مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کا سیاسی تفکر اور شیخ الہندؒ(قسط سوم)

پروفیسر محمد یونس خان میو

(گورنمنٹ گریجویٹ کالج آف کامرس گوجرانوالہ)

جنگ عظیم اول (۱۹۱۸۔۱۹۱۴) کے خاتمہ کے بعد انگریزی حکومت نے ہندوستان میں ایک نیا قانون پولیس سے متعلق نافذ کیا تھا، اس کو رولٹ ایکٹ (۵۳)کہتے ہیں۔ اس کے تحت جرم ثابت کرنا پولیس کی ذمہ داری نہیں بلکہ مجرم کا فرض ہے کہ وہ اپنی صفائی ثابت کر دے ، اس قانون کے متعلق مولانا محمد علی جوہر کا جملہ بہت مشہور ہے: ’’نادلیل، نا وکیل ، نا اپیل‘‘ یہ ایک انتہائی ظالمانہ قانون تھا(۵۴) اس قانون کے مقصد یہ تھا کہ تحقیقات کر کے بتایا جائے کہ ملک میں کس قدر سازشیں موجود ہیں؟ ان کی نوعیت کیا ہے؟ اور ان کے استیصال کے لیے کیا تدابیر اختیار کی جائیں؟(۵۵)
اسی ایکٹ کے پیرا (۱۸۹) میں ’’ریشمی رومال تحریک ‘‘کے بارے میں کچھ تحقیقات ملتی ہیں۔ مولانا سندھیؒ کی ڈائری کے مرتب نے یہاں اس رپورٹ سے ایک طویل اقتباس نقل کیا ہے جس میں لکھا ہے کہ ’’اگست ۱۹۱۶ء میں ریشمی خطوط کے واقعات کا انکشاف ہوا اور حکومت کو اس سازش کا پتہ چلا ، یہ ایک منصوبہ تھا جو ہندوستان میں اس خیال سے تجویز کیا گیا کہ ایک طرف شمال مغربی سرحدات سے گڑبڑ پیدا کر کے اور دوسری طرف ہندوستانی مسلمانوں کے دوش سے اسے تقویت پہنچا کر برطانوی راج ختم کر دیا جائے۔ اس منصوبہ کو مضبوط کرنے اور عمل میں لانے کے لیے مولوی عبید اللہ (ایک شخص) نے اپنے تین ساتھیوں عبد اللہ، فتح محمد اور محمد علی کے ساتھ اگست ۱۹۱۵ء میں شمال مغربی سرحد کو پار کیا۔‘‘
عبید اللہ نومسلم تھا اور اس نے دیو بند سے تعلیم حاصل کی جہاں وہ مولانا محمود حسن سے متاثر ہوا جو مدتوں درس گاہ دیو بند کے صدر مدرس رہے، عبید اللہ چاہتا تھا کہ دیو بند کے مشہور و معروف فارغ التحصیل مولویوں کے ذریعے ہندوستان میں برطانیہ کے خلاف ایک عالمگیر اسلامی (پان اسلامک) تحریک چلائے مگر مہتمم اور ارباب شوریٰ نے اس کو اور اس کے چند وابستگان کو نکال کر اس کی تجویز کو درمیان میں ہی ختم کر دیا۔ مولانا محمود حسن دیو بند میں ہی رہے اور عبید اللہ اور ان کی ملاقاتیں ہوتی رہیں، مولانا کے مکان پر خفیہ مجالس قائم ہوئیں اور کہا جاتا ہے کہ سرحد کے کچھ آدمی بھی ان میں شریک ہوتے ہیں۔(۵۶)
۸؍ستمبر ۱۹۱۵ء کو مولانا محمود حسن نے میاں محمد (مولانا منصور انصاری)نامی ایک شخص اور دوسرے دوستوں کے ساتھ مولوی عبید اللہ کی پیروی کی اور ہندوستان چھوڑ دیا مگر یہ لوگ شمال کا رخ کرنے کی بجائے عرب کے خطہ حجاز میں پہنچ گئے۔(۵۷)

رولٹ ایکٹ کا تنقیدی جائزہ

’’تحریک شیخ الہندؒ‘‘، ’’اسیر مالٹاؒ‘‘،’’ حیات شیخ الہندؒ‘‘، ’’نقش حیات‘‘،’’ علمائے ہند کا شاندار ماضی‘‘،’’علمائے حق کے مجاہدانہ کارنامے‘‘، وہ بنیادی ماخذ ہیں جن کے حوالے اس فصل میں آپ خاص طور پر ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ اگر رولٹ ایکٹ کی تحقیقات کا ان کتب سے ایک تقابلی جائزہ مرتب کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اکثر واقعات کی کڑیاں ملتی جلتی نظر آتی ہیں البتہ رپورٹ کا یہ حصہ درست معلومات پر مبنی نہیں ہے، رپورٹ سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ مولانا عبید اللہ اس انقلابی تحریک کے بانی تھے، یہ غلط ہے مولانا سندھی کو تو ان کے استاد مولانا محمود حسن نے سندھ سے طلب فرما کر جمعیۃ الانصار دیو بند کا کام سپرد کیا۔(۵۸) نیز یہ کہ ہجرت کابل (۱۹۱۵ء) کا حکم شیخ الہند نے دیا تھا جس پر مولانا سندھیؒ نے استفسار کیا تھا(۵۹) نیز ہجرت کابل کے ذیل میں مولانا سندھی نے خود لکھا ہے:’’ کہ میں شیخ الہند کے حکم سے کابل گیا، مجھے کوئی مفصل پروگرام نہیں بتایا گیا(۶۰) ایکٹ کی یہ خبر بھی غلط فہمی پر مبنی ہے کہ مولانا سندھیؒ اور ان کے ساتھیوں کو دیو بند سے نکال دیا گیا یہ ایک طے شدہ پروگرام تھاجو بتدریج آگے بڑھ رہاتھا اور جس کی حکمت شیخ الہند خوب سمجھ رہے تھے(۶۱) رپورٹ کا یہ حصہ درست ہے کہ شیخ الہندؒ مولانا محمود حسنؒ اور ان کے رفقا ء ہندوستان سے برطانوی راج کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ دیو بند میں جمعیۃ الانصار کا قیام، دہلی میں نظارۃ المعارف، طرابلس و بلقان کی جنگوں میں دارالعلوم دیو بند کا کردار، مولانا سندھیؒ کو کابل روانہ کرنا اور خود حجاز کا سفر کرنا، وہاں غالب پاشا، انور پاشا اور جمال پاشا سے ملاقاتیں کرنا اور حجاز میں رہ کر افغانستان اور آزاد قبائل سے رابطہ میں رہنا، یہ تمام ایسے اقدامات ہیں جن سے ان کا سیاسی منصوبہ ثابت ہوتا ہے۔ شریف مکہ حسین کی غداری اور ملت فروشی کی وجہ سے تحریک کامیاب نہ ہو سکی لیکن آزادی وطن کی تحریکوں میں ایک سنہری باب کا اضافہ تو ممکن ہو ہی گیا۔ یہاں اس تحریک کا اجمالی تذکرہ پیش کیا جاتا ہے جس سے شیخ الہند اور ان کے رفقاء کی سیاسی جدو جہد مزید نمایاں ہوتی ہے۔

حجاز کا سیاسی سفر: حجاز میں شیخ الہند کی سیاسی سرگرمیاں

شیخ الہندؒکی سیاسی جدو جہد کے ذیل میں نہایت اختصار سے اس کا پس منظر بھی بیان کر دیا گیا ہے، طرابلس، بلقان اور جنگ عظیم اول میں ترکی کی شمولیت اور اختتام پر جو حالات و واقعات متوقع تھے وہ ہر ذی شعور اور درد دل رکھنے والا مسلمان خاص طور پر محسوس کر سکتا تھا، ان عالمی واقعات کے خلاف برصغیر کے مسلمانوں کی سیاسی جدو جہد کی حیثیت ایک قومی، ملی رد عمل نظر آتی ہے۔ غور کیا جائے تو 1857 کی جنگ آزادی بھی برطانوی سامراج (Imperialism) کے خلاف ایک قومی رد عمل تھا جس کا ذکر سرسید نے رسالہ ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ کے علاوہ اپنے بہت سے مضامین ’’تہذیب الاخلاق‘‘میں کی ہے۔ شیخ الہند کی سیاسی جدو جہد بھی ایک رد عمل کے علاوہ اپنے حلقوں کی طرف سے انجام محبت بھی تھی۔ کسی سیاسی تنظیم اور مسلح جدو جہد کے لیے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے وہ یہاں مفقود نظر آتے ہیں۔ میسر اسباب کے تناظر مں یہ ایک عالمگیر تحریک نظر آتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے یہ تحریک اپنے منطقی انجام سے پہلے ہی ختم ہو گئی تب بھی اس کے اثرات سے انکار ممکن نہیں ہے۔ 1857 کی جنگ آزادی اور پھر تحریک خلافت اور ان کے دوران جو قربانیاں دی گئیں ان کو ان تحریکوں کے منطقی انجام کے حوالے سے غیر مؤثر نہیں کہا جا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ یہ تمام تحاریک آزادی وطن کی تحریکیں تھی لیکن مذہب کے عنصر سے خالی نہیں تھی۔ شیخ الہند کی تحریک کو بجا طور پر ایک عالمی تحریک کہا جا سکتاہے، ہندوستان کے علاوہ افغانستان، یاغستان اورحجاز کے فکری و عملی مراکز قائم کیے گئے:
(۱) ہندوستان میں آپ نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز دیو بند کی بجائے دہلی کو بتایا۔ جہاں ڈاکٹر مختار احمد انصاری، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، نواب وقار الملک، حکیم اجمل خاں، حکم عبد الررزاق انصاری، مولانا ابو الکلام آزاد اور سیٹھ عبد اللہ ہارون جیسے مؤثر حضرات شیخ الہند کے مشیر ومعاون تھے۔ اس تحریک میں کچھ ایسے لوگ بھی شامل تھے جو علی گڑھ تحریک سے وابستہ تھے۔(۶۲)
(۲) دوسرا مرکز یاغستان (آزاد قبائل)میں قائم کیا گیا، سید احمد شہید نے بھی اپنی تحریک کے لیے اسی علاقے کو پسند کیا تھا،شیخ الہند نے اس مرکز میں مولانا سیف الرحمن، مولانا فضل ربی اور مولانا محمود اور مولانا محمد اکبر جیسے علماء کو بھیجا، علاوہ ازیں اس علاقے میں آپ کے بہت سے شاگرد اور مخلص موجود تھے، ان لوگوں کی مساعی سے بڑے درجہ تک کامیابی نظر آنے لگی۔ مزید حاجی ترنگزئی صاحب سے بھی استدعا کی گئی کہ وہ اپنے وطن کو چھوڑیں اور انگریزی حدود سے باہر جا کر ان مقاصد (آزادی) کے لیے کوشش کریں۔(۶۳)
(۳) تیسرا مرکز افغانستان (کابل)تھا جس کے روح رواں مولانا عبید اللہ سندھیؒ تھے۔
(۴) چوتھا مرکز حجاز قرار پایا جہاں شیخ الہند اپنے جانثار رفقاء کے ہمراہ تشریف لے گئے۔ آپ ۱۰؍شوال ؍اگست 1915ء کو عازم حج ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ترکوں کی حمایت کی الزام میں علی برداران اور مولانا ابو الکلام آزادؒ نظر بند کیے جاچکے تھے اور مولانا محمود حسن کی گرفتاری بھی متوقع تھی، ان حالات میں ڈاکٹر مختار احمد انصاری نے مشورہ دیا کہ آپ جلد از جلد انگریزی علمداری سے نکل جائیں۔ دائرہ معارف اسلامیہ کے مقالہ نگار نے ان حالات کو اجمالا جبکہ مولانا مدنی نے تفصیلا بیان کیاہے۔ شیخ الہند کا ارادہ تھا کہ حجاز کے راستہ استنبول پہنچا جائے۔(۶۴) جیسا کہ بعد حالات سے ثابت بھی ہوتا ہے۔ استنبول جانے کا مقصد ترک رہنماؤں سے ملاقات کرنا تھی جو مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں ممکن ہو گیا۔ سفرحجاز کے انتظامات میں حکیم عبد الرزاق غازی پوری (برادر ڈاکٹر انصاری)نے نہایت زیادہ مدد دی جس کے مولانا مرحوم ہمیشہ ممنون منت رہے۔(۶۵)اس سفر و روانگی وغیر ہ کو سید حسین احمد مدنی نے تفصیل سے لکھا ہے جس میں علمائے دیو بند سے الوداعی خطاب، اپنی روحانی والدہ (۶۶) سے رخصت طلب کرنا، دیو بند سے بمبئی تک آپ کے عقیدت مندوں کا استقبال اور الوداع کہنا، یہ تمام واقعات متاثر کن نظر آتے ہیں جن سے آپ کے دینی اور سیاسی رسوخ کا اندازہ بھی کیا جا سکتا ہے۔(۶۷)
مولانا حسین احمد مدنی کا کہنا ہے کہ سفر حجاز کا پہلے سے کوئی تذکرہ نہ تھا فوراً روانہ ہو گئے اس لیے حکومت کا شبہ اور زیادہ قوی ہو گیا کہ چونکہ ترکی حکومت جنگ کر رہی ہے۔ حضرت شیخ الہندؒ وہاں جا کر سازش کر لیں گے۔ اس لیے ممکن حد تک کوشش ہوئی کہ ان کو گرفتار کر لیا جائے لیکن جو جگہ عوامی رد عمل آڑے آتا رہا، گرفتاری کے احکامات نے بمبئی ہی سے آپ پر خفیہ پولیس کے لوگ متعین کر دیتے تھے۔(۶۸)سفر نامہ کے مطابق مولانا کے رفقا(۶۹)کو اس پر متنبہ کر دیا گیا تھا کہ ان کے ساتھ آٹھ دس آدمی خفیہ پولیس کے ہیں۔ ترکی پولیس نے ایک خفیہ اطلاع پر ان لوگوں کو گرفتار بھی کر لیا لیکن شیخ الہند شہادت کی تادیبی کاروائی کے حق میں نہ تھے۔ مولانا اس لیے حج کے فورا بعد ان لوگوں کو واپس ہندوستان بھیج دیا گیا۔(۷۰) ترکی پولیس کا ان جاسوسوں کو یوں گرفتار کرنا، مولانا سے انکے بارے میں رائے لینا اور پھر بغیر زیارات مدینہ کے ان کو واپس بستی بھیج دینا، اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے  کہ ترکی کی حکومت نہ صرف آپکی سیاسی سرگرمیوں سے آگاہ بلکہ آپکی رائے کا احترام بھی کرتی تھی۔

غالب پاشا سے مکہ معظمہ میں ملاقات اور غالب نامہ کی تصنیف

جس کا ثبوت بعد کے پیش آمدہ واقعات ہیں، یہ ترک حکمرانوں سے شیخ الہند مولانا محمود حسن کی ملاقاتیں ہیں۔ ان میں پہلی ملاقات غالب پاشا (گورنرحجاز)سے مکہ میں ہوتی۔ یہ ملاقات حافظ عبد الجبار دہلوی کی وساطت سے ہوئی۔(۷۱) ترجمانی کے فرائض ایک ہندوستانی تاجر نے ادا کیے جو ترکی اور عربی زبان خوب جانتا تھا۔ اس ملاقات کا مولانا مدنیؒ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
جو باتیں حضرت شیخ الہندؒ نے کیں ان کا ترجمہ (مترجم نے)کر کے غالب پاشا کو سمجھایا۔ غالب پاشا نہایت توجہ اور غور سے تمام باتوں کو سنتے رہے، معمولی ملاقات کے بعد کہا کہ آپ کل اسی وقت تشریف لائیں تو اس وقت میں جواب دوں گا، حضرت شیخ الہندؒ اسی روز واپس آگئے۔ غالب پاشا نے ہندوستان کے معزز تاجروں سے تحقیق کی کہ مولانا محمود حسن کی حیثیت ہندوستان میں کیا ہے؟ لوگوں نے حضرت کی علمی اور عملی حیثیت شہرت اور قبولیت کی بہت اونچی شان بتلائی لہٰذا اگلے دن جب حضرت ملاقات کیلئے  تشریف لے گئے تو نہایت تپا ک سے ملے اور جو کچھ حضرت نے کہا اس کو قبول کیا دیر تک تحریک اور مشن آزادی کے متعلق باتیں ہوتی رہیں، آپ نے اس ملاقات میں انور پاشا سے ملاقات کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔(۷۲)اس کے جواب میں غالب پاشا نے تین تحریریں لکھیں، انہیں تحریروں کو غالب نامے(۷۳) کی تاریخی دستاویز سے معنون کیا جاتا ہے، ریشمی خطوط کی ڈائریکٹری میں اس غالب نامہ کا ذکر موجود ہے جس سے مولانا مدنی کے بیانات کی تصدیق کی جا سکتی ہے، انگریزی ایجنسی کی یہ رپورٹ لکھتی ہے:
جدہ کے بعد کے واقعات بتاتے ہوئے عبید اللہ(سندھی)نے حضرت مولانا (شیخ الہندؒ)کو جو خط لکھا ہے اس میں یہ لفظ آیا ہے۔ اس کا لفظی ترجمہ ہے، غالب کی تحریر، یہاں اس کا اشارہ اس فرمان کی طرف ہے جو مولانا محمود حسنؒ نے حجاز کے ترک فوجی گورنر غالب پاشا سے حاصل کیا تھا۔ یہ عام مادہ کاغذ پر عربی ، فارسی اور ترکی زبان میں لکھا ہوا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ترک برطانیہ عظمی اور دوسرے ملکوں سے برسر جنگ ہے اور ہر جگہ کامیاب ہو رہے ہیں۔ فرمان لکھنے والے کی مولانا محمود حسن (صدر مدرس مدرسہ دیوبند) سے ملاقات ہوئی، اس نے وہ سب باتیں سنیں جو مولانا نے بیان کیں، اسے ان پر پورا بھروسہ ہے ، تمام مسلمان ان کو معتمد سمجھیں اور ان پر بھروسہ کریں اور ان کی ہر ممکن مدد کریں، خصوصا ترکوں کو ان کی مدد کرنی چاہیے۔(۷۴) دائرہ معارف اسلامیہ کے مقالہ نگار نے بھی اس ملاقات اور تحریر کا ذکر کیا ہے لیکن حیات شیخ الہند کے مؤلف نے اس واقعہ کی طرف اشارہ تک نہیں کیا۔ اس کی وجہ وہ حکمت عملی ہے جو سفر نامہ اسیر مالٹا کی تصنیف میں اختیار کی گئی ہے۔ کیونکہ مولانا کی یہ سوانح آپ کی وفات کے تین چار ماہ بعد لکھی گئی۔(۷۵)
   گویا یہ زمانہ مارچ ، مئی ۱۹۲۰ء کا زمانہ تھا اور ابھی تحریک خلافت زوروں پر چل رہی تھی، ان حالات میں حکمتاً ان واقعات سے احتراز کیا گیا، مولانا مدنی کی تحقیقی کے مطابق یہ غالب نامے میں موجودہ تحریروں پر مشتمل تھا یعنی غالب پاشا نے مولانا کے لئے تین تحریریں لکھیں: ایک تحریر تمام ہندوستان مسلمانی کے لیے اپنی طرف سے بحیثیت گورنر حجاز لکھ کر دی اور ایک تحریر گورنر مدینہ منورہ بصری پاشا کو لکھی کہ یہ معتمد علیہ شخص ہیں ان کا احترام کرو اور ان کو استنبول انور پاشا کے پاس پہنچا دو اور ایک تحریر انور پاشا کے نام لکھ دی کہ یہ معتمد علیہ شخص ہیں، ان کے مطالبات پورے کیجیے (۷۶) بعد ازاں یہ خط مولانا محمد میاںؒ (محمد منصور انصاری)(۷۷) کے حوالہ کر دیا گیا جو شیخ الہند کے ساتھ سفر حجاز میں رفاقت کی خدمات انجام دیتے رہے۔ مکہ معظمہ میں گورنر حجاز غالب پاشا کی ملاقات ہونے اور ہدایات و تعلیمات ضرور یہ حاصل کرنے کے بعد حضرت شیخ الہند نے ان کو ہندوستان واپس کیا اور اس پر مامور کیا کہ وہ ہندوستان جا کر حسب تعلیمات غالب پاشا کا رہائے متعلقہ انجام دیں اور مشن کے ممبروں کی رہنمائی فرماتے ہیں(۷۸) اس خط کو مولانا منصور انصاریؒ نے پہلے ہندوستان، باغستان کے آزاد قبائل تک بڑی ہو شیاری اور کامیابی سے پہنچایا اور برطانوی پولیس آخری وقت تک آپ کو گرفتار نہ کر سکی۔ مولانا ابو الکلام آزاد جیسے لوگ مولانا انصاری کے سیاسی تدبر کے قائل تھے، مولانا حامد الانصاری غازی (سابق ایڈیٹر اخبار مدینہ بجنور) جو ہندوستان کی صحافت میں اپنا ایک خاص مقام رکھتے تھے وہ انہی مولانا منصور انصاری کے بڑے صاحبزادے ہیں۔(۷۹)

انور پاشا اور جمال پاشا سے ملاقات اور وثائق سیاسیہ کا حاصل کرنا

آپ کو یاد ہو گا غالب پاشا کے ملاقات کے دوران شیخ الہند نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ انور پاشا سے بھی ملنا چاہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے گورنر مدینہ کو ہدایت کی وہ آپ کو استنبول میں انور پاشا کے پاس پہنچا دے نیز انور پاشا کے نام ایک تعارفی تحریر بھی لکھ دی تھی۔ ایک اور تحریر ہندوستانی مسلمانوں کے نام بھی تھی۔ یہی تحریرات ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں ’’غالب نامہ‘‘ کے نام مشہور ہوئیں۔ اب خدا کا کرنا یہ ہوا کہ یہ دونوں حضرات مدینہ منورہ میں آرہے تھے۔ شیخ الہند پہلے ہی ماہ محرم کو مدینہ پہنچ چکے تھے اور اپنے جانثار شاگرد مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے گھر قیام پذیر تھے(۸۰) چنانچہ مولانا مدنی نے مفتی ماموں بری(۸۱) کی وساطت سے شیخ الہند کے ملاقات ان ترک حکام سے کرائی۔ مولانا مدنی نے شیخ الہند کی درخواست برائے ملاقات انور پاشا تک پہنچا دی تھی جس کو انور پاشا نے ملاحظہ فرما لیا تھا۔ گویا وہ اس ملاقات کے لیے تیار تھے۔ چنانچہ اسی روز بعد از مغرب تنہائی میں اس ملاقات کے حال مولانا مدنی نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ’’چنانچہ حضرت شیخ الہند اور مولانا خلیل احمد صاحب موقع ملاقات پر پہنچے ایک تنہا اور بند کمرہ میں ملاقات ہوئی،جمال پاشا سے باتیں ہوئیں، غالب پاشا کا خط ان کو دکھایا گیا، بہت خوش اخلاقی سے پیش آئے اور تمام باتیں غور اور اطمینان سے سنیں اور فرمایا کہ تحریک مطالبہ آزادی اہل ہند کو متفقہ طور سے جاری رکھنی چاہیے جب تک مقصود یعنی آزادی کا مل حاصل نہ ہو جائے ساکت نہ ہوں، عنقریب صلح کی مجلس بیٹھے گی، ہم اہل ہند کی آزادی کے لیے پوری جدو جہد عمل میں لائیں گے تم لوگ مطمئن رہو اور جس طرح ممکن ہو گا ہم ان کی ( ہند)کی امداد و اعانت کریں گے، اس وعدہ اور عہد کیلئے انہوں نے کہا کہ تمہارے خواہش موافق تحریر بھی دیں گے، میں نے عرض کیا کہ تحریر صرف ترکی زبان میں نہ ہونی چاہیے بلکہ عربی اور فارسی میں بھی ہونی چاہیے تاکہ اہل ہند سمجھ سکیں۔ انہوں نے اس کو قبول کیا مگر یہ کہا کہ چونکہ یہاں کا قیام حسب پروگرام تھوڑا ہے اور مقامی مشاغل بہت زیادہ ہیں اس لیے ہم شام (مشن) جا کر تحریریں مکمل کر کے بھیج دیں گے اور پھر واقعی ایسا ہی ہوا کہ دوتین دن بعد یہ تحریریں تینوں زبانوں میں مرتب شدہ دونوں وزیروں کے دستخط سے شیخ الہند کے پاس بذریعہ گورنرمدینہ شام سے آگئیں، اس خط میں ہندوستانیوں کے مطالبہ آزادی کی امداد و اعانت کا وعدہ تھا اور پھر اس شخص کو جو کہ ترکی کی ملازم ہے حکم تھا کہ مولانا محمود حسن صاحب (شیخ الہند)پر اعتماد کرے اور ان کی اعانت میں حصہ لے‘‘(۸۲)
اس کے بعد یہ خط (ترکی، عربی، فارسی)  ایک لکڑی کا صندوق کے تختوں کی تہہ میں چھپا کر مولانا ہادی حسن صاحب(۸۳) کے ذریعے ہندوستان پہنچا دیئے گئے اور منصوبہ کے مطابق اس کی نقول تیار کرا کر جہاں جہاں پہنچانے کا حکم تھا پہنچا دیا گیا۔ اس خط کا ذکر مولانا سندھی نے اپنی ڈائری میں بھی کیا ہے۔ مولانا مرحوم ان دنوں کا بل میں تھے۔ جہاں ان کو اطلاع ملی کہ حضرت مولانا شیخ الہند نے ایک خط انور پاشا سے لے کر ہندوستان بھیجا ہے اور اکابر دیو بند کے پاس کہیں محفوظ ہے۔ اس کے بعد احتیاط پسند لوگوں نے وہ خط جلا دیا۔(۸۴) مولانا مدنی نے اس کی تردید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس خط کے تمام فوٹو (نقول)ذمہ دار ان مراکز کے پاس پہنچا دیئے گئے تھے۔ یہ ممکن ہے ان کو پڑھنے کے بعد بعض لوگوں نے ان کو جلا دیا ہو تاکہ کوئی خدشہ پاقی نہ رہے۔(۸۵)

شریف مکہ حسین بن علی(۸۶) کی غداری اور شیخ الہند کی گرفتاری

مولانا محمود حسن نے انور پاشا وغیرہ سے ملاقات میں اپنا ارادہ ظاہر کیا کہ وہ افغانستان اور پھر داغستان جانا چاہتے ہیں تاکہ ان مراکز میں تحریک کو مزید منظم کیا جا سکے۔(۸۷) مکہ سے طائف جانے کا مقصد بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلہ میں وہ غالب پاشا سے بھی ایک ضروری ملاقات کرنا چاہتے تھے، طائف اس لیے نہیں گئے تھے کہ آپ مکہ معظمہ کی گرمی برداشت نہیں کر سکتے تھے جیساکہ آپ کے سوانح نگار نے لکھا ہے بلکہ اصل مقصد یہ تھا کہ غالب پاشا سے ملاقات کر کے ایران یاغستان جانا چاہتے تھے۔ اسی اشناس میں حضرت ابن عباس کے مزار کی زیارت کی سعادت حاصل کرنا بھی پیش نظر تھا۔(۸۸) مولانا مدنی نے سفر نامہ میں مصلحتا ان سیاسی عزائم کا ذکر نہیں کیا۔(۸۹)
بہر حال! ابھی آپ افغانستان اور یاغستان جانے کا سوچ ہی رہے کہ شریف مکہ کا انگریزوں سے سازباز کی خبریں آنا شروع ہو گئیں، خبر یہ تھی کہ شریف کے نام انگریزوں کا پیغام آیا ہے کہ ترکوں کو حجاز سے نکال دو ورنہ تمہاری جگہ تمہارے بہنوئی شریف علی سابق شریف مکہ کو بحال کر دیا جائیگا۔(۹۰) شریف حسین اور اس کے بیٹوں نے انگریزوں سے کیاسازش کی؟ اس کا مختصر سا جائزہ اس مقالہ میں دیکھا جا سکتا ہے جس کا ذکر حاشیہ نمبر (۱)میں گزرا ہے۔
شریف جاہ پسند اور طالب اقتدار تھا جس نے آزاد سلطنت عربیہ کا خواب دیکھا، وہ بھی انگریزوں کی آنکھوں سے۔ اسی خواب کی تعبیر کیلئے اس نے ۱۰؍جون ۱۹۱۶ء کو اپنے محل سے بندوق چلا کر ترکوں کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا اور اخر کار مجاز کے علاوہ شام میں بھی اس کا کٹھ پتلی اقتدار قائم ہو گیا۔ یکم اکتوبر ۱۹۱۷ء کو وہ انگریزی فوجوں کے چلومیں دمشق میں داخل ہو گیا، ترکیہ نے ۱۹۱۸ء میں معاہدہ صلح پر دستحط کر دیئے، اس طرح تخریب کاری و سازش سے خلافت عثمانیہ کا چار سو سالہ اقتدار ہمیشہ کے لیے عالم عرب سے رخصت ہو گیا۔(۹۱)  ترکوں سے غداری اور انگریزوں سے اس اتحاد کو علامہ اقبال نے اس شعر میں بیان کیا ہے…
آساں ہے اب تو ہندو مسلم کا اتحاد
کعبے کو پھر شریف نے میخانہ کر دیا (۹۲)
شیخ الہند اور ان کی حمایت پر برطانوی حکومت پر اس کی خفیہ پولیس اور ان کے مقامی جاسوس مسلسل نظر رکھے ہوئے تھے۔ مولانا کا دہلی سے بمبئی اور جدہ سے حکم تک خفیہ نگرانی ہوتی رہی۔ یہاں تک جو آپ کے متعلقین میں سے جو بھی حجاز آتا جاتا تو حکومت ان کی پوری انکوائری کرتی، مولانا خلیل احمد سہارنپوری اور مولانا ہادی حسن کی نظر بندی، تفتیش اور تشدد کے واقعات کو خاص نہیں۔ ۱۹۱۶ء کا پورا سال بھی شیخ الہند اور آپ کے رفقا کیلئے آزمائش و ابتلا کا سال تھا۔(۹۳) شریف مکہ کی بغاوت سے حجاز میں آپ کیلئے حالات سازگار نہ تھے، غالب پاشا ،انور پاشااور جمال پاسا سے شیخ الہند کی ملاقاتیں اور غالب پاشا جیسی سیاسی دستاویز جن کی شہرت ہندوستان اور افغانستان تک پہنچ چکی تھی۔ ایسے امور نہ تھے جن کو نظر انداز کیا جا سکتا تھا۔ شریف کو محض بہانہ درکار تھا جو خان بہادر مبارک علی(۹۴) نام کے ایک شخص نے مہیا کیا(جاری ہے )

 حواشی

۵۳: تحریک شیخ الہند، ص ۱۱۲، ڈاکٹر عبد السلام خورشید، تاریخ تحریک پاکستان، مقتدرہ نومی زبان، اسلام آباد، طبع اول۱۹۹۳، باب ۲، پہلی عالمی جنگ اور شیخ الہند، ص ۱۴۹۔

۵۴: اس قانون کوسرولٹ کمیٹی نے وضع کیا تھا جس کے سربراہ سرسڈنی رولیٹ تھے اس کمیٹی کا اجلاس ۱۹۱۷ء میں منعقد ہوا تھا۔(پاکستان ناگزیر تھا،ص ۳۸)

۵۵:پروفیسر محمد سلیم، تاریخ نظریہ پاکستان، ادارہ تعلیمی تحقیق، لاہور، اشاعت دوم ، جولائی ۱۹۷۷، ص ۱۶۴

۵۶: پاکستان ناگزیر تھا، ص ۷۸

۵۷: ذاتی ڈائری، ص ۴۲

۵۸ :   ایضا، ص ۲۶

۵۹:دیکھئے !مقدمہ ذاتی ڈائری، ص ۱۴

۶۰: ذاتی ڈائری، ص ۲۷

۶۱: مولانا غلام رسول مہر، سرگزشت مجاہدین

۶۲: دیکھئے: پہلی عالمی جنگ اور شیخ الہند: مشمولہ تاریخ تحریک پاکستان، ص ۱۴۷

۶۳: نقش حیات، 629/2۔

۶۴:    محمود حسن(مقالہ)، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، 34/20 ؛ نقش حیات، 632/2۔

۶۵:    اسیر مالٹا، ص 16۔

۶۶: مولانا محمد قاسم نانوتوی کی بیوہ، مولانا محمد احمد کی والدہ ماجدہ، جو آپ کے زمانہ اسیری مالٹا میں فوت ہو گئی۔

۶۷:دیکھیے حیات شیخ الہند، ص 40 تا 44۔

۶۸: نقش حیات، 633/2۔

۶۹: سفر نامہ اسیر مالٹا، ص 19۔

۷۰: یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مولانا مدنی نے سفر نامہ ’’اسیر مالٹا‘‘ میں اس ملاقات کا انکار کیا ہے اور اس کو مولانا کے سیاسی و دینی مجالس کی طرف سے آپ پر ایک اتہام قرار دیا ہے نیز اس کی غیر معقولیت پر دلائل ادیتے ہیں۔ (اسیر مالٹا، ص 24,23 ) لیکن ایک عرصہ بعد جب آپ نے نقش حیات تصنیف کی تو اس میں ان ملاقاتوں کو مفصل احوال درج کیا ہے اور سفرنامہ میں ان واقعات سے احتراز کی وجہ بھی بیان کی ہے۔ سفر نامہ آنکھوں دیکھا حال ہے جو عین اس وقت لکھا جن انگریزوں کی حکومت عروج پر تھی اس لیے ممکن نہیں تھا کہ ان واقعات کو وضاحت سے بیان کیا جاتا۔ (نقش حیات، 632/2 )نقش حیات بہت بعد کی تصنیف ہے جو 1953 کے آخر میں مکمل ہو پائی۔ (نقش حیات، 693/2)

۷۱:نقش حیات، 634/2۔

۷۲: ریشمی خطوط کی ڈائریکٹری، مشمولہ تحریک شیخ الہند، ص 423,422۔

۷۳: اردو دائرہ معارف اسلامیہ، 35/20۔ ۷۴: رضوی، تاریخ دارالعلوم دیو بند، 194/2۔

۷۵: نقش حیات، 639/2۔

۷۶:   مولانا محمد قاسم نانوتوی کے نواسے اور مولانا عبد اللہ انصاری، ناظم شبہ دینیات مسلم علی گڑھ کے فرزند اکبر تھے۔ دیوبند میں تعلیم پائی، شیخ الہند کے خاص رفقا اور مریدین میں شمار تھا۔ ستمبر 1915 میں اپنے شیخ کے ہمراہ حجاز گیا۔ اپریل 1916 غالب نامہ ساتھ لے کر واپس ہندوستان آیا، ہندوستان، آزاد قبائل کو دکھانے کے بعد وہ اس خط کو کابل لے گیا۔

۷۷ ریشمی خطوط کی ڈائریکٹری، مشمولہ تحریک شیخ الہند، ص 456,455)

89۷۸ نقش حیات، 419/2۔ ۷۹    دیکھئے تاریخ دارالعلوم دیو بند، 91/2 تا 93۔

۸۰    دیکھئے حیات شیخ الہند، ص 47۔

۸۱   آپ مدینہ منورہ میں تمام مذہبی اور دینی طبقات کے رسمی سردار تھے۔ مفتی ماموں بری مولانا محمد قاسم نانوتوی کے استاد حضرت شاہ عبد الغنی صاحب مجددی دہلوی مدنی کے شاگرد تھے اسلئے کاتب الحروف (مولانا حسین احمد مدنی)، شیخ الہند اور مولانا خلیل احمد صاحب کیساتھ نہایت دوستانہ بلکہ مشفقانہ تعلق رکھتے تھے (نقش حیات، 640/2؛ اسیر مالٹا، ص 38)

۸۲:    نقش حیات، 640,639/2۔ ۸۳ :    ایضا، 642/2۔

۸۴ :   ذاتی ڈائری، ص 90۔ ۸۵:   نقش حیات، 647/2۔

۸۶ :  حسین بن علی حجازی سادات کے ایک مقتدر گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ 1854 میں استنبول میں پیدا ہوا، جہاں اس کا باب جلا وطنی کی زندگی گزار رہا تھا تین سال بعد اس کے باپ کو مکہ آنے کی اجازت مل گئی اس کی تعلیم و تربیت مکہ میں ہوئی ، جہاں اس کا چچا عبد اللہ پاشا تھا۔ جس کی وفات بعد شریف حسین کا دوسرا چچا عون الرفیق مکے کا والی مقرر ہوا۔ عون نے شریف کو استنبول بھیج دیا جہاں وہ اعیان سلطنت کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا اور اپنے چچا کی وفات کے بعد مکہ کا والی بن کے واپس آیا۔ جب پہلی جنگ عظیم (1914-1918) کی معاونت سے شریف حسین اور اسکے لڑکے حجاز کی آزادی کا خواب دیکھنے لگے۔ چنانچہ برطانوی ایجنٹ اور ڈکچنر(Kitchener) کی معاونت سے شریف حسین اور اس کے بیٹوں نے ترکوں سے بغاوت کر دی اور 10 جون 1916 کو اپنے محل سے بندوق چلا کر اس کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اگر شریف حسین اور اس کے بیٹے انگریزوں کے دام فریب میں آکر خلافت عثمانیہ کے خلاف علم بغاوت بلند نہ کرتے تو آج اسرائیل کا کہیں وجود نہ ہوتا۔ (نذیر حسین، شریف حسین بن علی،(مقالہ)، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، 719/11 تا 720)

۸۷:  نقش حیات، 640/2۔ ۸۸: حیات شیخ الہند، ص 55/1؛ اسیرمالٹا، ص 45۔

۸۹:    حیات شیخ الہند، ص 55۔ ۹۰:    سفر نامہ اسیر مالٹا، ص 47۔

۹۱:    حیات شیخ الہند ، ص 55۔

۹۲    نیز دیکھئے مقالہ شریف حسین بن علی ، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، 720/11۔

۹۳    سید عبد الواحد مفتی،باقیات اقبال، آئینہ ادب، لاہور، بار دوم1966، ص 468۔

۹۴    حیات شیخ الہند، ص 66۔