حضرت مولانا فضل الرحمن مدظلہ کاجامعہ دارالعلوم حقانیہ میں تقریب دستاربندی میں فضلائے کرام سے خطاب

ضبط و ترتیب : مولانا سید حبیب اللہ شاہ حقانی

ضبط و ترتیب :

مولانا سید حبیب اللہ شاہ حقانی

الحمد ﷲ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی اشرف الانبیا والمرسلین
انتہائی قابلِ احترام حضرت مولانا انوارالحق صاحب !مشائخ کرام و خانوادہ حقانی کے معززاراکین، اساتذہ عظام اور تمام فضلائے کرام! اس میں شک نہیں ہے کہ میں دارالعلوم حقانیہ کے احاطے ، دارالحدیث اور اس مبارک محفل اور روحانی، دینی اور علمی اجتماع میں شرکت اپنے لئے بہت بڑی سعادت سمجھتا ہوں۔میں دارالعلوم حقانیہ میں اپنے آپ کو مہمان نہیں سمجھتا اور نہ میں مہمان خصوصی ہوں بلکہ میں نے یہاں آٹھ سال سبق پڑھا ہے اور اس مطبخ کی روٹی اور دال بھی میں نے کھائی ہے اور یہ سب حضرت شیخ ؒکی دعائیں ہیں کہ آج میں یہ عظیم الشان منظر دیکھ رہا ہوں اور سالہا سال سے یہ سلسلہ جاری ہے، یہ سب ان کے اخلاصِ نیت اور دعاؤں کا نتیجہ ہے اور ہم اس کی برکات سے مالامال ہورہے ہیں ،اللہ تعالیٰ یہ سلسلہ ہمیشہ کیلئے جاری رکھے اور علم کی یہ روشنی ہمیشہ روشن رہے (آمین )۔
محترم بھائیو! ان جامعات اور مدارس میں علوم وحی کی حفاظت کی جاتی ہے۔ ’’وحی‘‘ وہ عظیم نعمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کے بعد انسانوں کی رہنمائی کے لئے برگزیدہ شخصیات کو بطور رسول اور نبی مبعوث فرمایااور اللہ کی طرف سے انسانوں کی رہنمائی کے لئے پیغمبروں کو جو تعلیمات عنایت فرمائی گئیں اس کو ’’وحی‘‘ کہاجاتا ہے لیکن آج کل کے ترقی یافتہ انسان وحی الٰہی سے صرف نظر کرتے ہیں، وحی کے بجائے عقل کو اہمیت دیتے ہوئے انسانی ترقی کے لیے صرف عقل کو صحیح ذریعہ سمجھتا ہے، اس سے انکار نہیں کہ عقل ایک عظیم الشان نعمت ہے اور آج کے دور میں انسان دنیا میں جو سائنسی ترقی کر رہا ہے اور نئی ایجادات اور نئی ٹیکنالوجی جو دنیا کے سامنے لارہی ہے یقینا یہ سب عقل کے کارنامے ہیں لیکن آج کا انسان اس میں حلال اور حرام ، فائدہ ، ضرر و نفع اور نقصان کا امتیاز نہیں رکھتا اور پھر وہ خارجی اثرات سے متاثر ہوجاتے ہیں کیونکہ عقل سے کبھی خطا بھی سرزد ہوجاتی ہے اور کبھی اس میں انحراف بھی آتی ہے تو اللہ تعالیٰ نے عقل کو بھی اس کا پابند کیا ہے کہ تم ’’وحی‘‘ کے تابع ہوں گے اور وحی کی مدد سے تم انسانوں کی رہنمائی کرو گے کیونکہ ’’وحی ‘‘ میں خطا اور انحراف کا امکان نہیں ہے ۔جیسا کہ ایک صحت مند اور بینا انسان ہیں اس کو ایک تاریک کمرے میں بند کردیا جائے تو اس کو بینائی اب کوئی کام نہیں دے گی، جب تک اس کو باہر سے بجلی فراہم نہ کی جائے۔یہی مثال عقل کی ہے جب تک اس کو ’’وحی‘‘ سے روشنی نہیں ملتی تب تک یہ انحرافات سے مبرا نہیں ہوسکتا۔
برصغیر میں انگریزی سامراج اور استعمار سے قبل یہ تقسیم نہ تھی کہ یہ عصری مدارس ہیں اور یہ دینی مدارس اور یہ عصری فنون کے مدارس ہیں اور یہ قرآن وحدیث کے مدارس لیکن جب فرنگی نے علیگڑھ میں ایک اسکول کھولا اس میں جو نصاب رائج کیا تو اس نصاب کو سرکار کی سرپرستی حاصل رہی اور انہوں نے نصاب سے قرآن وحدیث ،فقہ اور علوم وحی کو نکال دیا تاکہ آنے والی نسلیں صرف نام کی مسلمان رہیں اور ان کے ساتھ وحی الٰہی کی رہنمائی نہیں رہے گی، ظاہر بات ہے کہ روح کی غذا ’’وحی‘‘ ہے، ایمان کی غذا ’’وحی‘‘ ہے ،اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابیں نازل کی ہیں اور ان کتابوں کی روشنی میں انبیائے کرام نے اس کی تشریح کی ہے چونکہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے تو اس کی شرح حضور اقدس اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و عمل وحیاتِ طیبہ سے کی ہیں تو آپؐ کے قول وعمل یہ سب قرآن کی تشریحات ہیں اور اس کو امت کے سپرد کیا ہے۔اللہ رب العزت نے فرمایا یَا أَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَیْکَ مِن رَّبِّکَ ’’ اے رسول! جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے، اسے پہنچا دیجیے۔‘‘ اس میں کوئی رد بدل، یا قطع وبرید یا تبدل وتغیر کاکوئی اختیار پیغمبر کو حاصل نہیں ہے، اس لیے رسول اللہؐ نے فرمایا: نضَّرَ اﷲ إمرأ سمع مقالتی فأداہا کما سمعہا’’ اللہ تعالیٰ اس شخص کو تر وتازہ رکھے جس نے میری بات سنی، پھر اسے اسی طرح آگے پہنچایا جیسے اس نے سنا تھا ‘‘
یہ ایک امانت ہے، اس امانت کی حفاظت میں انبیاؑ پہلے نمبر پر ہیں، پھر ان کے بعد یہ امانت علمائے کرام کو سپرد کیا گیا ہے العلماء ورثۃ الانبیاء، رسول اللہؐ نے فرمایا: سیکون بعدی الخلفاء، میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں لیکن خلفاء اور ورثاء ہوں گے اور یہ لوگ میرے دین کو سنبھالیں گے۔
میرے بھائیو! یہ دین ہمارے انفرادی زندگی میں بھی رہنمائی کرتا ہے اور اجتماعی،ملی اور قومی زندگی میں بھی۔ ہمارے اکابر یہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی کو شریعت میں انفرادی مسئلہ پیش آئے تو اس مسئلے کی رہنمائی کے لیے ایک فرد واحد (عالم )کی رائے حجت ہے،جس طرح مدارس کے دارالافتائوں میں لوگ آتے ہیں، مفتی صاحب سے سوال پوچھتے ہیں اور مفتی صاحب ان کو جواب دیتے ہیں، جس طرح کسی سے نماز، زکوٰۃ ، میراث اور حج وغیرہ میں خطاء ہوجائے تو یہ لوگ آتے ہیں اپنے پیش امام اور عالم دین سے پوچھتے ہیں اور یہ پیش امام اور عالم انہیں جواب دیتے ہیں تو یہ ان کیلئے حجت ہے لیکن قومی و ریاستی امور میں فرد واحد (عالم ) کی رائے حجت نہیں ہوتی ،اس کیلیے علمائے کرام کی ایک جماعت چاہیے کہ اجتماعی رائے سے امت وملت اور مملکت کی رہنمائی کرے اور اس کو شورائیت کہتے ہیں چونکہ ’’وحی ‘‘ کا سلسلہ بند ہے لیکن شوریٰ قیامت تک رہے گی، اس کے لیے ایک نظم کی ضرورت ہے، ہمارے شیخ حضرت مولانا عبدالحق ؒہمیشہ رسالت ماب ؐ کی یہ حدیثنضَّرَ ﷲ امرئا سمع مقالتی فأداہا کما سمعہا ارشاد ذکر کرنے کے بعد فرماتے کہ یہ تر وتازگی علی الاطلاق ہے اس کے ظاہر بھی، باطن بھی، دنیاوی بھی، برزخی بھی اور اخروی زندگی بھی تر وتازہ ہوگی اور اس کی ایک مثال بھی ذکر فرماتے تھے کہ ایک آدمی ہے اور اس کے دوبچے ہیں ایک طالب علم ہے سبق پڑھتا ہے اور دوسرا گاؤں میں مزدوری کرتا ہے لیکن جو گاؤں میں مزدوری وزمینداری کرتا ہے وہ تروتازہ نہیں رہتا بلکہ وہ بجھا بجھا سا لگتا ہے اور وہ جو طالب ہے وہ ہمیشہ سفید کپڑوں میں اچھی حالت میں رہتا ہے، تو یہ وہ تروتازگی ہے جو اللہ تعالیٰ نے علماء و طلباء کو عطاء فرمائی ہے اور پھر یہ بھی فرماتے کہ بچو! آپ کا یہ خیال ہوگا کہ ہم نے یہاں دارالعلوم میں آٹھ نو سال گزارے اور دورئہ حدیث کرکے ہم عالم بن گئے، آپ لوگ عالم نہیں بلکہ آپ میں عالم بننے کی استعداد پیدا ہوگئی ہے، اگر آپ لوگ چاہتے ہیں کہ ہم عالم بن جائیں اور دنیا آپ کو بطور عالم قبول کرے اور پھر اس حیثیت میں عوام کی رہنمائی کے لیے امامت بھی کرے، اس کے بعد آپ کہہ سکتے ہیں کہ آپ اس کے لائق بن گئے ہو۔ اللہ ہمارے اندر یہ استعداد پیدا فرمائے (آمین)۔
اب بات یہ ہے کہ اس امت کی اجتماعی رہنمائی کے لئے اجتماعی رائے کی ضرورت درپیش ہے تو اس کے لئے بھی ایک جماعت کی ضرورت ہے، شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی محمد فریدؒ (ہمارے استاد تھے) سال کے آخر میں آپ طلباء کو کچھ نصیحتیں ارشاد فرماتے، ان نصیحتوں میں سے ایک یہ تھی کہ تنہا اور انفرادی زندگی نہ گزاریں بلکہ جماعت اور تنظیم کے ساتھ وابستہ رہیں۔ یہ بات یاد رکھیں کہ ایک ایسی جماعت جو ملک میں ملت وقوم کی رہنمائی کرے تو وہ جماعت جامع نظریہ کی حامل جماعت ہوگی ، یہ جماعت ایک خاص شعبہ تک اپنے آپ کو محدود نہیں رکھتا، تو ایسی ایک جماعت جو ایک جامع نظریہ رکھتی ہو اور کامل ومکمل دین اور اس کے ہر شعبہ کے حوالے سے امت کی رہنمائی کرتی ہو تو ایسی جماعت کیساتھ وابستگی واجب ہے علیکم بالجماعۃ والإطاعۃ آپ پر جماعتی زندگی گزارنا لازم ہے اور تقدیم ما حقہ تاخیر لزوم کا فائدہ دیتا ہے،اب ہو سکتاہے کہ ایسی ایک جماعت جو جامع نظریہ کے اعتبار سے حق پر ہو لیکن چونکہ شورائیت ہے تو اجتہاد میں ایک آدھ مسئلہ میں غلطی ہوسکتی ہے، اگر تمہارا جامع نظریہ صحیح ہو اور ایک آدھ مسئلہ میں اجتہادی طور پر غلطی بھی کرے تو یہ جماعت سے الگ ہونے کی اجازت نہیں دیتی۔ جماعت کی لزوم ایک اجتہادی غلطی سے ختم نہیں ہوتی،جس طرح کہ ایک مسافر راستے میں جارہا ہے اور راستے میں ایک بہت بڑا سایہ دار درخت ہے تو یہ مسافر سستانے کے لئے اس کے نیچے آرام کرنے جاتا ہے اوراس درخت میں ایک آدھی شاخ سوکھی ہے تو یہ ایک آدھ خشک شاخ آپکو اسکی راحت سے بے نیاز نہیں کرسکتی، تم ضرور بالضرور اسکے سائے سے اپنی تھکاوٹ کو دور کرو گے اور اس سے استفادہ حاصل کر سکوگے لہٰذا جو جماعت ہمارے اکابر نے تدبر کیساتھ بنائی ہیں تو اس جماعت سے وابستگی ہر مسلمان پر واجب ہے اور اس کے ساتھ لاتعلقی کی کوئی گنجائش شریعت میں نہیں ہے اور وہ جماعت جو جامع نظریہ کے تحت باطل ہے اور ایک آدھ فیصلہ اجتہادی طور پر صحیح بھی کرے تو اس ایک آدھ صحیح فیصلہ کی بنیاد پر اسکی اجازت نہیں کہ تم خشک درخت کے سائے بیٹھ جاؤ اور اس میں شمولیت اختیار کرویعنی آپ کسی باطل جماعت سے وابستہ نہیں رہو گے۔
اللہ رب العزت نے جو ہمیں جماعت دی ہے وہ ہمارے اکابر کی ہیں، وہ اکابر جن کا ہم نے اس حدیث کی سند میں بیان کیا ہم اس سلسلے کے لوگ ہیں، میں اسٹیج پر کھڑا ہوں اور میں آپ سے کہتا ہوں کہ اسلام اور اسلامی نظام، اگر اس دوران جلسہ میں ایک بندہ کھڑا ہوجائے اور مجھ سے یہ کہے کہ مولانا صاحب!آپ جو اسلام اسلام کہہ رہے ہیں تو کیا اس کی سند آپ کے پاس ہے؟ یہ کہاں سے آپ کہہ رہے ہیں؟ تو الحمد للہ! میرے پاس اس کی سند موجود ہے، اس سند سے میں حوالہ دے سکتا ہوں کہ یہ دین مجھے ملا ہے مولانا عبدالحقؒ سے ،مفتی محمودؒ سے ،حسین احمد مدنیؒ سے، شیخ الہندؒ سے ،قاسم نانوتویؒ سے اور یہ جمعیت علماء کی سند بھی ہے اور یہ مستند جماعت ہے اور میری سیاست بھی سند رکھتی ہے۔اس نظر سے اپنی زندگی کو دیکھو، جماعت کی اہمیت کو دیکھو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت کے ساتھ فرمایا ہے الجماعۃ رحمۃ والفرقۃ عذاب جماعت رحمت ہے اور باہمی تقسیم عذاب ہے ۔ اللہ کے عذاب کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ ایک دوسرے کو مخالفت میں ڈالیں گے اور ایک دوسرے کو طاقت دکھائیں گے، اس پر تھوڑا غور کریں ، نماز ایک ایسا امر ہے جس کا نہ طریقہ بدلتا ہے اور نہ وقت، روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کا نہ وقت بدلتا ہے اور نہ طریقہ، زکوٰۃ ایک ایسا فرض ہے جس کا نہ وقت اور نہ طریقہ بدلتا ہے اور حج بھی اسی طرح فرض ہے جس کا نہ وقت بدلتا ہے اور نہ طریقہ کارہر ایک اپنے اپنے احکامات رکھتے ہیں لیکن اس کے ساتھ آپ اعلائے کلمۃ اللہ کی جدوجہد کے لئے نکلو گے تو ایک جماعت کے ساتھ وابستگی اختیار کرلینا لازمی ہے تو یہ جماعت ہمیشہ ہر مرحلے میں نئے حالات اور نئے محاذ پر سامنے آنے والے امور کی تدبیر و انتظام کرتی ہے ۔مثلاً بدر کی حکمتِ عملی الگ تھی، احد کی الگ ، حنین ، تبوک کی الگ ۔جنگ کے احکامات اور ہیں، دعوت کے احکامات اور، تحصیلِ علم کے احکامات اور لہٰذا اپنے اپنے موقع پر شریعت کے احکامات کی بناء پر اپنی زندگی سنوارنے کا حکم ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہمارے اکابرین اوران کی قبروں پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔ آج ہم جو بیٹھے ہیں اور سفید پگڑی پہنے ہیں، ایک نورانی ماحول ہے اور حدیث کی کتابیں ہمارے سامنے ہیں تو یہ سب ہمارے اکابرین کی محنت کا نتیجہ ہے۔ اپنے اساتذہ کا احترام کریں یہ جتنے ہمارے اساتذہ ہیںہمیں چاہیے کہ ہم ان اساتذوں کو درجہ بدرجہ اپنے دل میں ایک بڑا مقام دیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو مدارس اور جو علوم عطا فرمائے ہیں یہ صرف علوم نہیں کہ علم حاصل کیا اور بات ہی ختم بلکہ یہ تعلیمات عملی زندگی میں لانا بھی لازم ہیں۔ ایک کو ہم تعلیم کہتے ہیں اور دوسرے کو تربیت، رسول اللہؐ نے فرمایا ہے انما بعثت معلما میں استاد ہوں ایک اور جگہ فرماتا ہے انما بعثت لأتمم مکارم الأخلاق کہ اس علم کے مطابق میں آپ کو عملی زندگی میں بھی رہنمائی فراہم کروں تاکہ وہ اخلاق حسنہ آپ لوگوں میں بھی آجائے۔
اس طرح سے یہ ایک تحریک اور ایک جہد مسلسل ہیں جو ہمیں اپنے اکابر کی میراث سے حاصل ہوا ہے اوروہ یہ دو چیزیں ہیں۔ ایک قومی واجتماعی نظام کے لیے جمعیت علماء کا قیام اور دوسرا اسلامی علوم کی حفاظت کے لئے مدارس کا قیام ۔لہٰذا اجتماعی زندگی میں یہ برکت ہے کہ کسی ایک کی رائے غلط ہو تو دوسرے کی صحیح ہوگی ۔ حضرت ابوبکرصدیق ؓ فرماتے ہیں کہ جب مجھے ایک نیا مسئلہ پیش آتا تو میں اس کا حل قرآن میں ڈھونڈتا لیکن جب میں اس میں کامیاب نہ ہوپاتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں اس کا حل تلاش کرتا اگر اس میں بھی ناکام ہوجاتا پھر میں اہل الرائے (عابدین وزاہدین) کو جمع کرکے ان سے رائے لیتا تو وہ جس رائے پر متفق ہوجاتے تو اس کے مطابق امر صادر کرتا، یہی روایت حضرت عمرؓ ،حضرت عثمانؓسے بھی منقول ہے اور حضرت علی ؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے براہ راست فرمایا ہے کہ اپنی انفرادی رائے پر فیصلہ نہیں کرنا۔لہٰذا اللہ تعالیٰ نے جماعت اور مدرسہ کی شکل میں جو نعمت ہمیں دی ہے اس کی قدر کرنا ہم پر لازم ہے، یہ کام محنت کا متقاضی ہے، اس محنت کیلئے اولین شرط کیا ہے؟ امام بخاریؒ نے اپنی کتاب کی ابتدا ’’کتاب الوحی‘‘ سے کی ہے لیکن ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ترجمۃ الباب میں وحی کے حوالے سے حدیث نقل فرماتے لیکن آپؒ نے حدیث انما الاعمال بالنیات سے ابتدا کی تو معلوم ہوا کہ ہر کام میں اخلاص کا ہونا لازمی ہے جس کا اخلاص جتنا زیادہ ہوگا اس کا عمل اور ترازو اتنا ہی بھاری ہوگا،اس وجہ سے شروع میں فرمایاکہ نیت درست کرلو اور رضائے الٰہی کو مقصود بنالو او رآخر میں فرمایا کہ ونضع الموازین القسط کہ تولا بھی جائیگاجتنا اخلاص زیادہ ہوگا اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ زیادہ ہوگا تو عمل وزنی ہوگا اور اگر بھروسہ کم ہے نیت خراب ہے تو ترازو اتنا ہی ہلکا ہوگا، اللہ تعالیٰ ہم سب کے ترازو کو بھاری فرمائے اور ہمارے دلوں میں اخلاص پیدا فرمائے اور ہمارے ایمانوں کو قوی و مضبوط کرے، اللہ تعالیٰ ان مدارس اور بالخصوص دارلعلوم حقانیہ کو تروتازہ، آباد وشاداب رکھے اور ان سے علم کی کرنیں پوری دنیا میں پھیلائے (آمین)
حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کی آمد کے موقع پر جمعیت علمائے اسلام کے پی کے جنرل سیکرٹری مولانا عطاالحق درویش صاحب اور صوبائی نائب امیر مولانا عبدالحسیب حقانی و دیگر علماء بھی ہمراہ تھے۔