میکالے اور مشرقی ادب : چند نکات

لارڈ میکالے برصغیر کے جدید لبرل اشرافیہ کے حقیقی فکری جد امجد تھے، نو آبادیاتی نظام کی مطلوبہ سانچوں میں میکالے نے مقامی اشرافیہ کی ذہن سازی کی جس کے نتیجے میں غیر سفید فام مقامی کالے انگریز پیدا ہوئے ذہنی طور پر آدھے تیتر ، لباس و ثقافت میں آدھے بٹیر، لارڈ میکالے خوبصورت انگریزی لکھتے تھے الفاظ کا پختہ و ماہرانہ چناؤ، بلورین و منور (crystal and metallic) جملے، مضبوط و مربوط (taut and tight)خوش نما پیراگراف لکھنے میں بے مثال، قصہ گوئی اور بیان کی سلاست و روانی میں بے ہمال ادیب سے بڑھکر لارڈ میکالے کی اہمیت بطور مؤرخ ہے تاریخ انگلینڈ (History of England)کے دیباچہ میں لکھا ہے کہ ایسی کتاب لکھتا ہوں جس کی جاذ،بیت و جادوگری میں دوشیزائیں ناول خوانی چھوڑ دیں گی اور ایسا ہی معجزہ کرکے دکھایا، پیدائش کیساتھ کتاب بینی کا جنون لائے تھے زندگی کا تجربہ محض کتابی تھا اور یوسفی کے الفاظ میں انتہائی ناقص تھا دوران طالب علمی ہر امتیازی تمغہ جیت لیا تھا جوانی میں مالی طور پر مشکل ایام سے گزر رہے تھے۔ ایک دفعہ کتابیں خریدنے کیلئے پیسے نہ تھے اپنا گولڈ میڈل فروخت کیا، تیس سال کی عمر تک بطور نثر نویس برطانیہ کے اعلی ترین ادبی حلقوں سے لے کر عام آدمی تک سے پذیرائی حاصل کرچکے تھے حین حیات تھامس کارلائل، جان رسکن اور میتھیو آرنلڈ سے بڑھ کر مقبول تھے، ڈبلیو ایچ آڈن نے Outline History of English Literatureمیں لکھا ہے کہ اس حفظ مراتب (Order of precedence list)پر رائے عامہ نے بہت جلد نظر ثانی کی اور وفات کے چند سال لارڈ میکالے سب سے متنازعہ شخص بن گئے یہ بات درست بھی ہے کیونکہ تب لنڈن میں مقیم کارل مارکس نے لارڈ میکالے کو Systematic falsifier of history اور مریضانہ دروغ گو Pathological liar لکھا ہے، لٹن سٹریچی Lytton Stracheyنے اپنے سوانحی مقالات Spectacular Essaysمیں میکالے کو بطور ادیب آڑے ہاتھوں لینے کے بعد لکھا ہے : As a thinker Macaulay was neither original nor profound. سی سالگی میں میکالے پارلیمنٹ ممبر بنے اور کچھ سال بعد انڈین لجیسلیٹو کونسل میں بطور ممبر تعیناتی کی پیشکش ہوئی، تب انڈیا انگریزوں کیلئے سونے کی چڑیا تھی، کک پتی آتے اور لکھ پتی لندن واپس لوٹتے، مالی مشکلات سے چھٹکارا پانے کے لئے میکالے نے یہ افر دونوں ہاتھوں سے قبول کیا ۱۸۳۰ء کی دہائی کے نصف اول میں میکالے انڈیا آئے، عمر بھی تیس کی دہائی میں تھی اور اسی جوانی میں انڈیا بلکہ اس تمام خطے کی تاریخ ثقافت و سیاست کا نقشہ ہمیشہ کیلئے بدل دیا، ہندوستان کیلئے قانون بنائے اور آج تک پاکستان کی بلاسفیمی لاز وہی لارڈ میکالے کے وضع کردہ ہیں۔
میکالے انڈین ایجوکیشن سسٹم کے بے رحم ناقد و مخالف تھے اور انڈین تہذیب و تمدن کے دشمن، اہلیان ہند کی تحقیر اور وائٹ مین کی برتری کا جو فکری سلسلہ میکالے نے شروع کیا اس نے آگے روڈیارڈ کپلنگ، سر ارتھر بالفور اور سرونسٹن چرچل جیسے بدخو و متکبر نسل پرستوں اور شانسٹو (جاہ طلبوں) کی ذہن سازی کی میکالے نے لیجسلیٹیو کونسل میں تعلیمی اصلاحات پر مشہور و متنازعہ Minutes on Indian Education پیش کئے، کونسل کے نو ممبران اور تھے جن میں سے کچھ غیر متفق تھے، میکالے نے وائسرے کو کہا اگر اس کی تجاویز نہیں مانی جاتیں تو اس کا استعفیٰ مانا جائے، وائسرائے نے گھٹنے ٹیک دئیے اور نتیجہ ابھی تک آپ سب کے سامنے ہے، منٹس ان انڈین ایجوکیشن میں میکالے ایک جگہ لکھتا ہے کہ
میں نے مشرق کا تمام ادب بالواسطہ یا بلاواسطہ پڑھ لیا، یہ یورپ کی کسی لائبریری کی الماری کے ایک تختہ پر رکھے گئے کتابوں کی برابر نہیں، سو انڈینز کو انگریزی پڑھنی اور پڑھانی ہے اور یوں لاٹ صاحب نے بیک جنبش قلم دنیا کی قدیم ترین ادبی سرمایے کو سمندر برد کردیا، میکالے نے شادی نہیں کی تھی، ایک بہن ہانا(Hanna) کلکتہ ساتھ لائی تھی جس نے یہاں ایک سول سرونٹ ٹریولیان Trevelyanسے شادی کی ہانا اور ٹریولیان کا بیٹا مشہور ادیب و مؤرخ سر جارج اوٹو ٹریولیان اور پھر اس کا بیٹا جارج میکالے ٹریولیان ادیب و مؤرخ تھے ،بھانجے اور بھانجے زادے نے میکالے پر بہت کام کیا میکالے کے دستاویزات اور سوانح جو ابھی راقم کے زیر مطالعہ ہیں اسی بھانجے کے شائع کردہ ہیں۔
لارڈ میکالے مبالغوں اور تضادات کا مجموعہ تھے اگر چہ مبالغہ ادبیت کا حصہ ہے اور انسان تضادات بھرا جانور ہے اور To be free of contradictions is to be inhuman لیکن ایک ایک صفحہ پر میکالے کے مبالغے اور تضادات کسی بھی قاری سے نا قابل ہضم ہیں۔
شیکسپیئر کے ڈرامے جولیس سیزر میں بروٹس Brutus و کیسئیسCa۔ssiusکے مکالمے کے بارے میں لارڈ لکھتے ہیں: These two or three pages are worth the whole French drama ten times over. شیکسپیئر کے ڈرامے King Lear کے اختتام میں بادشاہ لئیر کی اذیت ناک خود کلامی بارے لکھتے ہیں: Where is there anything thing like this in the world?
تاہم چند سطر بعد لارڈ اپنا یہی اعلان فراموش کر جاتے ہیں اور شیکسپئر کے ایک اور ڈرامے Romeo and Juliet میں رومیو کی جولیئٹ کی خبر مرگ پر لکھتے ہیں: It moves me even more than Lears agonies! تعجب آور یہ کہ انہیں نکات کے حاشیہ پر ان کا بھانجا اور مؤلف سر اوٹو ٹریولیان Sir George Otto Trevelyan لکھتے ہیں :Macaulay reckoned Romeo and Juliet the best play extant in any language. ناطقہ فقط سر بگریباں نہیں بلکہ اس کا سر چکرا رہا ہے کہ ان مبالغوں بھرے تضادات کوکیا کہئے یہ غیر منصفانہ ادبی شانزم ہے اور انگریزی ادب کے علاہ تمام یورپی ادب سے نا انصافی ہے، اپنے ادب کے ساتھ میکالے نے جو کچھ کیا اس کا حق تھا لیکن کسی مشرقی زبان سے مکمل جاہل رہتے ہوئے انکے منٹس آن انڈین ایجوکیشن Minutes on Indian Education والا دعوی مکمل جانبداری ، جارحیت اور بربریت پر مبنی تھا،مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر ایک مثال:
میکالے نے فردوس گم گشتہ Paradise Lostکے شاعر جان ملٹن پر ایک طویل مقالہ لکھا تھا جو اس وقت ایڈنبرا ریویو میں شائع ہوا یہ مقالہ ایک قصیدہ ہے اور کہتے ہیں اسی نے میکالے کی شہرت بطور ادیب و دانشور مستحکم کی اس مقالے میں میکالے نے ملٹن Milton کو ہومر کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا شاعر قرار دیا ہے ملٹن کی اس رزمیہ epic نظم کی جان وہ سطور ہیں جن میں ابلیس جہنم میں آگ کے منبر پر بیٹھ کر فرشتوں کو خطاب کرتا ہے پھر ابلیس کے اس آتشین خطاب کی روح ابلیس کا ایک ہی جملہ ہے: Better to reign in hell than serve in heaven. جنت کی غلامی سے جہنم کی بادشاہی بہتر ہے اسے توارد کہیں یا سرقہ ؟
ملٹن سے صدیاں قبل عرب شاعر ابو الطیب احمد المتنبی نے کہا تھا: فأطلب العز فی الظی و دع الذل و لوکان فی جنان الخلود عزت طلب کر اگر چہ دوزخ میں ہو ، ذلت کو چھوڑ اگر چہ دائمی بہشت میں ہو لارڈ میکالے کے زمانے میں ملا زادہ رشید یوسفزئی تھا نہیں اور فرنگی محل کے سادہ مولوی انگریزی سے نابلد تھے ورنہ میکالے سب کچھ چھوڑ کر درس نظامی میں داخلہ لیتے۔
____________________
صاحبزادہ عبدالحق ثانی