کیا ہماری کائنات عرش الٰہی کے گرد گردش کررہی ہے؟
مولانا انیس الرحمن ندوی”جنرل سیکرٹری، فرقانیہ اکیڈمی وقف، وایڈیٹر مجلہ ’’تعمیر فکر‘‘، بنگلور
ہمارے گزشتہ مضمون بعنوان ’’کائنات کی ہر چیز اپنے مدار میں تیر رہی ہے‘‘ اس میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ سورئہ انبیاء کی آیت نمبر ۳۳ کُلٌّ فِی فَلَکٍ یَسْبَحُونَ (ہر ایک ایک محور میں تیر رہا ہے)کے مطابق ہماری کائنات کی ہر چیز ایک محور کے گرد گردش کر رہی ہے۔اس پر بعض لوگوں نے یہ سوال کیا ہے کہ کیا اس کی رو سے ہماری یہ پوری کائنات بھی حرکت کررہی ہے؟ کیونکہ اللہ کی نظر میں ہماری یہ پوری کائنات بھی ایک شے ہے جس کی اللہ نے ایک مقررہ وقت میں تخلیق کی اور قرآن کے بقول ایک دن اس پوری کائنات کو فنا بھی ہوناہے۔
اس مضمون میں ہم اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کریں گے۔ قبل اس کے کہ ہم اس سوال کا جواب دیں گزشتہ مضمون میں پیش کئے گئے بعض سائنسی حقائق پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ اس کو ذہن میں رکھنے سے ہماری اگلی بحث کو سمجھنا آسان ہوگا۔ قرآن مجید میں صریح اور واضح انداز میں کہا گیا ہے کہ دنیا کی ہر چیز ایک محور کے گرد گردش کررہی ہے:
وَہُوَ الَّذِی خَلَقَ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ کُلٌّ فِی فَلَکٍ یَسْبَحُونَ (الأنبیائ: ۳۳)
’’(اللہ) وہی ہے جس نے رات اور دن اور سورج اور چاند پیدا کئے، ہر ایک ایک محور میں تیر رہا ہے۔‘‘
سائنس نے اس قرآنی بیان کی مکمل تائید وتصدیق کردی ہے لہٰذا آج سائنس کہتی ہے کہ دنیا کی ہر چیز یعنی ایک ایٹم سے لے کر ایک کہکشاں تک سب ایک محور میں تیررہے ہیں۔ دنیا کی تمام اشیاء ایٹموں سے بنی ہیں۔ مثلا ایک انسانی جسم کے اندر اوسطا 7000 کھرب کھرب (7×1027) ایٹمز ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایٹم کے اندر الیکڑان ایک سکینڈ میں تقریبا دس ہزار کھرب مرتبہ چکر لگاتے ہیں۔پھر ہم جس زمین کے اوپر موجود ہے وہ زمین اپنے محور میں 1670 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہی ہے اور پھر یہ زمین سورج کے گرد 107000 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گردش کررہی ہے۔ ہمارا سورج اپنے پورے نظام شمسی سمیت اپنی کہکشاں کے مرکز کے گرد تقریباً 828,000 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گردش کررہا ہے۔ پھر ہماری کہکشاں
اپنے محور میں 828,000 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اور فضا میں ۲۱ لاکھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہی ہے، اس طرح دنیا کی تمام اشیاء اندرونی طور پر بھی یعنی ایٹمی سطح پر بھی اور بیرونی سطح پر بھی ہمہ وقت اپنے محور کے گرد گردش کررہی ہیں۔دنیا کی کوئی بھی شئے اس قانون فطرت سے مستثیٰ نہیں ہے۔
کیا ہماری پوری کائنات عرش الٰہی کے گرد گردش کررہی ہے؟
اب ہم اصل سوال کی جانب آتے ہیں کہ جب ہماری کائنات کی ہر چیز ایک مرکز کے گرد گردش کررہی ہے تو کیا ہماری پوری کائنات بھی کسی مرکز کے گرد گردش کررہی ہے؟ یہ سوال اس لئے بھی اٹھتا ہے کیونکہ اسلامی نصوص کے مطابق ساتوں آسمانوں اور زمینوں کو کرسی گھیرے ہوئے ہے، اس کے اوپر عرش الٰہی ہے اور عرش الٰہی پر اللہ براجماں ہے چونکہ گردش ہماری کائنات کا مسلمہ ہے، اس لئے ہماری پوری کائنات کو بطور ایک وحدت unit کے کسی اور مرکز کے گرد گردش کرنا چاہئے۔
اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے ہمیں بعض باتوں کا ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ پہلا یہ کہ انسان نے ابھی تک ہماری کائنات کے حدود دریافت نہیں کئے ہیں۔ لہذا ہمیں ہماری کائنات کے حدود ہمیں معلوم نہیں ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق ہماری معلوم کائنات ہماری زمین سے ہر سمت میں 46.5 ارب نوری سال تک وسیع ہے۔ اس سلسلے میں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ہماری کائنات یا تو لا محدود Infinite ہے یا محدود finite ہے مگر اس کا کوئی کنارہ نہیں ہے یعنی کہ یہ ہماری زمین کی طرح دائرہ نما circular ہوسکتی ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں ہے، مثلاً اگر کوئی شخص ہماری زمین پر کہیں رکے بغیر چلتا رہے تو وہ زمین پر پورا چکر کاٹنے کے باوجود چلتا ہی رہے گا مگر اسے کوئی کنارہ نہیں ملے گا۔ یہ محض ایک امکان ہے، اب چونکہ ہمیں ہماری کائنات کے حدود ہی کا علم نہیں ہے اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ ہماری کائنات کسی اور چیز کے گرد گردش کررہی ہے اور نہ ہی اب تک کسی بھی مشاہدے سے یہ ثبوت ملا ہے کہ کائنات کا کوئی مرکزی محور ہے یا وہ کسی سمت میں گھوم رہی ہے۔
کا سمک مائیکروویو بیک گراؤنڈ(CMB)یہ ہماری کائنات کی ابتدائی روشنی کے باقیات ہیں جو آج تک ہماری کائنات میں پائے جاتے ہیںیہ بھی ابتدائے کائنات کی تصویر پیش کرتا ہے، وہ ہمیں بتاتا ہے کہ کائنات ہر سمت میں تقریباً ایک جیسی isotropic ہے۔ اگر پوری کائنات گھوم رہی ہوتی تو ہمیں کسی خاص سمت میں فرق نظر آتا، جو نظر نہیں آرہا ہے لہٰذا اس سے بھی کائنات کے گھومنے کے شواہد نہیں ملتے، البتہ آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت (Theory of Relativity) میں ایسی ممکنہ کائنات کا تصور موجود ہے جو پوری طرح گھومتی ہو لہٰذا Godel Universe ایک ایسا ریاضیاتی حل پیش کرتا ہے جس میں پوری کی پوری کائنات ایک محور کے گرد گھوم رہی ہے، اس ماڈل میں نہ صرف مادہ بلکہ وقت اور خلا بھی ایک خاص انداز میں گھومتے ہیں،یہ ریاضیاتی طور پر درست ہے لیکن سائنس میں اس کا کوئی مشاہداتی ثبوت موجود نہیں ہے، لہٰذا اس نظریہ کو حقیقی کائنات کی نمائندگی نہیں سمجھا جاتا۔
قرآن مجید میں ہماری کائنات کی ایک قسم کی حرکت کا تذکرہ صراحتاً ملتا ہے جسے توسیع کائنات کا نظریہ (theory of expanding universe )کہا جاتا ہے۔ اس کے مطابق ہماری کائنات ہمہ وقت وسعت پذیر ہے یعنی ہماری کائنات کے حدود ہمہ جہتی طور پر ہمہ وقت وسعت پذیر ہیں اور پھیل رہے ہیں۔ لہذا قرآن کا یہ بیان جدید کونیات (cosmology ) سے ہم آہنگ بھی نظر آتا ہے۔جہاں تک ہماری کائنات کے ایک محور کے گرد گھومنے کا تعلق ہے تو اگرچہ قرآن مجید میں بھی کہیں اس کا صراحتاً تذکرہ نہیں ملتا کہ ہماری پوری کائنات ایک محور میں یا کسی مرکز کے گرد گھوم رہی ہے البتہ اسلامی نصوص میں دو ایسے شواہد ملتے ہیں جن سے ہماری کائنات کے ایک مرکز کے گرد گردش کرنے کے ثبوت فراہم ہوتے ہیں۔
پہلا یہ کہ اگر ہم اسلام کے تصور کائنات کا ایک جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اسلامی نصوص میں ہماری کائنات کا جو خاکہ کھینچا گیا ہے، اس میں ساتوں آسمانو ں اور ساتوں زمینوں یعنی ہماری پوری کائنات کو کرسی گھیرے ہوئے ہے، اس کے اوپر عرش الٰہی ہے اور عرش الٰہی پر اللہ براجماں ہے۔
دوسرا یہ کہ سورئہ انبیاء کی آیت نمبر ۳۳ کُلٌّ فِی فَلَکٍ یَسْبَحُونَ ’’ہر ایک ایک محور میں تیر رہا ہے۔‘‘ اس میں جس کائناتی اصول کو بتایا جارہا ہے اس کا اطلاق ہماری اس پوری کائنات پر بھی ہوتا ہے، یعنی کہ ہماری یہ پوری کائنات اللہ کی دوسری مخلوقات ہی کی طرح ایک مخلوق اور اس کی ایک اکائی ہے اس لئے ممکن ہے وہ بھی کسی مرکز کے گرد گھوم رہی ہو اور ممکنہ طور پر عرش الٰہی کے گرد۔ آئن سٹائن کے نظریہء اضافیت کے تحت Godel Universe کا جو نظریہ اوپر پیش کیا گیا جس میں پوری کی پوری کائنات کے ایک محور کے گرد گھومنا درست قرار دیا گیا ہے وہ بھی ریاضیاتی بنیادوں پر ایک درست نظریہ شمار کیا گیا ہے مگر صرف مشاہداتی ثبوت کی کمی کی وجہ سے اسے سائنسی حلقوں میں مقبولیت حاصل نہیں ہوسکی لہٰذا ہماری پوری کائنات کا عرش الٰہی کے گرد گھومنا اس کا اسلامی اور سائنسی دونوں زاویوں سے قوی احتمال اور امکان موجود ہے، گوکہ ابھی تک سائنس کو ایسی کوئی واضح علامت نہیں ملی ہے مگر ممکن ہے کہ مستقبل کی سائنسی تحقیقات سے اس پر کوئی بہتر روشنی پڑسکے لہٰذا اگر سائنسی طور پر کبھی یہ ثابت ہو کہ کائنات میں کوئی ’’مرکزی محور‘‘ یا ’’گردشی حرکت‘‘ موجود ہے تو سورئہ انبیاء کی مذکورہ بالا آیت اور دوسرے نصوص سے اس پر استدلال کیا جانا ممکن ہے۔