ملفوظاتِ امام لاہوریؒ (قسط 9)

’’تفسیر لاہوری‘‘کی روشنی میں

ملفوظاتِ امام لاہوریؒ
’’تفسیر لاہوری‘‘کی روشنی میں

مرتب: حافظ خرم شہزاد || مدیر بزم شیخ الہند گوجرانوالہ

باشندگانِ لاہور کا عذر اور اس کا جواب

’’اگر باشندگانِ لاہور قیامت کے دن یہ عذر بارگاہِ الٰہی میں پیش کریں کہ اللہ ہمیں تو اس کا پتہ نہیں تھا کہ تیرانازل کردہ قرآن مجید لاہور میں کون ترجمہ کرکے سناتا ہے تو اس کا جواب مل سکے گا کہ جسمانی بیماری کے علاج کے لیے لندن سے تیار ہوکر آنے والی دواسارے لاہور میں چکر لگا کر انگریزی دوا فروشوں سے تو لے آتے تھے اگر تمہیں قیامت کے دن حساب وکتاب کا ڈر ہوتا تو تم لاہور میں قرآن شریف کا ترجمہ سنانے والے انسان کو تلاش کرتے تو کیا تمہیں پتہ نہیں مل سکتا تھاکہ کون شخص قرآن پڑھاتا اور سناتا ہے ۔واقعہ یہ ہے کہ نہ تمہارے دل میں خوف ِ خدا تھا اور نہ تم لوگ فرمانِ الٰہی قرآن مجید کی ضرورت ہی محسوس کرتے تھے، لہٰذا آج تمہیں اس لاپرواہی اور احکام خداوندی کی مخالفت کی سزا مل کررہے گی اور اس جہان میں ہر قسم کے مجرموں کی سزا کا ایک ہی مقام ہے جس کا نام دوزخ ہے۔‘‘ (تفسیر لاہوری: ج۴، ص۱۱۰)

نااہل جانشین اور مغفرت کی امید

’’بنی اسرائیل میں ابتداء ً بعض صالح متقی تھے ان کی وفات کے بعد ان کی اولاد نافرمان ہوگئی کہ طلب دنیا میں مشغول ہوکر کہنے لگے کہ خدا تعالیٰ معاف کردے گا۔ آج کل کے اکثر گدی نشین متبعین طریق الشیاطین معرضین عن سنۃ رحمۃ للعالمین بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ ہمارے دادا جان ولی ٔ کامل تھے ، ہم اس کی سفارش سے بخشے جائیں گے ۔‘‘ (تفسیر لاہوری: جلد۴، ص۱۲۱)

کامل کی صحبت کا اثر

’’امراضِ روحانی کا علاج صحبت شیخ کے سوا کچھ نہیں، کتابیں پڑھنے سے یہ دور نہیں ہوتے، دینی مدارس میں کتابوں پر عبور ہوجاتا ہے مگر تکمیل نہیں ہوتی،اس لیے علماء کی بھی کما حقہ اصلاح نہیں ہوتی،بعض امراض روحانی جسمانی امراض سے زیادہ مہلک ہوتے ہیں، جسمانی بیماریاں قبر سے ورے ختم ہوجاتی ہیں، روحانی بیماریاں ساتھ جاتی ہیں۔ زمینداروں ،تاجروں اور سرکاری ملازمین کو تو جانے دیجیے اہل علم بھی ان سے نجات نہیں پاسکتے جب تک کہ خاص اہتمام نہ کریں۔ مدارسِ عربیہ میں طلباء کو علم ’’دانستن‘‘ کے درجہ پر حاصل ہوتا ہے یعنی دین سمجھ کر آتے ہیں اکثر ان میں ایسے ہوتے ہیں جن پر دین کا عملی رنگ چڑھا ہوا نہیں ہوتا، اس لیے علماء کے اندر بھی روحانی بیماریاں باقی رہتی ہیں جب تک اللہ والوں کی صحبت نصیب نہ ہو۔ نبوت کا دروازہ بند ہوچکا اس کے سوا باقی تمام کمالاتِ نبوی کے حاملین اب تک باقی ہیں اب بھی موجود ہیں اور قیامت تک رہیں گے، انہیں کی صحبت میں اصلاحِ حال ہوتی،اللہ والے موتیوں سے بھی گراں قیمت ہیں، موتی ملنے ارزاں(آسان) لیکن اللہ والے ملنے گراں(مشکل)، وہ نایاب نہیں کم یاب ہیں ۔‘‘ (تفسیر لاہوری، ج۴، ص۱۲۲،۱۲۳)

انسان کے حسن وقبح کو پرکھنے کی کسوٹی

’’انسان کا حسن وقبح، شرافت ورذالت ،دیانت وخیانت اسی حکمت اور مصلحت پر پرکھی جائیگی اگر فرائض عبودیت کے ادا کرنے میں تیز گام سربکف اور ہوشیار ہے تو حسن،شریف،دیانتدار کہلائے گا ورنہ ان کے مخالف الفاظ کا مصداق بن جائے گا۔‘‘ (تفسیر لاہوری، ج۴، ص۱۳۴)
جاہل حکمران علمائِ سوء کو آلہ کار بناتے ہیں
’’صدر مملکت ایوب خان نے کہا ہے کہ سابقہ حکومت بھی مذہبی باتوں کو چھیڑتی تھی تا کہ عوام میں چپقلش رہے، خود اس نے مانا ہے اور مولویوں کو آلہ کار بناتے ہیں اور یہ حکومت جانتی ہے کہ ان کے ٹکرلینے والے دیوبندی علمائے حق ہیں، ان لوگوں میں سے کسی کو جرأت ہوتو سامنے لائیں ان کو تنخواہیں باقاعدہ ملتی ہیں جو مولانا وبالفضل اولانا ہیں ان کا حال سب کو معلوم ہے ورنہ تحقیق کر لیجیے کہ کتنی تنخواہ لیتے ہیں ۔‘‘ (تفسیر لاہوری، ج۴، ص۱۶۶)

جیل اور اللہ کا ذِکر

’’ایک دفعہ میں یہاں جیل میں تھاملتان جیل سے لایا گیا تھا میں وہاں رہ چکا تھا ، سکھ ڈاکٹر شام کے بعد میرے لیے چارپائی لے آیا میں نے پوچھا تو کہا کہ سکھ سپریٹنڈنٹ نے مجھے کہا کہ ان کو چارپائی دے دو وہ خود بھی جانتے ہیں۔ابھی ختم نبوت(تحریک) میں مجھے گرفتار کیا گیا تو چشمے ، گھڑی، تسبیح تک کی تلاشی لی، اللہ کے اسماء الحسنیٰ اپنائیے اسی کے انوار آپ کے قلوب پر پڑیں گے،نتیجہ یہ نکلے گا کہ جو ان اسماء کا خاصہ ہے اس کا مظہر آپ بن جائیں گے۔لوہے کو آگ میں ڈالو وہ آگ کی طرح ہوجاتا ہے ۔‘‘ (تفسیر لاہوری، ج۴، ص۱۶۶)

غلط اور صحیح کشف

’’احقر( سمیع الحق)ناچیز نے سوال کرتے ہوئے جوگیوں کے کشف کا ذکر کیا اور کہا کہ ان کو بھی تو کشف ہوجاتا ہے فرمایا( جوگی کا کشف ایسا ہے جیسا ہمارے ایک بزرگ نے کسی کے اس سوال کے جواب میں فرمایا کہ ہاں پانی میں بھی منہ نظر آتا ہے اور پیشاب میں بھی )صاحبِ کشف کو عالم ملکوت سے ایک سیکنڈ میں القاء ہوجاتا ہے کہ ہاں یا نہ اور متحقق ہوگا، جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے کے غلام پہنچتے ہیں، وہاں ہندو کہاںپہنچ سکیں گے،یہ تو ساتوں آسمان سے گزر کر عرش معلّٰی پر پہنچتے ہیں…
نومید ہم مباش کہ رندان بادہ نوش
ناگہ بیک خروش بمنزل رسیداند
(تفسیر لاہوری، ج۴، ص۱۷۳)

خیانت ایک مہلک روحانی بیماری

’’جو شخص مرض خیانت کا مریض ہوگا اس کی اس بیماری کا اثر مندرجہ ذیل صورتوں میں ظاہر ہوگا:
(۱)حقوق اللہ میں خیانت(۲)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق میں خیانت(۳)والدین کے حقوق میں خیانت(۴)بیوی اور اولاد کے حقوق میں خیانت(۵)رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے میں خیانت(۶) عام مسلمانوں کے حقوق میں خیانت (۷)حیوانات کے حقوق ادا کرنے میں خیانت وغیر ہ وغیرہ۔‘‘ (تفسیر لاہوری، ج۴، ص۲۱۵)

اللہ تعالیٰ کی امداد کی حکایت

’’اللہ تعالیٰ کی عجیب امداد کی حکایت سن لیجیے!استاذی ؒنے ایک دوست نمبردار گوجرانوالوی سے پوچھا کہ گوجرانوالہ میں فساد کیسے پھیلا؟ تو اس نے کہا کہ دربارہ سنگھ سکھوں کا کوئی معتبر اور دولت مند آدمی تھا ،اس نے مسلمانوں کے خلاف اسلحہ بے حد اپنے مقام میں جمع کر رکھا تھا اور اپنے سکھوں اور پنڈتوں کو کہا تھا کہ فلاں رات کو جتھے بن کر مسلمانوں کو ختم کریں گے چنانچہ اس موعود ہ رات کو محلہ رام گڑھ کو اطلاع دینے لگا کہ آؤمیں نے اتنا اسلحہ جمع کر رکھا ہے اور میری یہ اسکیم ہے کہ مسلمانوں پر حملہ کریں اب امداد الٰہی دیکھو کہ ٹیلی فون کرتے وقت نمبر غلط ہوگیا۔ ٹیلی فون رام گڑھ محلہ کو اور نمبر کسی مسلمان محلہ کی چوکی کے ساتھ ملایا اور ساری اسکیم سنادی چنانچہ وہ مسلمان سپاہی تھا وہ زمیندار اور فوج کو بلا کر اس کے گھر پر گھیرا ڈالا کہ کہاں ہے وہ اسلحہ جو تیار ہے تو اس کا رنگ فق ہوگیا کہ یہ کیا ہوا اور اسلحہ ضبط ہوا، تھانیدار اور دیگر مسلم فوج نے مسلمانوں کو کہا کہ تم سکھوں کو کچھ چھیڑوتاکہ وہ نکلیں پھر تم ہٹ جانا، ہم گولی چلائیں گے تو مسلمان اکٹھے ہوکر چھیڑنے لگے، سکھ نکلے تو مسلمان ہٹے اور فوج نے گولی چلا کر سب کو وہاں مُردار کردیا۔‘‘(تفسیر لاہوری: ج۴، ص۲۵۳)

مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کاامراء کے چندے سے گریز

’’دیوبند کے بانی قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ فرماتے ہیں کہ جب تک غریبوں کا چندہ ہوتو مدرسہ جاری رہے گا اور جب امراء کا چندہ آئے گا تو برباد ہوجائے گا، جیسا کہ نظام حیدرآباد کے چندے کے بعد انور شاہ کشمیریؒ اور مولانا شبیر احمد عثمانی ؒدونوں حضرات اختلاف کے باعث دیوبند چھوڑ کے ڈابھیل چلے گئے، یہ امراء کی امداد کی نحوست تھی کیونکہ اکثر امراء کا چندہ حلال نہیں ہوتا جس کی وجہ سے طلباء کا تزکیہ نہیں ہوتاکیونکہ اس کا اثر طلباء پر ہوتا ہے،حلال کو کھانے سے حلال جذبات پیدا ہوتے ہیں۔‘‘(تفسیر لاہوری، ج۴، ص۳۵۰)

حضرت امروٹی ؒ کا جنازہ اور تین افراد کے بارے میں وصیت

’’عاشق ومعشوق طالب کو بھی سمجھ ہوتی ہے کہ شیخ کی مجھ پر توجہ کتنی ہوتی ہے وصیت فرماگئے تھے، وفات کے وقت کہ تین آدمی میرے جنازے کوہاتھ لگائیں ، مولوی ہارون جو سندھی ترجمہ کی تصحیح کرتے ہیںاوپر بیٹھتے ہیں، ان کے والد حضرت کے بڑے خلیفہ تھے، ایک وہ جس کا نام حضرت مولانا عبدالعزیز تھا،جنھوں نے ساری عمر حضرت کی خدمت وحضوری میں گزاری، دوتین مہینوں میں ایک دودن کے لیے گھر جاتے ۔یا احمد علی یا حضرت دین پوری (غالبا ً حضرت مولانا غلام محمد دین پوری مراد ہیں) جو میرے دوسرے مربی ہیں حضرت کی تمنا تھی۔ (تفسیر لاہوری، ج۴، ص۳۷۵)