ملفوظات شیوخِ حقانیہ

مولانا محمد اسلام حقانی"نائب مدیر ماہنامہ ’’الحق‘‘

ملفوظات شیوخِ حقانیہ
مرتب: مولانا مفتی خائستہ وحید حقانی
ضخامت:
۲۹۳ صفحات ناشر :  جامعہ دار الادب شبقدر
دینی تاریخ میں روحانی شخصیات کے ملفوظات کو ایک خاص اہمیت حاصل رہی ہے، یہ وہ ناصحانہ، مجرب اور وقت کے سانچے میں ڈھلے ہوئے جملے ہوتے ہیں جو بزرگوں کی زبان سے نکل کر دل میں اتر جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اکابرِ امت کی مجالس و اقوال کو ملفوظات کی صورت میں جمع کرنا ایک عظیم دینی خدمت اور علمی امانت کو محفوظ کرنے کے مترادف ہے، یہ ملفوظات محض نصیحت نہیں بلکہ تربیت کے سلسلے کا ایک تسلسل ہوتا ہے، جو آنے والی نسلوں کیلئے چراغِ راہ ثابت ہوتے ہیں، جامعہ دارالعلوم حقانیہ کے مشائخ و اساتذہ کرام نے درس و تدریس، تصنیف و تالیف کے ساتھ ساتھ وعظ و نصیحت، اقوال و ملفوظات سے بھی ایک چراغ روشن کیا ہے جس کی روشنی آج بھی ہر سو پھیلی ہوئی ہے، ان ملفوظات کو وقتا فوقتا اہل علم و قلم قلمبند کرکے مرتب کرتے رہے ہیں، مولانا مفتی خائستہ وحید حقانی صاحب کی مرتب کردہ کتاب بھی اس سلسلے کی ایک حسین کڑی ہے ۔
زیرِ تبصرہ کتاب ’’ملفوظات شیوخِ حقانیہ‘‘ کو مولانا مفتی خائستہ وحید حقانی (فاضلِ جامعہ دارالعلوم حقانیہ و مدرس جامعہ منبع العلوم شبقدر)نے بڑی محبت، نیاز مندی اور ذمہ داری سے مرتب کیا ہے، انہوں نے اپنے دورِ حدیث کے سال طالب علمی کے دوران اپنے عظیم اساتذہ اور درخشندہ ہستیوں (جن میں حضرت مولانا سمیع الحق شہید، حضرت مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ مدنی، حضرت مولانا انوار الحق، حضرت مولانا مغفور اللہ بابا جی، حضرت مولانا عبد الحلیم دیر بابا جی، حضرت مولانا مفتی سیف اللہ حقانی اور حضرت مولانا محمد ابراہیم فانیؒ صاحبان جیسے اجل علماء و مشائخ شامل ہیں)کے وہ قیمتی ملفوظات جمع کئے ہیں جو ان کے دل و دماغ پر نقش ہوچکے تھے، ان مشائخ و بزرگوں کے ملفوظات میں وہ حکمت، تقوی، تدبر اور تجربہ سمویا ہوا ہے جو ایک طالب علم کو راہِ حق میں ثابت قدم رکھتا ہے، مرتب موصوف نے ہر شیخ کے ساتھ مختصر مگر جامع تعارف بھی پیش کیا ہے، کتاب کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ ان اقوال و ملفوظات کو بڑے سلیقے اور حسنِ ترتیب سے جمع کرکے کتابی شکل دی ہے ۔
یہ مجموعہ محض چند جملوں یا واعظانہ اقوال کا ذخیرہ نہیں بلکہ علم و حکمت، فہمِ دین، تربیتِ باطن اور عملی رہنمائی کا ایک گلدستہ ہے، استاد و شاگرد کے درمیان علمی و روحانی تعلق کی ایک زندہ مثال ہے، اہلِ علم، طلبہ، اساتذہ اور عامۃ الناس یکساں طور پر اس کتاب سے مستفید ہو سکتے ہیں، یہ ایک قیمتی تحفہ ہے، امید ہے کہ یہ کتاب شیوخِ حقانیہ کے فیض کو آنے والی نسلوں تک پہنچانے کا ذریعہ بنے گی۔