مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کا سیاسی تفکر اور شیخ الہندؒ(قسط سوم)
پروفیسر محمد یونس خان میو
(گورنمنٹ گریجویٹ کالج آف کامرس گوجرانوالہ)
رولٹ ایکٹ کا تنقیدی جائزہ
حجاز کا سیاسی سفر: حجاز میں شیخ الہند کی سیاسی سرگرمیاں
غالب پاشا سے مکہ معظمہ میں ملاقات اور غالب نامہ کی تصنیف
انور پاشا اور جمال پاشا سے ملاقات اور وثائق سیاسیہ کا حاصل کرنا
شریف مکہ حسین بن علی(۸۶) کی غداری اور شیخ الہند کی گرفتاری
حواشی
۵۳: تحریک شیخ الہند، ص ۱۱۲، ڈاکٹر عبد السلام خورشید، تاریخ تحریک پاکستان، مقتدرہ نومی زبان، اسلام آباد، طبع اول۱۹۹۳، باب ۲، پہلی عالمی جنگ اور شیخ الہند، ص ۱۴۹۔
۵۴: اس قانون کوسرولٹ کمیٹی نے وضع کیا تھا جس کے سربراہ سرسڈنی رولیٹ تھے اس کمیٹی کا اجلاس ۱۹۱۷ء میں منعقد ہوا تھا۔(پاکستان ناگزیر تھا،ص ۳۸)
۵۵:پروفیسر محمد سلیم، تاریخ نظریہ پاکستان، ادارہ تعلیمی تحقیق، لاہور، اشاعت دوم ، جولائی ۱۹۷۷، ص ۱۶۴
۵۶: پاکستان ناگزیر تھا، ص ۷۸
۵۷: ذاتی ڈائری، ص ۴۲
۵۸ : ایضا، ص ۲۶
۵۹:دیکھئے !مقدمہ ذاتی ڈائری، ص ۱۴
۶۰: ذاتی ڈائری، ص ۲۷
۶۱: مولانا غلام رسول مہر، سرگزشت مجاہدین
۶۲: دیکھئے: پہلی عالمی جنگ اور شیخ الہند: مشمولہ تاریخ تحریک پاکستان، ص ۱۴۷
۶۳: نقش حیات، 629/2۔
۶۴: محمود حسن(مقالہ)، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، 34/20 ؛ نقش حیات، 632/2۔
۶۵: اسیر مالٹا، ص 16۔
۶۶: مولانا محمد قاسم نانوتوی کی بیوہ، مولانا محمد احمد کی والدہ ماجدہ، جو آپ کے زمانہ اسیری مالٹا میں فوت ہو گئی۔
۶۷:دیکھیے حیات شیخ الہند، ص 40 تا 44۔
۶۸: نقش حیات، 633/2۔
۶۹: سفر نامہ اسیر مالٹا، ص 19۔
۷۰: یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مولانا مدنی نے سفر نامہ ’’اسیر مالٹا‘‘ میں اس ملاقات کا انکار کیا ہے اور اس کو مولانا کے سیاسی و دینی مجالس کی طرف سے آپ پر ایک اتہام قرار دیا ہے نیز اس کی غیر معقولیت پر دلائل ادیتے ہیں۔ (اسیر مالٹا، ص 24,23 ) لیکن ایک عرصہ بعد جب آپ نے نقش حیات تصنیف کی تو اس میں ان ملاقاتوں کو مفصل احوال درج کیا ہے اور سفرنامہ میں ان واقعات سے احتراز کی وجہ بھی بیان کی ہے۔ سفر نامہ آنکھوں دیکھا حال ہے جو عین اس وقت لکھا جن انگریزوں کی حکومت عروج پر تھی اس لیے ممکن نہیں تھا کہ ان واقعات کو وضاحت سے بیان کیا جاتا۔ (نقش حیات، 632/2 )نقش حیات بہت بعد کی تصنیف ہے جو 1953 کے آخر میں مکمل ہو پائی۔ (نقش حیات، 693/2)
۷۱:نقش حیات، 634/2۔
۷۲: ریشمی خطوط کی ڈائریکٹری، مشمولہ تحریک شیخ الہند، ص 423,422۔
۷۳: اردو دائرہ معارف اسلامیہ، 35/20۔ ۷۴: رضوی، تاریخ دارالعلوم دیو بند، 194/2۔
۷۵: نقش حیات، 639/2۔
۷۶: مولانا محمد قاسم نانوتوی کے نواسے اور مولانا عبد اللہ انصاری، ناظم شبہ دینیات مسلم علی گڑھ کے فرزند اکبر تھے۔ دیوبند میں تعلیم پائی، شیخ الہند کے خاص رفقا اور مریدین میں شمار تھا۔ ستمبر 1915 میں اپنے شیخ کے ہمراہ حجاز گیا۔ اپریل 1916 غالب نامہ ساتھ لے کر واپس ہندوستان آیا، ہندوستان، آزاد قبائل کو دکھانے کے بعد وہ اس خط کو کابل لے گیا۔
۷۷ ریشمی خطوط کی ڈائریکٹری، مشمولہ تحریک شیخ الہند، ص 456,455)
89۷۸ نقش حیات، 419/2۔ ۷۹ دیکھئے تاریخ دارالعلوم دیو بند، 91/2 تا 93۔
۸۰ دیکھئے حیات شیخ الہند، ص 47۔
۸۱ آپ مدینہ منورہ میں تمام مذہبی اور دینی طبقات کے رسمی سردار تھے۔ مفتی ماموں بری مولانا محمد قاسم نانوتوی کے استاد حضرت شاہ عبد الغنی صاحب مجددی دہلوی مدنی کے شاگرد تھے اسلئے کاتب الحروف (مولانا حسین احمد مدنی)، شیخ الہند اور مولانا خلیل احمد صاحب کیساتھ نہایت دوستانہ بلکہ مشفقانہ تعلق رکھتے تھے (نقش حیات، 640/2؛ اسیر مالٹا، ص 38)
۸۲: نقش حیات، 640,639/2۔ ۸۳ : ایضا، 642/2۔
۸۴ : ذاتی ڈائری، ص 90۔ ۸۵: نقش حیات، 647/2۔
۸۶ : حسین بن علی حجازی سادات کے ایک مقتدر گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ 1854 میں استنبول میں پیدا ہوا، جہاں اس کا باب جلا وطنی کی زندگی گزار رہا تھا تین سال بعد اس کے باپ کو مکہ آنے کی اجازت مل گئی اس کی تعلیم و تربیت مکہ میں ہوئی ، جہاں اس کا چچا عبد اللہ پاشا تھا۔ جس کی وفات بعد شریف حسین کا دوسرا چچا عون الرفیق مکے کا والی مقرر ہوا۔ عون نے شریف کو استنبول بھیج دیا جہاں وہ اعیان سلطنت کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا اور اپنے چچا کی وفات کے بعد مکہ کا والی بن کے واپس آیا۔ جب پہلی جنگ عظیم (1914-1918) کی معاونت سے شریف حسین اور اسکے لڑکے حجاز کی آزادی کا خواب دیکھنے لگے۔ چنانچہ برطانوی ایجنٹ اور ڈکچنر(Kitchener) کی معاونت سے شریف حسین اور اس کے بیٹوں نے ترکوں سے بغاوت کر دی اور 10 جون 1916 کو اپنے محل سے بندوق چلا کر اس کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اگر شریف حسین اور اس کے بیٹے انگریزوں کے دام فریب میں آکر خلافت عثمانیہ کے خلاف علم بغاوت بلند نہ کرتے تو آج اسرائیل کا کہیں وجود نہ ہوتا۔ (نذیر حسین، شریف حسین بن علی،(مقالہ)، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، 719/11 تا 720)
۸۷: نقش حیات، 640/2۔ ۸۸: حیات شیخ الہند، ص 55/1؛ اسیرمالٹا، ص 45۔
۸۹: حیات شیخ الہند، ص 55۔ ۹۰: سفر نامہ اسیر مالٹا، ص 47۔
۹۱: حیات شیخ الہند ، ص 55۔
۹۲ نیز دیکھئے مقالہ شریف حسین بن علی ، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، 720/11۔
۹۳ سید عبد الواحد مفتی،باقیات اقبال، آئینہ ادب، لاہور، بار دوم1966، ص 468۔
۹۴ حیات شیخ الہند، ص 66۔