شیخ الحدیث حضرت مولانا سمیع الحق شہیدؒ کا ’’دارالعلوم حقانیہ اور رد قادیانیت‘‘ کتاب پر پیش لفظ

مولانا اسامہ سمیع

مدرس جامعہ دارالعلوم حقانیہ

الحمد لحضرۃ الجلالۃ والصلوٰۃ والسلام علی خاتم الرسالۃ اما بعد
استعماری قوتوں اور اسلام دشمن لابیوں نے امت مسلمہ کی وحدت و سالمیت ، نظریاتی یکجہتی اور سیاسی قوت کو ختم کرنے کیلئے جو حربے استعمال کئے اس میں ’’فتنہ قادیانیت‘‘ سب سے نمایاں ہے ، جس کی بنیاد ننگ ملت ، غدار دین غلام احمد قادیانی نے رکھی۔ مذہبی لحاظ سے یہ ’’بہائی فرقے‘‘ کا ہندی ایڈیشن تھا، جس کو برطانوی سامراج نے آب و دانہ مہیا کیا اور یہودی آقائوں نے پروان چڑھایا ، مرزا قادیانی نے مصلح ،مجدد ، مہدی ، مسیح موعود ، نبی رسول ، موعود اقوام عالم، کرشن جیسے متضاد ، متفرق دعوؤں کا ملغوبہ تیار کر کے اپنی ذات کو اس کے گرد گھمایا ، ہندوستان میں پیدا ہونے والے مذاہب ، ہندومت، بدھ مت، سکھ مت وغیرہ کے بانیوں کو سب وشتم کا نشانہ بنایا ، حضرت عیسیٰ ؑ کے خلاف بکواسات کا طومار باندھا ، جہاد کی تنسیخ ، برطانیہ کی اطاعت اور اسلامی ریاستوں کی پامالی کے لئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے مگر اس فتنے کا سب سے بڑا نشانہ دین اسلام کا بنیادی عقیدہ ختم نبوت تھا جس کی آڑ میں انہوںنے سید الکائنات محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کی توہین و تحقیر میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
ایک طرف اس فتنہ کی سنگینی مگر دوسری طرف مسلمانوں کے حساس ، عاقبت اندیش اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار قائدین جن کو اللہ تعالیٰ نے ’’فتنہ مرزائیت‘‘ کے بارے میں دل بینا اور شرح صدر سے نوازا تھا، انہوں نے اس صدی کے آغاز ہی سے علمی، فکری، سیاسی اور عوامی ہر محاذ پر پورے شد ومد سے اس کے سیاسی ، مذہبی ، معاشرتی اور بین الاقوامی خطرات سے عالم اسلام اور اس کے حکمرانوں کو آگاہ کرنا شروع کر دیا اور پر خطر حالات میں بھی علم جہاد لہراتے رہے، انہیں للکارتے رہے اور امت مسلمہ کو اس مار آستین سے بچنے کے لئے جھنجھوڑتے رہے۔
ہزاروں علما ، مفکرین، زعماء، مصنفین ، مناظر، صحافی، مبلغ اور لاکھوں عوام ان سارقین تاج و تخت ختم نبوت کا محاسبہ اور تعاقب کرنے کیلئے میدان جہاد میں کود پڑے اور خواجہ یثرب صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس ختم نبوت کیلئے اپنی زندگیاں تج دیں جبکہ کئی سعادتمند اس راہ میں کٹ مرکر بھی خلعت شہادت سے سرفراز ہوئے اور شفاعت آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم اور خوشنودی اولین و آخرین کی ابدی سعادت سے مالا مال ہوئے (حضرت والد ماجد شہیدؒنے یہاں کیا ہی خوبصورت عشق و محبت اور عقیدت سے لبریز ’’الہامی ‘‘عبارت لکھی ہے ، آپ خود بھی اُن خوش نصیب وسعادت مند قبیلہ شہداء میں شامل ہو گئے ہیں جنہوں نے خواجہ بطحاکی عزت و ناموس ،رضاء و خوشنودی مصطفوی کیلئے اپنی جان آبروئے امت و محسن انسانیت ؐ پر وار دی۔فداہ أبی و امی و روحی یا سید المرسلین محمد صلی اﷲعلیہ وسلم ۔راشدسمیع)
دیگر مجاہدین ختم نبوت کی طرح اس تحریک میں دارالعلوم حقانیہ اور والد گرامی قائد شریعت شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق ؒکا بھی بنیادی کردار رہا ،۱۹۵۱ء میں امیر شریعت سید عطاء اللہ بخاری حضرت والدؒ کے حکم پر یہاں تشریف لائے اور ہزاروں لوگوں کے اجتماع میں فتنہ قادیانیت کا پردہ چاک کیا۔ یہاں سے تحریک ختم نبوت ایک نئے موڑ میں داخل ہوئی، جس کو حکومت وقت نے مجاہدین ختم نبوت کو جیل میں ڈالنا شروع کیا ، ہزاروں لوگوں کو شہید کیا گیا مگر سلسلہ رکا نہیں۔
اس طرح ۱۹۷۳ء میں والد ماجد نے سب سے پہلے قومی اسمبلی میں قادیانیوں کو اقلیتی گروہ قرار دینے کیلئے قرارداد پیش کی ، جسے اسمبلی نے مسترد کیا مگرا کا بر کی قربانیوں اور امت مسلمہ کے مومنانہ جدو جہد کے نتیجے میں۱۹۷۴ء میں گھٹنے ٹیک دئے اور دستور میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ، اس دوران قومی اسمبلی میں مسلمان کی پہلی متفقہ تعریف کی سعادت بھی حضرت والد ؒکو نصیب ہوئی ، جبکہ ’’قادیانیت اور ملت اسلامیہ کا موقف‘‘ کی سیاسی حصے کی تیاری راقم کے حصے میں آئی جس کو مفکر اسلام مفتی محمودؒ نے اسمبلی میں پیش کیا، پھر راقم نے اکابر امت کو اس فیصلے کے ذیلی تقاضوں کی طرف متوجہ کیا، جس کے جواب میں عالم اسلام کے جیدا کا برین، مفکرین اور دانشور حضرات نے وقیع تجاویز ارسال فرمائیں، اس طرح صدر ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ سے توہین رسالت ایکٹ اور قادیانیت آرڈنینس کی منظوری بھی قادیانیت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی جس میں بطور رکن مجلس شوریٰ کے ناچیز کی حقیر جد و جہدبھی شامل تھی ، اس تمام جد و جہد میں ماہنامہ ’’الحق‘‘ نے بھی کلیدی کردار ادا کیا۔
اور اب پچاسویں جلد بھی نصف صدی گزرنے پر تعاقب و تردید قادیانیت کا یہ سلسلہ تا حال جاری ہے، اس پچاس سالہ جدو جہد اور تحقیقی مضامین کا انڈکس اس کتاب کے آخر میں شامل ہے جو اس شجرہ خبیثہ کے ہر ہر پہلو پر سیر حاصل روشنی ڈال سکتا ہے، ارباب علم و دانش اور اصحاب تحقیق و ریسرچ کیلئے یہ ایک بیش بہا خزانہ ہے، بہت اہم حصہ قادیانیت کے بارہ میں پارلیمنٹوں کی پارلیمانی، آئینی اور دستوری جدو جہد سے متعلق ہے جو یہ نشاندہی کرتا ہے کہ قادیانیوں کے بارہ میں یہ اقدامات وقتی ہیجان اور جذبات پر مبنی نہیں بلکہ دنیا میں رائج دستوری اور آئینی تقاضوں کے مطابق ہے۔
الحمد للہ کہ دارالعلوم حقانیہ کو اللہ تعالیٰ نے علم تعلیم تدریس و دعوت سیاست و جہاد کے ہر ہر شعبہ میں خصوصی فضل و کرم سے نوازا ہے، تمام فرق باطلہ پرویزیت ، انکار حدیث، تجدد واستشراق ، الحاد و بدعات کا کوئی فتنہ اس کے باطل شکن حملوں سے بچا نہیں ، قادیانیت جیسا ایک ام الفتن فتنہ کب نظر انداز ہو سکتا ہے۔ ضرورت ان کوششوں کو مرتب اور اجاگر کرنے کی تھی ۔
اس سلسلے میں ’’دارالعلوم حقانیہ اور ردِ قادیانیت ‘‘ کے نام سے ایک تاریخی دستاویز دو قابل فضلاء (مولانا انعام الرحمن حقانی ،مولانا محمد اسرار مدنی )نے مرتب کیجس میں دارالعلوم حقانیہ، ماہنامہ ’’الحق‘‘ ،شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق ؒ کے ردِ قادیانیت کے متعلق جملہ علمی و تحقیقی مواد کو بہترین انداز میں مرتب کیا گیا۔اللہ تعالیٰ اس علمی و تحقیقی کاوش کو پوری امت کے افادہ اور استفادہ کا ذریعہ بنائے (آمین)    ______________________
ارشاد نبوی صلی اﷲعلیہ وسلم
اِنَّہٗ سیکون فِیْ اُمَّتِیْ کذَّابُوْنَ
ثَلاَثُوْنَ کُلُّھُمْ یَزْعَمُ اَنَّہٗ نَبِیٌّ
وَ اَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ لَا نَبِیّ بَعْدِیْ
’’میری امت میں تیس کذّاب پیدا ہوں گے، ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں‘‘  (رواہ مسلم)