نادر موضوعات اور اہم مسائل پر لکھنے کی ضرورت

ڈاکٹر مجتبیٰ فاروق|| *حیدر آباد،انڈیاکے معروف محقق،مصنف

لکھنے اور تحقیق کے معاملے میں ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم ان ہی موضوعات یا ایشوز پر لکھتے ہیں جن پر اچھا خاصا لکھا جاچکا ہوتا ہے یا ان موضوعات پر وافر مقدار میں کتابیں، مقالات، مضامیں اور نقد و تبصرے موجود ہوتے ہیں، صحافتی میدان سے لے کر ریسرچ پروجیکٹس اور پی ایچ ڈی کے مقالات تک یہی غیر ذمہ دارانہ رویہ پایا جاتا ہے، ہر جگہ تکرار (Repetation) کا پہلو غالب ہے جس موضوع پر کئی کتابیں یا کئی مقالات اور مضامین موجود ہوں اسی موضوع پر قلم اٹھانے کی کیا ضرورت ہے؟ جس موضوع پر معمولی فرق کے ساتھ کئی ریسرچ مقالات یا کتابیں پائی جاتی ہیں اسی موضوع پر وقت اور اپنی صلاحیت ضائع کرنے کا کیا معنی ہے؟
جدید دنیا میں نت نئے اور ابھرتے ہوئے مسائل کا اسلامی تناظر میں حل نہ نکالنا اسلامی اسکالرز اور دانشوروں کیلئے بڑا المیہ ہے، نیز وہ علمی اور تحقیقی معیار قائم کرنے میں بھی ناکام ثابت ہو رہے ہیں، علماء اور اسکالرز نے اسلام کے متنوع پہلوؤں پر عصری زبانوں میں لٹریچر تیار نہیں کیا ہے اور جو کچھ تیار ہو رہا ہے وہ بھی ضرورتوں کو پورا نہیں کر رہا ہے، ایک مغربی مفکر البرٹ ہورانی (Albert Horani) کی یہ بات چشم کشا کے لئے کافی ہے کہ موجودہ نظریات پر اسلامی اسکالرز کی تحریریں اس معیار پر پوری نہیں اترتی جو جدید دنیا کو مطلوب ہے، ان کے الفاظ ہیں: Most of the writings of Islam by Muslims are not on the level of current  جب بھی کسی چیز یا مسئلے کو تحقیق کا موضوع بنایا جائے تو پہلی بات یہ ملحوظ نظر رکھنی چائیے کہ اس کی عصری معنویت(Contemporary Relevance) نمایاں ہو اور دوسری بات یہ کہ وہ Issue Oriented ہو، کوئی بھی موضوع انتخاب کرتے وقت یا کسی بھی چیز پر لکھتے وقت مذکورہ شرائط کا لحاظ رکھنا  بے حد ضروری ہے، اگر ان دونوں باتوں کو ملحوظ نظر نہ رکھا جائے تو جو بھی تحقیقی نوعیت کا کام کیا جائے یا جو بھی لکھا جائے تو اس کی علمی دنیا میں کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے،تحقیقی اور علمی کام میں اس طرح اضافہ کرنا کوئی کارنامہ یا (Contribution )نہیں کہلاتا ہے، معاصر دنیا میں اس طرح کا تحقیقی کام کرنا محض وقت گزاری کا کام کہلاتا ہے، اہل قلم، ریسرچ اسکالرز اور محققین ایسے موضوعات کا انتخاب کریں جن پر کام کرنے کی ضرورت محسوس ہو اور وہ کام کسی علمی خلاء کو پر کرے ۔