مصنوعی حمل :جدید سائنسی تحقیقات اور شرعی نقطہء نظر

مصنوعی حمل :جدید سائنسی تحقیقات اور شرعی نقطہء نظر
   *مولانا انیس الرحمن ندوی||جنرل سیکرٹری، فرقانیہ اکیڈمی وقف وایڈیٹر مجلہ تعمیر فکر، بنگلور
جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے جہاں انسان کو بہت سی مشکلات ومسائل کو حل کرنے میں مدد ملی ہے اور ان کے سبب انسانی زندگی آسان ہوئی ہے، وہیں اس نے انسانوں کے لئے بعض نئے اور پیچیدہ مسائل بھی پیدا کردئے ہیں جن کا حل اسلامی شریعت کی روشنی میں ناگزیر ہے۔ دور حاضر کے انہی مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ مصنوعی حمل (Artificial Pregnancy) کا ہے۔مصنوعی حمل عام طور پر ان تولیدی تکنیکوں کوکہا جاتا ہے جو قدرتی حاملگی کے بجائے طبی مداخلتوں کے ذریعہ حمل کے حصول میں معاون ہوتی ہیں۔ موجودہ دور میں مصنوعی حمل کے کئی طریقے رائج ہیں جو تولیدی مسائل کو حل کرنے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ ان میں آئی وی ایف؍ ٹیسٹ ٹیوب بے بی، آئی سی ایس آئی، مصنوعی تخمینہ (Artificial Insemination) اور تاجیر رحم (surrogacy) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان میں سے بعض شرعی اعتبار سے مباح ہیں جبکہ بعض غیر شرعی اور ناجائز ہیں۔ درجہ ذیل سطور میںہم پہلے مصنوعی حمل کے ان مختلف طریقوں پر روشنی ڈالیں گے اور پھر ان پر شرعی نقطہء نظر کی وضاحت کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم اسلامی احکام کے پیچھے پوشیدہ حکمتوں کو جدید سائنس کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

آئی وی ایف / ٹیسٹ ٹیوب بے بی

آئی وی ایف یا ٹیسٹ ٹیوب بے بی ایک طبی طریقہ کار ہے جس میں عورت کے انڈے (بیضے) اور مرد کے اسپرم کو جسم کے باہر (لیبارٹری میں) ملایا جاتا ہے پھر مخصب شدہ انڈے (fertilized egg)  کو عورت کے رحم میں منتقل کیا جاتا ہے تاکہ حمل ٹھہر سکے، اس کے لئے عورت کو
بیضے کی پیداوار کے لئے پہلے ہارمونز دیئے جاتے ہیں، پھر انڈوں کو جمع کیا جاتا ہے اور پھر لیبارٹری میں ان کو اسپرم کے ساتھ ملایا جاتا ہے اور سخت نگرانی کے بعد ان کو عورت کے رحم میں منتقل کیا جاتا ہے۔ آئی وی ایف ایک عام طریقہ ہے جو جوڑوں کو بانجھ پن یا دوسرے تولیدی اختیارات کے قابل عمل نہ ہونے کی صورت میں اختیار کیا جاتا ہے۔

مصنوعی تخمینہ

مصنوعی تخمینہ Artificial Insemination (AI)   میں اسپرم کو عورت کے تولیدی نظام (رحم) میں بغیر جنسی ملاپ کے براہ راست متعارف کرایا جاتا ہے تاکہ حمل ٹھہر سکے۔ یہ طریقہ عام طور پر اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب عورت کو رحم کی گردن (cervix) کے مسائل ہوں، یا مردانہ بانجھ پن ہو یا بانجھ پن کے دوسرے نامعلوم مسائل ہوں۔

آئی سی ایس آئی

انٹراسیٹوپلا  سمک اسپرم انجکشن (ICSI)، آئی وی ایف کا ایک طریقہ ہے جس میں اسپرم کو براہ راست انڈے میں داخل کیا جاتا ہے تاکہ حمل ٹھہر سکے۔ یہ طریقہ اس وقت استعمال ہوتا ہے جبکہ مردانہ بانجھ پن (مثلا اسپرم کی کم تعداد) کا مسئلہ ہو۔یہ ایک ترقی یافتہ طریقہ ہے جو آئی وی ایف کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔

تاجیر رحم

تاجیر رحم  (gestational surrogacy) میں ایک عورت (سروگیٹ) دوسرے مرد یا دوسرے جوڑے کا حمل اجرت پر اپنے رحم میں رکھتی ہے۔ جنین کو آئی وی ایف کے ذریعہ تیار کیا جاتا ہے اور سروگیٹ کے رحم میں پروان چڑھایا جاتاہے۔مصنوعی حمل کے سلسلے میں یہ چار طریقے ہیں جو آج دنیا میں عمومی طور پر رائج ہیں۔ اب ہم یہاں شریعت اسلامی کی روشنی میں ان طریقوں کی حلت وحرمت جانیں گے اور پھر خود جدید سائنس کی روشنی میں اسلامی احکام کی حکمت معلوم کرنے کی کوشش کریں گے۔

مصنوعی حمل اور اسلامی شریعت

مصنوعی حمل کے ان چاروں طریقوں پر اسلامی نقطہء نظر سے بحث کے لئے ان کی درجہ بندی ضروری ہے لہٰذاموجودہ دور میں رائج مصنوعی حمل کے مذکورئہ بالا چاروں طریقوں کو دو بنیادی شکلوں میں بانٹا جاسکتا ہے:
(۱) مصنوعی حمل اجنبی عورت کے رحم کے ذریعہ
(۲) مصنوعی حمل بیوی کے رحم کے ذریعہ
مصنوعی حمل اجنبی عورت کے رحم کے ذریعہ
پہلے طریقے کے مطابق مصنوعی حمل کے لئے کسی اجنبی مرد کے اسپرم (مادہ منویہ) اور  عورت کے انڈے ( بیضہ) کے اختلاط سے ولادت عمل میں لائی جاتی ہے تو اجنبی مرد وعورت کے مادوں کے اختلاط کے لئے آئی وی ایف؍ ٹیسٹ ٹیوب ، آئی سی ایس آئی طریقہ کار، یا مصنوعی تخمینہ (اے آئی) کا استعمال کیا جائے یا کسی اجنبی عورت کے رحم، یا خود اس عورت کا رحم استعمال کیا جائے، یہ تمام صورتیں مطلقا نا جائز اور حرام ہیں۔ اس کی حرمت پر برصغیر اور عرب تمام علماء کا اتفاق ہے۔ اس کی حرمت کی وجہ یہ ہے کہ مرد اور عورت کے مادہ منویہ کا یہ اختلاط زنا کے مترادف ہے کیونکہ اس میں ایک اجنبی مرد کا مادہ منویہ ایک اجنبی عورت کے رحم میں منتقل کیا جاتا ہے۔ اس سے نہ صرف شرعی واخلاقی مسائل پیدا ہوں گے بلکہ یہ طبی نقطہء نظر سے بھی ایک انتہائی خطرناک عمل ہے۔ اسلام میں عدت کی بھی یہی حکمت ہے کہ عورت کو طلاق یا شوہر کی وفات کی صورت میں دوسری شادی سے قبل اس کے لئے عدت گزارنی ضروری ہے، جس میں اس عورت کا رحم اپنے سابق شوہر کے مادہ سے خالی ہوجائے ۔ عورت کا رحم اپنے سابق شوہر کے مادہ سے مکمل طور پر صاف نہ ہونا خطرناک طبی امراض کا باعث بن سکتا ہے، اس پر بحث آگے ملاحظہ ہو۔
اگر مصنوعی حمل کے اس طریقے سے بچے کی پیدائش ہوتی ہے تو اس کے ذریعہ پیدا ہونے والے بچے کے تمام مسائل پر ولد الزنا کے احکامات کا اطلاق ہوگا، البتہ اس مرد اور عورت پر جن کے مادہ منویہ سے اس کی ولادت ہوئی ان پر زنا کی حد قائم نہیں ہوگی کیونکہ اس کے لئے مرد اور عورت کے درمیان جسمانی عمل یعنی مباشرت کی شرط ہے، جس کی عدم موجودگی میں ان پر حد زنا نافذ نہیں کی جائے گی۔ اس سلسلے کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ اگر سروگیٹ عورت (وہ عورت جس کے رحم میں تلقیح عمل میں لائی گئی) شادی شدہ ہے تو تلقیح کے ذریعہ اس کی کوکھ سے پیداہونے والا بچہ اسی کا تصور کیا جائے گا چاہے مادہ منویہ کسی کا ہی کیوں نہ ہو کیونکہ احادیث میں آتا ہے کہ الولد للفراش وللعاہر الحجر ’’بچے کی نسبت شوہر کی طرف ہوگی اور زانی سنگسار کیا جائے گا‘‘ یعنی جس عورت کی کوکھ سے بچہ نے جنم لیا اس کے شوہر کی جانب اس بچہ کی نسبت کی جائے گی لہٰذا اس بچہ پر ولد الزنا کے احکام صادر ہوں گے اور اس جننے والی عورت کے شوہر سے اس بچہ کا نسب ثابت ہوگااور اگر سروگیٹ عورت کنواری ہے تب بھی وہ بچہ اسی عورت کی طرف منسوب ہوگا، اس کے جینیاتی (genetic) باپ کی طرف اس کی نسبت نہیں ہوگی۔

زنا اور تاجیر رحم کی حرمت کی حکمت

جیسا کہ اوپربتایا گیا کہ حکم کے اعتبار سے زنا اور تاجیر رحم (surrogacy )ایک ہی ہوں گے، فرق صرف یہ ہوگا کہ تاجیر رحم میں حد زنا قائم نہ کی جائے گی جبکہ زنا میں حد زنا قائم کی جائے گی،  زنا اور آزانہ جنسی تعلقات کی خطرناکیوں پر جدید سائنسی تحقیقات سامنے آرہی ہیں جن سے اسلام میں زنا یا آزادانہ جنسی تعلقات کی حرمت کی حکمت پر ایک نئی روشنی پڑتی ہے، ان سائنسی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ کسی مرد یا عورت کا متعدد افراد کے ساتھ آزادنہ جنسی تعلقات قائم کرنے سے زانی اور زانیہ دونوں کو ایڈز اور کینسر جیسی مہلک بیماریوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔ آزادانہ جنسی تعلق سے مرد اور عورت دونوں کو ایچ پی وی نامی وائرس کے لاحق ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ اس وائرس کے لاحق ہونے سے مرد اور عورت دونوں میں کل چھ قسم کے خطرناک اور جان لیوا کینسروں کے لاحق ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ ان سرطانوں میں رحم کی گردن (cervical) کا سرطان، مقعد anal کا سرطان ،عضو تنانسل penile) (کا سرطان،حلق throat)  (کا سرطان وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح ایچ آئی وی ایک اور مہلک وائرس ہے جو آزادانہ جنسی تعلقات اور غیر فطری جنسی تعلقات دونوں کے ذریعہ پھیلتا ہے۔ اس سے ایڈز جیسی مہلک بیماری لاحق ہوتی ہے۔ ایچ آئی وی انسان کے مدافعتی نظام کو کمزورکردیتا ہے جس سے انسانی جسم میں مزید کئی مہلک قسم کے کینسروں کے پھیلنے کی راہ ہموار ہوجاتی ہے جو مرد اور عورت ان امراض میں مبتلا اشخاص سے جنسی طور پر رابطہ میں آئیں گے ان کو ایچ پی وی اور ایچ آئی وی وائرس کے لاحق ہونے اور اس کے ذریعہ ان مہلک قسم کے کینسروں اور ایڈز کے لاحق ہونے کا خطرہ درپیش رہتا ہے لہٰذا آج دنیا میں کروڑوں افراد ان جنسی افعال کے وجہ سے ان مہلک بیماریوں میں مبتلا ہیں۔(اس پر تفصیلی بحث کے لئے ملاحظہ ہو راقم کا مضمون’’اسلام میں عورتوں کے حقوق کی سائنسی بنیادیں‘‘، تعمیر فکر، جنوری-اپریل ۲۰۲۴)
اس اعتبار سے زنا اور آزادانہ جنسی تعلقات کی حرمت کی اصل وجہ جہاں اس غیر اخلاقی عمل کو روکنا ہے وہیں انسانی معاشرہ کو اس قسم کے خطرناک اور تباہ کن بیماریوں اور امراض سے تحفظ فراہم کرنا اور نسل انسانی کی بقا اور دوام کا سامان فراہم کرنا بھی ہے۔ اسلام میں زنا کی سزا اتنی سخت یعنی رجم تجویز کئے جانے کی حکمت بھی یہی معلوم ہوتی ہے کہ ایسے عناصر جو انسان اور انسانی معاشرہ کی تباہی کا سبب بنیں ان کو عبرتناک اور سبق آموز طور پر ختم کرنا ہے۔
اب ہم تاجیر رحم surrogacy کی طرف آتے ہیں، تاجیر رحم میں سروگیٹ عورت کو ان تمام خطرات کا سامنا رہتا ہے جو آزادانہ جنسی تعلق کی وجہ سے مرد اور عورت دونوں کو لاحق رہتے ہیں، دراصل ایچ پی وی اور ایچ آئی وی وائرس جو مرد اور عورت میں جنسی تعلق کی وجہ سے ایڈز اور متعدد قسم کے مہلک کینسروں کے لاحق ہونے اور پھیلنے کا سبب بنتے ہیں وہ مرد کے مادہ منویہ (اسپرم) کے ذریعہ بھی اسی طرح پھیلتے اور نقصان دہ ہوتے ہیں جس طرح جنسی عمل کے دوران وہ مہلک ہوتے ہیں،لہٰذا تاجیر رحم کے دوران سروگیٹ عورت کو ایچ پی وی یا ایچ آئی وی وائرسوں سے اسی طرح خطرہ لاحق رہتا ہے جس طرح کا خطرہ زنا اور جنسی عمل کے ذریعہ رہتا ہے۔ اس سے اولاً اس عورت کو عنق رحم کا سرطان (cervical cancer) لاحق ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ پھر حمل یا پیدائش کے دوران اس متاثرہ سروگیٹ عورت سے ایچ پی وی وائرس اور کینسر اس بچے کو منتقل ہوسکتا ہے۔ حمل کے دوران ایچ پی وی سے کئی قسم کی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں یہاں تک مرد اور عورت دونوں کی زرخیزی (fertility)  متاثر ہونے کاخطرہ رہتا ہے۔ تاجیر رحم کی مدت کے دوران سروگیٹ عورت کو متعدد معالجوں اور مشقوں سے گزرنا پڑتا ہے جن سے متعدد قسم کے کینسروں کے لاحق ہونے کا بڑا خطرہ رہتا ہے جن میں رحم کا سرطان (ovarian cancer)، پستان کا سرطان (breast cancer)، مشیہ کا سرطان  choriocarcinoma وغیرہ قابل ذکر ہیں، ان کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے۔
خلاصہ یہ کہ تاجیر رحم (surrogacy )خطروںسے بھرا عمل ہے جس سے سروگیٹ عورت کے ساتھ ساتھ تولید ہونے والے بچے کو بھی سنگین قسم کے خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ اسی طرح یہ عمل نہ صرف زنا کے مماثل ہے بلکہ اس میں وہ تمام خطرات بھی پائے جارہے ہیں جو زنا یا جنسی تعلق کی استواری سے لاحق ہوتے ہیں لہٰذا اس پر زنا کی علت کی وجہ سے زنا کا حکم لگانا بالکل بجا اور درست ہے۔

مصنوعی حمل بیوی کے رحم کے ذریعہ

اب رہا مصنوعی حمل کا دوسرا طریقہ جس میں میاں بیوی کے مادہ منویہ کے اختلاط کے ذریعہ ولادت عمل میں لائی جائے۔ تو اس مسئلے میں برصغیر کے علماء اور عرب علماء بعض شرائط کے ساتھ اس سلسلے میں رائج تمام طریقوں کے ذریعہ مصنوعی حمل کو جائز قرار دیتے ہیں۔یہ طریقے حسب ذیل:
(۱) شوہر اور بیوی کے مادہ منویہ کو ایک مخصوص مدت تک ٹیسٹ ٹیوب؍آئی وی ایف میں رکھا جائے اور پھر اس تیار مادہ کو بیوی کے رحم میں منتقل کیا جائے۔
(۲) شوہر کے مادہ منویہ (اسپرم) کو انجکشن کے ذریعہ عورت کے رحم ؍ بچہ دانی میں داخل کیا جائے جس کے ذریعہ وہ حاملہ ہوسکے، اس طریقہ کار کو مصنوعی تخمینہ (AI) کہا جاتا ہے۔
(۳) شوہر کے مادہ منویہ (اسپرم) کو انجکشن کے ذریعہ براہ راست عورت کے بیضہ egg  میں داخل کیا جائے ، اس کو آئی سی ایس آئی طریقہ کار کہا جاتا ہے۔
علماء نے میاں بیوی کے لئے بعض شرائط سے مشروط ان تینوں طریقوں سے مصنوعی حمل کے ذریعہ اولاد کے حصول کی کوشش کو جائز قرار دیا ہے۔ یہ شرائط حسب ذیل ہیں:
٭ پہلا یہ کہ مصنوعی طریقہء حمل سے حتی الامکان بچنے کی سعی کی جائے کیونکہ اس میں بھی مختلف قسم کے خطرات بہر حال موجود رہتے ہیں اور صرف انتہائی ضرورت اور دوسرے کوئی متبادل نہ ہونے کی صورت میں ان کو اپنایا جائے۔
٭ دوسرا یہ کہ اس کے لئے ماہر مسلم اطباء سے مشاورت کی جائے اور ان کی رائے پر ہی اس کا فیصلہ کیا جائے۔
٭ تیسرا یہ کہ اس پورے عمل کے دوران حدود شرعیہ کا پورا لحاظ رکھا جائے۔
٭ چوتھا یہ کہ یہ پورا عمل شوہر یا کسی خاتون رشتہ دار کی زیرنگرانی انجام دیا جائے۔