مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کا سیاسی تفکر اور شیخ الہندؒ(قسط 4)
پروفیسر محمد یونس خان میو
مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کا سیاسی تفکر اور شیخ الہندؒ(قسط 4)
پروفیسر محمد یونس خان میو
ترکوں کی تکفیر سے انکار
جس نے شریف مکہ جیسے شاطر آدمی کو بھی اپنی تکفیری فکر میں ڈھال لیا سید میاں اصغر نے اس کی سیاسی حکمت کے بارے میں لکھا ہے’’انہیں ایام میں اورنگ آباد دکن کے رہنے والے ایک شخص خان بہادر مبارک علی ہندوستان سے روانہ ہو کر زمانہ حج میں مکہ معظمہ پہنچے،نہایت لسان آدمی تھے۔ خوب لن ترانیاں ہانکتے تھے، ہر مجلس میں ترکوں کی مذمت کرتے تھے اور شریف صاحب کی مدح سرائی۔ شریف صاحب کے دربار میں یہ کہہ کر رسوخ حاصل کیا کہ میں گورنمنٹ ہند کافر ستادہ آیا ہوں تاکہ حجاز کے اصول معلوم کر کے واقعی باتیں ہندوستان میں ظاہر کروںکیونکہ وہاں اس وقت شریف صاحب کی طرف سے عام بدظنی پھیل رہی ہے۔علماء ان کو باغی کہتے ہیں اور شریف صاحب کی اعانت کا الزام دے کر اخبارات اور مجالس حکومت برطانیہ پر صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں۔(۹۵) اس لئے ضروری ہے کہ ایک اعلان علماء مکہ کی طرف سے مجھ کو دیا جائے جس میں ترکوں اور ان کی حکومت اور خلافت کی برائیاں ہوں، ان کے استحقاق خلافت پر پرُزور مضمون سے ردکیا گیا ہواور اس موجودہ انقلاب اور حکومت حاضرہ کی بھلائیاں ذکر کی گئی ہوں۔(۹۶) چنانچہ شریف صاحب کے حکم پر اس مضمون کا مفصل محضر اور فتویٰ تیار کیا گیا اور مبالغہ آمیز واقعات کی بنا پر ترکوں کو ملحد اور کافر ثابت کیا جائے اور شریف کی بغاوت کو حق بجانب قرار دیا گیا اور شریفی دربار سے وابستہ علماء و فقہیان نے اس پر دستخط بھی کردیئے لیکن چونکہ اس پر شیخ الہند کے دستخط نہیں تھے اس لئے مبارک علی وغیرہ کا مقصد اس سے پورا نہیں ہوتا تھا۔چنانچہ اسی فتویٰ کو اواخر محرم الحرام ۱۳۳۵ھ عصر کے بعد شیخ الاسلام مکہ معظمہ،عبد اللہ سراج کی طرف سے نقیب العلماء مکہ کے ذریعے شیخ الہند کی خدمت میں پیش کیا گیا۔مولانا مدنی جو اس وقت اپنے شیخ کی خدمت میں تھے انہوں نے اس محضر کو پڑھا اور چونکہ ترکوں کی تکفیر اور شریف کی تصدیق کسی طرح ممکن نہیں تھی۔اس لئے شیخ الہند نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا،بعض احباب کے استفسار پر آپ نے فرمایا کہ پھر کیا کیا جائے، نہ عنوان اجازت دیتا ہے اور نہ معنون،معنون میں جو باتیں ذکر کر گئی ہیں وہ سراسر خلاف شریعت ہیں۔(۹۷)‘‘
نہ عنوان اجازت دیتا ہے نہ معنون
عنوان سے مراد وہ سرخی تھی جو اس محضر کی پیشانی پر سجائی گئی تھی من علماء مکتہ المکرّمہ،المدرسین بالحرم الشریف المکییعنی یہ تحریر مکہ مکرمہ کے ان علماء کی طرف سے ہے جو کہ حرم شریف مکہ میں درس دیتے ہیں۔یہ تھا وہ عنوان جس کی طرف شیخ الہند نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس کے مصداق نہیں ہیں اور معنون سے مراد اس محضریا فتویٰ کا متن تھا جس کو مولانا محمود حسن نے غور سے پڑھااور پھر اس سے اعتراض وانکار پر شرعی و حکمی دلائل قائم کرتے ہوئے اس کو واپس کر دیا۔عنوان سے متعلق دلیل کے علاوہ معنون پر یہ دلائل بیان کرتے ہوئے نقیب العلماء کو سمجھایا کہ: ’’اس میں قوم ترک کی مطلقاً تکفیر کی گئی ہے اور دربارہ اس کے جو کچھ احتیار اور سخت احکام ہیں آپ کو معلوم ہے۔ثالثاً اس میں درجہ تکفیر سلطان عبد الحمید خاں کا تخت سے اُتار دینا لکھا گیا ہے حالانکہ کسی فقیہہ نے اس کو موجباتِ کفر میں سے قرار نہیں دیا۔رابعاً اس میں خلافت سلاطین آلِ عثمان کا انکار کیا گیا ہے حالانکہ یہ امر مخالف نصوص شرعیہ ہے نیز، اس میں اس انقلاب اور حرکت (ترکوں سے بغاوت اور انگریزوں سے اتحاد)کو مستحسن دِکھایا گیا ہے اور یہ بھی شرعاً نہایت قبیح واقع ہوا ہے۔‘‘(۹۸)
شیخ الہند کے انکار فتویٰ سے خان بہادر مبارک علی،شریف مکہ اور ان کے حواریوں کے سازش ایک بار پھر ناکام ہو گئی۔آپ کے اس جرأت آمیز اور ایمان افروز اقدام کی حجاز بھر میں شہرت ہوگئی اور اس کے دور رس نتائج دیکھنے میں آئے۔اول یہ کہ اس سے علمائے حقانی جو اس فتویٰ سے بیم ورجا کی کیفیت میں مبتلا تھے ان کا مورال بلند ہو گیا۔ ہندوستانی علماء کا اعتماد شیخ الہند پر مزید مستحکم ہوا اور انہوں نے آپ کی حیات میں قربانیاں دینے کے لئے عزم صمیم کیا۔دوسرے نقیب العلماء خود بھی ان دلائل سے متاثر ہوئے اور شیخ الاسلام نے بھی اس محضرنامے کی شرعی حیثیت اور نامعقولیت پراز سر نو غور کیا،اسی کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے اس سے تکفیر عبارت کو حذف کر دیا اور پھر صرف پہلے علماء کے دستخطوں پر ہی اکتفاء کیا گیا۔بعد ازاں اسی فتویٰ کو ’’اخبار القبلہ‘‘ میں شائع بھی کر دیا گیا۔(۹۹) یہ مہم تو خیرناکام ہوئی لیکن سیاسی مزاجوں پر اس کے اثرات بہت نمایاں تھے کہ ایک اور بہانہ ہاتھ آیا یا یوں کہیے کہ’’خوئے بد را بہانہ بسیار‘‘مولانا مدنی ایک معروف ہندوستانی تاجر حاجی عبد الجبار کی دوکان پر تشریف فرما تھے کہ ایک جلد ساز، سید احمد(۱۰۰)ایک کتاب کی جلد کر کے واپس کرنے آئے۔عبد الجبار نے جلد پسند کی لیکن اس کی انگریزی طرز پر خوش نہ ہوئے۔سید احمد نے کہا چونکہ دونوں طرز مروج ہیں اس لئے اتفاقیہ ایسی تیار ہوگئی۔مولانا مدنی نے اس پر یہ تبصرہ کیا کہ دیکھیے کس قدر انگریزیت پھیلتی جاتی ہے، پہلے تو یہ حالت نہ تھی۔اسی جملہ کواُٹھا کر یہ صاحب شریف مکہ کو ملے اور جوش عداوت میں یہ خبر بہم پہنچائی کہ ہندی عالم(شیخ الہند)اور ان کے رفیق خاص مولانا حسین احمد مدنیؒ یہ کہتے ہیں کہ’’اب تو خانہ خدا بھی انگریزیت کے اثر سے محفوظ نہیں رہا، مکہ معظّمہ میں ہر طرف انگریزی ہی انگریزی پھیل گئی۔‘‘(۱۰۱)
کرنل وِلسن اور شریف مکہ کی ملاقات
اب شیخ الہند کی گرفتاری گویا لازم ہو گئی اور ادھر برطانوی حکومت بھی آپ کے تعاقب میں تھی،چنانچہ کرنل وِلسن جو حکومت کا معتمد اور وزیر جنگ کے عہدہ پر فائز تھا،ان دنوں جدہ میں تھا،شریف مکہ نے یہاں اس سے ملاقات کی اور جدہ ہی سے ٹیلیفون پر شیخ الاسلام اور اپنے ماتختوں کو حکم دیا کہ مولانا شیخ الہند اور ان کے رفقاء کو گرفتارکرکے جدہ میں انگریزی سرکار کے حوالے کر دیا جائے۔ (۱۰۲)مولاناحسین احمد مدنیؒ ایک عرصہ سے حجاز میں مقیم تھے۔مسجد نبویؐ کے شیخ الحدیث تھے۔شیخ الاسلام اور ان کے حلقہ کے اہل علم ان کی دینی حیثیت اور علمی وجاہت سے مرعوب تھے۔اس لئے گرفتاری کا یہ عمل مولانا مدنی کے استدلال اورپھر احترام کی وجہ سے ایک بار پھر مؤخر ہوالیکن جو نا ہوتا تھا وہ ہوا،شریف مکہ آئے اور شیخ الاسلام وغیرہ کو سختی سے حکم دیا کہ شیخ الہند کو گرفتار کرو، اگر روپوش ملیں تو ان کے رفقاء کو گولی ماردو،مولانا مدنی بھی اس جرم میں قید ہوئے اور آخر کار شیخ الہند،مولانا عزیز گُل،مولاناوحید احمداور حکیم نصرت حسین گرفتار ہو کر جدہ پہنچے۔مولانا مدنی اگر چاہتے تو اس اسارت سے بچ سکتے تھے اورمسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مسنِد حدیث پر دوبارہ فائز ہو سکتے تھے لیکن اپنے شیخ کی معیت اور خدمت ان کو بھی مالٹا لے گئی۔ان حضرات کے دو گھنٹے بعد مولانا مدنی بھی جدہ پہنچ کر اسیران مالٹا میں شمار ہوئے۔(۱۰۳)
شیخ الہند اور رفقاء انگریزی عدالت میں
مکہ معظّمہ کے قید خانے، جدہ میں قیام قاہرہ میں برطانوی حکام کی تفتیش اور پھر مالٹا میں طویل اسارت کے واقعات کو مولانا حسین احمدمدنی نے اپنے سفر نامہ میں بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔’’حیات شیخ الہند‘‘، دوسری بڑی تاریخی دستاویز ہے جو تحریک آزادی کے اس باب کومحفوظ رکھتی ہے۔یہاں ان تمام جُز ئیات کو بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔صرف چند ایک واقعات کی طرف اشارہ ہی کیا جا سکتا ہے۔مولانا مدنی ان تمام واقعات کے نہ صرف چشم دید گواہ تھے بلکہ خود اس ظلم و تشدد کا شکار تھے۔چنانچہ اس بارے میں ان کا بیان نہایت اہمیت کا حامل قرار دیا جاتا ہے۔ وہ شیخ الہند اور اپنی قید کے بارے میں فرماتے ہیں۔
’’خلاصہ یہ ہے کہ سب گرفتار کر کے جدہ بھیجے گئے۔۲۴ صفر۱۳۳۵ ھ؍ ۱۹۱۶ء ء کو بوقت صبح زیر حراست جدہ پہنچے اور ایک مہینہ زیر حراست رکھے گئے،پھر۱۸ ربیع الاول۱۳۳۵ھ بمطابق۱۲ جنوری۱۹۱۶ ء کو خدیوی جہاز سے اسی طرح زیر حراست سویز بھیجے گئے۔۲۲ ربیع الاول بمطابق۱۶ جنوری کو سویز پہنچے، وہاں سے گوروں کی حراست (جو کہ پندرہ یا سولہ تھے اور بندوق اور سنگینوں سے مسلح تھے) ہم کو قا ہرہ ریل میں بھیجاگیا اور اسی دن عصر کے بعد ہم کو جیزہ(۱۰۴)کے سیاسی جیل(معتقل)میں داخل کر دیا گیااوراگلے دن سے بیانات لینے کا سلسلہ شروع ہوا۔بیان لینے والا شخص انگریز تھا،اُردو نہایت سلیس اور صاف بولتا تھا،اس کے پاس بڑی بڑی ضخیم کتابیں اور فائل تھے،جن میں سی آئی ڈی کے بیانات اور رپورٹیں مندرج تھیں،پہلے ہمارا خیال تھا کہ ہماری گرفتاری فقط شریف کے محضر پر دستخط نہ کرنے اور شریف کی شکایت کی وجہ سے ہوئی ہے مگر بعد میں بیانات لینے اور سوالات کرنے اور بار بار اس کے ان کتابوں کے دیکھنے اور حوالہ دینے سے ظاہر ہوا کہ یہ گرفتاری تحریک آزادی کی ان جملہ کاروائیوں کی بناء پر ہوئی ہے، جو کہ یاغستان کابل،فرنٹیراور دیو بندوغیرہ میں مدتوں سے ہوتی رہی ہیں اور جن کی مخبری اپنوں اورغیروں دونوں نے کی تھی،بہت سی ایسی باتیں بھی پوچھی گئی ہیں، جن کے متعلق یقین تھا کہ کسی کو اطلاع نہیں ہے،حضرت شیخ الہند کے متعلق اس کے پاس رجسٹر بہت بڑا تھا۔(۱۰۵)
مولانا مدنی کے اس بیان میں کئی ایک باتیں محلِ نظر ہیں،رپورٹ کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے انہوں نے اسے اسی زمانہ میں مرتب کیا ہے، مثلاً ان کا یہ کہنا کہ بہت سے باتیں ایسی پوچھی گئی ہیں۔ماضی کے حال کو ظاہر کرتا ہے۔اپنوں کی بے وفائی کا شکوہ بھی ہے، جو لوگ اپنی دینداری کے بھیس میں مولانا کے ہمراہ رہے اور ان کی سادگی سے ناجائز فائدہ اُٹھایا،ان کی طرف اشارہ ہے نیز ایک بات بہت واضح ہے کہ شیخ الہند کی سیاسی جدوجہد پر انگریزوں کی نظر ابتداء ہی سے تھی،دیو بند میں سیاسی تنظیم پھر دہلی اور کابل کے رابطے،مولانا سندھی کے سیاسی نظریات،حجازمیں مولانا کی سرگرمیاں، غالب پاشا کے علاوہ انور پاشا اور جمال پاشا سے ملاقاتیں،غالب نامہ اور اس کا ہندو ستان بھیجنا،ریشمی خط وغیرہ مولانا محمود حسن کے خلاف جو چارج شیٹ تیار کی گئی تھی،اس میں ایک انکوائری یہ بھی تھی کہ:’’آپ سلطان ترکی اور ایران اور افغانستان میں اتحاد کرانا چاہتے ہیں اور پھر ایک اجتماعی حملہ ہندوستان پر کراکے ہندوستان میں اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں اور انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنا چاہتے ہیں۔(۱۰۶)
مطمح نظر اس سے یہ ہے کہ مولانا نے اس جرح کا کیا جواب دیا یہ امرِ واقعہ ہے کہ مولانا تحریک آزادی کا اصل مقصد اور لائحہ عمل یہی تھا۔علاوہ ازیں انگریز آفیسر نے مولانا سے بہت سوال کیے۔مولانا مدنی نے جو جرح نقل کی ہے، اس میں دیو بند،دہلی، کابل اورحجاز کی سرگرمیوں سے متعلق انتیس سوال اور ان کے جوابات ہیں۔(۱۰۷) تین انگریزوں نے جن میں دو بخوبی اردو جانتے تھے،مولانا محمود حسن سے مسلسل پانچ گھنٹے جرح کی۔(۱۰۸)
مالٹا اور فکر قاسمی کے اسیر
شیخ الہند کے بعد مولانا حسین احمد مدنیؒ پر بڑی طویل جرح ہوئی، جو پورے دو دن میں مکمل ہوئی(۱۰۹)دیگر رفقاء سمیت ان اظہارات (بیانات) کا یہ سلسلہ تقریباً ایک ماہ تک جاری رہا(۱۱۰) اس کے بعد۲۳ ربیع الثانی ۱۳۳۵ ھ بمطابق ۱۵ فروری۱۹۱۶ء پر حضرت مولانا (شیخ الہند) کو افسر نے بلا کر اطلاع دی کہ تم لوگ مالٹا بھیجے جا ؤ گے،ضروری سامان کر کے تیار ہو جاؤ(۱۱۱) اسی دن یا ۱۶ فروری ۱۹۱۶ء کو مالٹا کے لئے روانہ کر دیئے گئے اور پانچ روز بعد ۲۱ فروری ۱۹۱۶ ء مالٹا کی بندرگاہ پر اُترے۔(۱۱۲)
مالٹا،مجمع الجزائر مالٹا کی برطانوی نو آبادی کا بڑا جزیرہ ہے۔جس میں گوزو،کومنو،کومنٹو اور فلفولا،وغیرہ چھوٹے چھوٹے جزیرے بھی شامل ہیں۔پوری نو آبادی کو کبھی کبھی محض مالٹا بھی کہتے ہیں۔ مالٹا بحیرہ روم میں ایک زبردست حفاظتی قلعہ ہے۔ اس جزیرہ کا سب سے بڑا شہر”Valetta”ہے جو سب سے اہم بحری چوکی ہے اور اسے فوجی اعتبار سے بڑی اہمیت حاصل ہے۔(۱۱۳)
یہاں بہت خطرناک قسم کے قیدی لائے جاتے تھے۔ جن کی کل تعداد تقریباً تین ہزار تک لکھی ہے۔خاص خاص لوگوں کو نمبر الاٹ کر دیئے جاتے تھے۔شیخ الہند اور ان کے رفقاء کو بھی نمبر الاٹ کیے گئے۔مولوی عزیز گل نمبر 2215،حکیم مولانا نصرت حسین 2216 ء حسین احمد نمبر 2217 ئوحید نمبر 2218 اور مولانا مرحوم شیخ الہند نمبر2219۔(۱۱۴) مولانا محمود حسن 21 فروری 1916 ء کو مالٹا کے ساحل پر اُترے، تین سال تین ماہ کی قید کاٹنے کے بعد8 جون 1920 ء کو بمبئی کے ساحل پر پہنچ کر آزاد ہوئے۔ مجموعی طور پر آپ تین سال سات مال اسیر فرنگ رہے۔(۱۱۵) یہ زمانہ اسارت آ پ نے نہ صرف نہایت صبر و شکر سے گزارا بلکہ آپ کے علمی و فکری مشاغل بھی جاری رہے۔آپ نے ایک طرف خلافت عثمانیہ اور ترکوں کے خلاف مولانا عبدالحق حقانی (۱۱۶)کے فتویٰ پر دستخط سے انکار کیا تو دوسری طرف شریف مکہ کے محضر نامہ کو بھی مسترد کر دیا۔آپ کی پوری زندگی جُہد اور تحریک سے عبارت تھی۔یہ زمانہ اسارت آپ کے دینی اشغال میں حائل نہ ہو سکا۔مالٹا میں چھ ماہ قیام کے بعدعید الاضحٰی کا زمانہ آیا تو آپ نے قید خانہ کے محافظوں اور افسروں کو اس پر مائل کیا کہ قربانی مسلمانوں کا دینی شعار ہے، اس لیے اس کے مواقع فراہم کئے جائیں۔چنانچہ آپ کیلئے ایک دُنبہ کا انتظام کیا گیا۔آپ نے اس جزیرہ میں جہاں عرصہ دراز سے سنت ابراہیمی کے ادا کرنے کی نوبت نہیں آئی تھی،با آواز بلند تکبیر کہہ کر قربانی کی سنت ادا کی(۱۱۷) اور اس کے بعد یہاں بھی شعائر اللہ کی ادائیگی کی راہ کھل گئی۔مالٹا میں قیدیوں کو جو رسددی جاتی تھی، اس میں دال مسور،چاول، نمک،چائے،شکر،دودھ کے علاوہ مہینے میں ایک مرتبہ کچا گوشت بھی ملتا تھا۔یہ گوشت کیسے ذبح ہوتا تھا،کیسے سٹور کیا جاتا تھا اور اس کی شرعی حیثیت کیا تھی، نیز مسلمان اس گوشت کو کیونکر استعمال کرتے تھے۔اس کے بارے میں آپ کے تلمیذ خاص اور سوانح نگار سید اصغر حسین روایت کرتے ہیں:
’’یہ گوشت جو مہینے میں ایک بار ملتا تھا قلعہ میں مدتوں سے برف میں محفوظ چلا آتا تھاکیونکہ مالٹا جنگی ضروریات کا بڑا مرکز ہے، وہاں فوجی ضروریات کا بڑا ذخیرہ نہایت اہتمام سے موجود رہتا ہے،گوشت کے لئے سنگ مر مر کا ایک بہت بڑا مکان بنا ہوا ہے،گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑے آسٹریلیا وغیرہ دوردراز مقامات سے مہیا کر کے ہزاروں من گوشت طبی قاعدہ سے برف کی بڑ ی بڑی سلوں میں دبایا جاتا ہے اور بوقت ضرورت نکال کر صرف کیا جاتا ہے بعض ٹکڑے سولہ سترہ برس کے بعد بھی نکلے تو ظاہری صورت میں بالکل تازہ گوشت نظر آتا تھا،البتہ سنا ہے کہ لذت میں کچھ فرق ہو جاتا ہے۔یہ گوشت چونکہ باقاعدہ ذبح نہ ہوتا تھا بلکہ منخنقہ(گلا مروڑا ہوا) یا جدید مشین کے ذریعہ سے ذبح اور صاف کیا ہوا تھا۔اس لئے حضرت مولانا (شیخ الہند) نے اس کے کھانے سے اختراز فرمایا اور باوجود رغبت لحم کے مدتوں گوشت کا نام بھی نہ جانا۔(۱۱۸)‘‘
مولانا مدنی نے شیخ الہند کے سفرنامہ میں اس کی زیادہ تفصیل بیان کی ہے،وہ کہتے ہیں کہ یہ ہزاروں من گوشت آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے آتا تھا، ہر ٹکڑے پر ڈاکٹری سرٹیفکیٹ کا کاغذ لگا ہوتا تھا جس سے جملہ کیفیات گوشت کی معلوم ہوتی تھیں۔(۱۱۹) ترکی اور شامی اسیر جن میں بعض اچھے عالم بھی تھے،اس گوشت کو استعمال کررہے تھے کیونکہ گورنمنٹ نہ اس گوشت کو واپس لیتی تھی، نہ اس کی جگہ کوئی دوسری چیز دیتی تھی،نہ حلال گوشت کا کچھ انتظام کرتی تھی۔ان میں بعض یہ کہتے تھے کہ یہودونصاریٰ کا ذبیحہ حلال ہے،خواہ کسی طرح ذبح کریں اور بعض عالم تا ویل کرتے تھے کہ ہم’’مضطر‘‘(۱۲۰) ہیں اور یہ لحم ہمارے لئے حلال ہے۔(۱۲۱) لیکن شیخ الہند اور ان کے رفقاء نے اس گوشت کو استعمال نہ کیا اور اس کی حرمت پروہی دلائل دیئے جو مولانا محمد قاسم نانوتوی نے اپنی کتاب’’حجۃ الاسلام‘‘ کے آخر میں’’تحلیل گوشت‘‘ پر قلمبند کئے ہیں۔تحفہ لحمیہ کے عنوان سے بھی آپ کا ایک رسالہ مشہور ہے۔
علاوہ ازیں آپ نے اس بحث کو ایک مکتوب(۱۲۲) (بنام مولوی فدا حسین صاحب) میں بھی اٹھایا ہے۔مولانا مدنی نے آیت وَ لَا تَاْکُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ (۱۲۳) کے ذیل میں شرعی ذبح کی جن شرائط کو بیان کیا ہے یعنی اول تو شرعی ذبح، اور دوسرے ذبح کرتے وقت اسم الٰہی کا ذکر ہونا،اگر دونوں یا ایک فوت ہو گیا تو حیوان کسی طرح حلال نہیں ہو سکتا۔ہاں! اگر مسلمان ذبح کرنے والا ہو اور وہ عند الذبح تکبیر بھول جائے تو ذبیحہ حلال ہو گا۔مولانا نانوتوی نے اپنے مکتوب میں عند الذبح پر متعدد دلائل قائم کئے ہیں اور اگر ایک مسلمان قصداً تکبیر چھوڑ دے تو وہ کسی طرح حلال نہیں۔
پھر کتابی ایسا کرے تو وہ کیونکہ حلال ہو سکتا ہے، اس گوشت کی حلت کے بارے میں بعض لوگوں نے قرآن کریم کی اس آیت سے بھی استدلال کیا وَطَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حِلٌّ لَّکُمْ (۱۲۴) مولانا مدنی نے اس کے جواب میں فرمایا:’’اگر ظاہر الفاظ آیت پر جائیں تو چاہیے کہ سور بھی حلال ہو جائے کیونکہ وہ بھی نصاریٰ کا طعام اور ان کا ذبح ہے یا شراب میں پکا ہوا کوئی دوسرا کھانا ان کا حلال ہو اور اگر ان چیزوں کے حرام ہونے کا یقین دوسری آیتوں کی وجہ سے کیا جاتا ہے تو متروک التسمیہ مذبوح نصاریٰ کی حرمت کا بھی قائل ہونا ضروری ہے۔(۱۲۵) ‘‘ مولانا نونوتوی نے اپنے مقالہ مکتوب بنام فداحسین میں اس پر دلائل قائم کر کے اس کی حرمت کی حکمت بھی بیان کی ہے۔(۱۲۶)
اہل کتاب کے بارے میں ایک اصولی بحث یہ بھی ہے، کہ کیا یورپ کے موجودہ نصاریٰ پر اہل کتاب کا اطلاق ہوتا ہے،مولانا مدنی نے لکھا ہے کہ یہ بالعموم ایسا نہیں کیا جا سکتا وہ نصاریٰ یورپ جو دہرئیے ہیں، اہل کتاب نہیں ہوسکتے۔ہاں! جن میں اعتقادات مکمل سماویہ وا نبیاء ورسل کی حقانیت کا یقین، صفات الٰہی اور معادوقیامت کا اعتقاد واثق موجود ہے،ان کی نسبت یہ خیال درست ہو سکتا ہے۔(۱۲۷) اب یہ کون بتا سکتا ہے کہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جہاں سے یہ گوشت آتا تھا ان نصاریٰ اور شرائط کا اہتمام کیا جاتا ہو گا،ایک اور اشکال جو جواز حلت میں پیش کیا گیا وہ یہ تھا کہ مضطر کے لئے حالت اضطرار میں یہ گوشت جائز ہو جاتا ہے اس کے جواب میں مولانا مدنی نے لکھا ہے:
’’بہت سے لوگوں کا یہ بھی حیلہ تھا کہ ہم مضطر ہیں اور مضطر کے لئے قرآن میتہ(مُردار) اور خنزیر وغیرہ سب کو حلال بتا رہا ہے مگر یہ بھی ان کی سخت غلطی تھی اور ایسے ہی خیالات بعض یورپ کے سفر کرنے والے پکایا کرتے تھے۔حقیقت یہ ہے کہ مضطر اس کو شرعی زبان اور قرآن کی اصطلاح اور عربی لغت میں کہا جاتا ہے کہ جس کو بھوک کا وہ درجہ پہنچ گیا ہو کہ مرنے کا اندیشہ غالب ہو گیا ہو اور بھوک کی تکلیف دفع کرنے کے لئے کوئی حلال چیز نہ ملتی ہو، اس وقت مُردار حلال ہے اور وہ بھی اسی قدر جتنی سے زندگانی محفوظ ہو جائے۔پیٹ بھر کر نہیں پھر یہاں تو علاوہ گوشت کے سینکڑوں چیزیں حلال ملتی ہیں اور کم ازکم روٹی اور نمک تو سب جگہ موجود ہے۔اس لئے یہ حجتیں شیطانی ہیں۔(۱۲۸)
مولانا محمود حسن اور ان کے رفقاء کے ان دلائل کا اثر یہ ہوا کہ جن لوگوں کے دلوں میں اسلام کا پاس، خدا کا خوف اور آخرت کا خیال تھا،انہوں نے یہ گوشت کھانا چھوڑ دیالیکن چونکہ یہ زمانہ اسارت فتنہ وآزمائش کا زمانہ تھا،اس لئے گوشت کا بدل اور مسئلہ کا کوئی معقول حل ضروری تھا۔مولانا مدنی نے اس مسئلہ کو خاص طور پر اپنے شیخ مولانا محمود حسن کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے مسئلہ کی نوعیت پر غور کرتے ہوئے گوشت کی بیع کا مشورہ دیا،لیکن یہاں بھی یہ سوال درپیش تھا کہ جو چیز حرام ہے، اس کی خریدوفروخت بھی حرام ہے۔شیخ الہند نے فقہ کی کتب سے اسیروں کے لئے اس کی اجازت پر استدلال کیا اور یوں یہ مسئلہ مولانا محمود حسن کی حکمت دین کی روشنی میں حل کر لیا گیا۔مولانا مدنی نے اپنے سفر نامہ میں اس واقعہ کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
چونکہ یہ گوشت حسب قاعدہ شریعت میتہ (مُردار) تھا اس لئے ہم نہ اس کوکھا سکتے تھے اور نہ کسی مسلمان کو کھلا سکتے تھے، اب اس کی فکر کرنا پڑی کہ آیا اس کی بیع و شرا بھی جائز ہے یا نہیںچونکہ قاعدہ ہے کہ جو چیز حرام ہے اس کی خریدوفروخت بھی حرام ہے۔جو بیع باطل ہو گی،اس کی قیمت بھی حرام ہو گی،اس لیے مولانا سے جب پوچھا گیا تو فرمایا کہ ہاں! اس کی خرید وفروخت ناجائز ہے مگر تم فقہ کی کتابوں کو دیکھو اسیری کے لئے دارالحرب میں بیع باطل اور قمار وغیرہ کی اجازت دی گئی ہے، اسیر کو کافروں سے جس طرح ہو سکے مال لینا جائز ہے اور مال حلال ہے۔چنانچہ اس وقت شروح کنز موجودتھیں۔ ان کی طرف رجوع کیا۔یہ مسئلہ صاف اور واضح طور سے حل ہو گیا۔اس وقت سے ہم نے گوشت کو ہمیشہ کافروں کے ہاتھ جس قیمت سے وہ لیتے تھے بیچ دینا شروع کر دیا اور آخر تک یہی کرتے رہے اس کے پیسوں میں اپنے پاس سے کچھ نقد ملا کر اور دوسری چیزیں خریدتے تھے اور پکا کر کھاتے تھے۔(۱۲۹)
شریعی احکام کی روح کو سمجھنا اور وقت کی ضرورت اور تقاضوں کے پیش نظر اس کی جدید تشریح و تعبیر کرنا،متبادل تلاس کرنا اور دین کی روح کو بھی باقی رکھنا،مولانا محمد قاسم نا نوتوی کا خاص اسلوب تھا۔حکمت دین کے باب میں مولانا کی اسی خصوصیت کو بیان کیا گیا ہے۔شیخ الہند اور آپ کے دیگر تلامذہ میں آپ کا یہ وصف خاص طور پر منتقل ہوا تھا۔مولانا مدنی نے اس موقع پر شیخ الہند کی فقہی بصیرت سے بر محل فائدہ اُٹھایا تھا۔ (جاری ہے)
حوالہ جات (۹۵) حیات شیخ الہند،ص 68۔ (۹۶) اسیر مالٹا،ص57 (۹۷) نقش حیات،2/653۔ (۹۸) اسیر مالٹا،ص58۔ (۹۹) اسیر مالٹا،ص 59۔ (۱۰۰) بظاہر ان کی دکان پر جلد سازی کا کام ہوتا تھا،یہ صاحب خفیہ خبر رسانی کی وجہ سے شریف مکہ کے دربار میں جگہ رکھتا تھا،محضر نانہ کی سازش میں یہ صاحب بھی شریک تھے۔ اس لئے اس کی ناکامی پر غم وغصہ کا ہونا ایک فطری امر تھا۔(حیات شیخ الہند،ص71) یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ کتابوں کی جلد سازی اس لیئیبھی اختیار کی گئی ہو کہ اس بہانے سے علماء کا ان کے یہاں آنا جانا رہے اور بر سبیل مذکورہ ان کے تبصرہ و خیال سے آگاہی رہے۔(مقالہ نگار) (۱۰۱) دیکھیے، حیات شیخ الہند،ص71۔ (۱۰۲) اسیر مالٹا،ص62،حیات شیخ الہند،ص72،نقش حیات،ص2/653۔ (۱۰۳) دیکھیے حیات شیخ الہند،ص82،مولانا مدنی نے مکہ میں شیخ الہند کو گرفتاری سے بچانے کے لئے جو مساعی کیں، ان کا ذکر انہوں نے سفرنامہ اسیر مالٹا اور نقش حیات میں نہیں کیا لیکن حیات شیخ الہند میں یہ تمام واقعات تفصیل سے آئے ہیں، جن سیمعلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرات اکابر علماء دیو بند ایثار و قربانی کے کس درجہ پر فائز تھے(مقالہ نگار) (۱۰۴) دریائے نیل کے بائیں جانب ایک آبادی جو ایک مستقل ضلع شمار ہوتی ہے(حیات شیخ الہند،ص97) (۱۰۵) نقش حیات،2/654،653۔ (۱۰۶) اسیر مالٹا،ص81۔ (۱۰۷) دیکھیے اسیر مالٹا،ص77 تا 82۔ (۱۰۸) حیات شیخ الہند،ص98۔ (۱۰۹) نقش حیات،2/654۔ (۱۱۰) اسیر مالٹا،ص 91، حیات شیخ الہند،ص99۔ (۱۱۱) حیات شیخ الہند،ص105۔ (۱۱۲) اسیر مالٹا،ص 113۔ (۱۱۳) دیکھیے مالٹا (مقالہ)، مشمولہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ،18/364۔ (۱۱۴) اسیر مالٹا، ص 125۔ (۱۱۵) نقش حیات،2/655، اسیر مالٹا،ص205۔ (۱۱۶) راقم کے مقالہ (غیر مطبوعہ) ''مکالہ بین المذہب میں مولانا محمد قاسم نانوتوی کا اسلوب'' کا باب ہفتم،فصل سوم اسی بحث پر مشتمل ہے۔(مضمون نگار) (۱۱۷) حیات شیخ الہند،ص119۔ (۱۱۸) ایضاً،ص113۔ (۱۱۹) اسیرمالٹا،ص 121۔ (۱۲۰) یہ لفظ اضطرار سے مشتق ہے،مجبور و بے قرار،بے یارو مد دگار،جس کا کوئی سہارا نہ ہو۔(النمل 27:62) (۱۲۱) حیات شیخ الہند، ص 113۔ (۱۲۲) مولانا نانوتوی کا یہ خط فارسی میں ہے جو چھتیس صفحات پر مشتمل ہے، پروفیسر انوارالحسن شیر کوئی نے اس کا ترجمہ اور شرح کر دی ہے۔ (۱۲۳) دیکھیے مکتوب مولانا نانوتوی ’’درتحقیق‘‘ مااھل بہ ِ لیغیرِ اللہ وایضاح معنی قید عندالذبح مشمولہ قاسم العلوم،ص272 تا 278۔ (۱۲۴) الما یدہ5:50۔ (۱۲۵) اسیر مالٹا،ص139۔ (۱۲۶) دیکھیے مکتوب مولانا نانوتوی، مشمولہ قاسم العلوم،ص281،280۔ (۱۲۷) اسیر مالٹا،ص139۔ (۱۲۸) ایضاً،ص140۔ (۱۲۹) اسیر مالٹا،ص 140، 141۔ ________________________