ملفوظاتِ امام لاہوریؒ(قسط۸)
’’تفسیر لاہوری‘‘کی روشنی میں!مرتب: حافظ خرم شہزاد
حجۃ اللہ البالغہ کی خصوصیت
’’حضرت شاہ ولی اللہؒ نے اپنی کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں احکام شریعہ کے مصالح بیان فرمائے ہیں ،اس کے پڑھنے سے یہ درجہ حاصل ہوجاتا ہے۔اس بلند پایہ کتاب کو سمجھنے کے لئے تمام علوم ظاہری سے فارغ ہونا ضروری ہے (اور ) اس کو پڑھانے کے لئے علوم باطنی کی بھی ضرورت ہے۔‘‘ (تفسیر لاہوری، ج۳،ص:۱۲۲)
اختلافِ صوری سے اختلافِ ذاتی لازم نہیں آتا
’’شاہ ولی اللہ ؒ نے حجۃ اللہ البالغہ میں فرمایاہے کہ جمیع انبیاء علیہم السلام کا دین اصولاًمتحد ہے،جیسے عبادات ِبدنیہ تھیں، ہم میں بھی ہیں کَمَا حرف تشبیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اصولاً متحد ہیں، اسی طرح سب کی تعلیم کا اصل اصول توحید، رسالت،مجازات ہی ہے مگر صورتیں مختلف ہیں یعنی قربانی، مالی اور بدنی کی ہر ایک کی صورتیں شریعت کی مختلف ہیں،مثلاً یہود سے زکوٰۃ دسواں حصہ لیا جاتاتھا اور امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چالیسواں حصہ لیا جاتا ہے، علیٰ ہذا القیاس اور اس سے اختلافِ ذاتی لازم آتا ہے لہٰذا امم سابقہ یعنی یہود اور نصاریٰ کو شریعت امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصول پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے بلکہ تسلیم کرنا چاہئے۔‘‘ (تفسیر لاہوری، ج۳،ص:۱۶۱)
صوفیاء کے ہاں افراط وتفریط
’’اس لئے مسلک انبیاء علیہم السلام ایک معتدل مسلک ہے، جس پر ایک انسان یعنی شاہ وگدا چل سکتا ہے، بخلاف مسلک صوفیائے کرام کے ، چونکہ مسلک صوفیاء میں افراط وتفریط ہوئی اسلئے اسکو ہر ایک انسان نہیں نبھا سکتا، جیسے پاس انفاس(ہر سانس کیساتھ اللہ کا لفظ جاری ہونا)وحبسِ دم (سانس کو قابو میں رکھنا)یا بعض صوفیائے کرام تہذیبِ نفس کیلئے چلّے بتلاتے ہیں۔‘‘ (تفسیر لاہوری، ج۳،ص:۱۶۴)
بزرگوں کا کمال ادب
’’مولانا خیر محمد جالندھریؒنے اس مرتبہ جلسے میں میری اطلاع کے بغیر میرا نام تقریر کے لیے تہذیب اخلاق وتزکیہ نفس کا عنوان رکھ کر شائع کیا العالم لایتمیزولا یتزکیٰ الا بصحبۃ المرشد(عالم تمیز اور تزکیہ بغیر صحبت مرشد کے نہیں کرسکتا)اور تمیز اللہ کے پاک نام سے پیدا ہوتی ہے،اولیاء کے قدموں کی خاک سے وہ موتی ملتے ہیں جو بادشاہوں کے تاج میں نہیں، کیا ان بادشاہوں کو تمیز ہے؟اور جب تمیز ہوجائے تو حلال کھائے گا، حرام سے بچے گا اور عبادۃ اللہ کا رجحان پائے گالیکن…..
مدتی ایں مثنوی تاخیر ژد
مہلتی بایست تا خون شیر شد
اس کے لیے ریاضت اور محنت کی ضرورت ہے طالب صادق اور شیخ کامل ہو، یہ میری مرئیات(دکھائی دینے والی چیزیں)ہیں ظنیات نہیں، عقیدت اور ادب واحترام میں فرق نہ آنے پائے، یہ تجربہ ہے،ورنہ رابطہ بالکل ٹوٹ جاتا ہے ۔‘‘ (تفسیر لاہوری، ج۳،ص:۱۹۲)
حضرت مدنی ؒ کی مجلس میں کمال ادب
’’میں تین تین گھنٹے حضرت مدنی ؒکے سامنے خاموش باادب بیٹھتا تھا، کامل کے سامنے دل اور باطن میں ادب کرکے بیٹھنا الگ طریقہ ہے اور ظاہراً بیٹھنے کا بھی طریقہ اور ہے کأن علیٰ رؤسنا الطیر( گویا ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں)حضرت مدنی ؒ میرے پیر اور مرشد نہیں تھے مگر میں ان کا ادب شیخ کی طرح کرتا تھا ، ایک دفعہ حضرت کوکہیں باہر جانے کی ضرورت آئی تو فرمایا احمد علی! میں نے کہا حاضر ہوں،فرمایا میری جگہ بیٹھ جاؤ۔ وہ پہچانتے ہیں ،ایک اللہ والے کو ناراض کرنا کوئی آسان بات ہے اسکی پھٹکار اسکی طرف سے پڑتی ہے من عاد یٰ لی ولیا فقد آذنتہ بالحرب (بخاری: ۶۵۰۲) جس نے میرے ولی سے عداوت کی تو میری طرف سے اعلان جنگ ہے، میں تمام اولیاء اللہ اور چاروں سلسلوں کے خاندانوں کی عزت کرتا ہوں۔‘‘ (تفسیر لاہوری، ج۳،ص:۱۹۲)
علماء کرام کا فرض
’’جس جس کو یہ قرآن پہنچے، یہ قرآن مجیدآج کل طباعت کی برکت سے ہر گاؤں ، ہر قصبہ، ہر شہر میں پہنچ رہا ہے لہٰذاجہاں پر یہ قرآن مجید پہنچے، ان لوگوں کو سمجھانا اور ڈرانا دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ ہے۔ اب علماء جو عالم دین ہیںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت میں خلق خدا کو اس قرآن مجید کے ذریعہ سے ڈرانا ان کا فرض ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:ان العلماء ورثۃ الانبیاء وان الانبیاء لم یورثودینارا ولا درھماانما ورثواالعلم فمن اخذبہ اخذ بحظ وافر(ترمذی:۲۶۸۲)’’علماء ہی انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں اور انبیاء علیہم السلام نے دینار( سونے کاسکے)کا اور درہم ( چاندی کا سکہ) انہیں وارث نہیں بنایا سوائے اس کے کہ وہ علم الٰہی جو انبیاء علیہم السلام نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے پایا علمائے کرام نے وراثت میں وہ حاصل کیا‘‘لہٰذا علمائے کرام کا یہ فرض ہے کہ اور کچھ پڑھائیں یا نہ پڑھائیں، قرآن شریف لوگوں کو ضرور سنائیں اور اس کے ذریعہ سے مخلوق ِ خدا کو اللہ تعالیٰ کی گرفت اور اس کے عذاب سے ڈرائیں، توحید کا مسئلہ اگرچہ صاف ہے لیکن جب تک اولوالعزم نبی شرک سے برأت کا اظہارنہیں کرتا تب تک لوگ زیادہ توجہ نہیں کریں گے۔‘‘ (تفسیر لاہوری، ج۳،ص:۳۴۱،۳۴۲)
مرغی کی ایک مثال
’’(۱)مرغی کے نیچے جب انڈے رکھ دیے جاتے ہیں تو اس کے سینے کے نیچے دس انڈے آتے ہیں تو اگر کوئی عورت اس کے نیچے پندرہ انڈے رکھ دے تو پھر مرغی چونچ سے انڈے آگے پیچھے کردیتی ہے تاکہ اس کو گرمی یکساں پہنچے، یہ فرداً فرداً القا کیا جاتا ہے۔
(۲)مرغی دانہ چگنے کے لیے بہت تھوڑے وقت کے لیے جاتی ہے۔
(۳)مقرر مدت میں انڈوں سے بچے نکلتے ہیں۔
(۴)چیل سے بچوں کی حفاظت کرتی ہے۔
ان کے علاوہ حیوانات کو فرداً فرداً یہ القا کیا جاتا ہے اور انسانوں کے لیے ضابطۂ حیات قرآن مجید ہے جو پیغمبرخدا پر نازل ہو چکا ہے تو اگر کوئی اس کو جھٹلائے تو وہ گمراہ ہے۔‘‘ (تفسیر لاہوری، ج۳،ص:۳۵۹)
تقلیدکا صحیح مطلب
’’اپنے مذہب کو کھیل اور تماشہ نہ بناؤ بلکہ تمہارا فرض ہے کہ سوچو کہ امام اعظم ابوحنیفہؒ کے مقلد ہونے کا کیا مطلب ہے؟ہمارے تمام سلف احناف ؒ اس امر پر متفق ہیں کہ سب سے پہلے ہمیں اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید پر عمل پیرا ہونا لازمی ہے کیونکہ ہم اسی کے بندے ہیں اور اس کا حکم صریح مل جائے تو پھر کسی اور طرف جانے کی ضرورت نہیں۔اس کے بعد نمبر دوم سید المرسلین خاتم النبیین شفیع المذنبین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات مبارکہ ہیں۔جب ان دونوں مقامات سے کوئی مسئلہ سمجھ میں نہیں آئے تو پھر اجماع امت کودیکھا جائے کہ آیا پہلے مبارک زمانوں میں اس مسئلہ پر بحث ہوئی ہے اور کچھ طے پایا ہے اگر وہ مل جائے تو فبہا ورنہ پھر شرعاً قیاس کرنے کی اجازت ہے لیکن بجائے اس کے کہ انسان خود قیاس کرے اگر کسی بڑے درجے کے عالم،متقی، عابد زاہد ماہر علوم کتاب اللہ وسنت نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے قیاس پر اس شرط سے عمل کرے کہ اگر میرے امام کی رائے اللہ تعالیٰ کی کتاب یا رسول اللہ کے ارشادات کے مخالف ہوئی تو اس کو چھوڑ دوں گا اور اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کروں گا تو اس کا نام تقلید ہے۔ سراج الامۃ حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ کا ارشاد ہے:اذا صح الحدیث فھو مذھبی(آنحضرتؐ سے جو حدیث صحیح مل جائے وہی میر ا مذہب ہے)‘‘ (تفسیر لاہوری، ج۳،ص:۳۹۶،۳۹۷)
شیطان کا حضرت عبدالقادر جیلانی ؒکو ورغلانا
’’حضرت پیرانِ پیر عبدالقادر جیلانی ؒنے اپنی کتاب’‘’طیبات‘‘میں لکھا ہے کہ ایک رات مجھے فضائے نورانی میں ایک تخت نورانی پر ایک ذات نورانی دکھائی دی اور مجھے آواز دی کہ عبدالقادر!تجھے نمازیں معاف ہیں،میں نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو تو معاف نہ ہوئیں تو میں کس باغ کی مولی ہوں تو میںنے جھٹ کہا کہ اخسأ یا لعین تو فضا اور نہ ذات اور نہ تخت رہا اور آواز سنائی دی کہ اے عبدالقادر! تجھے علم نے حفاظت میں لیا ، ورنہ اس جال میں مَیں نے بہت سے زاہدین اور فقراء کو پھنساکر گمراہ وبرباد کیا ہے۔‘‘ (تفسیر لاہوری، ج۳،ص:۵۱۶)
حضرت لاہوری ؒاور کھدر کا کپڑا
’’خود میں کھدر کا کپڑا پہنتا ہوں تو اتنا کھدرآتا ہے کہ سب لڑکے بھی پہنتے ہیں جبکہ لاہور میں بالکل کھدر نہیں ملتا ۔یہ پگڑی کاجو ٹھہراؤ ہے ململ میں نہیں ہے،دہلی سے منگواتا ہوں جو ہاتھ کا کاتا ہوا ہے۔ گاندھی نے تحریک چلائی تو بڑی مہارت پیدا ہوئی ، حضرت مدنیؒ نے جو مقاطعہ(بائیکاٹ)کیا دیگر کپڑوں کا، اس کا مقصد انگریز سے عداوت ونفرت کا اظہار تھا اور وہ یہ تھا کہ ہندوستان کی کمائی کا ایک پیسہ بھی انگریز کے ہاتھوں میں نہ جائے۔‘‘ (تفسیر لاہوری، ج۳،ص:۵۲۶)
دیہات اورشہرکے ماحول میں فرق
’’دیہات میں فطرت طبعی ہوتی ہے اس لیے کچھ شرافت ہوتی ہے، اسباب فسق وہاں نہیں ہوتے،نہ شراب خانے ، نہ سینما ڈانس اور نہ کنجر خانہ بالکل سلیم الفطرت لوگ ہوتے ہیں، شہری بگڑے ہوتے ہیں،برائیوں کے مراکز شہر ہیں ۔اس طرح اگر یہ لوگ کتاب اللہ کو مان جائیں تو سب کچھ ٹھیک ہوجاتا ہے ۔حضرت نوح علیہ السلام کے وقت قوم کی فطرت بگڑ گئی۔ انبیاء علیہم السلام قبل از نوح علیہ السلام ملھم من اﷲتھے لیکن مبعوث و رسل لاصلاح خلق اﷲ نوح علیہ السلام سے پہلے کوئی نہیں۔ حدیث شفاعت میں ہے اول من بعثہ اللہ نوح ای مرسل لاصلاح خلق اللہ پہلی مرتبہ ود، سواع، یعوق، نسر، یغوث جیسے بڑے بڑے بزرگ جب وفات پاگئے تو شیطان نے اکسا کر ان کو خدا تعالیٰ اور اپنے درمیان وسیلہ ٹھہرایا اور انہیں ان کی قبر پرستی پر آمادہ کیا تاکہ وہ ان کی عبادت میں لگے رہیں۔‘‘ (تفسیر لاہوری، ج۳،ص:۵۵۱)
انسان کے ضروری کام
’’آپ کو معلوم ہے کہ انسان کے ذمے مختلف قسم کی ذمہ داریاں ہیں، بعض کا تعلق اپنی ذات سے ہے،مثلاًکھانا، پینا،سونا ،روزی کمانے کے لیے دکان یا دفتر میں جانا اور بعض ذمہ داریوں کا تعلق اعزہ قرباء سے ہے، مثلاً بچوں کی ضروریات کو پورا کرنا۔بعض کا تعلق ماں باپ سے ہے،مثلاً ان کے کھانے پینے اور ان کے آرام کا سامان بہم پہنچانے بعض ذمہ داریوں کا تعلق حکومت وقت کے ساتھ ہوتا ہے کہ اسکے احکام کی تعمیل کی جائے اور بعض کا تعلق پالتوں جانوروں سے ہوتا ہے مثلاً گائے، بھینس یا گھوڑا رکھا ہو اہے تو اسکے چارے پانی کا خیال رکھنا۔‘‘ (تفسیر لاہوری، ج۳،ص:۵۵۱)
مخلص اور سچے خیر خواہ
’’ہر قوم کے پیغمبر نے اپنی قوم کو کہا ہے کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔ بے طمع دوست صرف تین قسم کے ہیں (۱)اللہ تعالیٰ(۲)انبیائے کرام علیہم السلام (۳)اولیائے کرام۔باقی سب غرض کے یار ہوتے ہیں۔ ماں، باپ، بیٹا، زوج اور دوست وغیرہ سب۔‘‘ (تفسیر لاہوری، ج۳،ص:۵۵۳)
ہلاک شدہ امتوں کے انبیاء کی قبور
’’ہمارے مفسرین حضرات لکھتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کی امتیں ہلاک ہوجاتی ہیں تو وہ انبیاء علیہم السلام مکہ معظمہ میں تشریف فرماہوتے اور مفسرین کہتے ہیں کہ ان کی قبور اکثر مکہ مکرمہ میں ہیں، آگے تفصیل میں نہیں جاؤں گا لیکن اتنا کہتے ہیں کہ ستر انبیاء علیہم السلام کی قبور مطاف میں ہیں۔‘‘ (تفسیر لاہوری، ج۳،ص:۵۶۵)
قوتِ ملکیہ
’’چالیس روزوں کی وجہ یہ تھی کہ معاملات عالم ناسوت سے منقطع ہوکر فنافی الملکیت ہوجائیں اور اعلیٰ ترین استعدادِ ملکیہ حاصل ہونے پر ہدایت سماوی بلا واسطہ لینے کی صلاحیت پیدا ہوجائے، اس لیے خلوت اور صیام کی ضرورت پڑی تاکہ قوتِ ملکیہ تیز ہوجائے اور اخذ علوم کی استعداد کامل ہوجائے۔‘‘ (تفسیر لاہوری، ج۴، ص:۹۱)
دنیا دار شادی پر زیر ہوجاتے ہیں
’’دنیا دار شادی پر زیر ہوجاتے ہیں، آج ہی مولوی حمیداللہ (حضرت لاہوریؒ کے صاحبزادہ) کی شادی کر کے آیا ہوں، میں نے نہ کچھ دیا اور نہ لیا، لڑکی والوں نے اگر کچھ دیا تو اپنی بیٹی کو دیا،ہم نے اگر کچھ دیا تو اپنی بہو کو دیا۔دنیا دار کیلئے شادی عذاب ِ الٰہی بن جاتی ہے ، قناتیں اور شامیانے آرہے ہیں، میزیں اور کرسیاں آرہی ہیں۔ہمارا ولیمہ فرش زمین پر ہوگا، ہماری برادری یہاں بیٹھی ہے، کل رات وہاں آرام سے سوئے تھے ،آج یہاں آرام سے سوئیں گے۔ نہ شادی کی فکر تھی اور نہ ولیمہ کی فکر ہے،اللہ تعالیٰ جو راستہ سمجھاتے ہیں اس میں دنیا کی بھی عزت فرحت اور راحت ہوتی ہے، دنیا دار احکام الٰہی کی خلاف ورزی کرکے دنیا میں ذلیل وخوار ہوتے ہیں، یہ دنیا میں بہشت تو نہیں بن سکتی جس کے ہمیں قرآن مجید میں وعدے دیئے گئے ہیں البتہ قرآن مجید کے راستے پر چلنے سے ہر ممکن آرام مل سکتا ہے۔ سبیل الرشد قرآن ہے، جن کو اللہ تعالیٰ ایمان عطا فرماتے ہیں وہ اللہ کی ہر بات کو مانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکیوں کی شادیاں بھی اسی طرح کی تھیں۔‘‘ (تفسیر لاہوری، ج۴،ص:۹۴)
حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت میں بڑی حکمت
’’انت منی بمنزلۃ ھارون من موسیٰ (حضرت علیؓ)باعتبار قرابت تھے ورنہ باعتبار نبوت کے حضرت ابوبکر صدیقؓ تھے۔اعلم اھل الارض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔اگر حضرت علی ؓ کو خلافت سونپ دیتے تو اُسی وقت لڑائیاں اور اختلاف شروع ہو جاتا ،بنوامیہ لڑنا شروع کردیتے جیسا حضرت علیؓ کے خلیفہ ہونے کے بعدہوا تو وصال کے بعد سب کچھ شروع ہوجاتا۔‘‘(تفسیر لاہوری، ج۴،ص:۱۰۰)