عقیدہ ختم نبوتؐ کی حفاظت میں مولاناسمیع الحق شہیدؒ کا کردار

مولانا عبدالرؤف فاروقی
مرکزی رہنما جمعیت علمائے اسلام

عقیدہ ختم نبوت ایمان ہے، دین کی اساس ہے، اس کی حفاظت کی بنیاد نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی روشنی میں خلیفہ الرسول سیدنا صدیق اکبرؓ نے رکھی، جب مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کی سرکوبی اور فتنہ انکار ختم نبوت کے استیصال کی خاطر یمامہ کی طرف لشکر روانہ فرمایا، پھر چودہ صدیوں میں یہ سنت جاری رہی۔ برصغیر متحدہ ہندوستان میں ضلع گورداس پور کے قصبہ قادیان سے مرزا غلام احمد نے باقاعدہ مستقل صاحب شریعت نبی ہونے کے دعویٰ سے پہلے مجدد، پھر مہدی، پھر مسیح موعود، پھر ظلی، بروزی، غیرشرعی امتی نبی ہونے کے دعوے کئے تو بانی دارالعلوم دیوبند مولانامحمد قاسم نانوتوی ؒکے علم الکلام بالخصوص ’’آب حیات‘‘ اور تحذیر الناس عن انکار اثر بن عباس جیسی تصنیفات سے علمی اور اعتقادی استفادہ کرنے والے علماء کو محسوس ہونے لگا کہ یہ شخص انگریزی اقتدار کے سائے میں نبوت کا دعوی کرتے ہوئے جہاد کو معطل کرنے کا اعلان کرے گا، چنانچہ علماء لدھیانہ نے مرزا غلام احمد کے کفر کا فتوی دیا، اس پر ابھی سوچ و بچار ہو ہی رہی تھی کہ اس بدقسمت شخص نے ۱۹۰۶ء میں علی الاعلان باقاعدہ مستقل صاحب شریعت نبی کا دعویٰ کرتے ہوئے کہاکہ مجھ پر مسلسل وحی نازل ہوتی ہے۔

غلام احمد کو قتل ہو جانا چاہیے تھا، وہ قتل ہو جاتا لیکن انگریزی اقتدار نے اس کے گرد حفاظت کا حصار قائم رکھا اور کوئی مسلمان اس تک نہ پہنچ سکا۔

پس منظر

مرزا غلام احمد ۱۸۴۹ء میں پیدا ہوا ،آٹھ برس کا تھا کہ برطانوی سامراج کے خلاف، آزادی کی جدوجہد پورے ہندوستان میں بغاوت کی صورت اختیار کرگئی۔ فوجی مراکز سے گلی،کوچہ وبازار تک میں جنگ چھڑ گئی۔ یہ ۱۸۵۷ء تھا،اسے مسلمان جنگ آزادی کا نام دے رہے تھے، انگریز نے اسے عام غدر کہا،سرسید احمد خان نے اس پر باقاعدہ ’’اسباب بغاوت ہند ‘‘کتاب لکھی۔ یہ ہی وہ زمانہ ہے کہ علماء ہند بڑی تعداد میں شہید ہوئے،اَن گنت گرفتار ہوئے، مقدمات بغاوت قائم کئے گئے، تھانہ بھون کی خانقاہ، شاملی کا میدان جنگ کا گواہ بنے، ۱۸۵۷ء کی اس جنگ آزادی کے بعد علماء ہند نے جہاں سوچ وبچار کے بعد جنگ آزادی کے لئے حکمت عملی تبدیل کی اور تعلیمی ادارے قائم کرکے جہاد کے لئے تیاری اوراس کے لئے آبیاری کو نئی جہت دی۔ دارالعلوم دیوبند قائم ہوا، اس کی شاخیں پورے ہندوستان میں پھیلا دی گئیں اوروہاں سے علوم نبوت کی تعلیم مسلمانوں کے ایمان کا دفاع کرنے کے ساتھ برطانوی سامراج کے خلاف نفرت اور جہاد کو عقیدہ قرار دے کر انتہائی محفوظ محاذ اور مورچہ قائم کیا تو ابلیسی چالبازی کا ماہر اور تاریخ انسانیت کا سب سے بڑا شاطر انگریز بھی اس سے غافل نہ تھا، اُس نے بھی جہاد آزادی کونقصان پہنچانے کے لئے مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت کی تدبیر اختیار کی اور جہاد کو منسوخ قرار دینے کے لئے اپنی چال چلی، دونوں تدبیروں پر افراد تیار کئے، ایک طرف جھوٹی نبوت کا دعویٰ کرنے اور اس نبوت میں جہاد کی تنسیخ کے لئے اور دوسری طرف مسلمانوں میں فرقہ واریت کی بنیاد قائم کرنے کے لئے اور تیسری طرف سیاسی میدان میں اپنے ٹوڈی جاگیرداروں اور وفاداروں کو آگے بڑھایا۔ چنانچہ ۱۹۰۶ء میں ایک سیاسی جماعت کی تشکیل دی جس کے عہدیددار اور ذمہ دار وہ تھے جنہیں پہلے سے انگریز حکومت کی طرف سے بڑے بڑے القابات سے نوازا گیا تھا۔ دوسری طرف جہاد آزادی میں مصروف علمائے کرام کے خلاف اُن کی پانچ چھ تحریروں میں تحریف کرکے کفر کا فتوی جاری کرایا گیا اور تیسری طرف یہی وہ سال ہے جب مرزا غلام احمد نے اپنے مستقل صاحب شریعت نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کیا اور اپنی اس سے پہلے کی تقریباً ۳۵ سال میں جہاد اور مجاہدین کی مخالفت اورانگریز کی حمایت و وفاداری میں جاری سرگرمیوں کو جھوٹی نبوت کی غلیظ چادر پہنائی۔

تعاقب قادیانیت

یہ ہے مرزائیت اور قادیانیت ،جس کے تعاقب کی ایک تاریخ ہے اور علمائے امت کے ساتھ ساتھ عام مسلمانوں کی جدوجہد کی سنہری داستان ۔مساجد ومدارس سے عام اجتماعات، کانفرنسوں اور تربیتی لٹریچر اور عقیدئہ ختم نبوت کی تفہیم و تشریح کے ساتھ انکار ختم نبوت پر مسلسل محنت ہوئی لیکن اقتدار انگریز کے پاس تھا۔عدالتیں انگریزی قانون کی پابند تھیں اور غلام احمد کے اپنے اعتراف واقرار کے مطابق کہ وہ انگریز کا خود کاشتہ پودا اور خود ایک ایسے خاندان کا فرد تھا کہ جو انگریز کا وفادار اور مجاہدین آزادی کو کچلنے کے لئے انگریزی حکومت کا آلہ کار تھا۔ انگریزی حکومت اس کی حفاظت کرتی رہی۔

۱۹۱۹ء میں کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد جمعیت علماء ہند کی تشکیل ہوئی،تحریک خلافت عثمانیہ کے دفاع میں تحریک خلافت بپا ہوئی اورپھر ۱۹۲۹ء میں مجلس احرار اسلام (کل ہند)قائم ہوئی تو جدوجہد کے ان تمام عنوانات کے اساسی اہداف میں عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ اور قادیانیت کا تعاقب شامل کیا گیا۔ اسی دوران لاہور میں ’’انجمن خدام الدین‘‘ کا اجتماع منعقد ہوا پورے ہندوستان سے علماء اس اجتماع میں شریک تھے کہ امام المحدثین حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کاشمیریؒ نے عالم وجد و الہام میں عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت بیان کی اور قادیانی فتنہ کو آنے والے مستقبل میں امت کے لئے خطرناک فتنہ دیتے ہوئے اچانک مجلس احرار اسلام کے مرکزی رہنما مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کا ہاتھ پکڑ کر اس محاذ پرکام کرنے کے لئے انہیں امیرشریعت کا لقب دیا۔ خود بیعت کی اوراجتماع میں شریک تمام علماء نے سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہوئے قادیانیت کے خلاف جدوجہد کا عہد کیااور اس طرح باقاعدہ منظم تحریک ختم نبوت کا آغاز ہوگیا۔

۱۹۳۵ء میں ریاست بہاولپور کی عدالت نے قادیانیوں کوغیر مسلم قراردیا، عدالت کے جج جناب محمد اکبر خان نے قرار دیا کہ کسی مسلمان خاتون کا کسی قادیانی کے ساتھ نکاح نہیں ہوسکتا کہ قادیانی کافر ہیں، ختم نبوت کے منکر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔

شاعر مشرق ،مصور پاکستان علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے پنڈت جواہر لعل نہرو کے ساتھ اپنی خط و کتابت میں قادیانیوں کو اسلام اور مسلمانوں کا حصہ تسلیم کرنے سے انکار کیا۔قادیانیت کے تعاقب کی یہ مختلف جہتیں تھیں جو برطانوی سامراج کے دور اقتدار میں جاری رہیں۔

پاکستان معرض وجود میں آیا تو نئی جہت سامنے تھی کہ قادیانیوں کو اسلامی ریاست میں کلیدی آسامیوں پر فائزنہ کیا جائے، اس مطالبے پر تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ء بپا ہوئی اور قربانیوں، جدوجہد اور ایثار کی ایک لازوال داستان رقم ہوئی لیکن تحریک ثمر آور نہ ہوئی۔ تاہم ایک چنگاری اپنے پیچھے چھوڑ گئی۔

تحریک ختم نبوت ۱۹۷۴ء

یہ چنگاری ۱۹۷۴ء میں ایک شعلہ بن کر بھڑکی،۲۱ سال بعد اس نے قادیانیت کے خرمن کو آگ لگادی۔ اس آگ کو ہوا دی تحریک نے ۔ جبکہ پارلیمنٹ میں اس تحریک کو ثمر بار کرنے کے لئے جو کردار تھے وہ بہت بلند رتبہ اور علمی ،سیاسی، پارلیمانی اعتبار سے بڑے قد آور تھے۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق ؒ ،مولانا غلام غوث ہزارویؒ، مولانا مفتی محمودؒ ،مولانا شاہ احمد نورانی ؒ ، جناب پروفیسر غفور احمدؒ کتنے ہی نام ہیں جو کبھی فراموش نہیں کئے جاسکتے،یہ نمایاں تھے، نمایاں ہیں اور نمایاں رہیں گے لیکن دو نام ایسے ہیں جو مذکورہ رہنماؤں کی طرح نمایاں تو نہ ہوئے لیکن ان کا علمی کردار اس جدوجہد کا حصہ نہ ہوتا تو شاید پارلیمنٹ کی سیکولر غالب اکثریت کو قائل کرنا ممکن نہ ہوتا کہ حکومت پیپلز پارٹی کی تھی جبکہ قدآور سیاسی زعماء یا تو سیکولر تھے یا قوم پرست اور لسانی تحریکوں کے رہنما، جو مذہب اور مذہبی اصطلاحات سے ناواقف اور مذہبی تحریک کو ایک فرقہ وارانہ تحریک سے زیادہ کوئی حیثیت دینے کو تیار نہ تھے۔

ضرورت تھی کہ مذہبی اعتبار سے بھی بحث کی جائے لیکن قادیانیت کے سیاسی پس منظر اور ملک و قوم کے دشمن سیاسی عزائم کو بھی پارلیمنٹ کے سامنے طشت ازبام کیا جائے یہ ذمہ داری پوری امت کی طرف سے علماء ،قائدین تحریک اور مذہبی و سیاسی زعماء کی طرف سے عائد کی گئی۔شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ اور شیخ الحدیث حضرت مولانا سمیع الحق شہیدؒ پر۔ اس طرح کہ اول الذکر تو قادیانیت کے مذہبی اعتبار سے خدوخال اور اعتقادی حیثیت واضح کریں جبکہ مولانا سمیع الحق شہیدؒ ،قادیانیت کے سیاسی پس منظر اور اسلام عالم اسلام، پاکستان اور پاکستانی قوم سے متعلق خطرناک شیطانی عزائم پر مشتمل ایسی دستاویز تیار کریں جو پارلیمنٹ میں پیش کی جائے تو تمام پارلیمنٹرین سیاسی زعماء کی آنکھیں کھل جائیں اور وہ اس فتنہ کا مکروہ خطرناک چہرہ دیکھ پائیں اور قادیانیت کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی قرار داد کو متفقہ طورپر تسلیم کرنے پر رضامند ہوں،چنانچہ ان دونوں حضرات کی تیار کردہ دستاویزات کا موازانہ کرنے کی بجائے حقیقت کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ سیاسی زعماء مذہبی دستاویز کی بجائے سیاسی دستاویز پر چونک اٹھے اوراعتراف کیا کہ قادیانی ملک اور قوم کے غدار اور بدترین دشمن ہیں۔انہیں مسلمانوں سے الگ شناخت دی جائے، ضروری ہے اور اس طرح سات ستمبر ۱۹۷۴ء کو قومی اسمبلی نے اس قرار داد کے ذریعہ وہ فیصلہ کیا جس سے قادیانیت کے مسلمانوں کی ستر سالہ جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔

مولانا سمیع الحق شہیدؒ اور مولانامحمد تقی عثمانی صاحب اس تاج محل کی بنیاد کا وہ مقدس پتھر ہیںجن پر یہ عمارت کھڑی ہے۔

۱۹۷۴ء کی اس قرارداد کے نتیجہ میں آئین پاکستان میں قادیانیوں کا نام ملک میں آباد غیرمسلم اقلیتوں کی فہرست میں لکھا گیا لیکن اس پر قانون سازی کا مرحلہ ابھی تشنہ تکمیل تھا،ایک اور تحریک کے ساتھ پارلیمانی کردار کا منتظر تھا کہ دس سال بیت گئے او رعلمائے کرام پارلیمنٹ کا حصہ نہ رہے، جنرل محمد ضیاء الحق کے مارشل لاء کے نتیجہ میں تشکیل پانے والی مجلس شوریٰ قائم ہوئی تو یہاں ایک تحریک اٹھی۔اقتدار کے ایوانوں تک اس تحریک کی آواز بلند کرنے اور اسے موثر بنانے کے لئے بس ایک شخصیت تھی اس کانام ہے۔ مولانا سمیع الحق شہیدؒ۔

اس تحریک کا عنوان تو تحریک ختم نبوت ہی تھا لیکن اب مطالبہ تھا کہ قادیانی ایک اقلیت کے طورپراپنی آئینی حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں لہٰذا ان کے سلسلہ میں باقاعدہ قانون سازی ہونی چاہیے جس سے ان کا دائرہ متعین ہو جائے۔

مولانا سمیع الحق شہیدؒکی پارلیمانی کوشش اور مدبرانہ حکمت عملی کے باعث جنرل محمد ضیاء الحق نے امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری کیا جو اول تا آخر مولاناسمیع الحق شہیدؒ کی تدبیر کا نتیجہ تھا ،یہ تاریخ ساز مرحلہ ۲۶؍اپریل ۱۹۸۴ء کو پایہ تکمیل تک پہنچا، کوئی تجزیہ نگارجب دیانت داری سے تجزیہ کرے گا یا کوئی محقق پوری تحریک ختم نبوت اور قادیانیت کے تعاقب کی تاریخ پر اپنی رائے ضبط تحریر میں لائے گا تو پوری بصیرت سے کہا جاتا ہے کہ وہ ۱۹۷۴ء ۔۱۹۸۴ء اور بعد کی آج تک کی تاریخی جدوجہد میں مولانا سمیع الحق شہیدؒ کے کردار کو سنہری الفاظ سے تحریر کرے گااور خراج تحسین پیش کئے بغیر آگے نہ بڑھ سکے گا۔

مجھے پچاس سالہ مذہبی سیاسی زندگی میں بہت سے عظیم رہنماؤں سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ شہید ناموس رسالتؐ حضرت مولانا سمیع الحق شہیدؒ کے ساتھ گیارہ برس جمعیت کے مرکزی جنرل سیکرٹری کے طورپر کام کیا اوراس سے پہلے کے ۳۵ سال بھی ان کی قیادت میں اُن کے انتہائی قریب رہنے کا موقع ملا، میں نے اُن جیسا بیدار مغز،عالمی صورتحال پر گہری نظر رکھنے ،عالم اسلام کے مسائل سے باخبر اوراُن کے حل کا ادراک رکھتے ہوئے فکر مند رہنے والا انسان نہیں دیکھا، وہ بلاشبہ عالم اسلام کے نابغہ ء روزگاررہنما تھے۔ ان کی خدمات کے کسی بھی پہلو کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔