یونیورسٹیوں اورمدارسِ دینیہ کے ذرائع آمدن
ڈاکٹر مبشر حسین رحمانی || لیکچرر مِنسٹر ٹیکنالوجی یونیورسٹی آف آئرلینڈ
دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں یونیورسٹی آف آکسفور برطانیہ، یونیورسٹی آف کیمبرج برطانیہ، میساچیوسٹس انسٹیوٹ آف ٹیکنالوجی امریکہ،ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ، اسٹینفورڈ یونیورسٹی امریکہ، ای ٹی ایچ زیورخ سویٹزرلینڈ وغیرہ شامل ہیں، دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کی اکثریت مغربی ترقی یافتہ ممالک میں موجود ہے،ٹائمز ہائیر ایجوکیشن کی یونیورسٹیوں کی ۲۰۲۴کی عالمی رینکنگ کے مطابق دنیا کی سو بہترین یونیورسٹیوں میں سے کوئی ایک بھی اسلامی ملک میں موجود نہیں، یہ یقیناً ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ اُمت مسلمہ عصری سائنسی علوم و تحقیق میں بہت پیچھے ہے،مغربی ممالک میں موجود دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں جو عصری سائنسی تعلیم فراہم کی جاتی ہے اس سے جو انسانی ذہن تشکیل پاتا ہے اس کے رگ و پے میں مادیت پرستی چھائی ہوتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض مخلص سائنسدان اور محققین انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے اپنی زندگیاں کھپا دیتے ہیں مگر عوام کی اکثریت دنیاوی اسباب، مادیت پرستی اور پیٹ بھرنے کے لئے ہی ان یونیورسٹیوں کا رُخ کرتے ہیں، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جتنی بہترین یونیورسٹی ہوگی اس کا سائنسی تحقیق، تدریس اور تعلیم کا معیار اعلیٰ ہوگا نیز جیسے جیسے ہم یونیورسٹیوں کی رینکنگ کے حساب کے نیچے آئیں گے، ہمیں ان یونیورسٹیوں میں سہولیات کا فقدان اور سائنسی تحقیق و تدریس کے معیار میں تنزلی محسوس ہو گی۔ یونیورسٹیوں کو چلانے کے لئے عالمی سطح پر کئی گورننس ماڈلز پر موجود ہیں جن میں پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیاں، پرائیوٹ سیکٹر کی یونیورسٹیاں اور سیمی پرائیوٹ سیکٹر کی یونیورسٹیاں شامل ہیں۔عمومی طور پر ان یونیورسٹیوں کے ذرائع آمدن کے لئے کئی طریقہ کار اختیار کیے جاتے ہیں جو کہ ان کے گورننس ماڈلز پر انحصار کرتے ہیں مگر ہم یہاں عمومی طور پر یونیورسٹیوں کے ذرائع آمدن کا ذکر کرتے ہیں۔
اول ان یونیورسٹیوں کو چلانے کیلئے حکومتیں ایک خطیر رقم فراہم کرتی ہیں،ان یونیورسٹیوں کو اس خطیر رقم کا ایک معتدبہ حصہ ملکی یعنی وفاقی حکومت کی جانب سے ملتا ہے اور کچھ حصہ مقامی و علاقائی حکومت کی جانب سے ملتا ہے، ملکی و علاقائی حکومتوں کی جانب سے یونیورسٹیوں کو جاری ہونے والے فنڈ کی مقدار کئی عوامل پر انحصار کرتی ہے جن میں ان یونیورسٹیوں کی کارکردگی، ملکی و علاقائی سیاست، تدریس و تحقیق کا معیار، طلبائے کرام و اساتذہ کی تعداد، یونیورسٹی کا حجم وغیرہ شامل ہیں۔
دوسرا ذریعہ آمدن ان یونیورسٹیوں کا طلبائے کرام سے بھاری رقم فیس وصول کرکے ہوتا ہے، پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کی فیس کم ہوتی ہے جبکہ پرائیوٹ سیکٹر کی یونیورسٹیوں کی بھاری بھرکم فیس ہوتی ہے۔ میساچیوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی امریکہ کی ایک طالبعلم کے ایک سال کے اخراجات (ٹیوشن فیس، ہاسٹل، کھانے پینے، کتب وغیرہ) تقریباً 86 ہزار امریکی ڈالر ہوتے ہیں جن میں سے 62ہزار امریکی ڈالر (تقریباً دو کڑور چالیس لاکھ پاکستانی روپے) سالانہ صرف فیس کی مد میں ہیں۔
تیسرا ذریعہ آمدن یونیورسٹیوں کا پروجیکٹس فنڈنگ کی مد سے آتا ہے، یونیورسٹیوں میں سائنسدان اور محققین عالمی اور قومی سائنسی تحقیق کے فنڈنگ کے اداروں میں تحقیق کے لئے ریسرچ پروجیکٹ پروپوزل جمع کرواتے ہیں، ان ریسرچ پروپوزل کے منظور ہونے پر سائنسدان اور محققین کو بہت بڑی رقم ملتی ہے جس میں کچھ فیصد رقم یونیورسٹی کے انتظامی اخراجات کے لئے وقف ہوتی ہے اور باقی رقم اُس سائنسدان اور ریسرچر کو تحقیق کرنے کے لئے مہیا کی جاتی ہے جس کے ذریعے وہ سائنسدان اور محقق ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کے طلباء رکھتا ہے، ان کی فیس اور اسکالرشپ دیتا ہے،نیز اسی رقم سے پوسٹ ڈاکٹریٹ، ریسرچ فیلو اور ایڈمن اسٹاف بھی رکھا جاتا ہے۔سائنسی تحقیق کے لئے کمپیوٹرز، لیبارٹری اور اس میں موجود مشینیں و آلات بھی کسی حد تک اسی رقم سے حاصل کیے جاتے ہیں نیز سائنسی تحقیقی مقالوں کو عالمی سائنسی کانفرنسوں میں پیش کرنا اور ان کانفرنسوں میں شامل ہونے کے لئے سفر سمیت تمام اخراجات بھی اسی مد سے آتے ہیں۔
چوتھا ذریعہ آمدن بعض یونیورسٹیوں میں اس طرح ہوتا ہے کہ سائنسدانوں، محققین اور ریسرچ فیلوز کو یہ ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ اپنی تنخواہ کے کچھ فیصد حصے کا بندوبست خود کریں یعنی سائنسدان و محققین خود فنڈنگ لے کر آئیں جس سے ان کی تنخواہ ادا کی جائے۔ گو کہ یہ طریقہ کار اتنا پائیدار اور دیرپا نہیں ہوتا اور اس ماڈل پر جاب کرنے والے سائنسدان اور محققین کوشش کرتے ہیں کہ جلد از جلد پکی جاب حاصل کریں مگر یہ طریقہ آمدن ابھی بھی بعض یونیورسٹیوں میں رائج ہے۔
پانچواں ذریعہ آمدن یونیورسٹیوں کاانٹیلکچولپراپرٹی Intellectual Property یعنی’’فکری ملکیت‘‘ سے ہونے والی آمدنی سے ہوتا ہے جس میں سندِ حقِ ایجاد یعنی پیٹنٹ Patent ، حقِ تصنیف، کاپی رائٹ، ٹریڈمارکس، ٹریڈ سیکرٹ، سافٹ وئیر، ڈیزائن رائٹ وغیرہ سے ہونے والی آمدنی بھی شامل ہے۔ انٹیلکچول پراپرٹی سے ہونے والی آمدنی کے بارے میں یونیورسٹیوں کی پالیسی مختلف ہوتی ہیں مثلاً اگر ایک انٹیلکچول پراپرٹی (ایجاد) سے ایک لاکھ یورو کی آمدنی ہوئی تو اس ایجاد کو بنانے والے سائنسدان کو ستر فیصد حصہ، جبکہ یونیورسٹی کو تیس فیصد حصہ ملے گا۔ اگر ایک انٹیلکچول پراپرٹی (ایجاد) سے آمدنی چار لاکھ یورو سے تجاوز کرجاتی ہے تو اس ایجاد کو بنانے والے سائنسدان کو چالیس فیصد حصہ، جبکہ یونیورسٹی کو ساٹھ فیصد حصہ ملے گا۔اسی طریقے سے یونیورسٹی کے سائنسدان اور محققین اگر کوئی سائنسی تحقیقی کام کرتے ہیں جس کو کمرشلائز کرنا ہو تو اسپن آؤٹ کمپنی (Spinout Company )بنائی جاتی ہے جس میں یونیورسٹی کا شیئر ہوتا ہے،مثلاً یونیورسٹی آف آکسفورڈ برطانیہ کے سائنسدانوں اور محققین نے کرونا ویکسین بنائی اور اس بنانے کے نتیجے میں یونیورسٹی آف آکسفورڈ برطانیہ کو خطیر رقم آمدن کی مد میں ملی۔
چھٹا ذریعہ آمدن یونیورسٹیوں کا اپنی خدمات اور پراپرٹی کو دے کر پیسے کمانا ہوتا ہے۔
ساتواں ذریعہ آمدن ان یونیورسٹیوں کا دنیا بھر سے طلباء کو اپنے پاس بلا کر داخلہ دینا ہوتا ہے، امریکہ و برطانیہ ہی کی مثال لے لیجئے، ان دونوں ملکوں کی بعض یونیورسٹیوں کے وفود ہر سال ترقی پذیر ممالک (جن میں ایشیائی ممالک، خلیجی ممالک اور افریقی ممالک شامل ہیں) کا بالخصوص دورہ کرتے ہیں اور وہاں کے امیر گھرانوں کے بچوں کو انتہائی مہنگی فیس کے عوض اپنی یونیورسٹیوں میں داخلہ دیتے ہیں،برطانوی پارلیمنٹ کی رپورٹ کے مطابق سال 2022 اور 2023 کے اندر تقریباً ساڑھے سات لاکھ بین الاقوامی طلباء نے برطانوی یونیورسٹیوں میں پڑھا جن میں پچانوے ہزار یورپی ممالک سے تعلق رکھتے تھے جبکہ چھ لاکھ ساٹھ ہزار طلباء یورپ کے باہر سے تھے،وہ چار ممالک جنہوں نے سب سے زیادہ طلباء برطانیہ بھیجے ان میں انڈیا نے 126000 ، چین نے 102795، نائیجیریانے 53790 اور پاکستان نے24950 طلباء بھیجے۔
اسی طریقے سے اور بھی کئی ذرائع ہوتے ہیں جن کی مدد سے یونیورسٹیاں اپنے ذرائع آمدن بڑھاتی ہیں جن میں اینڈومنٹ فنڈ (Endowment Fund )اور اوقاف، اور ڈونیشن یا عطیات شامل ہیں، دنیا کے کھرب پتی افراد اور ان کے رفاہی ادارے یونیورسٹیوں کی آمدنی کا ایک مستقل ذریعہ ہوتے ہیں مثلاًبرطانوی ارب پتی سر ڈیوڈ ہارڈنگ (Sir David Harding )نے 2019 میںسو ملین برطانوی پاؤنڈ یونیورسٹی آف کیمبرج برطانیہ کو سو کے قریب پی ایچ ڈی طلبائے رکھنے کے لئے عطیہ کیے۔غرض عصری تعلیمی اداروں اور بالخصوص دنیا کے یونیورسٹیوں میں ذرائع آمدن کے لئے باقاعدہ ڈیپارٹمنٹ موجود ہوتے ہیں جو کہ آمدنی کو بڑھانے کے لیے کوششیں کرتے رہتے ہیں۔
راقم نے بھی چونکہ انہی عصری تعلیمی اداروں سے سائنسی تعلیم حاصل کی ہے اور اپنی زندگی انہی یونیورسٹیوں میں پڑھتے پڑھاتے گزاری ہے لہٰذا ذہن میں اکثر یہ خیال آیا کہ کیوں نہ مدارسِ دینیہ کو بھی اسی یونیورسٹی ماڈل پر ڈھالا جائے؟ اللہ پاک جزائے خیر عطا فرمائے اکابرینِ اُمت اور مفتیانِ کرام کو جنہوں نے راقم کی صحیح سمت رہنمائی کی اور واضح کیا کہ میرا یہ خیال غلط ہے اور خلط مبحث ہے۔
علمائے کرام کی صحیح دینی رہنمائی کے حوالے سے کچھ واقعات قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا، یہ کوئی 1998 کا زمانہ ہوگا جب راقم کالج جاتا تھا، اس وقت مدنی مسجد کراچی میں جانے کا اتفاق ہوا، مغرب کے بیان میں جو بات کانوں میں پڑی وہ یہ کہ ’’اللہ سے ہوتا ہے، اللہ کے غیر سے کچھ نہیں ہوتا، ڈگری، پیسہ، مال و دولت، ان سے کچھ نہیں ہوتا۔ صرف اللہ سے ہوتا ہے‘‘۔الحمد للہ پھر علمائے کرام سے تعلق مزید گہرا ہوا اور اللہ نے توفیق دی کہ اکابرینِ اُمت اور صحابہ کرام کے واقعات پڑھوں جن میں جابجا اللہ کے خزانوں سے براہ راست لینے کے واقعات کا ذکر آیا ہے۔پھر جب کمپیوٹر سسٹم انجینئرنگ کی تعلیم کے دوران 2002 میں چھٹیوں میں چلّے پر جانا ہوا تو رائیونڈ سے فارغ علمائے کرام کے ساتھ وقت لگانے کا موقع ملا۔ یہ دو نوجوان علمائے کرام سال کی تشکیل پر تھے اور ان کے ساتھ پندرہ دن کی تشکیل دی۔ انہی میں سے ایک نوجوان عالم کو جماعت کا امیر بھی متعین کیا گیا تھا، ایک دن راقم کو ایک اور ساتھی کے ساتھ خدمت (کھانا پکانے) کی ذمہ داری دی گئی، الحمدللہ دوپہر کا کھانا پوری جماعت کے لئے تیار ہونے والا تھا کہ امیر صاحب نے ارشاد فرمایا کہ کچھ مزید ساتھی کھانے میں شریک ہوں گے۔ اب راقم بہت پریشان ہوا کہ کھانا تو اتنے افراد کے لئے تیار نہیں کیا گیا، فرمایا کہ بھائی کھانا پکاتے ہوئے سورۃ یٰسین پڑھو اور دو رکعت نماز پڑھ کر اللہ سے مدد طلب کرو، اللہ پاک کھانے میں برکت دے گا۔اب ہم جیسے دنیا دارانجینئرنگ یونیورسٹی کے طلباء کو علمائے کرام نہ صرف یہ کہ رجوع الی اللہ کی ترغیب دے رہے ہیں بلکہ عملی مشق کے ذریعے اللہ کے خزانوں سے لینے کا طریقہ تلقین کررہے ہیں۔ اسی طریقے سے تبلیغی مرکز رائیونڈ جانا ہوا تو وہاں تبلیغی مرکز کی بے سروسامانی دیکھ کر کئی خیالات آئے کہ کیوں یہ لوگ بڑی بڑی عمارتیں اور شان و شوکت اختیار نہیں کرتے؟ یہ بھی خیال آیا کہ کیوں یہ دین کی دعوت کو سینہ بہ سینہ پھیلانے کی ترغیب دیتے ہیں؟ یعنی ایک طرف باطل قوتیں اور کفار اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ ہیں، دنیاوی اسباب سے لدے ہوئے اور دوسری طرف یہ ترغیب دی جارہی ہے کہ اللہ کی ذات پر توکل کیا جائے، اسباب کو اسباب کے درجے میں رکھ کر محنت کی جائے اور رجوع الی اللہ کیا جائے۔ وہاں پر موجود تبلیغی ساتھیوں نے ذہن کو صاف کیا کہ ہماری نظر مادی اسباب پر نہیں ہونی چاہیے، اسباب کا انکار نہیں مگر نظر مسبب الاسباب پر ہونی چاہیے۔علامہ اقبالؒ نے کیا خوب کہا ہے کہ…
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ مغرب کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
اسی طرح مدارسِ دینیہ جانے اور اکابرین کے بیانات سننے کا اتفاق ہوتا رہا جن میں حکیم اخترؒ کی مجالس، حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کی اتوار کی مجالس وغیرہ شامل ہیںنیز حضرت مولانا سعید احمد جلالپوری شہیدؒکی خدمت میں ایک سال عصر تا عشاء گزارنے کی بھی توفیق ملی۔ انہی حضرات کی تھوڑی باتیں سننے کا یہ نتیجہ نکلا کہ ذہن میں یہ بات راسخ ہوگئی کہ مدارسِ دینیہ براہ راست اللہ کی مدد سے چلتے ہیں اور مسلمانوں کو مغربی علوم، سائنس و ٹیکنالوجی اور جدیدیت سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔علامہ اقبالؒ نے کیا خوب کہا ہے کہ…
خِیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانشِ فرنگ
سُرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
پھر اکابرین ہی کی رائے اور مشورہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری فرانس سے حاصل کی اور سائنسی علوم و ٹیکنالوجی میں اپنا لوہا منوا کر دنیا کے بہترین سائنسدانوں میں تین مرتبہ اپنا نام شامل کروایا الحمدللہ اور ابھی بھی کمپیوٹر سائنس کی دنیا میں عالمی معیار کی سائنسی تحقیق کرکے مسلمانوں کا لوہا منوا رہا ہوں۔قارئین یاد رکھئے کہ راقم ایک کمپیوٹر سائنسدان ہے اور دنیا دار بندہ ہے اور جب مادیت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے اُکتا جاتا ہے تو تقویٰ و للہیت کے حصول کے لئے مدارسِ دینیہ کی طرف رجوع کرتا ہے اور یہ صرف میرا مسئلہ نہیں بلکہ جتنے بھی ہم جیسے دنیا دار لوگ ہیں، ان کو مدارسِ دینیہ اور علمائے کرام سے ہی رہنمائی ملتی ہے۔ ہم جیسے دنیا دار لوگوں کے دلوں پر جب دنیا کی محبت، مادیت پرستی، عقل پرستی اور جدیدیت کا اثر ہونے لگتا ہے تو جائے پناہ یہی مدارسِ دینیہ ہوتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ اب بعض علمائے کرام اور مدارسِ دینیہ کی ہی طرف سے مادیت، جدیدیت اور اسباب پر نظر رکھنے کی دعوت اور عملی ترغیب دی جارہی ہے تو ہم جیسا دنیا دار طبقہ کہاں جائے اور کہاں سے روحانیت، للہیت، توکل علی اللہ حاصل کریں؟آسان الفاظ میں جدیدیت اور مغربی افکار سے متاثر بعض لوگ کچھ مدارسِ دینیہ کی فکری رہنمائی کررہے ہیں اور افسوس یہ ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی کے عنوان سے کررہے ہیں۔ اُن کا مطمح نظر یہ ہے کہ جس طریقے سے مغربی یونیورسٹیوں میں آمدن کے مختلف ذرائع ہیں، یہی کچھ ذرائع مدارسِ دینیہ کو بھی اختیار کرلینے چاہیے۔ مثلاً مدارسِ دینیہ کے ذرائع آمدن سے متعلق یہ کہا جارہا ہے کہ:
’’مدارسِ دینیہ کو اپنے ذرائع آمدن کے لئے چار ذرائع اختیار کرنے چاہئیں، پہلا ذریعہ یہ کہ جو مدارس کے طلباء اپنے اخراجات خود برداشت کرسکتے ہیں ان کو اس کا پابند کیا جائے کہ وہ اپنے اخراجات دیں، مدارس اس کی تحقیق کریں کہ جو بچے کھاتے پیتے ہیں ان کو بتائیں کہ وہ اپنا خرچہ خود برداشت کریں،ہمارے دین میں یہ کہیں بھی نہیں ہے کہ آپ کسی پر بوجھ بن جائیں، جب مدرسے پر خرچہ زیادہ بڑھتا ہے تو مدرسے کی تعلیم کی کوالٹی گر جاتی ہے، اساتذہ کی تنخواہیں رہ جاتی ہیں اور پھرمُہتمم سارے اپنے کام چھوڑ چھاڑ کر اسی مانگنے پہ لگا ہوا ہوتا ہے۔ دوسرا ذریعہ یہ کہ مدارس کے پاس انڈومنٹ فنڈ اور اوقاف ہونے چاہئیں، تیسرا ذریعہ یہ کہ مدرسے کے اساتذہ اپنی خدمات لوگوں کو فراہم کرکے آمدن مدرسے میں لے کر آئیں، یہ اساتذہ ٹریننگ دیں اور اس کی فیس وصول کریں، اپنی کمپنیاں بنائیں اور چوتھا ذریعہ ڈو نیشن اور عطیات کا ہونا چاہیے۔ ‘‘
یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے اور دل خون کے آنسو روتا ہے کہ جنہوں نے اُمت مسلمہ کی نظریاتی و عملی رہنمائی کرنی تھی، جنہوں نے لوگوں کی نظریں اسباب سے ہٹا کر مسبب الاسبا ب کی طرف پھیرنی تھیں، جنہوں نے تصلب اختیار کرنا تھا، جنہوں نے اکابرین کے طریقہ کار کو عملی طور پر اختیار کرکے ہم جیسے دنیا دار لوگوں کے لیے عملی مثال بننا تھا، اب وہی لوگ دنیاوی اسباب اختیار کرنے کی تلقین کررہے ہیں، اب وہی لوگ جدیدیت سے متاثر ہوگئے ہیں، اللہ پاک ہم سب کی حفاظت فرمائے (آمین ) بقول شاعر…
اٹھا میں مدرسہ وخانقاہ سے غمناک نہ زندگی نہ محبت، نہ معرفت نہ نگاہ!
غرض یہ تقویٰ، اخلاص، للہیت اور تربیت ظاہر و باطن ہی ہے جو کہ ان مدارسِ دینیہ کا خَاصَہ ہے، اب اگر یہ اخلاص، تقویٰ اور للہیت مدارسِ دینیہ سے عَنْقا کردی جائے تو عصری علوم کے اداروں سے فراغت حاصل کرنے والوں اور مدارسِ دینیہ سے فارغ علمائے کرام میں کیا فرق رہ جائے گا؟ اور کس طریقے سے ان دینی مدارس سے فارغ علمائے کرام معاشرے میں سدھار پیدا کرسکیں گے؟ اورپھر کس طریقے سے ان دینی مدارس سے فارغ علمائے کرام اسلام اور ملک و ملت کو اپنے ذاتی مفادات پر ترجیح دیں گے؟ نیزپھر ان مدارس سے فارغ ہونے والوں میں اور مغربی ممالک کے لادینی عصری اداروں سے دینی اسلامی تعلیم حاصل کرنے والوں میں کیا فرق رہ جائے گا؟ غرض یہ مدارسِ دینیہ ہی ہیں جو کہ دین کو اپنی اصل شکل میں قائم رکھنے میں معاون و مددگارہیں۔ مسلمانوں کو کمزور اورختم کرنے کے لئے باطل کی چالوں میں سے ایک چال یہ ہے کہ کسی طریقے سے مدارسِ دینیہ کو کمزور اور ختم کردیاجائے اور اس کے لئے جو عملی صورت اختیار کی جارہی ہے وہ یہ کہ ان مدارسِ دینیہ کو بھی یونیورسٹیوں کی نہج پر ڈالا جائے۔ ہماری گزارش ہے کہ مدارسِ دینیہ عصری تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں کی نقالی کو اپنانے کے بجائے اپنی نہج پر قائم رہیں۔ بقول شاعر…
میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب اُسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
دیکھئے! مدارسِ دینیہ کی آمدن سے متعلق اکابرین کی سوچ کچھ یوں تھی۔
’’حضرت تھانوی ؒفرماتے ہیں کہ مولانا گنگوہی ؒکے یہاں حدیث کے دورے میں ستر ستر طالب علم ہوتے تھے، ان کا کھانا بھی کپڑا بھی ہوتا تھا، مگر کوئی فکر ہی نہیں، نہ چندے کی تحریک، نہ کبھی کسی سے فرمایا، ایک کمرہ بھی نہیں بنوایا، نہ وہاں چندہ تھا نہ کچھ تھا، پھر بھی وہاں خندہ ہی خندہ تھا۔‘‘ ( ملفوظاتِ حکیم الامت، جلد ۱۷، حسن العزیز جلد ۱، ملفوظ ۷۱۵، ص ۶۲۱، ادارہ تالیفات اشرفیہ لاہور)
حضرت مولانا قاسم نانوتوی ؒ انہوں نے دینی مدارس خصوصاً دارالعلوم دیوبند کے قیام و بقا کے لئے جو دستور العمل تجویز فرمایا، اس میں تحریر ہے کہ:
’’اس مدرسہ میں جب تک آمدنی کی کوئی سبیل یقینی نہیں جب تک یہ مدرسہ ان شاء اللہ بشرطِ توجہ الی اللہ اسی طرح چلے گا اور اگر کوئی آمدنی ایسی یقینی حاصل ہوگئی جیسے جاگیر یا کارخانہ تجارت یا کسی امیر محکم القول کا وعدہ تو پھر یوں نظر آتا ہے کہ یہ خوف و رجا جو سرمایہ رجوع الی اللہ ہے ہاتھ سے جاتا رہے گا اور امدادِ غیبی موقوف ہوجائے گی اور کارکنوں میں باہم نزاع پیدا ہوجائیگا، القصہ آمدنی اور تعمیر وغیرہ میں ایک نوع کی بے سروسامانی ملحوظ رہے۔‘‘( بانی دارالعلوم کا دستور عمل، تاریخ دارالعلوم دیوبند، جلد ۱، ص۳۵۱ )
جب دارالعلوم دیوبند کی بنیار رکھی جاچکی تو حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ نے فرمایا کہ:
’’عالم مثال میں اس مدرسے کی شکل ایک معلق ہانڈی کے مانند ہے، جب تک اس کا مدار توکل اور اعتماد علی اللہ پر رہے گا، یہ مدرسہ ترقی کرتا رہے گا۔ اس واقعہ کو حضرت مولانا فضل الرحمن عثمانی ؒنے ذیل کے اشعار میں نظم کیا ہے۔
اس کے بانی کی وصیت ہے کہ جب اس کے لئے
کوئی سرمایہ بھروسہ کا ذرا ہو جائے گا
پھر یہ قندیلِ معلق اور توکل کا چراغ
یوں سمجھ لینا کہ بے نور و ضیا ہو جائے گا‘‘
( تاریخ دارالعلوم دیوبند، جلد۱، ص۷۴ )
راقم جب مدارس کی آمدن سے متعلق کچھ لوگوں کی تقریر سنتا ہے اور اکابر کے تحریرات پڑھتا ہے تو تشویش ہوتی ہے۔ کیا مدارسِ دینیہ کے طلبائے کرام بوجھ ہیں جو مدارسِ دینیہ کے طلبائے کرام سے فیس وصول کی جائے؟ کیا مدارسِ دینیہ کے طلبائے کرام مہمانِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نہیں ہیں؟ راقم کو یہ تشویش ہورہی ہے کہ ہمارے اکابرین کا مدارسِ دینیہ کے حوالے سے یہ طرز عمل نہیں تھا، علومِ نبوت حاصل کرنے والے طلبائے کرام کا تو اکرام کرنا چاہیے، مدارسِ دینیہ تو توکل علی اللہ کی بنیاد پر چلتے تھے۔خلاصہ یہ کہ اگر آپ لوگ جدیدیت سے اتنے ہی متاثر ہوگئے ہیں کہ یونیورسٹیوں کے نظام آمدن کو اکابر کے منہج سے ہٹ کر مدارسِ دینیہ کے لیے اختیار کرنا چاہتے ہیں تو شوق سے کیجئے مگر مسلمان عوام کو ’’مدارس‘‘ کے عنوان سے دھوکہ میں مت ڈالیے!نیز اگر آپ یونیورسٹیوں کے ذرائع آمدن ہی اختیار کرنا چاہتے ہیں تو کیا آپ کو اپنے اداروں کے نام سے ’’مدرسہ‘‘ اور ’’اکابرین‘‘ کے نام و نسبت نہیں ہٹا دینی چاہیے؟
آخر میں مضمون کا اختتام صدر وفاق حضرت مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کی گفتگو سے کچھ اقتباس نقل کرکے کرتے ہیں:
’’ہمارے مدارس کی بنیاد حضرت نانوتویؒ کے وقت سے ہی اس بات پر ہے کہ یہ پرائیویٹ ادارے ہیں، ان کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے، نہ ہمیں حکومت سے کوئی امداد چاہئے، نہ ہمیں حکومت سے کوئی پیسے چاہییں، نہ حکومت کی ہمیں مداخلت چاہیے، ہم اپنے طریقہ کار پر جو اکابر کا طریقہ کار چلا آرہا ہے اس کے تحت چلنا چاہتے ہیں، کوئی ایسے ادارے کو ہم اپنے اوپر مسلط نہیں کرنا چاہتے جو ہمارے اندرونی نظام میں دخل اندازی کرے، جو ہمارے طریقہ کار میں مداخلت کرے، جو کسی طرح بھی ہمارے مقاصد پر اثرانداز ہو، مدرسہ کو ہم اس سے آزاد رکھنا چاہتے ہیں۔ہم یہ بات واضح الفاظ میں کہہ دینا چاہتے ہیں کہ کسی حکومت کے ماتحت ہو کر ہم اپنے نصاب و نظام کو جاری نہیں رکھ سکتے، ایسا کرنا ہمارے لئے زہر قاتل ہے، ہم نے ایسا کرنے والوں کے انجام دیکھے ہیں، ہم نے سعودی عرب دیکھا ہے، ہم نے امارات دیکھا ہے، مصر دیکھا ہے، ہم نے شام دیکھا ہے کہ وہاں مدارس کو کس طریقے سے ختم کیاگیا، مدارس کو کس طریقے سے دبایا گیا، آج وہاں پر کوئی کلمہ حق کہنے والا موجود نہیں ہے، یا ہو تو اس کی جگہ جیل ہوتی ہے یا اس کے اوپر تشدد کیا جاتا ہے۔الحمدللہ، پاکستان کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسلام کے لئے بنایا اور پاکستان کو درحقیقت اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسلام کا قلعہ بنایا ہے، ہم یہاں یہ صورت حال کسی قیمت برداشت نہیں کرسکتے کہ ہمارے مدارس اور ہمارے علماء وہ اس طرح ہوجائیں کہ ان کے سامنے کچھ بھی ہوتا رہے اور وہ اپنی زبانوں کو بند رکھیں اور شیطان اخرس بن کر زندگی گزاریں۔ حکومتوں کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ جب کسی (ادارہ، شخص) کو گھیرنا ہوتا ہے تو شروع میں ساری پابندیاں عائد نہیں ہوتیں، شروع میں اس کے لئے ایک دانہ ڈالا جاتا ہے، اس کے بعد آگے جاکر اس کو کسی وقت میں گھیرا جاتا ہے، پوری تاریخ میں یہی طریقہ کار رہا ہے۔ابھی اگر چہ اس (مفاہمتی یادداشت) میں لکھا ہوا ہے کہ اپنے نظام میں آزاد و خود مختار رہیں گے لیکن اس کے باوجود ایک مرتبہ جب اس دائرے کے اندر آگئے اور اس میں یہ لفظ موجود ہیں کہ وزارت تعلیم کی طرف سے وقتا فوقتاً ملنے والی ہدایات کے پابند ہوںگے، تو اب آپ دیکھئے آج کسی کی حکومت ہے، کل کسی اور کی حکومت ہوگی۔ وہ لوگ بھی حکومت میں وزارت تعلیم کے اندر آئیں گے جو یہ کہہ رہے ہیں کہ ’’مدارس جہالت کی یونیورسٹیاں ہیں‘‘، جنہوں نے علی الاعلان یہ بات کہی ہے، جنہوں نے یہ کہا ہے کہ ’’مدارس تو صرف یہ سکھاتے ہیں کہ مرنے کے بعد کیا ہوگا‘‘، گویا مذاق اڑا کر کہ مرنے کے بعد کیا ہوگا حالات پڑھانے والے مدارس ہیں تو یہ مدارس موجودہ زندگی کے ساتھ کیسے چل سکتے ہیں؟ تووہ بھی تعلیم کے نظام کے اندر آ سکتے ہیں۔ کل کو کون آتا ہے کچھ نہیں کہا جاسکتا، لہٰذا مدارس کو اس دائرے کے اندر لانے کے ہم بالکل سختی کے ساتھ مخالف ہیں۔ہم(یہ جدید معلومات اس الزام کو دور کرنے) کے لیے نہیں پڑھا رہے، جو ساری دنیا یہ نا معقول بات کہتی ہے کہ مدارس سے ڈاکٹر کیوں پیدا نہیں ہوتے، اس سے وکیل (Laywer) کیوں نہیں پیدا ہوتے، انجینئر کیوں نہیں پیدا ہوتے، مدارس کے فضلاء کسی ملٹری کے اندر کمیشن کیوں نہیں لیتے اور اس بات کو بڑے فخر کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے کہ فلاں مدرسہ کے لوگ کمیشن لے چکے ہیں، وہ بریگیڈیئر بن چکے ہیں، وہ کرنل بن چکے ہیں۔ارے بھائی! یہ مدرسہ بریگیڈیر اور کرنل پیدا کرنے لیے نہیں تھا، یہ قرآن و سنت کا علم محفوظ کرنے لیے تھا، یہ عالم پیدا کرنے کے لئے تھا، یہ بتاؤ کہ پورے پاکستان کے اندر کون سے سرکاری ادارے کے اندر اسلام کی تعلیم دی جارہی ہے؟ کون سے سرکاری ادارہ میں حافظ پیدا ہو رہے ہیں؟‘‘
( مدارس رجسٹریشن پر شیخ الاسلام، صدر وفاق مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کی وفاق المدارس کی مجلس عاملہ میں گفتگو، ۱۷دسمبر ۲۰۲۳)