مسلح تصادم اور ہنگامی حالات میں صحافت

(رپورٹ دو روزہ ورکشاپ برائے مدیران دینی جرائد )

آئی سی آر سی اور آئی پی ایس کے اشتراک سے لاہو رکے ’’فور پوائنٹس بائی شیریٹن ہوٹل‘‘ میں ۲۶۔۲۷ جون کو مدیران دینی جرائدکی ورکشاپ منعقد ہوئی، جس میں ماہنامہ ’’الحق‘‘ کی طرف سے احقر نے شرکت کی، آئی سی آر سی (بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی) ایک انسان دوست تنظیم ہے جس کا قیام ۸۶۳اء کو عمل میں لایا گیا اس کے بانی سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھنے والے چندتاجر تھے، اس تحریک کا مقصد شروع ہی سے غیر جانبدرانہ انسانی خدمات ہیں، اس تحریک کے سات اصول بتائے جاتے ہیں جوکہ درج ذیل ہیں۔ انسانیت ،غیر وابستگی، غیرجانبداری، خودمختاری، رضاکارانہ خدمت، اتحاد اور عالمگیریت، یہ تنظیم پوری دنیا میں کام کرتی ہے۔ انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد ایک علمی وتحقیقی ادارہ ہے، جو ۱۹۷۹ء سے تحقیق ،تجزیہ اور تربیت کا فریضہ انجام دے رہا ہے، اس کے ڈائریکٹر جناب ڈاکٹرخالد رحمن صاحب ہیں جوکہ عالم،فاضل محقق اور تجزیہ نگار ہیں، ورکشاپ میں شرکت کے لئے احقر اپنے دو رفقائے سفر مولانا سید مقسط علی شاہ باچا مدیر اعلیٰ ماہنامہ ’’المہربان‘‘ اور ماہنامہ’’القاسم‘‘ کے معاون مدیر صاحبزادہ حافظ محمد احمد کے ہمراہ لاہورپہنچا، پہلے دن جامعہ اشرفیہ حاضری دی، میانی قبرستان گئے، جہاں ولی کامل شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ، حضرت مولانا موسیٰ خان روحانی بازیؒ ، حضرت مولانا عبیداللہ انورؒ اور غازی علم الدین شہیدؒ کی قبور کی زیارت وفاتحہ خوانی کی۔داتا دربار بھی گئے، مولانا سید مقسط علی شاہ باچا کے ایک پہچان والے جناب مولانا محمد عثمان صاحب کے مکتبے ’’دارالعلم‘‘ گئے جوکہ دربار کے قریب ہی واقع ہے، وہاں کتابوں کی ورق گردانی کی، مولانا محمد عثمان صاحب نے پرتکلف ظہرانے کے لئے لاہور کے مشہور ہوٹل’’خان بابا ریسٹورنٹ‘‘ لے گئے، انہوں نے اپنے علمی اور تحقیقی کاموں کے متعلق بھی بتایا، موصوف ایک بہت بڑے علمی منصوبے پر کام کررہے ہیں، جتنے بھی قدیم طبع شدہ کتابیں ہیں سب کو ڈیجیٹلائز کرکے ’’دارالعلم‘‘ کے نام سے بنی ویب سائٹ پر ڈال رہے ہیں، انہوں نے اس کام سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی، شام کو ہوٹل پہنچے جہاں مدیران رسائل و جرائد سے ملاقاتیں ہوئیں، اگلے روز ۲۶ جون صبح ساڑھے آٹھ بجے ہال پہنچے، تلاوت اور نعت شریف کے بعد جناب سید ندیم فرحت (ریسرچ فیلو انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز) نے ورکشاپ کا آغاز کیا، ابتدائی گفتگو میں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اور ورکشاپ کے اغراض ومقاصد پر روشنی ڈالی، ان کے بعد ڈاکٹر ضیاء اللہ رحمانی نے ’’ریڈ کراس او رہلال احمر تحریک ،انسان دوستی اور بین الاقوامی قانون‘‘ سے متعلق اظہار خیال کیا، ان کی گفتگو سلجھی ہوئی اور عالمانہ ومحققانہ تھی ،شرکاء نے ڈاکٹر رحمانی صاحب سے سوالات بھی کئے جن کا انہوں نے جوابات دئیے، اس کے بعد چائے کا وقفہ ہوا۔
وقفے کے بعد ڈاکٹر یاسر ریاض اور ڈاکٹر سید ندیم فرحت نے ’’انسانی المیے کی مختلف صورتیں اور انسانی زندگی‘‘ کے موضوع پر پریذنٹیشن پیش کی۔ جس میں انسانی المیہ کیا ہوتا ہے؟ اور یہ کیسے وقوع پذیر ہوتا ہے؟ انسانی المیہ کی اقسام اوران میں باہمی فرق، افراد او رمعاشرے میں موجود کمزوریاں اور آفات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیتیوں پر اس کے اثرات، انسانی المیے کے اثرات اوراس سے منسلک حساسیت جیسے عنوانات پربحث کی، اس کے بعد معروف صحافی جناب وقار بھٹی صاحب نے ’’انسان دوست صحافت کے ذریعے انسانی خدمت‘‘ کے عنوان سے گفتگو کی، جس میں انہوں نے پاکستان میں مختلف بیماریوں سے جان بحق ہونے والوں کا اعداد و شمار ،بعض بیماریوں کا فوری علاج اوررپورٹ کرنے کے طریقے بتائے۔ ظہر اور ظہرانے کے بعد دو بجے تیسری سیشن کا آغاز ہوا،اس میں ندیم فرحت اور یاسر ریاض صاحبان نے ’’پیچیدہ انسانی المیہ، ہمہ جہتی تعارف، اسٹڈی سرکل: انسانی خدمات کے ادارے اور ان کے بنیادی اصول‘‘ کے موضوعات پر محاضرات پیش کئے۔ پہلے دن کے محاضرات پانچ بجے ختم ہوئے، عصر کے بعد چڑیا گھر گئے لیکن وقت ختم ہوچکا تھا، مغرب کی نماز قریب ہی خانقاہ اشرفیہ کی مسجد میں ادا کی اور ہوٹل واپس پہنچے۔دوسرے دن ۲۷جون کو صبح نو بجے تلاوت سے ورکشاپ کا آغاز ہوا، ڈاکٹر یاسر ریاض اور سید ندیم فرحت صاحبان نے ’’انسانی المیے اورانسان دوست خدمات کی رپورٹنگ اور تجزیے میں درکار احتیاطیں‘‘ کے متعلق آگاہی دی اور عملی سرگرمی بھی کروائی۔ اس کے بعدمعروف صحافی طارق حبیب نے ’’ہنگامی حالات میں معلومات کا حصول ، انتخاب اور استعمال ‘‘ کے موضوع پر اپنے تجربات شیئر کئے۔ ’’مسلح تصادم اور ہنگامی حالات سے متعلق مشاہداتاور دی گئی صورتحال سے متعلق خبر، اداریہ اور تجزیے لکھنے کی عملی مشق گروپ کی شکل میں کروائی گئی ، ہرگروپ کی آراو تجاویز پڑھ کی سنائے گئے ، اس کے بعد ظہر کی نماز اور کھانے کا وقفہ ہوا۔ دو بجے اختتامی سیشن کا آغاز ہوا، جس میں ہر مکتب فکر کے منتخب مدیران نے ورکشاپ سے متعلق اپنے خیالات وا حساسات بیان کئے، ڈاکٹر ضیاء اللہ رحمانی اور ڈاکٹر خالد رحمان صاحب نے اختتامی کلمات کہے۔ شرکاء کا شکریہ ادا کیا، اسناد تقسیم کیں اور دعا کے ساتھ شرکاء کو رخصت کیا۔یہ دو روزہ ورکشاپ ہر لحاظ سے قابل تعریف تھی،مدیران جرائد نے اس کی افادیت کو سراہااور اس طرح کے مثبت ورکشاپ کو جاری رکھنے کی سفارش کی۔

جناب رشید یوسفزئی

معروف لکھاری وبلاگر