسان والکراھیۃ،الفصل الثالث العشرون فیما یسع من الجراحات فی بنی آدم والحیوانات…)
عبارت کا حاصل یہ ہے کہ اگر بوقت ضرورت کسی کو اپنا کوئی عضو دینے سے ہلاکت کا خطرہ ہو،تو جائز نہیں۔مذکورہ بالا عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ہلاکت کا خطرہ نہ ہو،تو بوقت ضرورت کسی کو اپنا عضو دے سکتا ہے اورآج کل جدید ترقی یافتہ طب میں تجربہ اور مشاہدہ گواہ ہے کہ عضو دینے والے (Donar) کو مکملSafetyفراہم کی جاتی ہے۔

مردہ انسان کے اعضا سے استفادہ

انسان اپنے کل اجزا کے ساتھ حیاً و میتاً محترم ومکرم ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے ولقد کرمنا بنی آدم لیکن بوقت ضرورت مردہ کے اجزا سے استفادہ بقدرے ضرورت جائزہے،بشرط یہ کہ وہ میت نبی نہ ہو۔علامہ حصکفی ؒمضطر کے بارے میں فرماتے ہیں:ویقدم المیتۃعلی الصید(صید الحرم)، والصید علی مال الغیر،ولحم الانسان قیل ولحم الخنزیر،ولو المیت نبیا،لم یحل بحال (الدر المختار،کتاب الحج،باب الجنایات)یعنی مضطر اور مجبور کیلئے کسی انسان کا گوشت کھانا جائزہے اگر کوئی اور مردار مہیا نہ،لیکن کسی بھی نبی علیہ السلام کا گوشت کسی حال میں بھی حلال اورجائز نہیں،اسی طرح علامہ کاسانی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: والاستشفاء بالحرام جائزعند التیقن لحصول الشفائفیہ،کتناول المیتۃ عند المخمصۃ، (بدائع الصنائع،کتاب الطہارۃ،فصل فی الطھارۃ الحقیقیۃ)
ہلاکت سے بچنے کی صورت میں اپنا کوئی عضو کسی کو تبرعا دینے کی ایک دلیل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:ومن احیاھا فکانما احیا الناس جمیعا،(المائدۃ :۲۳)
تفسیر مظہری میں اس کی تفسیر میں ہے: (ومن احیاھا)ای تورع عن قتلھااو استنقذھا من بعض اسباب الھلاک کالقتل،بغیر حق او غرق او حرق او ھدم او نحو ذلک۔(او نحو ذلک)سے معلوم ہوتا ہے کہ ہلاکت سے بچانے کے اور بھی بہت اسباب ہیں جو جدید طبی دنیا میں کسی سے مخفی نہیں۔
اسی طرح امام رازی ؒتفسیر کبیر میں فرماتے ہیں: المراد من احیاء النفس تخلیصھا عن المھلکات،مثل الحرق و الغرق والجوع المفرط،البرد والحر المفرطین۔
امام رازی ؒکی عبارت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہلاکت کے اسباب متعدد ہو سکتے ہیں۔اس آیت سے معلوم ہوا کہ جن اسباب سے کسی کا بچانا یقینی ہواور اس کو بچایا جائے تو گویا پورے لوگوں کو بچانا ہے لہٰذا ہلاکت سے بچانے والے اسباب میں انسانی اعضا کی پیوندکاری کو بھی شروط کے ساتھ شامل کیا جاسکتا ہے آج کل چوں کہ Donorکو مکمل حفظان صحت فراہم کیا جاتا ہے،جس کی وجہ سے وہ ہلاکت کے خطرے سے باہر ہوتا ہے،لہٰذا اپنا کوئی عضوکسی کو تبرعادینا جس سے وہ ہلاکت سے بچ جائے،جائز ہوگا،اسی طرح مردوں کے اعضاء سے بھی بوقت ضرورت،بقدر ضرورت استفادہ کیا جا سکتا ہے،بشرط یہ کہ:
۱: کوئی ماہر ڈاکٹر تجویز کرے کہTransplantationکے بغیر کوئی چارہ نہیں۔
۲: Donorکی صحت کا بالکل صحیح انتظام موجود ہو،یعنی نہ اس کی ہلاکت کا خطرہ ہو،ورنہ خودکشی کے
مترادف ہوگااور نہ اس کے کسی لاعلاج بیماری میں مبتلا ہو نے کا اندیشہ ہو۔
۳: Trasplantationمیں اگر اصول(parents) اور فروع(offsprings) کی رعایت رکھی جائے تو زیادہ بہتر ہوگا،کیونکہ ایک تو ان کے بلڈ گروپ(Blood group)، جینیاتی مماثلت (Neuclotides sequences)وغیرہ میں مماثلت اورمناسبت(Matcing)بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اسی طرح ان رشتوں کی وجہ سے DonorاورReceptorمیں رضا مندی اور ہمدردی بھی پائی جاتی ہے،جس کی وجہ سے اعضا کی خریدوفروخت کا امکان نہیں رہتا۔

ملکیت کا اشکال

رہا یہ اشکال کہ ہبہ کیلئے تو ملکیت کا ہونا ضروری ہے اور اپنے جسم کے ہم مالک نہیں ہیں توکوئی عضو کیسے ہبہ کریں گے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک دوسرے کے اعضاء سے بوقت ضرورت استفادے کے لیے ملکیت کا ہونا ضروری نہیں،فقہائے کرام نے جن چیزوں سے بوقت ضرورت استفادے کی اجازت دی ہے ان میں سے بعض چیزوں میں تو ملکیت کا امکان ہی نہیں، مثلا خنزیر کا گوشت،حرم کا شکاروغیرہ  واﷲ اعلم بالصواب۔