عقیدہ ختم نبوتؐ: اسلام کی اساس
مولانا اللہ وسایا
مرکزی رہنما مجلس ختم نبوت
اللہ رب العزت نے نبوت کی ابتدا سیدنا آدم علیہ السلام سے فرمائی اور اس کی انتہا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر فرمائی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخرالانبیاء ہیں، آپ ؐکے بعد کسی کو نبی نہیں بنایا جائے گا۔ اس عقیدے کو شریعت کی اصطلاح میں عقیدہ ختم نبوت کہا جاتا ہے۔ختم نبوت کا عقیدہ ان اجماعی عقائد میں سے ہے جو اسلام کے اصول اور ضروریات دین میں شمار کیے گئے ہیں اور عہد نبوت سے لے کر اس وقت تک ہر مسلمان اس پر ایمان رکھتا آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بلا کسی تاویل اور تخصیص کے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ قرآن مجید کی ایک سو آیات کریمہ اور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو سو دس احادیث مبارکہ سے یہ مسئلہ ثابت ہے۔
عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ و دفاع کے لیے اسلام کی تاریخ میں پہلی جنگ جو سیدنا صدیق اکبر کے عہد خلافت میں مسیلمہ کذاب کے خلاف یمامہ کے میدان میں لڑی گئی، اس ایک جنگ میں شہید ہونے والے صحابہ اور تابعین کی تعداد بارہ سو ہے۔رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا گراں قدر اثاثہ حضرات صحابہ کرام ؓ ہیں، جن کی بڑی تعداد اس عقیدے کے تحفظ کے لیے جام شہادت نوش کرگئی۔ اس سے ختم نبوت کے عقیدے کی عظمت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ انہی حضرات صحابہ کرامؓ میں سے ایک صحابی حضرت حبیب بن زید انصاری ؓخزرجی کی شہادت کا واقعہ ہے
حضرت حبیب بن زید انصاریؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یمامہ کے قبیلہ بنو حنیفہ کے مسیلمہ کذاب کی طرف بھیجا۔ مسیلمہ کذاب نے حضرت حبیبؓ کو کہا کہ کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں ؟ حضرت حبیبؓ نے فرمایا: ہاں! مسیلمہ نے کہا کہ کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں (مسیلمہ)بھی اللہ کا رسول ہوں ؟ حضرت حبیبؓ نے جواب میں فرمایا کہ میں بہرا ہوں تیری یہ بات نہیں سن سکتا۔ مسیلمہ بار بار سوال کرتا رہا، وہ یہی جواب دیتے رہے اور مسیلمہ ان کا ایک ایک عضو کاٹتا رہا حتی کہ حبیب بن زیدؓ کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ان کو شہید کردیا گیا۔
اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ حضرات صحابہ کرامؓ مسئلہ ختم نبوت کی عظمت و اہمیت سے کس طرح والہانہ تعلق رکھتے تھے۔ قرآن مجید میں ذات باری تعالیٰ کے متعلق رب العالمین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے لیے رحمۃ للعالمین اور بیت اللہ شریف کے لیے ھدی للعالمین فرمایا گیا ہے۔ اس سے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کی آفاقی اور عالمگیر حیثیت ثابت ہوتی ہے، وہاں آپؐ کے وصف ختم نبوت کا اختصاص بھی آپؓ کی ذات اقدس کے لئے ثابت ہوتا ہے، اس لیے کہ پہلے تمام انبیائے علیہم السلام اپنے اپنے علاقے، مخصوص قوم اور مخصوص وقت کے لیے تشریف لائے، جب آپ تشریف لائے تو حق تعالیٰ نے کل کائنات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالتؐ کے لیے ایک اکائی بنا دیا۔جس طرح کل کائنات کے لیے اللہ تعالیٰ رب ہیں، اسی طرح کل کائنات کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبی ہیں۔ یہ صرف آپؐ کا اعزاز و اختصاص ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے جن چھے خصوصیات کا ذکر فرمایا ان میں سے ایک یہ بھی ہے:میں تمام مخلوق کے لیے نبی بناکر بھیجا گیا اور مجھ پر نبوت کا سلسلہ ختم کردیا گیا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبلہ آخری قبلہ (بیت اللہ شریف)ہے، آپؓ پر نازل شدہ قرآن حکیم آخری آسمانی کتاب ہے۔ یہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے ساتھ منصب ختم نبوت کے اختصاص کے تقاضے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے پورے کردیئے۔ قرآن مجید کو ذکر للعالمین اور بیت اللہ شریف کو ھدی للعالمین کا اعزاز بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے صدقے میں ملا اور آپؓ کی امت آخری امت قرار پائی۔
نہ جب تک کٹ مروں خواجہ بطحاؐ کی حرمت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا