معاشی اور معاشرتی ترقی اورانسانی رویے
ڈاکٹر ساجد خاکوانی
کالم نگار روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘
انسان جنم لیتے ہی سب سے پہلے اپنے معاشی مسئلے کا چیخ چیخ کراظہار کرتا ہے۔وہ یہ نہیں کہتا کہ میں ننگا ہوں مجھے کپڑے پہناؤ یا میں کسی مذہب میں داخل ہوتا ہوں مجھے کلمہ پڑھاؤ یا نہ ہی وہ اپنے دوست،دشمن،خالق،مالک اور رازق کے بارے میں استفسار کرتاہے اور نہ ہی وہ اپنی نسل رنگ اور زبان وغیرہ کے بارے میں آگاہی چاہتا ہے بلکہ اس کا سب سے پہلا،سب سے زورآوراور سب سے بنیادی تقاضااس کاپیٹ ہوتا جس کے بھر جانے پر وہ اپنے گردونواح سے بے خبر نیندکی آغوش میں اس طرح پہنچ جاتا ہے کہ پھر معاشی مسئلہ ہی اسے اس نیند سے بیدار کرتا ہے جبکہ معاشرہ وہ ابتدائی آماجگاہ ہے جہاں انسان کا جنم واقع ہوتا ہے۔انسان نہ ہی انڈے سے نکل کر پانی میں تیرنا شروع کر دیتا ہے اور نہ ہی کسی فارم میں اس کی پیدائش وپرورش کے مراحل طے ہوتے ہیں۔ماں کا پیٹ ایک معاشرتی اختلاط کے باعث حکم ربی سے بارآور ہوتا ہے،ماں کی مامتاوہ سب سے پہلا تحفہ ہے جو معاشرے کی طرف سے انسان کو پیداہونے سے قبل ہی میسرآجاتا ہے۔پیدائش کے ساتھ ہی معاشرے کا عطا کردہ خاندان اس انسان زادے کو اپنی محبت،الفت،پیار اور چاہت کی گھنیری چھاؤں میں لے لیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جانور، پرندے یا مچھلی کا بچہ تو شاید کسی معاشرتی پشتیبانی کے بغیر پل بڑھ سکے لیکن آدم زاد کو ایسی صورت حال میں کوئی خدائی معجزہ ہی حشرات الارض سے بچا سکتاہے۔گویامعاش اور معاشرہ انسان کی وہ ضرورتیں ہیں جنہیں ذات باری تعالیٰ نے کمال رحمت سے نومولودکی آمد سے قبل ہی پورا کر دیاہے۔انسانیت ان دونوں عناصر کے بغیر نہ صرف نامکمل ہے بلکہ انسان کا وجودہی انہی دونوں کا مرہون منت ہے۔
بچپن، لڑکپن، آغازشباب،شباب،ادھیڑپن اور پھر بڑھاپے کی تمام منزلوں میں انسان پہلے سے زیادہ اور مزید زیادہ تران دونوں عناصر کا محتاج ہوتا چلا جاتا ہے۔اسے معاشی اور معاشی ترقی کیلئے اپنا انسانی کردارادا کرنا ہے جس کوقدرت الٰہیہ نے بڑی خوبصورتی سے ماں کی مامتا اور باپ کی شفقت کے استعاروں میں ڈھانپ دیا ہے۔یہ دونوں کردار ماںاور باپ دراصل سب سے اولین معاشی و معاشرتی رضاکار ہیں ۔
وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَھْنًا عَلٰی وَھْنٍ وَّ فِصٰلُہٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْکُرْلِیْ وَلِوَالِدَیْکَ اِلَیَّ الْمَصِیْرُ (لقمان:۱۴)
’’اورحقیقت یہ ہے کہ ہم نے انسان کواپنے والدین کاحق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے،اس کی ماں نے تکلیف پرتکلیف اٹھاکراسے اپنے پیٹ میں رکھااوردوسال اس کادودھ چھوٹنے میں لگے (اسی لیے ہم نے نصیحت کی کہ) میرا شکر کرو اور اپنے والدین کا شکربجالا،میری طرف ہی تم کوپلٹناہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کاکیا عجیب اورشاندارنظام ہے کہ ناخن سے رسولی تک انسان کے جسم کیساتھ لگی تکلیف دہ چیز جب کاٹ کر الگ کی جاتی ہے تو انسان اسے بڑی نفرت اور حقارت سے دیکھتا ہے اور اسے دور پھینک دیتا ہے لیکن نو ماہ تک دردپر درددینے والا نومولود جب اس دنیا میں وارد ہوتا ہے تو ماں اسے سینے لگا کر اپنے شیریں چشموں سے سیراب کرتی ہے۔اگرچہ جانور کے ہاں بھی مامتا کا یہی کردار ہے لیکن جانوروں کے ہاں اکثر نسلوں میں باپ کا کوئی کردار نہیں ہوتابلکہ بعض اوقات تو ماں اپنے بچوں کو نرجانور سے چھپاتی پھرتی رہتی ہے۔اسکے مقابلے میں انسان کے ہاں باپ کاکردارنسل کی پرورش پرمحیط ہے،جس کا بہت بڑا حصہ معاش سے تعلق رکھتا ہے یعنی باپ اپنے قبیلے کی معاشی کفالت کا ذمہ دارہوتا ہے :
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّ بِمَآاَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ (النسا:۳۴)
’’مردحضرات عورتوں پر نگران ہیں،اس بناپر کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایک کودوسرے پرفضیلت دی ہے اوراس بناپر کہ مرداپنے مال خرچ کیے ہیں۔‘‘
معاشی ترقی اور معاشرتی ترقی کوجدا نہیں کیا جاسکتا،جو معاشرہ معاشرتی ترقی سے ہم آہنگ ہوگا وہیں معاشی ترقی بھی وقوع پزیر ہوگی اور جہاں معاشی ترقی ہو گی وہیں معاشرتی ارتقاء بھی جنم لے سکے گا۔انفرادی سطح پر یہ ایسے ہی ہے جیسے پیٹ بھرے گا تو انسان کام کر سکے گا اور اگر انسان کام کرے گا تو پیٹ بھر سکے گا۔معاش کو معاشرے سے اور معاشرے کو معاش سے اسی طرح علیحدہ نہیں کیا جا سکتا جیسے انسان کو اسکے پیٹ سے علیحدہ نہیں کیاسکتا۔اگرمعاشرتی اقدار ڈھیلی پڑجائیں گی تومعاش بری طرح متاثرہوگی اور اسی طرح معاشی اقداراگرزوال پزیر ہوئیں تو معاشرے کی بنیادیں کھوکھلی ہوتی چلی جائیں گی۔معاشرتی اور معاشی حقائق کو جاننے کے لیے انسان نے ہر سطح پر بہت کوششیں کی ہیں۔بہت نچلے طبقے میں دووقت کی روٹی اورعزت کی چھت کے حصول کوتما م مسائل کا حل سمجھا جاتاہے،یوں درجہ بدرجہ ہر سطح پر لوگوں کی فکر ایک بہا کیساتھ پروان چڑھتی ہے۔انسانی اعلیٰ دماغوں نے ان مسائل کوحل کرنے کیلئے مختلف نظام ہائے فکروعمل بھی پیش کیے۔سیکولریورپی دانشوروں میں سے کسی نے انسان کو معاشی جانور کہا ہے اور کسی نے معاشرتی جانور اور کسی نے تو جنسی جانور تک بھی کہا ہے اورڈارون کے کیا کہنے جس نے انسان کو جانوروں کی نسل ہی قرار دے دیا۔یہ کیسے دانشورہیں جن کی فکرحیوانیت سے آگے بڑھ ہی نہیں پاتی جب کہ ان کے مقابلے میں انبیا علیہم السلام نے انسان کو اشرف المخلوقات کا مقام عطاکیا۔سوشلزم،کیمونزم،فاشزم،کیپٹل ازم،لبرل ازم، سیکولر ازم، ہیپی ازم،ایتھیسٹس اور ملوکیت وجمہوریت وراہبانیت وبرہمنیت وغیرہ یہ سب انسانی فکر و دانش کے وہ ناکام تجربات ہیں جن کی آزمائش کی بھٹی میں انسان نے اپنی نسلوں کوجھونک دیا ہے،یہاں تک کہ آج پھر انسانیت چھٹی صدی عیسوی کے تباہ کن مقام تک آن پہنچی ہے،جس پر قرآن مجید نے یوں تبصرہ کیا تھاکہ
وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا وَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا وَ کُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْھَاکَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ (ال عمران ۱۰۳)
’’اورسب مل کراللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لواورتفرقہ میں نہ پڑو،اللہ تعالیٰ کے اس احسان کویاد رکھوجواس نے تم پر کیا،تم ایک دوسرے کے دشمن تھے اس نے تمہارے دل جوڑ دیے اوراس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس سے بچالیا،اس طرح اللہ تعالیٰ اپنی نشانیاں تمہارے سامنے روشن کرتاہے شایدکہ ان علامتوں سے تمہیں اپنی فلاح کاسیدھاراستہ نظرآجائے۔‘‘
مانی ازم سے عصری مغربی تہذیب تک تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ انسان جب آسمانی ہدایت سے الگ کر کے اپنی فکر و فلسفے کوبننے لگتاہے توہمیشہ ٹھوکریں ہی کھاتا ہے جبکہ عقل و دانش کی الجھی ہوئی،گنجلک اورتہہ در تہہ ڈوریوں کوجب آسمان سے جوڑکر وحی کی تعلیمات میں ان کا حل تلاش کیا جائے تو گویاڈورکاایک ایسا سرا ہاتھ لگ جاتا ہے کہ جس سے سارے کے سارے مسائل حل ہوتے چلے جاتے ہیں۔سودی نظم معیشت آج اپنے انجام کو پہنچا چاہتاہے،معیارزندگی میں بڑھوتری کی دوڑکے اثرات بدآج عالمی سطح پر آسانی سے دیکھے جا سکتے ہیں،قرض کی مے پراستوار بلندوبالا بینکنگ کا نظام ریت کی دیوار ثابت ہوچکا ہے،اشتہاربازی پر مبنی معاشرتی اقتدارکی حقیقت سراب کے سوا کچھ ثابت نہیں ہوئی اور عورت کواسکے اصلی،حقیقی اور فطری مقام سے گرا کر جس معاشرت کا بیج بویا گیاتھا،خاندانی نظام کی تباہی کی فصل اس کے منطقی نتیجے کے طورپر آج کاٹی جارہی ہے۔معاشی و معاشرتی ترقی کا انسانی خواب صرف انبیا علیہم السلام کے طریقے پر ہی پوراہوسکتاہے۔وہ اپناپیغام پیش کرنے کے بعد سب سے پہلے یہی کہتے تھے
وَ یٰقَوْمِ لَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مَالًا اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ (ھود:۲۹)
’’اوراے برادران قوم،میں اس کام پر تم سے کوئی مال نہیں مانگتا،میرااجرتواللہ کے ذمہ ہے۔‘‘
یہ معیارنبوت ہے کہ رضاکارانہ طور پر انسانیت کی خدمت کی جائے۔نکاح وہ معاشرتی اقدار میں سے ایک اہم ترقدرہے جس کا تحفظ اور جس کا تسلسل ہی انسانی نسلوں کی بقاکاضامن ہے۔سوال یہ ہے کہ ساری عمر اکٹھی بسر کرنے کی نیت اور ایک خاندان کی پرورش کے ارادے سے ملنے والے مردوعورت کے ہاں ہونے والابچہ اور ہوس نفس اورحیوانی جبلت کی تسکین کی خاطرایک دوسرے کو جھنجھوڑنے اور بھنبھوڑنے کے بعد ہمیشہ کے لیے علیحدہ ہوجانے والے مردوعورت کاہونے والا بچہ کیا انسانی نفسیات میں یکساں ہوں گے؟ ہرگزنہیں! انسانی ساختہ تہذیبیں جو بھی کہیں، انبیاء ؑ کی تعلیمات نے ان کے درمیان حلالی اور غیرحلالی کا فرق کیا ہے اور یہ حقیقی و آفاقی فرق ہے۔زکوٰۃ، صدقات، عشر،خمس اورفطرانہ و قربانی پر بنیاد کرنے والی معیشت کبھی بھی سود،ناجائزمنافع خوری،ذخیرہ اندوزی،اشتہاربازی اور نسوانیت کی محتاج معیشت کے برابر نہیں ہوسکتی۔پہلی قسم کی معیشت انسان کی اعلیٰ اقدار کی حامل اور ان کے رواج کی ضامن ہے جبکہ دوسری قسم کی معیشت شائلاکی سوچ کی آئینہ داراور انسانی مجبوریوں کو اور ضرورتوں کو بڑھا چڑھاکرانکا استحصال کرنے والی ہے۔
قرآن مجید نے واضع طور پرسود کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اعلان جنگ قرار دیاہے کہ یہ دراصل انسانی تباہی کابھیانک،اندوہناک اورہولناک آغازہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَO فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُئُ وْسُ اَمْوَالِکُمْ لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ (البقرۃ:۔۲۷۸۲۷۹)
’’اے لوگو!جوایمان لائے ہواللہ تعالیٰ سے ڈرواورجوکچھ تمہاراسودلوگوں پر باقی رہ گیاہے اسے چھوڑدو،اگرواقعی تم ایمان لائے ہولیکن اگرتم نے ایسا نہ کیا تو آگاہ ہوجاکہ اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے،اب بھی توبہ کرلو (اور سود چھوڑ دو) تواپنااصل سرمایالینے کے تم حق دارہو،نہ ہی تم ظلم کرواورنہ ہی تم پرظلم کیاجائے۔‘‘
انبیاعلیہم السلام اگراس دنیامیں تشریف نہ لاتے توجنگل کا بادشاہ اور درندگی و سفاکی کی علامت شیر،چیتااوربھیڑیا نہ ہوتے بلکہ انسان ہی ہوتا۔اس لیے کہ اکیسویں صدی کی دہلیز پر چکاچوند روشنیوں اور تہذیب و تمدن کے جگمگاتے گہواروں میں پلنے والی اقوام جو انبیا علیہم السلام کی عطاکردہ معرفت وشعورزندگی سے بیگانہ ولاتعلق ہیں،کشمیر،چیچنیا،بوسینیا،عراق،فلسطین اور افغانستان سمیت پوری دنیامیں ان کے خونی کردار سے جنگل کے ان گوشت نوچنے والے شکاریوں کو بھی شرم آئے، اپنے آپ کو جانوروں کی نسل کہنے والوں نے پوری کوشش کی کہ انسان کے معاشی و معاشرتی نظام کو بھی ہوس نفس سے آلودہ کرکے تو جنگل کے برابر کر دیاجائے۔یہ انبیا علیہم السلام کاترتیب دیاہوا معاشی ومعاشرتی نظام ہے جس میں انسانیت کی نسلیں بڑھتی اور پھلتی پھولتی ہیں،انسانی رشتے تقدس کی مضبوط ترین تسبیح میں ایک ایک دانے کی طرح پروئے چلے جاتے ہیں اور اعلی اخلاقی اقدارسے مزین انسانیت کے عنوان سے لکھاجانے والامعیشت کا سبق اپنی ایک ایک سطر پر انسان کو اس کے فرائض و حقوق یاد دلاتا چلا جاتاہے۔
انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات اور خاص طور پرمحسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات دراصل اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہدایت کا نچوڑ ہیں اورانسانی عقل کسی صورت بھی وحی الٰہی کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔سورہ قدرکے مضمون کی ایک جہت یہ بھی ہے کہ سارے انسان ایک ہزارراتوں تک بھی اپنی عقل کے گھوڑے دوڑاتے تو ایسا شاندار نظام وضع نہ کرپاتے جتناکہ شاندارنظام اس ایک رات (شبقدر)کی برکت سے عالم انسانیت کو میسرآیا۔حقیقت یہ ہے کہ اگر کل انسانیت کی معاشی و معاشرتی ترقی درکارہے توبانیان انسانیت علیہم السلام کی تعلیمات ہی اسکاواحد حل ہیں۔اس کے علاوہ کسی بھی طرح کے قسم ہائے قسم کے نظام جو انسانی منڈیوں میں موجود رہے ہیں اور موجود ہیں اور قیامت تک خود روبوٹیوں کی ماننداگتے رہیں گے،کسی خاص طبقے،نسل،گروہ،قوم یا افراد کیلئے توجزوی طور پر فائدہ مند ہو سکتے ہیں انسانیت کے کل اجتماع کی خاطران کے پاس کوئی پیش نامہ ہمیشہ ناپید ہی رہے گایہاں تک کہ خالق کائنات کی آخری عدالت ان استحصالی طبقوں کوان کے اصل انجام تک پہنچا دے گی۔