مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کا سیاسی تفکر اور شیخ الہندؒ
پروفیسر محمد یونس خان میو
(گورنمنٹ گریجویٹ کالج آف کامرس گوجرانوالہ)
مولانا نانوتوی کے پوتے قاری محمد طیب قاسمیؒ نے دارالعلوم دیو بند کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر اپنے خطبہ استقبالیہ میں ارشاد فرمایا تھا کہ: ۱۸۵۷ء کے ہنگامہ کے بعد حضرت بانی دارالعلوم اور جملہ بزرگان دیو بند کی سب سے بڑی سیاست ہی یہ تھی کہ دینی تعلیم گاہیں قائم کر کے مسلمانوں کو سنبھالا جائے۔ چنانچہ حضرت الامام بانی دارالعلوم نے دیو بند کے علاوہ بھی جگہ جگہ بنفس نفیس پہنچ کر دینی درسگاہیں قائم کیں اور اپنے متوسلین کو خطوط بھیج کر بڑی تعداد میں مدارس قائم کرائے، یہی بات آپ نے اپنے انٹرویو میں مولانا سمیع الحق شہیدؒ کو بتائی تھی، جہاں تک ہو سکے مدرسے قائم کرائے(۱) یہ حضرت کی ایک بڑی سیاست تھی اوراس کا حاصل یہ تھا کہ قوم کو علم کے راستے سے بنا رکھنا کہ وہ مضبوطی سے قائم رہے اور جب دین ہو گا تو آئندہ ممکن ہے کہ ان میں شوکت اور قوت بھی آجائے۔(۲) محولہ بالا ملاقات میں قاری محمد طیب صاحبؒ نے یہ بھی واضح کیا کہ دارالعلوم دیو بند کی اصل منزل ہندوستان میں اسلامی انقلاب ہے۔ ایڈیٹر ’’الحق‘‘ نے جب آپ سے سوال کیاکہ بقول مولانا یعقوب صاحب کہ سو سال تو اس دارالعلوم کا خدا حافظ ہے۔ اس کے بعد حق اللہ تعالیٰ کی شان بے نیازی کا جو ہو، اس کے جواب میں رئیس دارالعلوم دیو بند نے فرمایا نہیں!میں نے اتنا سنا ہے کہ یہ مدرسہ چلتا رہے گا، چلتا رہے گا،یہاں تک کہ ہندوستان میں انقلاب ہو اور یہ مدرسہ پھر اسلامی حکومت کے ہاتھ میں چلا جائے۔ اس پیشگوئی سے ہم تو بڑی امیدیں باندھے ہوئے ہیں، پھر حضرت (قاری طیبؒ)نے خود فرمایا کہ یہ ایک عجیب بات ہے اور اب تک تو پوری ہوتی آرہی ہے۔(۳) مولانا نانوتویؒ کے سیاسی تفکر کے بارے میں یہاں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ تعلیم کے ذریعے اسلامی انقلاب کے لیے کوشاں رہے اور ان کا مکتب فکر بھی آپ کی اسی فکر کو لے کر آگے بڑھ رہا ہے اور اس میں بنیادی اور کلیدی حیثیت ان مدارس کو
حاصل ہے جو آپ کی فکر سے منسوب ہیں اور عرف عام میں دیو بندی مدارس کے نام سے مشہور ہیں اور جن کی تعداد اب ہزاروں میں ہے(۴) لیکن یہاں ہمارا سوال یہ ہے کہ دارالعلوم دیو بند اور دیگر مدارس تو ۱۸۵۷ء کے بعد قائم ہوئے ، کیا اس سے پہلے بھی کوئی سیاسی تفکر موجود تھا۔ مولانا نانوتویؒ ، شیخ الہندؒ اور مولانا حبیب اللہ سندھیؒ کی سیاسی جدو جہد سے اس سوال کا بڑا گہرا تعلق ہے۔
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں مولانا نانوتوی اور ان کے رفقائے کار کس جذبے کے تحت شریک ہوئے، اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ وہ جنگ (جہاد)کے ذریعے وہ ہندوستان سے پری نوی راج کا خاتمہ چاہتے تھے اور کسی نہ کسی طرح اس مغلیہ حکومت کا احیاء چاہتے تھے جس کو وہ اپنی سارہ مومی کی وجہ سے ایک اسلامی حکومت سمجھتے تھے، اسلامی حکومت سے ان کی مراد ’’خلافت اسلامیہ‘‘ کا تصور تھا جس کا خواب وہ ترکوں کی سلطنت عثمانیہ کی صورت میں دیکھ رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت نانوتوی خلافت عثمانیہ (ترک)کی تائید میں ہمہ وقت منہمک رہے۔ سلطان عبدالحمیدؒ خلیفہ تھے۔ گووہ نام کی رہ گئی تھی، مگر حضرت چاہتے تھے کہ وہ نام ہی قائم رہے۔ اس سے تمام ممالک اسلامیہ میں ایک مرکز قائم رہے گی۔ اس لیے حضرت نے خود بھی سلطان کی حمایت میں قصیدے لکھے: مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ اور مولانا ذوالفقار علی دیو بندیؒ سارے بزرگ رطب اللسان رہے اور جب بھی ترکوں کی کسی سے جنگ ہوئی، یہ حضرات ترکوں کی حمایت میں کھڑے ہو گئے۔ کہیں چندہ جمع کر رہے ہیں (۵) کہیں رائے عامہ پیدا کر رہے ہیں۔ مقصد یہی تھا کہ خلافت کا نام قائم رہے تاکہ ممالک اسلامیہ میں کچھ نہ کچھ ارتباط تو قائم رہے۔(۶)ان تفصیلات کی روشنی میں مولانا نانوتویؒ کا سیاسی افکار کی تنقیح ان الفاظ میں کی جا سکتی ہے کہ مولانا اصل میں خلافت اسلامیہ کا قیام چاہتے ہیں،اس کی کم از کم صورت اسلامی حکومت ہو سکتی ہے، ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی آپکی شرکت کا تناظر ہی خواہش تھی، قاری محمد طیب صاحب کے اس بیان سے بھی کچھ ایسا ہی لائحہ عمل سامنے آتا ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ: ۱۸۵۷ء میں ان بزرگوں کا شرکت کرنا کوئی وقتی جذبہ اور ہنگامی حرکت کا نتیجہ نہ تھا بلکہ ایک سوچے سمجھے لائحہ عمل کا ثمرہ تھا، حضرت سید احمد شہیدؒ اور مولانا اسماعیل شہیدؒ کا مشن ہمہ وقت ان بزرگوں کے پیش نظر تھا ، اس کیلئے یہ وقت اور وقت کا ہنگامہ انہیں ساز گار نظر آیا تو اس متوارث مشن کی روشنی میں میدان میں اتر آئے۔ چنانچہ شیخ الہندؒ کا یہ فرمانا کہ مدرسہ دیو بند کی ناکامی کی تلافی کے لیے قائم کیا گیا۔ اس کی واضح دلیل ہے کہ کوئی سوچا سمجھا لائحہ عمل تھا، جس میں ھ میں کامیابی نہ ہوئی تو اس کے لیے دوسرا راستہ اختیار کیا گیا۔(۷) مولانا محمود حسن کی تحریک آزادی اور تحریک خلافت میں آپ کی شرکت اس منصوبہ کا ایک باب تھی اور اگر جامعہ ملیہ کے قیام کو بھی اس پر شریک کر لیتے ہیں تو پھر اس کے ڈانڈے مولانا نانوتویؒ کی تعلیمی تحریک سے جا ملتے ہیں ۔
شیخ الہندؒ کی سیاسی جدو جہد
مولانا نانوتوی ؒکے اولین سوانح نگار اور رفیق خاص مولانا محمد یعقوب نانوتوی (کلاس فیلو) نے لکھا ہے: مولوی صاحب (مولانا نانوتویؒ)سے بہت سے لوگوں کو نسبت شاگرد ی ہے مگر عمدہ ان میں اس ایک مولوی محمود حسن (فرزند کلاں مولوی ذوالفقار علی دیو بندی )ہیں۔(۸) ’’عمدہ‘‘ سے آپ کی کیا مراد ہے؟ اس میں تو بہت تفصیل ہو سکتی ہے اور اس کا یقین آپ کی حیات و خدمات کے بعد ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ ’’حیات شیخ الہند‘‘ ،’’ سفر نامہ اسیر مالٹا‘‘، ’’نقش حیات‘‘، ’’مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی ذاتی ڈائری ‘‘اور ان کی ایک دوسری تصنیف ’’شاہ ولی اللہ اور ان کا فلسفہ ‘‘کے چند اقتباس کے علاوہ تحریک شیخ الہند، ’’علمائے ہند کا شاندار ماضی‘‘ کی جلد پنجم و ششم اور ’’موج کوثر‘‘ کے متعلقہ عنوانات کے ایک سرسری مطالعہ کے بعد کم از کم اتنا واضح ہوتا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں سے محبت آپ کے اندر راسخ تھی، آپ اتحاد علت اسلامیہ کے اتحاد اور احیا خلافت اسلامیہ کے علمبردار تھے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ساری امت کا درد سمٹ کر آپ ہی کے سینے میں جمع ہو گیا تھا۔ فرنگی نظریات اور سیاسیات کے بہت بڑے نقاد تھے۔
یہ ایک اسلوب فکر ہے جو حضرت مجدد الف ثانی، ’’شاہ ولی اللہؒ، شاہ عبد العزیزؒ، حضرت امداد اللہ مہاجر مکیؒ اور مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒسے متوارث چلا آتا ہے۔ تہذیب فرنگ سے اس اعتراض کی اصل ملت اسلامیہ سے محبت میں کا ر فرما تھی۔ ہندوستان، افغانستان، ترکی، حجاز گویا سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے کی کیفیت نظر آتی ہے۔ ایک بے قراری اور اضطراب نظر آتا ہے آپ کے حالات میں آخر کار ان ملی جذبات کو کسی صورت میں ظہور پذیر ہونا تھا۔
یہ درست ہے کہ مولانا محمود حسن کی عملی سیاست کا آغاز بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں ہوا تھا جب ہندوستان میں شیخ فقی بنگال ۱۹۱۱، طرابلس (۹) (۱۹۱۱۔۱۹۱۲)اور بلقان(۱۰) (۱۹۱۳۔۱۹۱۲) کی جنگوں نے دنیائے اسلام کو ہلا کر رکھ دیا۔ طرابلس خلافت عثمانیہ کے زیر اقتدار تھا لیکن اٹلی نے دول یورپ کے اشارے پر طرابلس پر حملہ کر دیا اور حکومت برطانیہ نے ترکوں کو مصر کے راستے فوج گزارنے کی اجازت نہ دی۔ چنانچہ مقامی عربوں اور ترکوں کی شدید مزاحمت کے باوجود اٹلی نے طرابلس پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد بلقان کی ریاستوں نے یورپی طاقتوں کی انگیخت پر ترکیہ کے خلاف بغاوت کر دی (۱۹۱۳۔۱۹۱۲) بلقانیوں نے مسلمانوں کی آبادی (جو جنگ میں شریک نہ تھی)کو اندھا دھند قتل کرنا شروع کر دیا، اس کے نتیجے میں ہزاروں ترکوں کو دارالخلافہ قسطنطنیہ میں پناہ لینی پڑی اور آخر میں ترکیہ کو ان ریاستوں سے دستبردار ہونا پڑا۔ ان جنگوں میں ترک شہدااور زخمیوں کا شمار ایک لاکھ نفوس تھا۔(۱۱)علاوہ ازیں بلقانیوں نے مسلمانوں کی وہ آبادی جو جنگ میں شریک نہ تھی، عورتیں، بچے، بوڑھے قتل کر دیئے، ایران جنگ کو قتل کرنا، ان کو فاقوں مارنا، ان کے ہاتھ پیر کاٹنا، اس سب ظلم پر مستزاد تھا۔ (۱۲)
ثمر التربیت ،ایک تنظیمی وحدت: (۱۲۹۷ھ ۔ ۱۸۷۹ء)
ان حالات میں دنیائے اسلام اور خاص طور پر ہندوستانی مسلمانوں کا رد عمل ترکوں کی حمایت میں ظاہر ہوا جو نہ صرف خلافت بلکہ دنیائے اسلام کے پاسبان تھے اور ان کا سلطان خادم الحرمین الشریفین کہلاتا تھا۔ اس زمانے میں شبلی اور اقبال کی نظموں(۱۳)اور علی برادران اور ابو الکلام آزاد کی تقریروں اور تحریروں نے ملک میں حکومت برطانیہ کے خلاف آگ سی لگا دی۔(۱۴)حقیقت یہ ہے کہ یہ آگ بہت عرصے سے سینوں میں سلگ رہی تھی اور یہ لاوہ ایک نصف صدی سے پک رہا تھا اور اس کے بہت سے ثبوت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور دارالعلوم دیو بند کی دینی اور تنظیمی سرگرمیوں میں منتظر التفات پڑے ہیں۔ جن میں سے ہر ایک یونٹ اس قابل ہے اس پر ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح کے مقالات مرتب کیے جا سکتے ہیں۔ انہی تنظیموں میں ایک تنظیم ’’ثمر التربیت‘‘ بھی ہے جس سے شیخ الہند کی عملی سیاست کا آغاز ہوتا ہے۔سید محمد میاں مورخ تحریکات ہند اس انجمن کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
۱۲۹۷ھ تقریباً۱۸۷۹ء میں حضرت شیخ الہندؒ نے ایک جمعیۃ قائم کی تھی جس کا نام ’’ثمر التربیت‘‘ تھا (تربیت کا پھل)، اس انجمن کا نام خود ایک لائحہ عمل کی خبر دیتا ہے اور نیز کوئی ہے جو اپنی تربیت کا پھل اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہے اور کوئی ہے جو اپنے خون سے سینچے ہوئے پیڑ کی چھاؤں میں راحت کا طلب گار ہے۔(۱۵)
مصنف ’’علماء ہند‘‘ نے ایک جگہ پر یہ ۱۸۷۸ء درج فرمائی ہے ممکن ہے ثابت کا سہو ہو لیکن جو بات محل نظر ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک جگہ مولانا نانوتوی ؒکا سن وفات ۱۸۷۸ء لکھا ہے اور اس تنظیم کا بانی ہر دو جگہ پر مولانا محمود حسن کو قرار دیا ہے۔(۱۶) جو درست معلوم نہیں ہوتا۔ پروفیسر انوار الحسن شیر کوٹی نے لکھا ہے کہ اس تنظیم کے بانی مولانا قاسم نانوتویؒ تھے۔ اپنے تلامذہ کی ایک بڑی تعداد جس میں آپ کے اصحاب ثلاثہ کا نام سرِ فہرست لکھا ہوا ہے کہ درخواست پر آپ نے اس کا نام بھی خود ہی تجویز کیا تھا، اس کا مقصدفضلائے دارالعلوم دیو بند کا باہم مربوط رہنا، دارالعلوم کے لیے چندہ اور ہر قسم کی اعانت اور تعاون کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا تھا۔ پروفیسر شیر کوٹی نے یہ روایت مولانا کاندھلوی کی رپورٹ موتمر الانصار مراد آباد کی مدد سے مرتب کی ہے(۱۷) تلامذہ سمیت انہیں فاضلین کے نام درج ہیں۔(۱۸)
جمعیۃ الانصار دیو بند اور شیخ الہندؒ (۱۹۱۱۔۱۹۱۰)
۱۸۸۰ء مولانا نانوتویؒ وفات پا چکے تھے اور ان کے تلمیذ مولانا محمود حسن ۱۸۸۸ء میں دارالعلوم کے صدر مدارس قرار دیئے گئے تو آپ نے ۱۹۱۱ء میں جمعیۃ الانصار دارالعلوم دیو بند قائم کر دی۔ پروفیسر شیر کوٹی لکھتے ہیں کہ: دارالعلوم میں حضرت شیخ الہند نے مولانا عبید اللہ سندھیؒ کو بلایا اور یہاں اب فضاؤں میں انقلابی حرکت اور تعلیمی پروگرام میں ایک خاص تبدیلی رونما ہونے کے آثار ہوئے۔ شیخ الہند کے اشاروں پر الانصار کے نام سے ایک انجمن کی تشکیل ہوئی (۱۹) مولانا سندھی کو اس تنظیم کا جنرل سیکرٹری مقرر کیا( جو اس وقت دارالرشاد گوٹھ پیر جھنڈا میں تھے) بلائے گئے اور جمعیۃ الانصار کا کام سونپ دیا گیا۔ مولانا سندھیؒ خود فرماتے ہیں:۱۹۱۰ء میں حضرت شیخ الہند نے دیو بند طلب فرمایا اور مفصل حالات سن کر دیوبند کو کام کرنے کے لیے حکم دیا، اس کے ساتھ سندھ کا مشن بھی قائم رہے گا۔ چار سال تک جمعیۃ الانصار میں کام کرتا رہا۔ اس جمعیۃ کی تحریک تاسیس میں مولانا محمد صادق سندھی اور مولانا محمد احمد لاہوری اور عزیزی مولوی احمد علی میرے ساتھ شریک تھے۔ (۲۰)اس جمعیۃ کا پہلا اجلاس ۲۷رمضان ۱۷۔۱۶اپریل ۱۹۱۱ء میں منعقد ہوا۔ یہ تقریب مولانا محمود حسن کی صدارت (۲۱) میں مولانا نانوتوی ؒکے پوتے اور معروف عالم دین قاری محمد طیب قاسمی کی تلاوت سے ہوا۔ اہم تقریر مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کی تھی جس کے بعد شیخ الہندؒ نے اپنے صدارتی خطبہ میں اس کی ضرورت و اہمیت کو واضح کیا۔ آپ کی گفتگو کا ایک اہم جملہ یہ بھی تھا: ’’اب ضرورتیں ایسی پیش آ رہی ہیں کہ جن کی وجہ سے ایسا کرنا ناگزیر ہو گیا ہے۔‘‘ تنظیم کا نام الانصار بھی اس نشست میں تجویز کیا گیا۔ (۲۲) مولانا محمود حسن نے اپنے صدارتی بیان میں اس کے مقاصد کی طرف بڑی محتاط انداز میں اشارہ کیا تھا۔ ایسی کیا ضرورتیں اب پیش آ رہی تھیں کہ اب ایسی تنظیم کا قیام ناگزیر ہو گیا تھا؟ یہ ایک سیاسی بیان ہے اور حالات و واقعات اسی طرح کی حکمت آمیز پالیسی اختیار کرنے کا تقاضا کر رہے تھے۔ تنظیم کے جنرل سیکرٹری نے موتمر الانصار مراد آباد کی جو رپورٹ مرتب کی تھی اس سے بھی یہ عقدہ کھلتا نظر آتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ: جمعیۃ الانصار کی پوری سکیم بظاہر تبلیغ و اشاعت دین معلوم ہوتی ہے لیکن اس انجمن کے ذریعے خلافت عادلہ اور راشدہ کی تمہید قائم کی جارہی ہے اور اس انجمن کے ذریعے پبلسٹی اور نشر و اشاعت کاجو انتظام قائم کیا گیا ہے اس کے ذریعے مسلمانانِ ہند میں حریت اور انگریز کی حکومت کے خلاف ایسے حالات اور ایسی فضا پیدا کرتی ہے جس سے ہندوستان میں مسلمانوں کی گئی ہوئی حکومت کو دو بارہ زندہ کیا جائے (۲۳)
حواشی
۱: قاری محمد طیب، خطبہ استقبالیہ اجلاس صد سالہ تقریبات دارالعلوم دیو بند، مشمولہ، تاریخ دارالعلوم دیو بند، ص ۱۷
۲: مولانا سمیع الحق، قاری محمد طیب سے ایک ملاقات، دارالعلوم دیو بند نمبر، ص ۲۲۱۔
۳: ایضا، ص ۲۱۸۔
۴: مولانا محمد مالک کا ندھلوی، تقریظ اکابر علما دیو بند، ص ۱۲
۵: مولانا نانوتوی اور ان کے رفقا کی ملی خدمات کا ایک گمشدہ باب ہے جس میں جنگ بلقان کے شہدا، بیواؤں اور بچوں کے لیے چندہ جمع کیا گیا یہ مولانا نور الحسن کاندھلوی نے اس سلسلہ پر جو روداد مرتب کی ہے اس کی روشنی میں تو یہ ایک تحریک نظر آتی ہے جو ان حضرات نے خلافت ترکیہ کے تحفظ میں چلائی تھی۔ ۱۲۱۴ھ۱۸۷۴ء کے واقعات میں جن کو مطبع ہاشمی میرٹھ نے ۱۸۷۷ء میں شائع کیا تھا۔ جن کو مولانا کاندھلوی نے قاسم العلوم میں مرتب کر دیا ہے۔ ان میں چندہ کی تفصیلات کے علاوہ ان خطوط کی نقول بھی نظر آتی ہیں جو ترکیہ کے اہل کاروں کی طرف خیر سگال جذبہ کے جواب میں ارسال فرماتے تھے۔ مولانا نانوتوی کا تذکرہ ان خطوط میں بطور خاص کیا گیا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ۱۸۷۴کی بات ہے اور تحریک خلافت (۱۹۲۲۔۱۹۱۸) اس کے تقریبا نصب صدی بعد برپا ہوتی ہے۔ کیا یہ مولانا نانوتوی کا سیاسی تفکر تھا جو آہستہ آہستہ آگے بڑھا رہا ہے۔(روداد چند بلتان ؛ اہتمام و سرپرستی مولانا محمد قاسم نانوتوی)، مشمولہ قاسم العلوم، مرتبہ نور کاندھلوی، ص ۹۰ تا۱۵۴)
۶: انٹرویو قاری محمد طیب قاسمی، دارالعلوم دیو بند نمبر ، ص ۲۲۰
۷ قاری محمد طیب ، سوانح قاسمی۲؍۹۴
۸ : سوانح عمری، ص ۴۷
۹: حضرت مجدد الف ثانی کے ایک مکتوب میں یہ جملہ ملتا ہے کہ معرفت خدا عزوجل برآن کس حرام است کہ خودارا از کافر فرنگ بہتر واندبظاہر یہاں آپ کی مراد یہی ہے کہ ایک خدا پرست ، خدا شناس عارف کو اپنے نفس کے یہاں تک بد ظن رہنا چاہیے کہ اپنے آپکو کسی سے حتی کہ کاز فرنگ سے بھی بہتر نہ سمجھے۔ جب تک خود پسندی کا غرور اس درجہ یا مال نہیں ہو گا۔ خدا شناس سیر بن آئیگی۔ حضرت مجدد نے اپنے انداز اور مزاج سے یہ جملہ تحریر فرما دیا مگر اس کا بین السطور یہ ہے کہ سب سے بد ترکاز فرنگ ہے اور اس کا بد ترین ہونا اتنا معروف اور مشہور ہے کہ اس کی بدتری کو مثال بھی پیش کیا جاتا ہے جس طرح بہادر کو شیر کہہ دیا جاتا ہے اور سخی کو خاتم تو اگر کسی کو بدترکاز کہنا ہو تو اس کے لیے لفظ کافرنگ کافی ہے(سید محمد میاں، تحریک شیخ الہند، ص۶۹)شیخ سرہندی کے قول کی یہ تشریح شارحین سیاسیات شیخ الہند محل نظر ہی سہی لیکن دور حاضر میں کیا سورد پر ہر تشریح سادن نہیں آ سکتی، شاہ ولی اللہ اور شاہ عبدالعزیز کی فکر شاہ اسماعیل شہید کے سیاسی نظریات میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ شاہ عبد العزیز کا فتوی کہ ہندوستان اب دارالحرب ہے۔ اسی طرح کی چیز ہے۔ مولانا قاسم نانوتوی اور آپ کے رفقا نے اپنے شیخ امداد اللہ مہاحر مکی کی امارت میں ۱۸۵۷ء کا سفر تھا۔ میں کار کراسیہ مقالہ کے باب اول میں گزر چکا ہے۔ مولانا نانوتوی کی قیمتِ دین اور غیرت وطنی ہی برداشت نہیں کرتی تھی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ مجھ سے انگریز کی شرکت جاتی۔ ان کے شاگرد خاص مولانا محمود حسن کا بھی تھا۔ (مقالہ نگار)
۱۰: طرابلس (Tripli) ملک لبنان
۱۱: ریاستوں کا ایک مجموعہ، جو الہانہ، بلغاریہ، یونان، یوگو سلاویہ، سرویا اور یورپ کے ترکی متوضات پر مشتمل تھا۔ بلقان، ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معانی پہاڑ کے ہیں۔ بلقان میں اسلام غالبا ۶۶۲ھ ۱۲۶۴ء میں ایک اناطولی بزرگ صاری صاتق کے ذریعے پہنچا، چودھویں صدی عیسوی میں بلقان چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا ہوا تھا جن میں ہمیشہ کش مکش جاری رہتی تھی۔ چنانچہ بہت جلد عثمانی سلطان ان حلیف کا کا حاکم اعلیٰ بن گیا تھا جب عثمانیوں ترکوں کا زوال شروع ہوا تو بلقان یورپ کی بڑی طاقتوں کی سازشوں کا مرکز بن گیا، جب کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ بلقان سے ترکوں کا تسلط ختم کیا جا سکے۔ اس سلسلہ سب سے ہم واقعہ جنگ بلقان کا ہے۔ (اسلامی انسائیکلوپیڈیا، ص ۳۵۴)
۱۲: مولانا مدنی نے طرابلس اور بلقانی کی جنگوں کے بارے میں بڑی تفصیل سے لکھا ہے نقش حیات کے اس حصہ کو کسی بھی بڑی سیاسی تصنیف سے موازنہ کیا جا سکتا ہے یہ جملہ احوال آپ نے تحریک شیخ الہند کے پس منظر کے طور پر لکھے ہیں۔ یہ بحث ۵۲۴سے ۵۴۵پر محیط ہے۔ اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے مقالہ نگار نے اسی حصہ کی تلخیص فرمائی ہے۔ (نقش حیات، ۲؍۵۴۲)
۱۳: ایضا،ص۲؍۵۴۳ ۱۴: دیکھئے:
۱۵: علما ئے ہند کا شاندار ماضی، ۵؍۱۱۶
۱۶: ایضاً، ۵؍۱۰۲
۱۷: یہ رپورٹ اصل میں جمعیۃ الانصار کے پہلے جلسہ کی روداد ہے جو ۱۵تا ۱۷اپریل ۱۹۱۱ء میں منعقد ہوا تھا۔ (پروفیسر انوار الحسن شیر کوٹی، حیات عثمانی، مکتبہ دارالعلوم ، کراچی، جون ۱۹۸۵ء ، ص۹۹)
۱۸: ثمر التربیت سے لے کر ریشمی رومال تحریک تک، دارالعلوم دیو بند نمبر ، ص۲۸۳۔۲۸۴۔
۱۹: حیات عثمانی، ص ۹۹
۲۰ : ذاتی ڈائری، ص ۲۶
۲۱: سید محمد میاں نے لکھا ہے کہ اس جلسہ کی صدارت حضرت مولانا احمد حسن امروہی کر رہے تھے۔ (علمائے ہند کا شاندار ماضی،۲؍۱۲۱) مولانا امروہی کی شرکت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن آثار و قرائن یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ اس جلسہ کی تحریک و صدارت شیخ الہند نے ہی فرمائی ہو گی۔ (مقالہ نگار)
۲۲: حیات عثمانی، ص ۱۰۰
۲۳: حیات عثمانی، ص ۱۰۱؛ ثمر التربیت سے ریشمی رومال کی تحریک فکر، دارالعلوم دیو بند نمبر، ص ۲۸۴
مولانا سید حبیب اللہ شاہ حقانی
نائب مدیر ماہنامہ ’’الحق‘‘