۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت سے متعلق شیخ الحدیث مولانا عبدالحقؒ*کاایک تقریری اقتباس

مولانا شوکت علی حقانی
ناظم کتب خانہ جامعہ حقانیہ

مرزا قادیانی انگریزوں کا بیڑا اٹھانے والا

انگریزوں نے جب دامن ختم نبوت کو تار تار کرنے اور جذبہ جہاد کو مسلمانوں کے دلوں سے نکالنے میں ہزار کوششوں کے باوجود کامیابی نہ پائی تو ان کے ابلیسانہ عزائم کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے مرزا غلام احمد قادیانی نے دعویٰ نبوت کرتے ہوئے بیڑا اٹھایا۔ علمائے حق نے اس کے دجل نبوت کا بھرم کھول کر بے نقاب کیا، جس کے نتیجہ میں یہ موجودہ تحریک سامنے آئی۔

تحریک ختم نبوت کے مقاصد

یہ موجودہ تحریک ارباب بست و کشاد کو اسلامی فریضہ پورا کرنے اور عوام کے جائز اسلامی مطالبات کو ان تک پہنچانے کے لیے چلائی گئی ہے۔اس کا مقصد صوبوں کی حکومتیں یا مرکزی حکومت کو بدلنا نہیں اور نہ ہی یہ پاکستان کی سا لمیت کو نقصان پہنچانے کی غرض سے چلائی گئی ہے۔بعض لوگ اس کو غلط رنگ دے کر اس زمرے میں ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ میں اس سلسلے میں مرکزی حکومت سے اپیل کرتا ہوں کہ مسلمانوں کے مطالبات پر ٹھنڈے دل سے غور فرماکر منظور کریں۔

اسلام اور عوام دشمن وزیرخارجہ

ایسے شخص (سر ظفر اللہ خان) کو وزارت خارجہ کی مسند پر متمکن رہنے دینا جس کی ۹۵ فیصد پاکستانی عوام مخالف ہو، اصول دانائی سے بعید ہے اور ایسا شخص جس کی رعایا دشمن ہو وہ کب اس قوم کا خیر خواہ ہوسکے گا؟

مسلمان اور قادیانی اختلاف

مسئلہ ختم نبوت میں مسلمانوں اور قادیانیوں کا اختلاف شیعہ، سنی کے مانند نہیں بلکہ یہ ایک ایسا اختلاف ہے جیسا کہ مسلمان او رمشرک میں ہوتا ہے۔ (ڈائری ۱۵ تا۲۰ مارچ۳ ۵ء)

تحریک ختم نبوت کے علمبرداروں پر مظالم

تحریک ختم نبوت کے علم برداروں اور فدائین پر جوبے تحاشہ مظالم ڈھائے جارہے ہیں اس سے آج حجاج بن یوسف،بخت نصر،فرعون اور نمرود کی یاد تازہ کی جارہی ہے۔   (از:شیخ الحدیثؒ)

اشعار در مدح شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحقؒ (۱)   از: مولانا شیر علی شاہ مدنی حقانی

حق  پہ حقہ د باطل  دا پارہ چڑق دے

ہر فرعون  لرہ موسیٰ  لیگلے  حق دے

نن ماحی د جہالت شیخ عبدالحق دے

حق سیلئی او د باطل مثال د بق دے

ماشی تختی چہ سیلئی پرے شی برسیرہ

دا  خبرہ  د حیران  چہ  نہ  کڑے  ھیرہ

(از حیران اکوڑوی(۲) ڈائری: ۳فروری)

__________________________

شیخ الحدیث مولانا غورغشتویؒ کے جیل جانے پر مولانا عبدالحق کا تبصرہ

حضرت شیخ الحدیث مولانا غورغشتوی ؒکے جیل جانے سے متعلق مجلس میں کسی نے افسوس کا اظہار کیا تو والد ماجد نے فرمایا کہ ہمارے اسلاف و اکابر بزرگوں نے اس سے سخت سخت تکالیف دین کی خاطر برداشت کیں۔ ہمارے آقا ئے نامدارصلی اللہ علیہ وسلم کی تو یہ حالت تھی کہ مکہ کے تیرہ برس ان پر ایسے گزرے کہ گاؤں سے نکلتے تو ان پر پتھروں کی بارش ہوتی اور وہ دین کی خاطر برداشت کرتے۔اب تو لوگ کمزور اور ضعیف ہوگئے، اس لیے مصائب اور ابتلاء میں بھی کمی ہوئی أشد الناس بلائً الأنبیاء ثم الأمثل فالأمثل (۱۶۔۱۷اکتوبر)

اکابر علمائے کرام کی گرفتاری اور مجاہدین تحریک ختم نبوت پر ظلم و ستم

۲۸؍فروری۵۳ء: امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی گرفتاری عمل میں آئی۔

یکم مارچ: لاہور میں قادیانیوں کے خلاف عوامی سطح پر بڑے مظاہرے شروع ہوئے۔

یکم مارچ: شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری گرفتار کیے گئے، جبکہ لاہور میں قادیانیوں کے خلاف عظیم مظاہروں کا آغاز ہوا۔

۲؍ مارچ:  الحاج محمد امین عمر زئی گجرات اسٹیشن پر گرفتار ہوئے۔

۴؍مارچ: لاہو رمیں مظاہرین نے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کو گولی سے مار کر ہلاک کردیا، جبکہ دوسری طرف سیالکوٹ میں مظاہرین پر گولیاں چلائی گئیں جس میں چار افراد شہید اور تیس زخمی ہوئے۔ تحریک ختم نبوت کے پیش نظر فیصل آباد،پنڈی اور ملتان میں مکمل شٹرڈاؤن اور ہڑتال رہی۔

۵؍ مارچ: حضرت شیخ الحدیث مولانا نصیر الدین غورغشتوی کی گرفتاری عمل میں آئی۔

مولانا غورغشتوی کی رہائی

۸ ؍دسمبر: شیخ الحدیث حضرت مولانا نصیرالدین غورغشتوی کو آج رہا کردیا گیا۔

اسیران تحریک ختم نبوت کی رہائی

۱۰فروری: اینٹی قادیان تحریک کے چار گرفتار افراد کی رہائی عمل میں آئی۔ مولانا ابوالحسنات صاحب، صاحبزادہ فیض الحسن،مولانا لال حسین اختر، مسٹر مظفرا لدین صاحب۔

۱۷فروری: سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور تاج الدین انصاری رہا کیے گئے۔

*          تحریک ختم نبوت۱۹۵۳ء میں اس وقت شیخ الحدیث مولانا عبدالحق ؒاور دارالعلوم حقانیہ کے دیگر اکابر اور مشائخ و متعلقین کا بھرپور حصہ رہا مگر بدقسمتی سے اس کی مکمل تاریخ مرتب نہ ہوسکی، البتہ مولانا سمیع الحق شہیدؒ کی ذاتی ڈائریوں میں اس کے کچھ نہ کچھ مختصر اشارات موجود ہیں۔ زیر نظر مضمون انہی ڈائریوں سے ماخوذ ہے۔ (ادارہ)

1 ۔         تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ء میں شیخ الحدیث مرحوم کی خدمات پر مولانا شیرعلی شاہ مرحوم نے ایک جلسہ میں خراج تحسین پیش کیا۔

2۔         پشتو زبان میں یہ اشعار حضرت مولانا شیر علی شاہ صاحب کے زمانہ طالب علمی کے ہیں۔ اس وقت مولانا حیران کا تخلص رکھتے تھے۔ بعد میں میرے ایک آیت کریمہ کَالَّذِی اسْتَھْوَتْہُ الشَّیٰطِیْنُ فِی الْاَرْضِ حَیْرَانَ کی طرف توجہ مبذول کرانے پر اسے ترک کردیا۔ اشعار کا خلاصہ یہ ہے کہ حق بجاطور پر باطل کے لیے آسمانی بجلی ہے، ہر فرعون کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک موسیٰ بھیجا ہے۔ آج جہالت کے مٹانے والے شیخ عبدالحق ہیں، حق کی مثال آندھی اورباطل کی مثال مچھر کی سی ہے، جو آندھی کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا۔ حیران کی یہ بات بھول نہ پا۔(مولانا سمیع الحق)