کِتنی مشکل زِندگی ہے کِس قدر آساں ہے موت
مولانا سید حبیب اللہ شاہ حقانی
(نگران شعبہ تخصص فی التفسیرجامعہ دارلعلوم حقانیہ)
ویسے تو دنیا میں آنا ہی جانے کی تمہید ہے اور ہر جانے والے کے رخصت ہونے پر افسوس اور دکھ ہی ہوتا ہے مگر سب سے بڑا دکھ تب ہوتا ہے جب والدین جواں سال اولاد کے جنازے اٹھاتے ہیں، ان والدین کا دکھ وہی سمجھ سکتے ہیں جو اس درد سے گزرے ہوں ویسے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی دشمن کو بھی یہ دکھ اور درد نہ دے۔
کِتنی مشکل زِندگی ہے کِس قدر آساں ہے موت
قلزمِ ہستی میں مانندِ نسیم، ارزاں ہے موت
عموماً دنیا میں اولاد اپنے والدین کے جنازے اٹھاتی ہے لیکن اولاد کا جنازہ اٹھانا کِس قدر مشکل ہے اِس کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا۔ عام اِنسانوں کا تو ذِکر ہی کیا؟ اِس مشکل مرحلہ پر اللہ تعالیٰ کے محبوب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی آنسو جاری ہوئے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم بیمار تھے، طبیعت مزید خراب ہونے کی اطلاع پر آپؐ مسجد نبوی سے گھر پہنچے تو ابراہیمؓ نے آپؐ کے زانو پر آخری ہچکی لی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسو نکل آئے، کِسی نے کہا یا رسول اللہ!آپ بھی روتے ہیں؟ فرمایا :میں اللہ کا نبی بھی ہوں اور ایک باپ بھی، روایات میں ہے کہ اِس موقع پر آپ کی رنجیدگی دیکھنے والی تھی۔ نمازِ جنازہ خود پڑھائی لیکن تدفین کے لئے قبر میں نہیں اترے حالانکہ کِسی بھی مسلمان کی موت کی صورت میں اس کو لحد میں اتارنا آپؐ کا معمول تھا ،قبر کے کنارے بیٹھے تھے فرمانے لگے۔ ’’ابراہیم!بڑا دکھ دے کر جا رہے ہو، تمہیں پتہ تھا کہ تمہارا باپ بوڑھا ہے اس کا بھی خیال نہیں کیا ،چلو کوئی بات نہیں تم پہنچو میں بھی تمہارے پیچھے پیچھے ہی آ رہا ہوں۔ سو ایسا ہی ہوا اور آپؐ اپنے بیٹے کے پیچھے پیچھے ہی اپنے رب سے جا ملے۔
میری بڑی بیٹی سمیہ ۳۱؍اگست ۲۰۲۴ بروز ہفتہ بوقت۴۵:۹کو حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملی(إنا ﷲ وانا الیہ راجعون اللھم أجرنی فی مصیبتی واخلفنی خیراً منھا
سمیہ ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۹ء کو اس دنیا میں آئی تھی اور ڈھیر ساری خوشیاں بھی ہماری زندگی میں ساتھ لائی تھی، میری شریک حیات اس کی آمد پر بے حد خوش تھی اور اسکا نام بھی اسی نے رکھا، سمیہ کی طبیعت بچپن ہی سے دین کی طرف راغب تھی، راقم جامعہ ابوھریرہ میں خدمت پر مامور تھا، سمیہ میرے ساتھ مدرسے آتی، جب تین چار سال کی ہوگئی اوربات بھی صحیح طرح سے نہیں کرسکتی تھی کہ مدرسہ جانا شروع ہوگئی،لفظ سور الفاتحہ کا تلفظ بھی صحیح طرح سے نہیں کرسکتی تھی جب گھر آئی تو کہنے لگی ’’ٹول پھانسی کہ‘‘ میں پوچھتا کیا؟ پھر کہتی: ’’ٹول پھانسی کہ‘‘ پھر سمجھ گیا کہ یہ کہہ رہی ہے کہ سور ئہ الفاتحہ…
شاید سال ڈیڑھ سال کی عمر کی تھی کہ میری کتاب اٹھا کر ٹیک لگا کر پڑھ رہی تھی… علم و مطالعہ سے شوق ماں کی گود ہی سے ودیعت ہوا تھا، ہر وقت کوئی نہ کوئی کتاب ضرور پڑھتی نظر آتی، اہلیہ کو بھی مطالعہ کا شوق ہے ’’خواتین کا اسلام‘‘ اور ’’بچوں کا اسلام‘‘ رسائل کئی سالوں کی فائلیں گھر پر موجود تھیں یہ سب سمیہ نے کئی مرتبہ مطالعہ کی تھیں،میں جو بھی کتاب گھر لاتا سمیہ اور صدیقہ آپس میں لڑ پڑتیں ایک کہتی کہ پہلے میں پڑھوں گی اور دوسری کہتی کہ میں لیکن اکثر سمیہ ہی پہلے پڑھتی۔
۲۰۱۶ء میں جب راقم فیملی سمیت ملاوی افریقہ گیا تو سمیہ کی عمر سات سال اور صدیقہ چھ سال کی تھی،اتفاق سے وطن عزیز پاکستان کے مشہور مداح صحابہ مولانا مفتی محمد سعید الحسینی صاحب موزمبیق کے قاری فاروق احمد صاحب (مہتمم دارالعلوم حمیدیہ نمپولاموزمبیق) کے ہمراہ ملاوی تشریف لائے تھے اور میرے محسن حضرت مولانا عبد الرحمان سلاوٹ (مہتمم جامعہ عثمانیہ لمبی ملاوی ) کے مہمان تھے، میرے ہاں بھی تشریف لائے تو ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے شان میں ایک نظم پڑھی ’’صدیق کی بیٹی صدیقہ‘‘صدیقہ خوش تھی کہ میرا نام لیا ہے اور سمیہ ناراض کہ میرا نام کیوں نہیں لیا، میں نے مفتی صاحب سے کہا کہ یہ کہتی ہے کہ میرا نام کیوں نہیں لیا،وہ بہت ہنسے اور پھر اسلام کی پہلی شہیدہ سیدہ سمیہؓ کی شان میں بھی نظم پڑھی تب وہ خوش ہوئی۔
ملاوی میں جب اسکول میں داخل ہوئی تو حضرت مولانا عبد الرحمان سلاوٹ صاحب کے بڑے صاحبزادے عزیزم حافظ اسجد الرحمان(موصوف ماشاء اللہ نہایت ذہین و فطین ہیں، جامعہ عثمانیہ ملاوی کے فاضل اور جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے متخصص ہیں، اپنے اساتذہ کے منظور نظر ہیں ،مطالعہ کا اچھا ذوق رکھتے ہیں، ادب کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑا،اللہ تعالیٰ نے بہت سارے خصوصیات سے نوازا ہے جو یقینا ان کے والد گرامی کی تربیت اور اخلاص کی برکت ہے اللہ تعالیٰ مزید ترقیات سے نوازے آمین) کے ساتھ ٹیوشن پڑھتی تھی وہ روزانہ اسکول ڈائری میں دستخط کرتے، ایک دن نہیں آئے ہوم ورک سمیہ نے خود حل کیا،اگلے دن جب اسجد صاحب آئے اور ڈائری دیکھی تو بہت ہنسے مجھے ڈائری دکھائی کہ دیکھو مولانا!سمیہ نے خود سے میرا دستخط کیا ہے، ماشاء اللہ!بہت ہی ذہین بچی تھی،لکھتی تھی تو اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ پٹھان بچی نے لکھا ہے، علم وادب کے انتہائی شوقین۔
دو سال قبل جب ساتویں جماعت میں تھی تب چودہ اگست کے موقع پر ایک نظم لکھی تھی اور اپنے کمرے کی دیوار پر لگائی تھی،تب میں نے کوئی توجہ نہیں دی تھی،وفات کے چوتھے روز اس کمرے میں داخل ہوا تو نظر پڑی،فوراً موبائل سے تصویر کھینچی۔آپ بھی پڑھ لیجئے:
میرے پیارے وطن میں زماں تو زمینتو مکاں میں مکیں
میرے پیارے وطن تیرا ثانی نہیں مثل جنت ہے تو
بے تحاشا حسینپیارے شہری تیرے آفریں آفریں
تیری تاریخ ہے دلنواں دل نشیندل میں بستا ہے تُو
جاؤں میں گر کہیں میں زماں کے لئے تو ہے جنت میری
سمیہ جب بھی کوئی کتاب پڑھتی تو اس سے بعض منتخبات ساتھ ڈائری میں لکھتی،کئی کتابوں پر کچی پنسل سے منتخب پیراگراف پر نشانات لگائے،انگریزی ادب میں بھی کافی مہارت رکھتی تھی،میں سینگال افریقہ سے کئی کتابیں انگریزی کی ساتھ لایا تھا وہ سب اس نے پڑھ رکھی تھی،میں کہیں سفر پر جاتاتو کہتی ابو!میرے لئے کتابیں لانا،کبھی تو لسٹ تیار کرکے دے دیتی،اردو ادب کی کتابیں تو پڑھ رکھی تھیں، ایک لسٹ جس میں کتابوں کے نام لکھ کر مجھے دی تھی ان میں سے بعض کتابیں تو میرے پاس موجود تھیں مگر وہ کاٹنوں میں بند ہونے کی وجہ سے اس کی پہنچ سے دور تھیں ۔
ابھی کچھ دن پہلے اہلیہ محترمہ کے ساتھ مل کر سمیہ بیٹی کے اسکول کابیگ کھولا، اردو کی کاپی حصہ نظم میں کچھ اشعار کی تشریح لکھی تھی اس میں آخری شعر یہ تھا:
جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
اسی طرح انگریزی کے ہوم ورک کے ایک باب کے آخر میں یہ الفاظ درج تھے: Chapter’s End، اسے کیا پتہ تھا کہ اس کی اپنی زندگی کا باب بھی ختم ہونے والا ہے۔
ایک کارڈ پر خوبصورت انداز تحریر میں ممتاز راشد کے یہ اشعار لکھے تھے جس سے ذوق ادب اور حسن انتخاب کا اندازہ ہوسکتا ہے۔
باقی سب خیریت ہے
بچوں نے کچھ پتھر مارے باقی سب خیریت ہے
ٹوٹ گئے ہیں شیشے سارے باقی سب خیریت ہے
پھوپھا کچھ دن سے ہیں زخمی تایا، چاچا جیل میں ہے
دادا پچھلے ماہ سدھارے، باقی سب خیریت ہے
مہنگائی ہے، بدامنی ہے، رشوت بھی ہے زوروں پر
چیخ رہے ہیں لوگ بچارے، باقی سب خیریت ہے
بستی بستی دلکش بنگلے، بنگلوں میں سج دھج بھی
صرف ہوئے مرحوم ادارے، باقی سب خیریت ہے
پچھلے مہینے تہواروں پر اتنے اخراجات ہوئے
نو دس تو فاقوں میں گزارے، باقی سب خیریت ہے
اپنے خاندان، رشتہ داروں سے خوش خلقی سے پیش آتی، میرے محسن ماموں حضرت مولانامفتی مشتاق احمد صاحب مدظلہ(استاد جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن) سے خصوصی انس تھا، ان سے خوش طبعی بھی کرتی، انہوں نے بھی اپنی پوتی و نواسی سمجھ کر بے حد پیار کیا، اس وجہ سے سمیہ کے جانے پر وہ ہم سے زیادہ دکھی تھے، کئی دن بیمار رہے، اللہ تعالیٰ انہیں صحت کاملہ عاجلہ مستمرہ نصیب فرمائے اور ان کا سایہ عاطفت ہم پر تادیر قائم و دائم رکھے( آمین)
مجھے اپنی اہلیہ پر رشک آتا ہے کیوں کہ وہ اسی کے ساتھ ہی زیادہ اٹیچ رہی،ہر مسئلہ پر اسی کے ساتھ ڈسکس کرتی، گھر کے کاموں بالخصوص کچن کے کاموں سے اپنی ماں کو بے فکر کر دیا تھا،اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھ میں عجیب مٹھاس اور ذائقہ رکھا تھا جو بھی چیز بناتی لاجواب ہوتی، بریانی تو غضب کی بناتی،مہمان آتے تو خاطر تواضع میں کوئی کسر نہ چھوڑتی، چھوٹی بہنوں کی تعلیم و تربیت پر بھی خصوصی نظر رکھتی، ہوم ورک کرواتی، نماز کا اہتمام کرواتی، چھوٹی لبابہ اکثر زیر عتاب رہتی کہ نماز صحیح طرح پڑھو، دوبارہ پڑھو ، باجی سے شکایت کروں گی اور وہ بیچاری رونے لگتی۔حویصہ کو مدرسہ لے گئی، قاعدہ شروع کروایا، وہ خود جانے لگا اور مدرسہ میں دل لگ گیا تو آپی ہی روٹھ کر چلی گئی۔خود بھی اپنا سبق، سبقی اور منزل پابندی سے یاد کرتی تھی،آخری دن بھی منزل یاد کرنے بیٹھی تھی کہ دل کا عارضہ پیش آیا۔
نماز جنازہ ظہر کے بعد جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کی جامع مسجد میں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد انوار الحق مدظلہ العالی کی امامت میں ادا کی گئی،نائب مہتمم حضرت مولانا حامد الحق حقانی صاحب ،اکوڑہ خٹک کے مشائخ و اساتذہ جامعہ، اراکین وخدام اور طلبہ نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔میت ایمبولینس کے ذریعے آبائی گاؤں بٹہ گرام گڑھی کپورہ مردان لے جائی گئی ،وہاں چار بجے دوسری بار نماز جنازہ ادا کی گئی اور اپنے دادا کے پہلو میں آسودہ خاک ہوگئی ۔
سب لوگ جانتے اور کہتے ہیں کہ موت کا ایک دن معین ہے لیکن جب بھی کوئی مرتا ہے تو لواحقین کی حالت دیکھی نہیں جاتی اور اگر مرنے والا ابھی صرف ۱۴؍سال کا اور اس کو کبھی کوئی بیماری بھی لاحق نہ ہوئی ہوتو ایسی موت پر کون سنگدل افسوس نہیں کرے گا۔موت سے کس کو رستگاری ہے، آج تم کل ہماری باری ہے،یقین ہے کہ ہر حالت میں خوش رہنے والی وہاں، یہاں سے بھی زیادہ خوش ہوگی۔ یہ الگ بات کہ اس کی آہیں، اس کے قہقہے، اس کی باتیں اور اس کی یادیں، اس کی غمزدہ والدہ ، دادی، نانا، نانی، چچاؤں، ماموؤں اور اس کی سہیلیوں کو ہمیشہ خون کے آنسو رلاتی رہیں گی ۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اِس گھر کی نگہبانی کرے
سمیہ کے انتقال پر بہت سارے احباب بالخصوص مولانا مفتی سخی بہادر، خالہ زاد جناب محمد اسحاق، چچازاد عدنان سید اور جامعہ دارالعلوم حقانیہ کے اساتذہ و طلبہ (شرکائے تخصص فی التفسیر) اور دیگر احباب نے خصوصی تعاون کیا، اظہار تعزیت کی اور اس غم کی گھڑی میں ساتھ رہے ،تشریف لا کر ، فون کرکے یا غائبانہ دعا کی ان سب حضرات کا بے حد ممنون ہوں واجرھم علی اﷲ