ختم نبوت اور قادیانیت : یہ مسئلہ آخرہے کیا؟

مولانا قاضی فضل اللہ
عالمی مبلغ شمالی امریکہ

انسان کواللہ نے عقل وشہوت کامرقع بناکراس کے اندرہی اندرایک مقابلے اورکھینچاتانی کاماحول پیداکرکے اسے احکام اورشریعت کامکلف بنایااوریوں اس کوامتحان میں ڈال دیااورامتحان ہی سے کامیابیاں اوردرجات ملتی ہیں کہ وہ اپنے اختیارات سے یاتوشہوات کاراستہ لے لیتاہے یاپھرعقل کا۔اول الذکرغالب ہوتوناکامی اورمؤخرالذکرغالب ہو تو کامیابی اورکامرانی۔اسے سُدھانے اور سمجھانے کیلئے اللہ تعالیٰ نے انبیاء ورسل بھجوائے اورانہیں کامیابی کے راستے دکھلائے اورناکامی کے راستوں سے بھی ان کوروشناس کرایا۔چونکہ اس انسان سے مطلوب ہے خدا سے ملنا۔یہ کیسے اس سے ملے گااوراس ملنے کے حوالے سے کتنے اورکیسے کیسے درجات حاصل کرے گا؟ چونکہ انسانی تعلیم وتربیت ایک جاری وساری عمل ہے اورفطرت ارتقائی ہے لہٰذایہ تعلیم وتربیت بھی ارتقائی ہے۔یہ تعلیم وتربیت ان کے ہاں وحی اوردین کی شکل میں آئی اوراسے انبیائے کرام علیہم السلام لے آئے۔ان انبیائے کرامؑ نے اپنے اپنے وقت میں جس میں اسے بھجوایاگیاتھاوہاں کے انسانوں کی تعلیم وتربیت کی اورمتعلقہ اوقات اورمتعلقہ اوطان وقبائل میں جن جن نے ان کی تعلیم وتربیت کواپنایاوہ کامیاب رہے اوران کواللہ کے ہاںدرجات بھی ملے۔اب اس دنیامیں جوحادث اورفانی ہے اوراس میں ہرچیزجوشروع ہوئی توکمال کی طرف سفرشروع کی اورکمال پرپہنچ کرختم بھی ہوئی۔نبوت کاعمل شروع ہوا،حضرت آدم علیہ السلام سے اورکمال کی طرف سفرکرکرکے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم پرختم ہوئی سوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوخاتم النبیین بنایاگیاتاقیامت ساری دنیاکے لئے یہ ایک عقلی اورمنطقی امرہے۔

ختم نبوت کے بعد دعویٰ نبوت ایک جرم

اب جب نبوت اورانبیاء کاآناختم ہوابایں معنی کہ اپنے کمال کوجاپہنچا۔اس کے بعدکوئی نبوت کا دعویٰ کرے تویہ غیرمنطقی اورغیرعقلی ہے کہ ایک کام اپنے کمال تک جاپہنچاہے اس کی تکمیل ہوئی ہے تواب یہ کیاہے؟رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کوجوخاتم النبیین(انبیاء کی مہر)کہاگیا ۔اوریہ بات پوری دنیامیں ایک مسلّم اصول کے طورپرمانی گئی ہے کہ کسی سربمہرلفافہ کوتوڑناجرم ہے اورمجرم کیلئے سزاہے،کسی مکتوب پرمہرلگ گئی اوراس مہرکے بعدنیچے کسی نے کچھ لکھ لیاتویہ فرجری (Forgery) اور فراڈہے اوروہ بھی جرم ہے خصوصاً اگروہ مکتوب ریاست کے أساس اورأساسی تصورکے متعلق ہوتووہ تو پھر غدرہے اوراس کی سزاہرجگہ اورہروقت میں موت ہی ہے۔اب قرآن اوراسلام کے اس واضح تصوراورعقیدہ کے خلاف کسی کادعویٰ ہوتووہ جیسے ایک ریاست کے وجودکوچیلنج کرتاہواوروہ بھی غدرہے اوریہ اس تصور اور عقیدے کی توہین ہے اورچونکہ وہ تصوروعقیدہ أساس اورأساسی ہے تویہ توریاست کی بنیاد کو کھودنا اور اسے ڈھاناہے۔اب ایک ریاست جس کے جغرافیائی حدودہوتے ہیں اس کے حوالے سے ایساکرناجرم اور غدرہے تواسلام جس کوآپ سمجھنے سمجھانے کے لئے ایک ریاست سے تشبیہ دے سکتے ہیں جواپنے نظریاتی بنیاداورنظریاتی حدودرکھتاہے اس نظریاتی بنیادکوکوئی ڈھانے کی سازش کرے یاان نظریاتی حدود پر حملہ آورہوتویہ تواس جغرافیائی ریاست کے خلاف سازش سے بھی بڑھ کرجرم ہے۔

دعویٰ نبوت ایک غدر او رغد رکی سزا موت

اب جولوگ ایک ریاست میں پیداہوتے ہیں وہ توپیدائشی طورپراس ریاست کے شہری اور وفادار سمجھے جاتے ہیں ان سے وفاداری کے اظہاریاحلف کاتقاضانہیں کیاجاتاالاآنکہ وہ کوئی ایسی حرکت کرے جس سے کہ اس کی وفاداری پرزدپڑے تواسے پھرعدالت میں لایاجاتاہے اگروہ ثابت کرے کہ میراتوایساکوئی ارادہ نہیں تھاتوعدالت پرموقوف ہوتاہے کہ اس سے کس قسم کی یقین دہانی یا توضیح ووضاحت طلب کرتی ہے جواس کی وفاداری ثابت کرے وگرنہ پھرتواسے سزاملتی ہے۔ہاں! ایک پیدائشی شہری جب کسی ذمہ دارمنصب پرآتاہے توپھراس سے حلف لیاجاتاہے تاکہ وہ اس منصب کے اسرار کوبھی رازمیں رکھے اوراس منصب کے حوالے سے ملک وریاست کے لئے مضرثابت نہ ہوکہ حلف کے بعداگراس پرایسی کوئی خیانت ثابت ہوتی ہے تواس کی گرفت کی جاتی ہے کہ حلف اٹھانے کے باوجود یہ غدراوریہ خیانت اوریہ پرجری (Pergury)ہے اورریاست کے معاملات میں غدرہے اورغدر کی سزاتومعلوم ہے۔

نظریہ کے غدار ریاست میں کسی منصب کے اہل نہیں

اگرنظریہ سے وفاداری نہ ہوتومتعلقہ بندے کونظریہ کانگران ونگہبان نہیں بنایاجاسکتاکہ اس کا تو اس چیزپرعقیدہ ہی نہیں اوراگرریاست سے وفاداری نہ ہوتواسے ریاست کے حساس معاملات کانہ تو نگران مقررکیاجاسکتاہے اورنہ اسے رازداری میں شریک کیاجاسکتاہے کہ وہ نگرانی کیسے کرے گا؟ یا راز کو رازکیسے رکھے گا؟کہ اس کی تواس ریاست اوراس کے مفادات کے ساتھ وفاداری اورکمیٹ منٹ نہیںبلکہ اس سے توعین متوقع ہے کہ وہ ریاست کے لئے مضرہی ہوگا توکیاکوئی ذی عقل ایسے بندے کواس قسم کی ذمہ داریاں دے گا؟پھرخاص کرجب اس ریاست سے ان کی نفرت بھی عیان ہو گیا ہو اور وہ اس کے خلاف دنیاجہاں میں ڈھنڈوراپیٹتے ہوں کہ ہمارے ساتھ ظلم ہورہاہے اورہمارے بنیادی حقوق اورمذہبی حقوق سلب کیے گئے ہیںوغیرہ وغیرہ اور باہرکی دنیاکوایک ہتھیارمل جاتاہے اوروہ پھر اس پروپیگنڈے کواوراس قسم کے لوگوں کواس ریاست کے خلاف استعمال کرتی ہے جبکہ اب تومغرب میں پناہ ملنے کے لئے یہ حربے روزمرہ کے معمول بن چکے ہیںکہ مسلمانوں سے لڑپڑوتاکہ وہ تم پرحملہ آورہوںاورپھراسے مذہبی رنگ دے کرمغرب سے پناہ طلب کرویامقدس ہستیوں کے متعلق ہفوات بکوتاکہ تم پرکیس بنے اوریوں ایک بارپھرتمہیں پناہ لینے کامیدان نصیب ہو۔خاکم بدہن کینیڈامیں توایسے مسلمان بھی آئے ہیں جواپنے آپ کوقادیانی ظاہرکرکے پناہ لے چکے ہیں کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اوراب ہمارے جان کوخطرہ ہے۔

مسلم ریاست پر غیرمسلم کی حقوق اور حیثیت

اب یہ بات کہ ایک مسلمان ریاست میں ایک غیرمسلم کی حیثیت اورحقوق کیاہیں؟وہ تومعلوم اورثابت ہیں اورپاکستان میں ہندو،سکھ،عیسائی اورپارسی وغیرہ کوکبھی اس حوالے سے کوئی اعتراض نہیں رہا بلکہ آج کے پاکستان میں تووہ اسمبلی اورپارلیمنٹ کے لئے عام سیٹوں پربھی کھڑے ہوتے ہیں اور ان کیلئے ریزروسیٹ بھی ہیں گویاان کوایک گونہ زیادہ حق حاصل ہے کیونکہ مسلمانوں کے لئے بحیثیت مسلمان کوئی ریزروسیٹ نہیں۔

قادیانی اور آئین پاکستان

اب بات ہے قادیانیوں کی توان کامسئلہ ذرادوسری نوعیت کاہے اوروہ یوں کہ ساری دنیاکے مسلمان انہیں مسلمان نہیں سمجھتے اورنہ مانتے ہیں کہ دین سے انکاراوراس طرح دین کے قطعیات میں سے کسی ایک سے بھی انکاردونوں کفرہیں اوروہ ختم نبوت جوایک قطعی عقیدہ اورعقل ونقل دونوں سے ثابت ہے ، قرآن وحدیث اوراجماع سے ثابت ہے۔ان کے غیرمسلم ہونے پرتودنیاکے مسلمانوں کے دونوں گروہ شیعہ سنی کابھی کوئی اختلاف نہیں نہ اس میں مقلد و غیر مقلد کا کوئی اختلاف ہے اورآئین پاکستان نے بھی ان کوغیرمسلم قراردیاہے اوران کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت بھی دی ہے حتی کہ ان کے لئے ان ریزروسیٹ پرالیکشن لڑنے کاحق بھی ہے لیکن وہ اس آئین کوماننے کے لئے تیارنہیں اوریوں آئین نہ مان کر غدر کا ارتکاب کررہے ہیں اس کاحلف اٹھانے کے لئے تیارنہیںکہ یوں تووہ تسلیم کرجائیں گے کہ وہ غیرمسلم ہیں جبکہ وہ توصرف مرزاقادیانی کے پیروکاروں کومسلمان سمجھتے ہیں اورجواس کونبی نہ مانے ان کوکافرسمجھتے ہیں۔یوں ان کے نزدیک پاکستان میں ان کے علاوہ سب غیرمسلم ہیں تویوں تویہ غیرمسلموں کی ریاست ہوئی اورغیرمسلموں کی ریاست تواسلامک ری پبلک نہیں ہوتی بلکہ صرف ری پبلک ہوتی ہے۔ یعنی وہ تواس کے أساس ،نام اورشناخت سب پرضرب لگاتے ہیں اوراس سے انکاری ہیں۔اب آئین سے انکارکرنے والوں کوحساس مناصب تونہیں دیے جاسکتے یہ نہ امتیازہے اورنہ ناانصافی ہے۔امریکہ جیسے جمہوری ملک میں بھی جوبندہ پیدائشی طورپرامریکی نہ ہواگرچہ وہ شہری بن چکاہواوراس کے شہری ہونے پرساٹھ سترسال بھی گزرے ہوں وہ صدارتی الیکشن نہیں لڑسکتاوہ اس کیلئے اہل نہیں لیکن کوئی بھی اس پراعتراض نہیں کرتاہے۔

قادیانیوں کا دعویٰ اسلام

اب ساری دنیامیں کہتے ہیں کہ ڈیڑھ ارب مسلمان ہیں وہ اکثریت ہیں،قادیانی کتنے ہوں گے؟ یہ تولاکھوں میں بھی نہیں توجمہوری اصولوں کے تحت بھی وہی اکثریت کاپلڑابھاری ہے،اب جیساکہ ہم نے ذکرکیاکہ قادیانی مسلمان تونہیں لیکن دعویٰ اپنے مسلمان ہونے کاکرتے ہیں۔امریکہ میں مختلف امورکے لئے کاغذات جوپُرکیے جاتے ہیں اس میں ایک کالم ہوتاہے کہ’’کیاتم امریکی سٹیزن یعنی شہری ہو‘‘؟توآپ لکھیں کہ نہیں۔پھراگلاکالم ہے کہ’’کیاآپ نے کبھی امریکی شہری ہونے کادعویٰ کیاہے‘‘؟ اب اگرآپ نے کہیں دعویٰ کیاہوجبکہ آپ ہیں نہیں اوراس کالم میں آپ نے لکھا ’’نہیں‘‘ یا لکھا ’’ہاں‘‘ تو ہر دو صورت میں آپ نے جھوٹ بولاکہ آپ نے اس چیزکادعویٰ کیاہے جوآپ ہیں نہیں توآپ خودبخودنااہل ہوجاتے ہیں۔

دنیوی امور میں جھوٹ کی سزا

اب قادیانی جومسلمان ہونے کادعویٰ کرتے ہیں جبکہ وہ ہیں نہیں توان اصولوں کے تحت تووہ خودبخودنااہل ہوچکاکہ ایسی چیزکادعویٰ کیاہے جوکہ وہ ہے نہیں،جھوٹ اوردھوکہ دہی سے کوئی غیرپاکستانی قومی شناختی کارڈبنوائے اورپکڑاجائے توصرف اس کونہیں بلکہ نادراکے متعلقہ اہل کاروں کوبھی سزاہوتی ہے، یہ شناخت کی چوری ہے،اب دھوکہ دہی سے اورجھوٹ سے خودکومسلمان کہنا عقیدے کی چوری ہے ۔عقیدہ اہم ہے یاقومی شناخت؟اس دھوکہ دہی پرتوسزاہونی چاہیے اورقانون میں ہے بھی۔اب بزعم خویش بعض قانون دان اورآئینی ماہرین کیسے اس مسئلے میں انکے نمائندے بن جاتے ہیں یعنی یاتووہ آئین وقانون اوراسکے تقاضے جانتے نہیں یاپھردیدہ دلیری کرتے ہیں اوردشمنی خدا اوررسول سے مول لیتے ہیںاللہم احفظنا پھراہم مناصب کیلئے جن کے پاس دوہری شہریت ہے وہ مسلمان بھی ہیں کتنوں کوکورٹ نے نااہل قراردیااوران کوڈی سیٹ کردیا۔کسی نے کاغذات نامزدگی میں جھوٹی ڈگری کادعویٰ کیاان کونااہل کر دیا گیا۔ اب جوجھوٹے اسلام کادعویٰ کرے توصرف یہی اصل ان کومتوجہ کرے توکیاپھران کی اہلیت رہتی ہے؟لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کچھ لوگ اپنے آپ کوزیادہ وسیع النظرثابت کرنے کے لئے ان کے مفت کے وکیل بن جاتے ہیںحالانکہ صرف سیاسی اختلاف پرہم مخالف لیڈرکونااہل کرنے پراورجیل بھجوانے پرکتناخوش ہوتے ہیں حالانکہ اس نے ڈگری کاجھوٹ بولا ہو گا،اثاثوں میں جھوٹ بولاہوگایاکرپشن کی ہوگی یہ سارے دنیوی امورومعاملات ہیں۔

دینی امور میں جھوٹ کی سزا

اب جوعقیدے میں جھوٹ بولے بلکہ ان جیساعقیدہ نہ رکھنے والوں کوکافرسمجھیں ہم مفت میں ان کے نمائندے کیسے بنتے ہیں؟شایداثاثوں،ڈگریوں اوراموال کامسئلہ دین اورعقیدے سے زیادہ اہم ہے؟یایہ کہ ہمارااپنالیڈرمعاذاللہ اللہ اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اہم ہوگیاکہ اس کے ساتھ تعلق ہونے کی وجہ سے اس کے مخالف لیڈرکوحکومت سے چلتااورنااہل کرواکے توہم خوشی سے پھولے نہیں سماتے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عزت وناموس کے مخالف کی نااہلیت پرہم فوراً انسان بن کرانسانی حقوق کے وکیل بن جاتے ہیں۔سوچ کامقام ہے…

کعبے کس منہ سے جاؤگے غالب

شرم تم کو مگر نہیں آتی

آج ہی وہ آئین کے حلف کادم بھرے توان کوان کی اہلیت کے أساس پرذمہ داری دینے سے کیافرق پڑتاہے جبکہ دوسرے غیرمسلم بھی تواہم عہدوں پرفائزہیں۔  (الحق: اگست ،ستمبر ۲۰۱۸ء)