گرین گولڈ: مستقبل کی تخیلاتی معیشت کی بنیاد

ڈاکٹر مبشر حسین رحمانی/لیکچرر مِنسٹر ٹیکنالوجی یونیورسٹی آف آئرلینڈ

ڈاکٹر مبشر حسین رحمانی

لیکچرر مِنسٹر ٹیکنالوجی یونیورسٹی آف آئرلینڈ

تخیلاتی و تصوراتی اور غیر حقیقی اثاثوں پر مبنی معیشت کو فروغ دینے اور حقیقی اثاثوں پر مبنی معیشت کو بتدریج ختم کرنے کیلئے عالمی سطح پر کئی جہتوں سے کوششیں ہورہی ہیں۔اس تناظر میں ایک طرف تو قدر کی تعریف ہی تبدیل کرنے کی کوششیں اپنے بامِ عروج پر ہیں تو دوسری طرف ایسی نت نئی مالیاتی پروڈکٹس اور سروسز عالمی مالیاتی نظام میں متعارف کروائی جارہی ہیں جن کا حقیقی معیشت سے کوئی تعلق نہیں،اسی پر بس نہیں کیا جارہا بلکہ ڈی سینٹرلائزڈ فنائنس یعنی ڈی فائی Decentralized Finance (DeFi) کے نام پر ایک متبادل عالمی مالیاتی نظام کو نئے سرے سے مرتب کیا گیا ہے جس کے تحت ایسی فنانشل پروڈکٹس و سروسز کی ترویج و اشاعت تدریجا کی جارہی ہے جن کا حقیقی معیشت سے کوئی تعلق نہیں مثلا فلیش لون، اسٹیکنگ؍لینڈنگ، ڈی سینٹرلائزڈ ایپلی کیشنز وغیرہ نیز عالمی ماحولیاتی آلودگی سے تدارک کا لبادہ اوڑھے گرین گولڈ کے نظریے کو پیش کیا گیا ہے جس کے تحت سونے کو زیرِ زمین ہی رہنے دیا جائے اور سونے کو نکالنے کیلئے کان کنی نہ کی جائے۔گرین گولڈ نظریے کو عملاً نافذ کرنے کے لئے پہلے علمی و عقلی دلائل سے عوام الناس کے اندر رائے عامہ ہموار کی جارہی ہے اور پھر مستقبل میں یہ احتمال ہے کہ ایک منظم طریقے سے اس نظریے اور اس کی عملی شکلیں معاشرے میں رواج دینے کی کوششیں کی جائیں گی۔دنیا کے مشہور سرمایہ کار اور امیر ترین شخصوں میں سے ایک وارن بافیٹ نے ۱۹۹۸ء میں ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ میں اپنی تقریر میں کہا۔

(سونا) افریقہ میں، یا کسی جگہ زمین سے کھودا جاتا ہے۔ پھر ہم اسے پگھلاتے ہیں، ایک اور گڑھا کھودتے ہیں، اسے دوبارہ دفن کرتے ہیں اور لوگوں کو اس کی حفاظت کے لیے کھڑے ہونے کے لیے ادائیگی کرتے ہیں۔ اس کی کوئی افادیت نہیں ہے(حوالہ: فوربز نزنس میگزین)

یہ بیان غیر حقیقی معیشت کو پروان چڑھانے والی سوچ کی عکاسی کرتا ہے ، یہ وہ طرزِ فکر ہے جس کے تحت عالمی معاشی نظام کی جڑیں کھوکھلی ہوتی ہیں، ایک ایسی معیشت کو تقویت دی جاتی ہے جو کہ عالمی مالیاتی بحرانوں کا پیش خیمہ بنتی ہے اور کساد بازاری کی بنیادی وجہ ہے۔پوری دنیا کی معیشت پر جن لوگوں کا اثرورسوخ ہے ان میں سے بیشتر اسی طرزِ فکر کے حامی ہیں، اس کے ذریعے عالمی معیشت کو کنٹرول کرتے ہیں اور ایسے ہتھکنڈے اپنانے کی کوشش کرتے ہیں جن سے عالمی معیشت پر ان کی گرفت مضبوط رہے۔
’’گرین گولڈ‘‘ سے مراد سونے کی وہ شکل ہے جس کو زمین سے کان کنی کرکے نکالا نہ گیا ہو بلکہ زمین کے اندر ہی رہنے دیا جائے اور محض تخمینہ کے ذریعے سونے کے زیرِ زمین ذخائر کا اندازہ لگا کر اس فرضی سونے کے تخمینے کی حقیقی دنیا میں خریدو فروخت شروع کر دی جائے،مثلاً کسی جگہ سونے کے ذخائر کی موجودگی کے شواہد ملنے کے بعد جدید سائنسی طریقے سے تخمینہ لگا کر سونے کے ذخائر کا اندازہ لگا لیا جائے پھر اس سونے کی قیمت بازاری ریٹ کے حساب سے لگا کر اس زیرِ زمین سونے کی خریدوفروخت کی جائے۔دوسرے الفاظ میں سونے کے ذخائر کا کمپیوٹر کے کھاتوں میں اندراج کردیا جائے اور پھر اس کی خریدوفروخت کی جائے۔مثلاً اگر دو سو ٹن زیرِ زمین سونے کے ذخائر کا تخمینہ لگایا گیا تو اس زیرِ زمین سونے کا اندراج کمپیوٹر کے کھاتوں میں کردیا جائے اور پھر عالمی مارکیٹ میں حقیقی سونے کی مارکیٹ قیمت کے حساب سے اس زیرِ زمین سونے کی تجارت شروع ہوجائے۔آسان الفاظ میں زیرِ زمین موجود سونے کے ذخائر کا محض تخمینہ لگا کر سرمایہ کاری کیلئے استعمال کیا جائے۔ اس طرح کی سونے کی سرمایہ کاری کو ’’صاف‘‘ اور’’ گرین سرمایہ کاری‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔
اس طریقے سے گرین گولڈ کے محض کمپیوٹر کھاتوں میں اندراج کی خریدوفروخت سے کئی سنگین مسائل جنم لیں گے مثلاً اس بات کو کیسے ملحوظ رکھا جائے گا کاغذوں اور کمپیوٹر پر اتنی ہی زیرِ زمین سونے کی مقدار کا اندراج کیا گیا جس کا تخمینہ لگایا گیا تھا؟ کاغذوں اور کمپیوٹر پر اندراج ہی تو کرنا ہے، تخمینہ لگائی گئی مقدار کے بجائے زیادہ اندراج کردیا جائے اور پھر اسکی خریدوفروخت شروع کردی جائے پھر تو دیگر سیاروں مثلا مریخ پر ممکنہ طور پر موجود سونے کے ذخائر کو نکالے بغیر انکی تجارت کرنے کی راہیں ہموار کی جائیں گی اور اس کی ملکیت پھر انہی ممالک کے پاس ہوگی جن کا اسپیس پروگرام ہے۔پھر سونے کے ذخائر کی تلاش کی کلفت اٹھانے کی بھی کیا ضرورت ہے، بس جس کا دل چاہے سونے کی فرضی مقدار سوچ لے، کمپیوٹر کھاتوں میں جتنے چاہے سونے کے ذخائر کا اندراج کردے اور پھر خریدوفروخت شروع!اس سوچ کی ایک نظیر مروجہ فلیش لون ہے جس میں اثاثوں کی غیر موجودگی میں اس فرضی اثاثے کا قرضہ فراہم کیا جاتا ہے اور یہی کچھ گرین گولڈ کے تناظر میں بھی ہوتا نظر آرہا ہے۔
دیکھئے! بنیادی بات یہ ہے کہ اس وقت انٹرنیٹ پر حقیقی سونے کی مروجہ خریدوفروخت بذریعہ مارکیٹ ہے مثلاً لندن کی اوور دی کانٹر مارکیٹ (London OTC Market) امریکی فیوچر مارکیٹ(COMEX )چائنیز مارکیٹ مثلا شنگھائی گولڈ ایکسچینجSGE ، شنگھائی فیوچرز مارکیٹ(SHFE ) نیویارک مرکنٹائل ایکسچینج (NYMEX )وغیرہ شامل ہیں اوردوسری صورت گولڈ بلین کی صورت میں سونے کی خریداری ہے ۔ سونے کی خریدوفروخت کموڈیٹی مارکیٹ کے ذریعے عمومی طور پر انجام دی جاتی ہے اور علمائے کرام کے مطابق کموڈیٹی ٹریڈنگ (سونا چاندی اور دیگر اشیا واجناس کی آن لائن تجارت)مختلف وجوہات مثلا: مبیع قبل القبض اور بعض صورتوں میں مبیع معدوم ہونے کی بنا پر ناجائز ہے۔ قارئین غور فرمائیں کہ حقیقی سونا موجود ہے مگر چونکہ سونا بیچنے والے کے پاس سونا بیچتے وقت اس حقیقی سونے کی ملکیت اور قبضہ نہ آیا لہٰذا اس حقیقی سونے کی خریدوفروخت بھی ناجائز ٹھہری چہ جائیکہ گرین گولڈ جس میں تو سونا سرے سے موجود ہی نہیں، محض تخمینہ اور سونے کے ذخائر کے فرضی نمبروں کا کھاتے میں اندراج کی خریدوفروخت ہے، لہٰذا مفتیانِ کرام کے مطابق گرین گولڈ کی تجارت بدرجہ اولی ناجائز ہے۔
’’گرین گولڈ ‘‘ نظریے کے حامی سونے کی کان کنی سے پیدا ہونے والے نقصانات گنواتے ہیں مثلا سونے کی کان کنی سے ماحولیات پر اثر جیسے دریاؤ ں پر اثر،زمین کے قدرتی مناظر(Landscape )کا خراب ہونا، آب وہوا(Climate)پر اثر، جنگلاتی حیات(Flora and Fauna)پر اثر، جانوروں کی رہائش گاہ پر اثر اور بائیو ڈائورسٹی یا حیاتیاتی تنوع (Biodiversity )شامل ہیں۔ گرین گولڈ نظریے کے حامی افراد کی باتوں سے یہ تاثر ملتا ہے کہ سونے کی کان کنی کے ماحولیات پر سنگین نتائج مرتب ہوتے ہیں جبکہ یہ حضرات سائنسی تجزیے سے مستند اعداد و شمار پیش نہیں کرتے کہ کون کون سے عوامل کتنے فیصد ماحولیاتی آلودگی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور اس میں سونے کی کان کنی کا کتنا تناسب ہے۔ ہماری رائے میں سونے کی کان کنی پر پابندی کی بجائے ماحولیاتی آلودگی کے بڑے اسباب کا تدراک کیا جائے مثلا ترقی یافتہ ممالک کا صنعتوں میں کیمیائی مادوں کا بے دریغ استعمال، جنگلات کا کٹنا ، انٹرنیٹ کو چلانے والے ڈیٹا سینٹرز و دیگر ماحولیات پر اثر انداز ہونے والے عوامل کا تدارک شامل ہے۔ امریکہ کی ماحولیاتی آلودگی کے تحفظ کی تنظیم Envorinmental Protection Agency (EPA) کے 2019 کے اعداد وشمار کے مطابق چونتیس فیصد پاور کی صنعت(بجلی کی پیداوار اور ٹھنڈے ممالک میں حرارت کی پیداوار)چوبیس فیصد مختلف صنعتوں، بائیس فیصد زراعت، پندرہ فیصد ٹرانسپورٹ اور چھ فیصد بلڈنگ سے گرین ہاؤس گیس (جو کہ سطح زمین پر درجہ حرارت بڑھنے کا سبب بنتی ہیں)کا اخراج ہوا ہے۔ یورپی کمیشن کی ۲۰۲۳کی گرین ہاس گیس کے اخراج کی رپورٹ ان اعداد و شمار کی تائید کرتی ہے اور اس میں مہیا کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق عالمی سطح پر سب سے زیادہ گرین ہاس گیس کا اخراج پاور کی صنعت(بجلی وحرارت کی پیداوار)، ٹرانسپورٹ، بلڈنگ، زراعت، فضلہ اور معدنی وسائل کے ڈھونڈنے میں ہوتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ورلڈ گولڈ کونسل کے مہیا کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق سونے کی صنعت (کان کنی وغیرہ)کا گرین ہاؤس گیس اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم کا حصہ ہے لہٰذا یہ تاثر دینا کہ سونے کی کان کنی ہی ماحولیاتی آلودگی کا اصل اور بڑا سبب ہے ، یہ بات درست نہیں ہے۔
’’گرین گولڈ ‘‘ نظریے کے حامی گرین گولڈ کی تجارت کے کئی فوائد گنواتے ہیں،مثلاً ایسا کرنے سے ماحولیاتی آلودگی کا خاتمہ ہوگا۔گرین گولڈ بطور نیا اثاثہ سستا بھی ہوگا، اس میں کان کنی کا خرچہ بھی بچے گا، مائننگ کمپنیوں کو مزدوری بھی ادا نہیں کرنی پڑے گی، رائلٹی بھی نہیں دینی پڑے گی اور بھاری مشینری کے اخراجات سے بھی نجات ملے گی۔ غور فرمائیے کہ اثاثہ کے تعریف ہی تبدیل کردی گئی ہے اور ایک موہوم، فرضی اور معدوم چیز کو اثاثہ گردانا جارہا ہے پھر یہ بات پیش کی گئی ہے کہ اس سے سرمایہ کاروں کیلئے سرمایہ کاری کے مواقع بڑھیں گے، درحقیقت یہ سرمایہ کاری کے مواقع نہیں بڑھ رہے بلکہ غیر حقیقی معیشت کو فروغ دے کر لوگوں سے پیسے بٹورنے کے جدید طریقے ہیں۔
ایک اہم غور طلب پہلو یہ بھی ہے کہ جن علاقوں میں سونے کی کانیں دریافت ہوتی ہیں اور کان کنی کی جاتی ہے تو وہاں کی مقامی آبادی کو سونے کی کان کنی کرنے والی کمپنیاں اور حکومتیں رائلٹی کی مد میں بھاری معاوضہ ادا کرتی ہیں۔ گرین گولڈ کی صورت میں جس جگہ سونے کے ذخائر کا تخمینہ لگایا جائے گا وہاں سے سونے نکالا نہیں جائے گا اور بغیر اس اثاثے یعنی سونے کے حصول کے کون رائلٹی ادا کرے گا؟ اگر بالفرضِ محال کوئی کمپنی ادا کرے گی تو پھر وہ کمپنی کئی گنا کمائے گی بھی اور وہ بھی بغیر کسی حقیقی اثاثوں کی ملکیت کے بغیر۔ سونے کی کان کنی اس وجہ سے بھی ضروری ہے کیونکہ جب سرمایہ کاروں کو سونے میں سرمایہ کاری اور تجارت کرنا ہوتی ہے تو سونے تک ان کی رسائی بھی لازمی ہونی چاہیے۔ سونے کی تجارت بغیر سونے تک حقیقی رسائی کے ممکن نہیں اور انسانی معاشرے کی بھلائی کیلئے اسلام نے حقیقی اثاثوں پر مبنی معیشت کے اصول وضع کئے ہیں۔
تاریخی طور پر سونے کو قدر کو محفوظ کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ حضرت حکیم بن حزام ؓکو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دینار دے کر بھیجا کہ ایک جانور قربانی کیلئے خریدیں جس پر آپؓ نے قربانی کیلئے ایک بکری خریدی (حضرت مفتی محمد تقی عثمانی، تقریرِ ترمذی، حصہ معاملات، ج ۱، ص۱۸۷)
جمہور مفتیان کرام کی تحقیق کے مطابق ایک دینار (سونے)ی مقدار چار اعشارِیہ تین سات چار گرام1 Dinar = 4.374 grams ہے(حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ ا وزانِ شرعیہ)آج بھی ایک دینار کی قیمت تقریبا ایک لاکھ پاکستان روپے بنتی ہے جس سے ایک بکری لی جاسکتی ہے یعنی چودہ سو سال گزرنے کے باوجود سونے نے اپنی قدر کو قائم رکھا ہوا ہے۔اب بھلا گرین گولڈ کے فرضی اندراج سے قدر کو کس طرح محفوظ رکھا جاسکتا ہے؟
’’گرین گولڈ‘‘ سے انسانیت کو فائدہ کے بجائے نقصان زیادہ ہے، سونے کی کان کنی سے کئی صنعتیں جڑی ہیں اور بلا مبالغہ لاکھوں مزدورں، انجینئر، سائنسدان، ہیوی مشین آپریٹرز، جیولوجسٹ، کیمیکل انجینئر وغیرہ کی نوکریاں وابستہ ہیں۔گرین گولڈ سے ان تمام لوگوں کی حق تلفی ہوگی، ان کے گھرانوں کی روزی روٹی بند ہوگی اور یہ مزدوروں کے حقوق پر سرمایہ دارانہ ذہنیت کی ایک کاری ضرب ہے اور اس کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام مزدوروں کے حقوق غصب کرنا چاہتا ہے۔سائنس اور معاشی علوم کا مقصد انسانیت کی فلاح اور بہتری ہے۔گرین گولڈ کو ’’عالمی ماحولیاتی آلودگی سے تدارک‘‘ کا لبادہ اوڑھے پیش کرنے سے محض چند لوگوں کو فائدہ پہنچے گا اور بہت زیادہ لوگوں کو نقصان پہنچے گا۔انسانیت کی فلاح و بہبود کے خاطر ہمیں گرین گولڈ کے نظریہ کے بجائے حقیقی سونے کی خرید وفروخت پر انحصار کرنا چاہیے۔
دیکھئے! سونا ایک قیمتی دھات ہے جس کی اپنی ذاتی قدر ہے، قیمتی اثاثہ ہے اور تاریخی طور پر اس کو بطور آلہ مبادلہ استعمال کیا گیا۔سونے کے دیگر اہم استعمال بھی ہیں مثلاً الیکٹرونکس کے آلات اور خاص طور پر موبائل فون، دندان سازی اور کمپیوٹر ہارڈوئیر میں استعمال ہوتا ہے۔ نیز سونے کے زیورات کے ذریعے تزئین و آرائش حاصل کی جاتی ہے۔ سونے کی کان کنی سے کئی دیگر صنعتیں بل واسطہ اور بلا واسطہ متعلق ہیں۔ سونے کی کان کنی سے غربت کا خاتمہ ہوتا ہے، لوگوں کو نوکریاں ملتی ہیں اور معیشت کا پہیہ چلتا ہے۔ ورلڈ گولڈ کونسل کے ۲۰۲۴کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً بیالیس فیصد سونے کا استعمال جیولری بنانے میں، پچیس فیصد بار اور سکے بنانے میں، چھ فیصد ٹیکنالوجی میں اور بائیس فیصد سونا مختلف ممالک کے سینٹرل بینک نے اپنے ذخائر میں خرید کر رکھا۔
ستم طریفی یہ ہے کہ جن ممالک میں سونے کے ذخائر ہیں، ان میں سے کچھ پر مغربی استعماری قوتوں کے تسلط کی وجہ سے یہ ممالک شدید ترین بدحالی اور معاشی کمزوری کا شکار ہیں۔ کچھ امیر ممالک اپنی طاقت کے بل بوتے پر ان ممالک کو غریب سے غریب تر کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور ان کے معدنی وسائل پر مکمل قبضہ کرلیا ہے لہٰذا جو لوگ گرین گولڈ کے نظریے کے حامی دراصل عوام الناس کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔ایک طرف تو وہ سونے کے بیکار پڑے رہنے کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف یہی لوگ اپنے لئے سونے کے انبار اکھٹا کرتے نہیں تھکتے۔
جب ’’گرین گولڈ‘‘ کے حامی یہ کہتے ہیں کہ سونے کی کوئی ذاتی قدر نہیں، اس کا کوئی فائدہ نہیں، بس بیکار یوں ہی تجوریوں میں پڑا ہوا ہے ، اور سونے کی کان کنی نہیں کی جانی چاہیے کیونکہ سونا تو ویسے ہی حکومتی اور سونے کی کمپنیوں کے والٹس Vaults یعنی تجوریوں میں پڑا رہتا ہے تو بنیادی طور پر پوری دنیا کو ایک ایسے نظام کی طرف لے جارہے ہیں جس کی بنیاد تصوراتی وتخیلاتی معیشت ہے اور حقیقی معیشت سے اس کا دور کا کوئی تعلق نہیں۔دیکھئے! ۲۰۰۷۔۲۰۰۸ء کے عالمی مالیاتی بحران کے اسباب کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے ورلڈ اکنامک فورم پر جو مقالہ پیش کیا اس میں چار بنیادی عوامل کو پیش کیا جن کی وجہ سے بڑے پیمانے پر معاشی بحران پیدا ہوا۔ اول یہ کہ نقدی کو اس کے بنیادی مقصد یعنی ذریعہ تبادلہ سے ہٹانا اور اسے خود تجارت کا آلہ بنانا، دوم ڈیریویٹیوز Derivatives کا بہت زیادہ سرایت کرجانا، سوم یہ کہ قرضوں کی فروخت اور چہارم یہ کہ اسٹاک، اشیاء اور کرنسیوں میں شارٹ سیل Short Sales اور بلینک سیلBlank Sales ۔گرین گولڈ بھی دراصل عالمی معاشی بحران کا پیش خیمہ بن سکتا ہے کیونکہ اس سے بھی سٹے بازی اور غیر حقیقی معیشت کو فروغ ملے گا۔
کتنی عجیب بات ہے کہ پوری دنیا کو معاشی طور پر کنٹرول کرنے والے گرین گولڈ کی ترغیب دے رہے ہیں جبکہ خود ان کی جان سونے میں اٹکی ہوئی ہے۔یعنی ایک طرف تو سونے کی کان کنی کی خامیاں گردانتے نہیں تھکتے اور دوسری طرف فیڈرل ریزرو امریکہ، بینک آف انگلینڈ برطانیہ اور آئی ایم ایف نے سونے کے ذخائر کے انبار لگا رکھے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرانگی ہوگی کہ برطانیہ کے بینک آف انگلینڈ کے پاس والٹس Vaultsمیں ساڑھے پانچ ہزار ٹن (تقریباً پچاس لاکھ کلوگرام)سونے کے بلین موجود ہیں جس کی آجکل کے حساب سے مارکیٹ ویلیو تقریباً ایک سو اسی بلین امریکی ڈالر سے زائد کی ہے اور یہ مقدار پوری دنیا کے سونے کے ذخائر کی پانچ فیصد بنتی ہے جس کی آج تک کان کنی کی گئی ہے( مارک کارنی، ویلیو(ز)، سگنل ۲۰۲۲)۔ اگر سونے میں اتنی ہی خامیاں ہیں تو کیوں فیڈرل ریزرو امریکہ ، بینک آف انگلینڈ برطانیہ ، اور آئی ایم ایف ، و دیگر ترقی یافتہ ممالک اپنے تمام سونے کے ذخائر سے نجات حاصل نہیں کرلیتے؟ کیوں خود بھی عملی طور پر سونے سے نجات حاصل کرکے صرف اور صرف گرین گولڈ پر انحصار نہیں کرلیتے؟ کیوں آپ اپنے سارے گولڈ کے اثاثے غریب ممالک میں تقسیم نہیں کردیتے؟ آپ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ سونے کی قدر کا آپ کو بخوبی اداراک ہے۔آپ کا مطمح نظر تو صرف لوگوں میں حقیقی سونے کی اہمیت کم کرکے گرین گولڈ کے عنوان سے تخیلاتی و تصوراتی اور غیر حقیقی اثاثوں پر مبنی معیشت کو فروغ دینا اور لوگوں سے دولت سمیٹنا ہے۔