درہم و دینار کو لوٹانے کی تدابیر پر چند گزارشات(آخری قسط)

ڈاکٹر مبشر حسین رحمانی
لیکچرر مِنسٹر ٹیکنالوجی یونیورسٹی آف آئرلینڈ

کتاب درہم و دینارمستقبل کے اسلامی سِکے پر مختصر تبصرہ

درہم ودینار کو لوٹانے کی تدابیر کے موضوع پر ایک مختصر کتاب۲۰۱۱ء انگریزی میں لکھی گئی جس کا ترجمہ بعنوان ’’درہم و دینار مستقبل کے اسلامی سِکے ‘‘کے نام سے انٹرنیٹ پر موجود ہے(حوالہ: دی گولڈ دینار اینڈ دی سلور درہم: اسلام اینڈ دی فیوچر آف منی، ایڈیشن ۲۰۱۱، ملائیشیا)
ایک عام مسلمان قاری کو یہ کتاب بحیثیتِ مجموعی ایک ایسی فکری کاوش لگے گی کہ جس میں مصنف نے امت مسلمہ کو کاغذی کرنسی اور مروجہ عالمی معاشی نظام سے چھٹکارے کی ترغیب دیتے ہوئے درہم ودینار کو لوٹانے کی تجویز پیش کی ہے ۔ اس کتاب کا گہرائی سے مطالعہ کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ اس کتاب میں کئی نقائص ہیں اول یہ کہ اس کتاب میں امت مسلمہ کی متفقہ رائے سے ہٹ کر رائے اختیار کی گئی ہے ، دوم قرآنی آیات واحادیث کی غلط تشریحات ، اور سوم علمائے کرام کے خلاف غیر مناسب الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ ذیل میں ہم اس کتاب سے کچھ اقتباسات نقل کرکے اپنا تبصرہ پیش کرتے ہیں۔

اقتباس

’’مجھے یقین ہے کہ اسلام کے مفتیوں کو نہ تو ان ریزرو بینکوں کے بارے میں، نہ ان اصطلاحات سے کوئی واقفیت ہے اور نہ ہی بین الاقوامی مالیاتی نظام کے بارے میں تسلی بخش علم ہے جس کا اس مضمون میں مختصر تذکرہ ہوا ہے اور شاید جب الیکٹرانک روپیہ عام ہوجائیگا اور یہ مفسدانہ مالیاتی نظام مضبوطی سے جڑ پکڑ لے گا تو شاید یہ لوگ
اس کو بھی حلال قرار دے دیں گے ۔‘‘ (حو الہ: درہم و دینار مستقبل کے اسلامی سِکے، ص۱۷)
’’خبروں کے اس بلیک آٹ سے زیادہ خطرناک صورت حال یہ ہے کہ اسلامی مدارس اور دانش گاہوں کے فارغ التحصیل فاضل اسکالر اور علما بھی عام بھولے بھالے عوام کی طرح اس سازشی مالیاتی نظام کے فریب سے ناواقف ہیں۔ اگر انہیں اس بات کا احساس ہو بھی جاتا ہے کہ جدید مالیاتی نظام میں خرابی موجود ہے تو ان کے اندر آج کے اس دور میں بھی اتنی جرات کا اظہار نہیں ہے کہ وہ اس مالیاتی نظام کو حرام اور ناجائز قرار دیں جس میں کاغذی روپیہ کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے۔‘‘ (۸)
تبصرہ:  یہ مصنف کی جانب سے علمائے کرام پر یہ سراسر بہتان ہے اوران کیلئے غیر مناسب الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ علمائے کرام نے ہمیشہ سے ہی سودی بینکاری نظام اور غیر حقیقی معیشت کی مخالفت کی ہے اور تاریخ اس پر گواہ ہے، اس وقت بھی امتِ مسلمہ کو جس خطرناک فتنہ یعنی کرپٹو کرنسی کی طرف دکھیلا جارہا ہے ، اس کی سرکوبی میں یہی بوریہ نشین علمائے کرام صفِ اول میں کھڑے نظر آتے ہیں اور اس کی کھلی اور شرعی دلائل کی روشنی میں مخالفت کررہے ہیں۔ان مفتیانِ کرام کو کمپیوٹر سائنس کے انتہائی مشکل موضوع کی نہ صرف یہ کہ واقفیت ہے بلکہ ان مفتیانِ کرام کے تقوی، للہیت اور رجوع الی اللہ کی بدولت اللہ رب العزت نے انہیں تقوی کی ان صفات سے نوازا ہے جس کی وجہ سے یہ شک والی چیز سے بھی کوسوں دور رہتے ہیں الحمدللہ۔ ہماری رائے میں ان ’’اسلام کے مفتیوں‘‘ کو نشانہ اس وجہ سے بنایا جارہا ہے کیونکہ یہی وہ ’’اصل‘‘ لوگ ہیں جو کہ سودی بینکاری نظام، ڈیجیٹل کرنسی، کرپٹو کرنسی، اور غیر حقیقی معیشت کے نافذ ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ راقم بحیثیتِ کمپیوٹر سائنسدان اور محقق اس بات کا شاہد ہے کہ مستند دارالافتاؤں کے پاس ایک پورا مربوط نظام ہے جس کے تحت وہ سائنس کے متعلقہ شعبے کے ماہرین سے رجوع کرکے اس سائنسی موضوع کی اصل ماہیت و حقیقت کو سمجھتے ہیں اور پھر اس کے بارے میں کوئی فتوی جاری کرتے ہیں۔

 اقتباس

اس صورتِ حال سے بغاوت کرنے والی واحد شخصیت ملایشیا کے سابق وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد کی ہے، انہوں نے نہ صرف یہ کہ اس صورت حال کو سمجھا جو مغرب کی ایجاد کردہ آج کی مالیاتی نظام کی خرابیوں میں مضمر ہے بلکہ ایک انتہائی قابلِ ستائش طرزعمل کے ذریعے وہ کیا جس کو کرنے کی کسی مفتی اسلام کو جرات نہیں ہوئی۔ انہوں نے یہ مطالبہ کیا کہ سونے کے دینار کے سکے کو واپس لایا جائے اور اس نظام مالیات کو تبدیل کیا جائے جو امریکی ڈالر کے پر فریب تانے بانے سے بندھا ہوا ہے تاکہ مسلمان اپنے آپ کو اس معاشی اور مالیاتی جال کے چنگل سے نکال سکیں۔(۹)
تبصرہ:   کیا مصنف کے علم میں نہیں کہ مہاتیر محمد صاحب دو مرتبہ ملایشیا کے وزیراعظم اور کئی اہم حکومتی عہدوں پر براجمان رہ چکے ہیں؟ پھر کیوں انہوں نے عملی طور پر درہم دینار کے نظام کو ملایشیا میں رائج نہیں کیا؟ کیوں او آئی سی یعنی اسلامی تعاون تنظیم کو اس بات پر متحرک نہیں کیا؟ کیا ملایشیا کی وزارت مفتیانِ اسلام کے ہاتھ میں تھی؟ یعنی مصنف یہ کہہ رہے ہیں کہ اتنی طاقتور شخصیت جو کہ دو مرتبہ ملایشیا کے وزیراعظم بھی رہ چکے ہوں وہ تو صرف مطالبہ پر اکتفا کریں اور سارا قصور مفتیانِ اسلام کا ہے؟ افسوس صد افسوس! مصنف کیوں ملایشیا کے ان عصری تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں کو مورد الزام نہیں ٹھہراتے جو کہ حکومتی خرچے پر کڑوروں ملیشائی رنگٹ بجٹ رکھتے ہیں اور روایتی مدارسِ دینیہ کے نظام کو تباہ کرنے کیلئے غیر معیاری پی ایچ ڈی اسکالرز فارغ التحصیل کرتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ روایتی مدارسِ دینیہ کے مفتیانِ کرام ہی ہیں جو کہ سودی بینکاری نظام کی راہ میں اصل رکاوٹ ہیں جن کو مصنف بلاوجہ اپنی اس کتاب میں نشانِ ہدف بنا رہے ہیں۔

اقتباس

مسلم علما اس بات پر مطمئن تھے کہ امریکی کاغذی ڈالر کو سونے کی ضمانت موجود ہے اس لیے کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے مگر۱۹۷۱ء کے بعد تو یہ ضمانت بھی باقی نہیں رہ گئی تھ اور اب تو یہ قانونی چوری ایک ننگی حقیقت کے طور پر سامنے آگئی تھی مگر ہمارے علما کو ابھی تک یہ نظام حرام نہیں لگا اور پھر پورا عالم اسلام اس گٹھ جوڑ کی اندھی تقلید میں اس پرفریب مالیاتی نظام کے بِل میں داخل ہوگیا۔(۱۰)
تبصرہ:  یہ بھی مصنف کی جانب سے علمائے کرام پر سراسر بہتان ہے۔ اس زمانے کے فتوی جات دیکھ لیے جائیں تو حقیقت واضح ہوجائے گی کہ علمائے کرام نے ہمیشہ غیر شرعی کاموں کی مخالفت کی ہے نیز یہ کہنا کہ ہمارے علمائے کرام کو سودی بینکاری نظام حرام نہیں لگا، یہ بھی سراسر حقائق کے منافی ہے، ہم آپ سے سوال کرتے ہیں کہ کیا پچاس سے زائد اسلامی ممالک کی سربراہی ان علمائے کرام کے پاس تھی؟ کیا وہ ان مسلم ممالک کے بڑے عہدوں مثلاً صدرات، وزارت وغیرہ پر متمکِن    تھے؟ یعنی جن کے کرنے کے یہ کام تھے ان کو مطعون کرنے کے بجائے مصنف ان بوریہ نشین علمائے کرام کو اپنا نشانہ بنارہے ہیں جو کہ بغیر کسی وسائل کے حق بات کہتے نہیں تھکتے، کیا یہ انصاف ہے؟  مصنف کو تو چاہیے تھا کہ مصنف ان اسلامی حکومتوں کے سربراہان کے خلاف بات کرتے، ان کو ترغیب دیتے کہ وہ اپنے فرائِض منصبی بجا لائیں مگر مصنف ان کو کچھ نہیں کہتے کیونکہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں کہ مقتدر قوتوں کے خلاف حق بات کہے۔یہ بھی یاد رکھیے کہ یہی وہ علمائے کرام تھے جو کہ   بغیر کسی لیت و لعل کے حق کا کلمہ بلند کرتے آرہے ہیں۔ آج بھی انہی علمائے کرام کو دنیا دار طبقہ مطعون کررہا کہ کیوں وہ ابھی تک اس باطل سودی بینکاری نظام کے خلاف کھڑے ہیں، میں  مصنف سے یہ سوال پوچھتا ہوں کہ کیوں مصنف دنیا دار طبقے کی طرف داری کرتے ہوئے ان بوریہ نشین علمائے کرام کے خلاف غیر مناسب الفاظ استعمال کر رہے ہیں؟

اقتباس

’’حضرت ابو سعید الخدری ؒ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: سونے کو سونے کے بدلے، چاندی کے بدلے چاندی، گندم کے بدلے گندم، جو کے بدلے جو، کھجور کے بدلے کھجور اور نمک کے بدلے نمک،جب سودا ایسی چیزوں کا ہو اور ادائیگی اسی وقت ہو، ایسے میں اگر کوئی زیادہ دے یا زیادہ مانگے تو انہوں نے رِبا کا ارتکاب کیا۔لینے اور دینے والے دونوں برابر کے قصوروار ہیں۔(صحیح مسلم) حضور نبی برحق شارح اعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی یہ حدیث مبارک تین باتوں کا وضاحت سے تعین کردیتی ہے۔اول یہ کہ اس نے بتا دیا کہ اسلام میں روپیہ یا مال یا تو قیمتی دھات کا ہو جیسے سونا اور چاندی یا پھر ان اشیا میں جیسے گندم، جو، کھجور، نمک وغیرہ جن کی اپنی استعمالی زندگی کی حد ہوتی ہے،پھر جب مدینہ منورہ کے بازا ر میں سونے چاندی کے سِکوں کی کمی واقع ہوئی تو کھجور جیسی چیز جو بڑی وافر مقدار میں موجود تھی اور جسکی اپنی زندگی (Shelf Life)تھی روپے یا مال کے بدلے میں استعمال ہوئی۔اونٹ کے بدلیاونٹ کا سودا اسلئے جائز قرار پایا کہ اونٹ کبھی بھی مال یا روپیہ کے عوض استعمال نہیں ہوا۔ کھجور کے بدلے کھجور کے غیر مساوی سودے کو روکنا اسلئے ضروری تھا کہ کھجور کو مال یا روپیہ کی جگہ استعمال کیا جاتا تھا۔اگر اس کی اجازت دیدی جاتی تو سود خوروں کیلئے سود خوری کے کاروبارکی گنجائش نکل آتی‘‘ (۱۱)
اب مال کی حقیقت کو سنتِ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے احکامات کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ مال وہ ہے جو:
٭ قیمتی دھات یا کوئی اور قابلِ استعمال چیز ہو جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔
٭ مال جس کی اپنی ذاتی قیمت ہو۔
٭ ایک ایسی چیز ہو جسے اللہ نے تخلیق کیا ہو اور اس کی قیمت خود اللہ تعالیٰ نے مقرر کردی ہو جو ان تمام خزانوں کا مالک ہے۔(۱۲)
تبصرہ:    یہ مصنف کی جانب سے حدیث کی غلط تشریح ہے اور اس حدیث میں مال کی صراحت موجود نہیں ہے، اگر ہم نے کسی حدیث کا صحیح مفہوم جاننا ہے تو اس کیلئے ہم محدثین کرام سے رجوع کریں گے، نیز کسی حدیث سے مسائل کا نکالنا فقہائے کرام کا کام ہے نیز مال کی تعریف بھی فقہائے کرام نے واضح طور پر بیان کی ہے لہٰذا شرعی طور پر مال کس چیز کو گردانا جائے گا، اس کیلئے شریعت میں واضح احکامات موجود ہیں۔

اقتباس:    مصنف قرآنِ پاک کی درجِ ذیل آیات کا ذکر کرتے ہیں۔

’’آل عمران :۷۵ ،یوسف :۲۰، آل عمران:۱۴،آل عمران:۹۱،توبہ:۳۴، زخرف: ۳۳، ۳۴، ۵۳، النسا:۲۰ ،الانسان:۲۱ ، زخرف :۷۱ ، زخرف:۵۳ ، فاطر:۳۳،حج:۲۳ ،کہف:۳۱،اسراء:۹۳ ‘‘
پھر ان آیات کی تشریح کرکے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ’’بیشک قیامت کے دن سونے کے دینار کو ایک اہم کردار ادا کرنا ہے‘‘ نیز آگے صحیح مسلم کی ایک حدیث نقل کرکے تحریر کرتے ہیں کہ ’’اوپر درج شدہ حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سونا اور چاندی اللہ پاک نے تخلیق کئے اور ان کے اندر بڑی قیمت رکھ دی ہے اور یہ کہ یہ قیمت اس فانی دنیا سے بھی آگے جائے گی ‘‘
اوردوسری دنیا میں بھی کام آئے گی۔
تبصرہ:  قرآنِ پاک کی آیات کی تفسیر کرنے کا اختیار مفسرین حضرات کو حاصل ہے، ہر عامی شخص اگر قرآنِ پاک کی تفسیر کرنے بیٹھے گا تو گمراہی کے دروازے کھلیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآنِ پاک میں ان آیاتِ مبارکہ میں سونے چاندی کے درہم و دینار کا ذکر آیا ہے مگر ہر آیت کی ایک شانِ نزول ہے اور ان آیاتِ مبارکہ کو نقل کرکے یہ دلیل قائم کرنا کہ شریعت صرف سونے چاندی کے درہم دینار کو ہی مال تسلیم کرتی ہے یہ ہرگز درست نہیں اور قرآن و حدیث کی تعلیمات سے کم فہمی کا نتیجہ ہے۔حیرانگی تو یہ ہے کہ انہی آیات میں دیگر اشیا کا بھی تذکرہ ہے مثلاً عورتیں، بچے،  گھوڑے، چوپائے، کھیتیاں، ریشم کا لباس، پاکیزہ شراب، موتی وغیرہ تو ان چیزوں کو کیوں مال نہیں گردانتے؟ خلاصہ یہ ہے کہ قرآنِ پاک کی آیات سے کوئی حکم نکالنا حضرات علمائے کرام کا ہی کام ہے اور حضرات فقہائے کرام نے شرعی طور پر مال کی تعریف کردی ہے لہذا اسی پر کاربند رہا جائے اور مال کی من چاہی تشریح نہ کی جائے۔

خلاصہ

خلاصہ کے طور پر ہم پھر اپنی بات دھراتے ہیں کہ’’ سونا و چاندی ثمنِ خلقی ہے اور ان کی اپنی ذاتی قدر ہے اور قرونِ اولی میں اس کا استعمال کا ثبوت بھی ملتا ہے اور اس سے متعلق فقہائے کرام نے قوانین بھی بڑے واضح انداز میں بیان کئے ہیں۔ لہذا اس زر کو اختیار کرنا جو سونے چاندی پر مشتمل ہو اس کو سراہنا چاہیے البتہ اس طرح کے زر کے استعمال کے متعلق شریعتِ مطہرہ نے قوانین واضح کئے ہیں جن کو سامنے رکھ کر اس طرح کے زر کو فروغ دینا چاہیے۔ نیز اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سونے و چاندی کا ذکر قرآن ِ پاک، احادیثِ مبارکہ اور سنت سے ثابت ہے اور زر بھی ہے مگر یہ عقیدہ رکھ لینا کہ سونے چاندی کے علاوہ کوئی چیز بطور زر استعمال ہی نہیں ہوسکتی، ایسا سمجھنا مناسب نہیں ہے۔‘‘
صرف کچھ مثالیں ہم مصنف کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ ایک تحقیقی مقالہ جسے حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے بعنوان Post-Crisis Reforms: Some Points to Ponder، جو کہ ۲۰۱۰ء میں ورلڈ اکنامک فورم،جسے اقتصادیات کا سب سے باوقار بین الاقوامی فورم سمجھا جاتا ہے،میں ۲۰۰۷۔۲۰۰۸کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد پیش کیا ، چار بنیادی عوامل کو ظاہر کرتا ہے جن کی وجہ سے بڑے پیمانے پر معاشی بحران پیدا ہوا۔ اول یہ کہ نقدی کو اس کے بنیادی مقصد یعنی ذریعہ تبادلہ سے ہٹانا اور اسے خود تجارت کا آلہ بنانا، دوم ڈیریویٹیوز (Derivatives)کا بہت زیادہ سرائیت کرجانا، سوم یہ کہ قرضوں کی فروخت اور چہارم یہ کہ اسٹاک، اشیا اور کرنسیوں میں شارٹ سیل (Short Sales)اور بلینک سیل(Blank Sales) ۔کیا مصنف کی نظروں سے یہ مقالہ نہیں گزرا؟ کیا اتنے بڑے عالمی معاشیات کے فورم پر کسی کی ہمت ہوسکتی ہے کہ پورے کے پورے مغربی معاشی نظام کی خامیاں کو آشکارا کرے؟ کیا سودی بینکاری نظام کی اتنے صریح الفاظ میں کسی نے مذمت کی ہے؟ کیا مصنف کی نظروں سے سود پر تاریخی فیصلہ نہیں گزرا؟ کیا مصنف کی نظروں سے کتاب ’’یورپ کے تین معاشی نظام‘‘ مؤلف حضرت مفتی رفیع عثمانی صاحبؒ نہیں گزری؟ کیا مصنف کی نظروں سے جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوریؒ کے اکابرین جن میں سید محمد یوسف بنوری ؒسے لیکر حضرت مفتی رفیق بالاکوٹی صاحب وغیرہ کا سودی بینکاری نظام کے خلاف کام نظروں سے نہیں گزرا؟ غرض مفتیانِ کرام کی ایک طویل فہرست ہے جو کہ بغیر اسباب اور وسائل کے طاقتور ملکوں کے معاشی نظام سے ٹکر لے کر سودی بینکاری نظام اور غیر حقیقی معاشی سرگرمیوں کے خلاف کام کرتے آئے ہیں۔
اگر مصنف کی خواہش ہے کہ مسلمان ممالک میں حقیقی اثاثوں پر مبنی معیشت کو لوٹایا جائے، سودی بینکاری نظام سے امتِ مسلمہ کو نجات ملے اور کاغذی کرنسی کے بجائے حقیقی زر یعنی ثمنِ خلقی کو  مسلمان ممالک میں استعمال کیا جائے تو مصنف کو علمائے کرام کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہو کر کام کرنا چاہیے اور ان علمائے کرام کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے جو کہ اس غیر حقیقی معاشی نظام کے خلاف سرگرمِ عمل ہیں۔ آخر میں مصنف سے یہی گزارش ہوگی کہ مصنف اپنی کتاب میں کہی نامناسب باتیں  جو کہ شریعت کے تعلیمات کے سراسر منافی ہیں ،سے رجوع کریں اور درہم ودینار کو لوٹانے کے عنوان سے مفتیانِ اسلام کی شان کی گستاخی اور عوام میں ان کے اعتماد کو مجروح کرنے سے گریز کریں ۔
انٹرنیٹ پر سونے و چاندی کی آن لائن خریدوفرخت کا شرعی حکم
انٹرنیٹ پر سونے و چاندی کی آن لائن خریدوفروخت کی کئی صورتیں ممکن ہیں۔ پہلی صورت انٹرنیٹ پر سونے چاندی کی مروجہ خریدوفروخت بذریعہ مارکیٹ ہے مثلا لندن کی اوور دی کانٹر مارکیٹ London OTC Market ، امریکی فیوچر مارکیٹCOMEX ، چائنیز مارکیٹ مثلا شنگھائی گولڈ ایکسچینجSGE ، شنگھائی فیوچرز مارکیٹSHFE ، نیویارک مرکنٹائل ایکسچینج NYMEX  وغیرہ شامل ہیں۔ دوسری صورت گولڈ بلین کی صورت میں سونے کی خریداری ہے۔ انٹرنیٹ پر سونے چاندی کی ان دونوں صورتوں کی خریدوفروخت کے حوالے سے بیشتر اہلِ علم اور برصغیر پاک و ہند بشمول دیگر اسلامی ممالک کے جید مفتیانِ کرام اور مستند دارالافتاء کا بہت ہی واضح موقف ہے اور یہ حضرات سونے و چاندی کی آن لائن خریدوفروخت کو ناجائز بتلاتے ہیں۔ام المدارس دارالالعلوم دیوبند کا سونے چاندی کی آن لائن خریدوفروخت سے متعلق فتوی کا متن یہ ہے۔انٹرنیٹ پر جو آن لائن سونے کی خرید وفروخت ہوتی ہے یہ شرعی اصول کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے، اس میں ادھار بھی ہوتا ہے اور قبضہ میں آنے سے پہلے دوسروں کو فروخت کردیا جاتا ہے، یہ بیع جائز نہیں (حوالہ: فتوی نمبر B=10/1433/1333-1726))
’’مروجہ فاریکس ٹریڈنگ (کرنسی کی آن لائن تجارت)اور کمیوڈیٹی ٹریڈنگ (سونا چاندی اور دیگر اشیا واجناس کی آن لائن تجارت) مختلف وجوہات مثلا: مبیع قبل القبض اور بعض صورتوں میں مبیع معدوم ہونے کی بنا پر ناجائز ہے۔ (تجویز فقہی سیمینار، ادار المباحث الفقہیہ، منعقدہ:۱۰؍۱۲؍جمادی الاولی ۱۴۳۸ھ) لہٰذا اس طریقے سے حاصل شدہ آمدنی ناجائز ہے  (فتوی دارالعلوم دیوبند ویب سائٹ159-674/H=7/1438 )
   اسی طرح سے جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی کا فتویٰ درجِ ذیل ہے:
’’آن لائن سونے و چاندی کی خریدوفروخت مفتیانِ کرام کے مطابق شرعا درست نہیںکیونکہ ان اشیا کی بیع درست ہونے کیلئے ضروری ہے کہ ہاتھ در ہاتھ ہو اور مجلسِ عقد میں جانبین سے عوضین پر قبضہ پایا جائے اور آن لائن ہونے کی صورت میں یہ مفقود ہے، لہٰذا آن لائن صرافی جائز نہیں ہے۔ (۱۳)
جہاں تک سونے چاندی کے سِکوں کے آن لائن کاروبار کا تعلق ہے تو اس میں کئی غور طلب پہلو ہیں، اول چونکہ ان سونے چاندی کے سِکوں کا اجرا اس وجہ سے کیا جارہا ہے کہ اس کا رواج عام ہو، لوگ ان سونے چاندی کے سِکوں کی خریدوفروخت کریں اور ان کے ذریعے دیگر اشیا یا خدمات حاصل کریں لہٰذا یہ لازمی امر ہے کہ یہ سِکے انٹرنیٹ پر فروخت کیلئے بیچے جائیں گے، لہٰذا ان سونے چاندی کے سِکوں کی خریدوفروخت میں شرعی احکامات کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے اور اس کیلئے ہم گزارش یہی کریں گے کہ جید مفتیانِ کرام اور مستند دارالافتا سے اس خریدوفروخت کے احکام معلوم کرلیے جائیں۔
دوسرا اہم پہلو ان سونے چاندی کے سِکوں کی آپس میں خریدوفروخت ہے اور مفتیانِ کرام کے مطابق یہ بیع صرف کے تحت آئے گا۔بیع صرف کا مطلب یہ ہے کہ سونے کو سونے کے عوض اور چاندی کو چاندی کے عوض، یا ایک جنس کو دوسری جنس کے عوض فروخت کرنا (حوالہ: اسلام کا نظامِ خرید و فروخت، ترجمہ فقہ البیوع، جلد دوم، صفحہ ، دارالاشاعت، کراچی) ۔بیع صرف کے موضوع پر مزید تفصیل کیلئے دیکھئے حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی کتاب فقہ البیوع (اسلام کا نظامِ خریدوفروخت)
 بیع صرف کا حکم مفتیانِ کرام یہ بیان کرتے ہیں کہ
’’ سونا،چاندی کی ادھار خرید و فروخت جائز نہیں،کیوں کہ یہ بیع صرف ہے جس میں ثمنین پر مجلسِ عقد میں ہی قبضہ کرنا ضروری ہے،ورنہ یہ سود ہوجائے گا،اور سود کی بدترین مثال ’’ربا النسیئہ‘‘ ہے،جس کی احادیث مبارکہ میں ممانعت وارد ہوئی ہے۔‘‘ (۱۴)
’’بیع صرف میں بالاجماع تخلیہ کافی نہیں ہے بلکہ فعلاً اور حقیقتہ باہمی قبضہ ہونا ضروری ہے۔‘‘ (۱۵)
’’چاندی کے ڈھلے ہوئے دراہم اور سونے کے ڈھلے ہوئے دینار میں بالاتفاق بیع صرف جاری ہوتی ہے، اگر جنس متحد ہو تو تماثل اور تقابض ضروری ہے اور اگر جنس مختلف ہو تو تماثل ضروری نہیں ہے لیکن تقابض ضروری ہے۔‘‘ (۱۶)
نیز جب ان سونے چاندی کے سِکوں کو اگر فاریکس بازار میں بیچا جائے گا (یہ تصور کرکے کہ کسی ملک نے درہم و دینار کو بطور کرنسی جاری کردیا)تو مروجہ فاریکس بازار کے احکامات بھی مفتیانِ کرام نے واضح بیان کئے ہیں، مثلاً حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم یہ فرماتے ہیں کہ
’’ فاریکس بازاروں کے اکثر طریقوں میں محظورات شرعیہ موجود ہیں، ان وجوہ کی بنا پر فوریکس بازار سے شرعاً معاملہ کرنا درست نہیں ہے۔‘‘ (۱۷)
تیسرا اہم پہلو یہ ہے کہ جب ان سونے چاندی کے سِکوں کی آن لائن خریدوفروخت کاغذی کرنسی یا ڈیبٹ کارڈ وغیرہ کے ذریعے ہوگی تو اس کے احکامات بھی مفتیانِ کرام سے ہی معلوم کرنے ہوں گے تاکہ شرعی احکامات کی مکمل پاسداری کی جاسکے۔خلاصہ یہ کہ سونے چاندی کے سِکوں کی آن لائن خریدوفروخت میں بہت احتیاط کرنی پڑے گی تاکہ شریعت کے بتائے ہوئے تمام احکامات کی مکمل پاسداری ہوسکے۔جہاں تک سونے چاندی کے زیورات کی خریدوفروخت کا تعلق ہے تو اس کیلئے حضرت مفتی عبد الرف سکھروی صاحب مدظلہم کی کتاب ’’زیورات کے مسائل‘‘ کو دیکھ لیا جائے۔

سونے و چاندی کے سِکوں کے ڈیجیٹل ٹوکن

بعض حضرات نے سونے چاندی کے سِکوں کی آن لائن خرید و فروخت بلاک چین کے ذریعے کرنے کو تجویز دیتے ہیں۔اب اس کے کئی طریقے ہیں۔ پہلی صورت یہ ہے کہ ویب سائٹ  کے ذریعے ان سونے چاندی کے سِکوں کی خریدوفروخت ہو اور اس کا اندراج بلاک چین پر کردیا جائے یعنی بلاک چین پر صرف اور صرف سونے چاندی کے سِکوں کے فروخت کرنے اور خریدنے والے کا اندراج ہو۔دوسری صورت یہ ہے کہ ان سونے چاندی کے سِکوں کے ڈیجیٹل کوائن جاری کئے جائیں، مثلاً ہر جاری کردہ ڈیجیٹل کوائن کے پیچھے سونے چاندی کا سِکہ ہوگا یعنی یہ ڈیجیٹل کوائن  دراصل ان سونے چاندی کے سِکوں کا وثیقہ ہوگا اور پھر ان ڈیجیٹل کوائن کی خریدوفروخت ہو۔ماضی قریب میں ایسے ڈیجیٹل ٹوکن کا اجرا ہوچکا ہے جس میں یہ دعوی کیا گیا کہ ہر ٹوکن کے پیچھے سونے کی ایک مخصوص مقدار موجود ہے جبکہ حقیقتا ایسا ہوتا نہیں ۔نیز اس کے علاوہ بھی ان ڈیجیٹل ٹوکن کی خریدوفروخت میں شرعی احکامات کی پاسداری نہیں کی جاتی لہٰذا مفتیانِ کرام کے مطابق یہ دونوں صورتیں شریعت کے قوانین کی خلاف ورزی کررہی ہیں اور یہ شرعا درست نہیں۔اگر اس سلسلے میں مزید وضاحت چاہیے تو کسی مستند دارالافتاء سے رجوع کرلیا جائے۔

چند گزارشات

اگر کوئی ملک یا قوم معاشی طور پر مضبوط ہوتی ہے تو اس کے عادات و اطوار اور معاشرت دیگر اقوامِ عالم بھی اختیار کرتی ہیں، مثلاً اگر کسی ملک کی کرنسی مضبوط ہے تو اسے بطور آلہ مبادلہ دوسرے ملک کے شہری اختیار کرتے ہیں جیسے ڈالر، یورو، جاپانی ین وغیرہ۔ ریزرو کرنسی (Reserve Currency)ہی کی مثال لے لیجئے، پوری دنیا کے سینٹرل بینک ان ریزرو کرنسیوں کے ذخائر اپنے پاس رکھتے ہیں اور دیگر ممالک کے عوام ان کرنسیوں کو محفوظ کرتے ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (International Monetary Fund) (IMF) نے ایک ’’زرمبادلہ نکالنے کا حق ایس ڈی آر‘‘ (Special Drawing Rights) (SDR)بنایا ہے۔یہ ایس ڈی آر دراصل عالمی ریزرو اثاثہ ہے، یہ کرنسی نہیں ہے مگر اس کی قدر پانچ کرنسیوں کی باسکٹ پر مبنی ہوتی ہے جن میں امریکی ڈالر، یورپ کا یورو،جاپانی ین، چائنا کا رین منبی اور برطانوی پونڈ شامل ہیں، آئی ایم ایف اعدادوشمار جاری کرتا ہے جسے زر مبادلہ کے ذخائر کا مرکب Currency Composition of Foreign Exchange Reserves (COFER)  کہا جاتا ہے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق ۲۰۲۴ء کے پہلے سہ ماہی میں پوری دنیا کے زر مبادلہ کے ذخائر کا جو تناسب ہے اس میں امریکی ڈالر تقریباً اٹھاون فیصد، یورو تقریبا بیس فیصد، جاپانی ین تقریباً چھ فیصد، برطانوی پاؤنڈ تقریبا پانچ فیصد حصہ شامل ہے اور باقی دیگر کرنسیاں ہیں۔پاکستان کی ہی مثال لے لیجئے، اسٹیٹ بینک آف پاکستانی زرمبادلہ کے ذخائر امریکی ڈالر میں بیان کرتا ہے۔ان تمام اعداد وشمار اور تفصیلات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ مضبوط معیشت کے حامل ممالک کی کرنسیاں عالمی طور پر تجارت اور ریزرو کیلئے اختیار کی جاتی ہیں ، اگر مسلمان ممالک معاشی طور پر مضبوط ہوتے اور ان میں اتحاد ہوتا تو دنیا ان مسلمان ممالک کی کرنسیوں کو بھی بطور آلہ مبادلہ اختیار کریگی لہٰذا ہمیں ان اسباب پر محنت کرنی چاہیے جن کے ذریعے سے ہم اپنی معیشت کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی نظامِ معیشت کو عملی طور رائج کرنے اور معاشی استحکام حاصل کرنے کیلئے ہمارے کرنے کے کیا کام ہیں؟ نیز اسلامی ممالک اور خاص طور پر پاکستانی معیشت کومضبوط کرنے کیلئے ہم کیا کرسکتے ہیں ؟ دیکھئے، ہمارے علمائے کرام نے اس موضوع پر بہت کام کیا ہے اور بہت واضح اور عملی اقدامات تجویز کئے ہیں جن کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں نئے سرے سے کوئی بات یہاں بتانے کی ضرورت نہیں ہے البتہ ہم انہی اکابرین علمائے کرام کی باتوں کا خلاصہ ذیل میں پیش کررہے ہیں۔ عملی طور پر ہم جن باتوں کا اہتمام کرسکتے ہیں وہ درجِ ذیل ہیں۔
٭ معاشی طور پر مسلمان ممالک اپنے آپ کو مضبوط کرنے اور اسلامی نظام معیشت رائج کرنے  کے لئے ہمیں سب سے پہلے اپنے اوپر انفرادی سطح پر محنت کرنی پڑے گی، ہمیں خود پورے کے پورے دین پر عمل کرنے والا بننا پڑے گا۔اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ معاشرے میں امانت داری، فرض شناسی، اور اخلاص پروان چڑھے گا اور رشوت خوری، فرائِض منصبی سے غفلت اور دیگر معاشرتی بیماریوں کا سدِباب ہوسکے گا۔
٭ ہم بحیثیتِ مسلمان اپنی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریاں کما حقہ ادا کریں۔ہم جس شعبے میں بھی کام کررہے ہوں اس شعبے میں پورے اخلاص اور دیانت داری کے ساتھ کام انجام دیتے رہیں۔ہماری نیت یہ ہونی چاہیے کہ ہمارے ملک اور دین کا بھلا ہو اور انسانیت کو بھی ہمارے کام سے فائدہ پہنچے۔ جتنا زیادہ ہمارے کام میں اخلاص، دیانتداری، للہیت، اور فنائیت ہوگی، اتنی ہی زیادہ اللہ پاک ہمارے کام میں برکت دے گا (ان شااللہ)
٭ ہم اپنے شعبے کے اندر کمال حاصل کرنے کی کوشش کریں یعنی ہمارے کام کا معیار عالمی سطح کا ہو اور بین الاقوامی طور پر تسلیم کیا جائے۔
٭ ہم اپنی اولاد کی دینی تریبت کریں اور اس کیلئے علمائے کرام سے پوچھ پوچھ کر عمل کریں، گھر میں روزانہ تعلیم کا معمول ہو، ان سارے اعمال سے ان شااللہ بچوں کے اندر دینی غیرت و عزیمت باقی رہے گی اور ایک وقت آئے گا کہ جب اگلی نسل مزید طاقت و قوت کے ساتھ دین پر عمل کرنے والی اور دینی فکر والی ہوجائے گی۔
٭ ایسے صاحبانِ علم (معاشی ماہرین)تیار کئے جائیں جو معاشیات کے موضوع پر مکمل گرفت رکھتے ہیں اور ان کے عقائد و نظریات بھی درست ہوں تاکہ وہ علمی طور پر مزید کام کریں اور انسانیت کے سامنے حقیقی معیشت کو اختیار کرنے کے فوائد واضح ہوں۔
٭ معاشی میدان میں مسلمان عالمی سطح پر اپنا لوہا منوائیں، آجکل بے تحاشہ صاحبانِ علم فنائنس  اور علم ِمعاشیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں لے رہے ہیں مگر ان حضرات کی کوئی عالمی سطح پر سائنسی معاشی میدان میں وقعت نہیں الا ماشااللہ اور عالمی معیار کا تحقیقی کام انہوں نے نہیں کیا، لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ علمِ معاشیات کی تحقیق میں اپنا لوہا عالمی سطح پر منوایا جائے۔ہم یہ عرض کررہے ہیں کہ جب کچھ صاحبانِ علم نے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کرلیں ہیں، ڈاکٹر بھی اپنے نام کے ساتھ لگاتے ہیں اور اپنے آپ کو وہ معاشی ماہرین بھی گردانتے ہیں تو وہ اپنی ذمہ داریوں کا بھی ادراک کریں اور عالمی سطح کی معیاری تحقیق کریں، محض پیسوں کے عوض تحقیقی مقالے چھپوا کر اعلیٰ عہدوں کے حصول کی دوڑ میں نہ پڑیں، اس کیلئے پہلے ہی پورے پاکستان میں عصری تعلیمی اداروں کے پروفیسروں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے،اگر آپ نے معاشیات میں پی ایچ ڈی کی ہے تو یہ آپکی ذمہ داری ہے کہ اخلاص کیساتھ، اعلی معیار کی تحقیق کو پروان چڑھائیں اور آپکی اعلی معیار کی تحقیق دنیا کے بہترین سائنسی جرائد میں شائع ہو، یہ بھی کوشش کی جائے کہ اگر آپ علمِ معاشیات پر تحقیق کررہے ہیں تو نوبل پرائز کے معیار کی تحقیق کو پڑھا جائے اور نوبل پرائز کے معیار کی تحقیق کی جائے اور اسے ان ہی عالمی معیار کے سائنسی جرائد میں چھپوایا جائے جو کہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ہیں۔ پاکستان اور عالمی سطح پر موجود پیسوں کے عوض چھپوانے والے غیر معیاری سائنسی جرائد میں اپنی سائنسی تحقیقی مقالے چھپوانے سے گریز کیا جائے۔

خلاصہ کلام

کراچی کی صرافہ مارکیٹ سے لے کر دبئی، دوحہ، ریاض، منامہ، کویت شہر، بغداد، کوالا لمپور اور جکارتہ میں موجود سیکڑوں جیولری اور سونے چاندی کے کاروبار کرنے والوں کو کسی نے ہرگز نہیں روکا کہ وہ اپنا کاروبار نہ کریں البتہ اگر یہی کاروباری لوگ اورسینکڑوں دکانوں کے مالک اپنے ذاتی مفاد کیلئے دین کا نام استعمال کرتے ہوئے اپنے کاروبار کو وسعت دینا چاہیں تو یہ ہرگز مناسب نہ ہو گا، آخر میں ہم دردِ دل کے ساتھ یہی گزارش کرتے ہیں کہ اگر کسی کو اپنے سونے چاندی کے کاروبار کو کرنا ہے تو شوق سے کیجئے اور ہم اس کے کاروبار میں برکت کیلئے دعاگو بھی ہیں مگر اپنے کاروبار کی بڑھوتری کیلئے دینِ اسلام کا نام استعمال نہ کیجئے اور قوم کو ایسی امید نہ دلائیے جس کی کوئی اصل اور بنیاد ہی نہ ہو نیز یہ بھی دعوی نہ کریں کہ آپ کی دکان سے خریدے گئے سونے و چاندی کے نقش کندہ سِکوں سے پوری دنیا میں اسلامی نظام واپس آجائے گا اور معاشرے میں مساوات اور عدل پیدا ہوگا۔ اگر واقعی سنجیدگی سے اسلامی ممالک کو اور خاص طور پر پاکستان کو مضبوط بنانا ہے تو اس کیلئے پاکستانی معیشت کو مضبوط بنانا ہوگا اور اس کیلئے اکابر علمائے کرام اور مفتیانِ کرام نے پہلے ہی سے تجاویز دے رکھی ہیں جن پر عمل کرکے اسلامی ممالک عمومی طور پر اور پاکستان بالخصوص اپنی معیشت کو مضبوط بنا سکتا ہے ۔ ان تجاویز میں سے ایک اہم تجویز موجودہ سودی نظام سے چھٹکارا ہے۔
ذیل میں ہم بطور خلاصہ اہم نکات پیش کررہے ہیں:
٭ کسی مسلمان کی سونے و چاندی کے سِکوں کو بیچنے والی کمپنی ہو یا زیورات کی دکان،   برطانیہ کی رائل منٹ کمپنی ہو یا امریکہ کی یونائٹیڈ اسٹیٹس منٹ، محض ان لوگوں اور اداروں کا   سونے و چاندی کے سِکوں پر مہر نبوت، قرآنی آیات و دینی عبارات، خلفائے راشدین کے نام و دیگر اسلامی تاریخ کی اہم شخصیتوں کے ناموں کو کندہ کر کے ان کی خریدوفروخت سے اسلامی نظامِ معیشت واپس لانے کا تاثر لینا قطعاً مناسب نہ ہوگااور نہ ہی ’’ان نقش کندہ سونے کے سِکوں کی مدد سے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ڈالر کی اجارہ داری ختم کی جاسکتی ہے‘‘ اور اس طرح کے بلند بانگ دعوی کرنا سائنسی، معاشی و تکنیکی طور پر بھی درست نہیں۔
٭ اسلام کے ابتدائی دور میں مالیاتی لین دین اگر چہ سونے چاندی کے سِکوں کے ذریعے ہی ہوتا تھا، اور سونے چاندی کے زر ہونے کی صلاحیت مسلمہ حقیقت ہے، لیکن مفتیانِ کرام کے مطابق شریعت نے زر ہونے کے لیے سونے چاندی کے سکوں کی شرط نہیں لگائی ہے۔ نیز درہم و دینار کو ہی صرف مسلمانوں کی کرنسی کے طور پر سمجھنا مناسب نہیں ہے۔ مفتیانِ کرام کے مطابق شریعت نے کسی چیز کو ثمن قرار دینے پر کوئی قید نہیں لگائی، البتہ ثمنیت متحقق ہونے کیلئے اس چیز کا شرعی طور پر مال ہونا شرط ہے جس کی تفصیلات فقہ کی کتابوں میں درج ہیں۔نیز یہ اصول بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اسلام حقیقی اثاثوں پر مبنی معیشت کو فروغ دیتا ہے اور فرضی تخیلاتی معیشت کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔
٭ شریعتِ اسلامی میں تخلیقِ زر اور بالخصوص سونے چاندی سے زر کی تخلیق، ان کی بیع و شرا سے متعلق اصول واضح طور پر بیان کئے گئے ہیں، خاص طور پر بیع صرف کے احکامات بہت ہی واضح طور پر بیان کئے گئے ہیںلہٰذا ان احکامات کو جاننے کیلئے مستند دارالافتاء سے رجوع کیا جائے اور انہی کے بتائے گئے شرعی طریقہ کار پر عمل کیا جائے۔
٭ موجودہ دور میں کسی چیز کی ثمنیت حکومتی قانون کی رو سے عمل میں آتی ہے اور حکومتی اعلان سے ثمنیت ختم ہوجاتی ہے ، عوام کا اس بارے میں کسی قسم کا عمل دخل نہیں ہے نیز آجکل کے دور میں ’’کرنسی‘‘ جاری کرنے کا شرعی و قانونی طور پر اختیار حکومتِ وقت کو ہے۔
٭ کاغذی کرنسی کو عالمی سطح پر رائج کرنے کے بعد ترقی یافتہ ممالک کی حکومتوں کی جانب سے   ڈیجیٹل کرنسی جنہیں سینٹرل بینک ڈیجیٹل کرنسی (سی بی ڈی سی)بھی کہا جاتا ہے، کے اجرا کی کوششیں کی جاری ہیں۔ ایسی تمام کوششوں کے آگے مضبوط بند باندھنے کی ضرورت ہے۔ اصل کام اسلامی ممالک کی حکومتوں کا یہ ہے کہ وہ درہم و دینار کے لوٹانے کی کوششوں کو مربوط طریقے سے کریں تاکہ حقیقی معیشت کو دنیا میں فروغ ملے چہ جائیکہ کاغذی کرنسی کے بعد ڈیجیٹل کرنسی کو اختیار کرلیا جائے۔
(حواشی)
(۱)  (حوالہ : موسوعہ فقہیہ، کویت جلد۲۰ ، صفحہ۲۸۳،اردو ترجمہ مجمع الفقہ الاسلامی الہند)
(۲)  (حوالہ: کوائن آف اسلامک ورلڈ، پبلک آکشن سیل، اسٹیکس)
(۳) (حوالہ: اسٹیفن البم، چیک لسٹ آف اسلامک کوائن، تیسرا ایڈیشن، نومبر۲۰۱۱)۔
(۴) (حوالہ: مفتی محمد تقی عثمانی صاحب ، فقہ البیوع اسلام کا نظامِ خریدوفروخت، ج دوم، ص۱۴۴ ، دارالاشاعت کراچی)
(۵)  (حوالہ: فتوی نمبر 144411100008،دارالافتا جامع العلوم الاسلامیہ، علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن، کراچی )
(۶) (حوالہ: مارک کارنی، ویلیوز، سگنل،۲۰۲۲)
(۷) (حوالہ کتاب: ٹوکنز: دی فیوچر آف منی ان دا ایج آف دی پلیٹ فارم، ورسو،۲۰۲۳ )
(۸)  (حوالہ: درہم و دینار مستقبل کے اسلامی سِکے، ص۳)
(۹)  (حوالہ: درہم و دینار مستقبل کے اسلامی سِکے، ص۳ )
(۱۰) (حوالہ: درہم و دینار مستقبل کے اسلامی سِکے، ص ۱۵)
(۱۱)  (حوالہ: درہم و دینار مستقبل کے اسلامی سِکے، ص۷ )
(۱۲)  (حوالہ: درہم و دینار مستقبل کے اسلامی سِکے، ص ۷)
(۱۳) (حوالہ: فتوی نمبر : 144507101378جامعۃ العلوم الاسلامیہ، علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن، کراچی، پاکستان)
(۱۴) (حوالہ: فتوی نمبر :144411102539جامعۃ العلوم الاسلامیہ، علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن، کراچی، )
(۱۵)  (حوالہ: مولانامفتی محمد تقی عثمانی صاحب،اسلام کا نظامِ خرید و فروخت، ترجمہ فقہ البیوع، ج۲، ص۱۱۰ ، دارالاشاعت کراچی)
(۱۶) (ایضاً)
(۱۷) (حوالہ: مفتی محمد تقی عثمانی صاحب، اسلام کا نظامِ خرید و فروخت، ترجمہ فقہ البیوع، ج۲، ص۱۸۱۔۱۸۳ دارالاشاعت، کراچی)