ایسٹ انڈیا کمپنی سے آئی ایم ایف تک مغربی اقوام کی لوٹ مار کی ہولناک اور شرمناک تاریخ
جدید مغربی تہذیب دنیا کی واحد تہذیب ہے جس کا اپنے بارے میں کیا گیا ہر دعوی جھوٹا ہے، جدید مغرب خود کو مہذب کہتا ہے اور جدید مغرب کی تاریخ بدتہذیبی سے بھری ہوئی ہے، جدید مغرب خود کو ایمان دار کہتا ہے اور جدید مغرب کی تاریخ لوٹ مار سے َاٹی ہوئی ہے، جدید مغرب انسانی آزادی کو پوجتا ہے مگر جدید مغرب کی تاریخ دوسری اقوام کو مسلسل غلام بنانے کی تاریخ ہے، مغرب خود کو عقل پرست یا Rational کہتا ہے مگر مغرب سے زیادہ Irrational کوئی نہیں، مغرب خودکو جمہوریت پسند کہتا ہے مگر مغرب مسلم دنیا میں کہیں اسلامی تحریکوں کو جمہوری طریقے سے اقتدار میں آتے نہیں دیکھ سکتا، مغرب مساوات کا دعویدار ہے مگر اسے عدم مساوات سے زیادہ کچھ عزیز نہیں۔
آئیے!مغربی اقوام کی لوٹ مار، ان کی بدتہذیبیوں اور ان کے تخلیق کئے ہوئے انسانی جہنم پر ایک نظر ڈالتے ہیں، مغربی اقوام کا تصورِ ذات یہ رہا ہے کہ ان کی طرح کوئی نہیں ہے، ہٹلر جرمن قوم کو دنیا کی سب سے برتر قوم سمجھتا تھا، برطانیہ نے اپنے نام کے ساتھ عظیم لگا کر خود کو Great Britain بنایا ہوا ہے، امریکی اپنے آپ کو دنیا کا خدا سمجھتے ہیں مگر مغربی اقوام نے نوآبادیاتی دور میں اپنی نوآبادیوں کو اس طرح لوٹا کہ مغربی اقوام کو چور اور ڈاکو قرار دینا چوروں اور ڈاکوں کی توہین ہے۔
اتسا پٹنائک (Utsa Patnaik)دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں پروفیسر امریطس (Professor Emeritus) ہیں، اتسا پٹنائک کی تحقیق کے مطابق انگریزوں نے بھارت پر قبضے کے بعد سے ۱۷۶۵ء۔۱۹۲۸ء تک پینتالیس ہزار ارب ڈالر یا پینتالیس ٹریلین ڈالر کی لوٹ مار کی اور یہ رقم بھارت سے برطانیہ منتقل کی (ہندوستان ٹائمز:۳۰؍ اکتوبر۲۰۱۸ء)
اتسا پٹنائک نے اس دعوے کو اپنے ایک انٹرویو میں بھی دہرایا، یہ انٹرویو www.livemint.com پرملاحظہ کیا جا سکتا ہے، اتسا سے پوچھا گیا آپ نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں کہا ہے کہ انگریزوں نے بھارت سے ۴۵ ہزار ارب ڈالر برطانیہ منتقل کئے، کیا آپ اس رقم کو تناظر مہیا کرتے ہوئے بتا سکتی ہیں کہ اس رقم سے بھارت کی معیشت میں کیا فرق واقع ہوسکتا تھا؟ اس کے جواب میں اتسا پٹنائک نے کہا جی ہاں! یہ رقم برطانیہ منتقل ہوئی، یہ رقم بھارت میں انگریزوں کی مرکزی حکومت کے مجموعی بجٹ کا چھبیس سے چھتیس فیصد تھی اور اگر یہ رقم ہندوستان میں رہتی تو ہندوستان زیادہ ترقی یافتہ ہوتا (اس لوٹ مار کی وجہ سے) بھارت میں ۱۹۰۰ء سے ۱۹۶۴ء تک فی کس آمدنی میں کوئی اضافہ نہ ہوا حالانکہ ۱۹۲۹ء سے تین دہائیاں قبل عالمی معیشت کے دائرے میں ہندوستان Surplus earnings کے اعتبار سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک تھا چونکہ ہندوستان کی ساری آمدنی برطانیہ لے اڑا، اس لئے ہندوستانی معیشت کا انجماد قابلِ فہم ہے، یہ بات تکلیف دہ معنوں میں حیران کن ہے کہ ۱۹۱۱ء کے دوران ہندوستان کے شہریوں کی اوسط عمر صرف بائیس سال تھی چونکہ انگریزوں نے ہندوستانیوں پر بھاری محصولات عائد کئے ہوئے تھے، اس لئے اس کا اثر غذائی اجناس کی دستیابی اور استعمال پر بھی پڑا،۱۹۰۰ء میں بھارت کا ہر شہری اوسطاً دو سو کلو گرام گندم استعمال کرتا تھا تاہم دوسری عالمی جنگ کے بعد۱۹۴۶ء میں ایک عام ہندوستانی بہ مشکل ۱۳۷؍ کلو گرام گندم کھا رہا تھا، یہ صورتحال دنیا کے پسماندہ ترین ملک سے بھی بدتر تھی،۱۷۷۰ء میں بنگال میں قحط پڑا اور خود انگریزوں کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت بنگال کی آبادی تین کروڑ تھی، قحط ان میں سے ایک کروڑ افراد کو نگل گیا، انگریز قبضے کے دوران ہندوستان کے پینتالیس ہزار ارب ڈالر لوٹ کر لے گئے، کیا آپ کو اندازہ ہے کہ ۴۵؍ ہزار ارب ڈالر کتنی بڑی رقم ہے؟
اس وقت بھارت کا شمار دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں ہوتا ہے اور اس کی مجموعی قومی پیداوار یا GDP تقریبا دو ہزار ارب ڈالر ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ موجودہ ہندوستان بائیس سال تک جو کچھ کمائے گا وہ اس رقم کے برابر ہوگا جو عظیم برطانیہ لوٹ کر لے گیا، پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار اس وقت تین سو پانچ ارب ڈالر ہے، اس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان آئندہ ایک سو اڑتالیس سال تک جو کچھ کمائے گا وہ ۴۵؍ ہزار ارب ڈالر کے مساوی ہوگا یعنی برطانیہ کی لوٹ مار پاکستان کے ایک سو اڑتالیس سال کی آمدنی کھا گئی، اس کے باوجود برطانیہ مہذب ہے، عقل پرست ہے، روشن خیال ہے، انسان دوست ہے، مساوات کا قائل ہے، عظیم ہے لیکن یہ برطانیہ کا واحد ظلم نہیں تھا، برطانیہ ہندوستان کے معاشی استحصال کے حوالے سے اور کیا کر رہا تھا؟ اتسا پٹنائک کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے کہتی ہیں انگریزوں سے پہلے ہندوستان نوابین کے ماتحت تھا اور نوابوں نے بھی عوام پر بھاری محصولات عائد کئے ہوئے تھے مگر انگریزوں نے ٹیکس کو تین گنا کر دیا چنانچہ انگریزوں کی حکومت نے اہلِ ہندوستان کو قحط زدہ کر دیا، انگریزوں نے مزید ظلم یہ کیا کہ وہ ہندوستانیوں سے ٹیکس کی صورت میں جو رقم حاصل کرتے تھے اس رقم سے وہ ہندوستان کی تیار کی ہوئی مصنوعات خریدتے تھے اور یہ مصنوعات خریدکر وہ برطانیہ بھیج دیتے تھے، اس کا طریقہ انہوں نے یہ بنایا ہوا تھا کہ ٹیکس وصول کرنے والا Collector ٹیکس وصول کرتا تھا، انگریز یہی رقم کسی اور شخص کو دے کر اس سے مصنوعات کی خریداری کرا لیتے تھے، چنانچہ ہندوستانیوں کو معلوم بھی نہیں ہو پاتا تھا کہ ان کے دیئے ہوئے ٹیکس سے انگریز ہندوستانیوں کی مصنوعات خرید رہے ہیں، اگر یہ دونوں کام ایک ہی شخص کرتا تو پھر ہندوستانی اصل کھیل سے آگاہ ہوجاتے، ان حقائق کا مطلب یہ ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستانیوں سے مصنوعات مفت خریدتی رہی۔
اتسا پٹنائک سے سوال کیا گیا
What happend to the money that was drain out of India? what was it used for?
اس رقم کا کیا بنا جو بھارت سے برطانیہ بھیجی گئی؟ یہ کس مقصد کے لئے بروئے کار آئی؟ اس سوال کا جواب ان کے الفاظ میں سنئے!انہوں نے کہا:
The modern capitalist world would not exist with out colonialism and drain
مغربی اقوام کے برپا کئے ہوئے نوآبادیاتی دور اور ان کی لوٹ مار کے بغیر جدید سرمایہ دار دنیا وجود میں نہیں آسکتی تھی ۔
جدید مغرب کی جھوٹی عظمت کی پشت پر کئی چیزوں کا تذکرہ موجود ہے، جدید مغرب نشاۃ ثانیہ کی تحریک کا حاصل ہے، صنعتی انقلاب کا نتیجہ ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کا پروردہ ہے، مغربی لوگوں کی عبقریت کا ساختہ ہے ،اہلِ مغرب کی محنت کا ثمر ہے مگر اتسا پٹنائک ٹھوس شہادتوں کی بنیاد پر کہہ رہی ہیں کہ مغرب کی سرمایہ دارانہ دنیا نوآبادیاتی تجربے اور مغربی اقوام کی لوٹ مار اور استحصال کے بغیر خلق نہیں ہوسکتی تھی، یہ امر ظاہر ہے کہ انگریز جو کچھ ہندوستان میں کر رہے تھے، وہی کچھ وہ دوسری نوآبادیات میں بھی کر رہے تھے، اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انگریز اگر صرف ہندوستان سے ۴۵؍ ہزار ارب ڈالر لوٹ کر لے گئے تو انہوں نے اپنی تمام نو آبادیات میں کتنی زیادہ لوٹ مار کی ہوگی لیکن یہ معاملہ صرف انگریزوں یا برطانیہ تک محدود نہیں، فرانسیسی بھی اپنی کالونیوں میں یہی کر رہے تھے، اطالوی، پرتگالی، ولندیزی اور جرمن بھی اپنی اپنی نوآبادیات میں یہی گھناؤنا کھیل کھیل رہے تھے، مزے کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود تمام مغربی اقوام مہذب بھی ہیں، صاحبِ علم بھی ہیں، صاحبِ اخلاق بھی ہیں، مسلم دنیا کے بوکھلائے مغرب زدگان ہمیں بتاتے رہتے ہیں کہ اہلِ مغرب کی طرح کوئی ایمان دار نہیں، ان کی طرح کوئی مہذب نہیں، ان کی طرح کوئی عقل مند نہیں ۔
آپ یہ خیال نہ کیجیے گا کہ اتسا پٹنائک اپنے خیالات میں تنہا ہیں، کچھ عرصہ قبل پاکستان کے ایک صحافی اور دانشور ’’ایوب ملک‘‘ نے مغرب کے ممتاز دانشور ’’نوم چومسکی‘‘ سے ملاقات کی، اس ملاقات میں نوم چومسکی نے کیا کہا؟ ملاحظہ فرمائیے!انہوں نے کہا یہ خطہ (یعنی برصغیر)سترہویں صدی میں دنیا کا خوشحال ترین خطہ تھا، ٹیکسٹائل کی مقامی صنعت جو کہ اس وقت یورپی صنعت سے زیادہ ترقی یافتہ تھی، اسے انگریز تاجروں اور انگلستان میں آنے والے صنعتی انقلاب نے تباہ کر دیا، کیا وجہ تھی کہ اٹھارہویں صدی تک یورپین سیاح ہندوستان، چین اور جاپان سے متاثر نظر آتے تھے؟
۱۷۰۰ء کی دہائی میں جنوبی ایشیا صنعتی ترقی میں بہت آگے تھا اور۱۸۲۰ء تک برطانیہ کے صنعت کار یہاں لوہے سازی کی تربیت لینے آیا کرتے تھے، ریل کے انجن بنانے کی جو صنعت بمبئی میں تھی وہ ٹیکنیکل طور پر برطانیہ کی صنعت کے برابر تھی، انڈیا کی لوہے کی صنعت اور بھی ترقی کرسکتی تھی اگر برطانیہ کی جانب سے امپورٹ پر ڈیوٹیاں نہ لگائی جاتیں، یاد رہے ہندوستان نہ صرف صنعتی لحاظ سے انگلستان سے آگے تھا بلکہ تہذیبی لحاظ سے بھی بہت آگے تھا، جتنی تعداد میں کتابیں صرف بنگال میں شائع ہوتی تھیں، اتنی تعداد میں پوری دنیا میں شائع نہیں ہوتی تھیں، ڈھاکہ کا مقابلہ لندن سے کیا جاتا تھا، انگلستان نے اسٹیل ہندوستان سے لے کر اپنی ٹیکسٹائل اور شپ بلڈنگ انڈسٹری بنائی تھی (روزنامہ جنگ:۱۰؍ ستمبر۲۰۱۸ء )
اتسا پٹنائک نے ایک اور اہم مسئلے پر روشنی ڈالی ہے، انہوں نے مسلمانوں اور انگریزوں اور ان کی حکومتوں کے فرق کو واضح کیا ہے، ان سے پوچھا گیا کہ آج کل ہندوستان میں مغلوں کے دور کے بارے میں بھی طرح طرح کی باتیں ہو رہی ہیں اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بھارت کے لوگوں کیلئے مغل اور انگریز دونوں باہر سے آئے ہوئے یا Outsider تھے؟ اس سوال کے جواب میں اتسا نے کہا
The Mughals did come from outside, but then waves of migration have always come from outside. What the Mughals did was exactly what the Rajasthan Princes also did. They taxed the people, but in moderation, and spent all taxes within the country.They settled here and did not retain any permanent ties with their places of origin. Clearly, the Mughals can in no way be equated with the British because there was no export drive, no cheating of local producers, and no tax-financed annual drain out of the subcontinent.
مغل باہر سے آئے لیکن اگر ایسا ہے تو تارکینِ وطن کی لہر بھی باہر ہی سے آتی ہے، مغلوں نے وہی کیا جو راجستھان کے مقامی شہزادوں نے کیا، انہوں نے لوگوں پر ٹیکس لگائے مگر اوسط درجے کے ٹیکس، اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے عوام سے حاصل ہونے والی ٹیکسوں کی رقم ملک کے اندر ہی خرچ کی، مغل یہیں بس گئے اور انہوں نے اپنے آبائی علاقوں سے کوئی مستقل تعلق نہ رکھا، چنانچہ مغلوں کا موازنہ کسی طرح بھی انگریزوں کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا، انہوں نے ہندوستان سے کوئی چیز باہر برآمد نہیں کی، نہ ہی انہوں نے مقامی پیدا کاروں یا Producer کو دھوکہ دیا اور نہ ہی انہوں نے محصولات سے حاصل ہونے والی رقم کے ذریعے مقامی مصنوعات خرید کر باہر بھیجیں۔
اتسا سے پوچھا گیا کہ کیا برطانیہ سے لوٹی ہوئی رقم واپس کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے؟ اس کے جواب میں اتسا نے کہا کہ صرف برطانیہ کو نہیں بلکہ تمام مغربی اقوام کو لوٹی ہوئی رقم اپنی سابقہ کالونیوں کو واپس کرنی چاہیے اور انہیں اپنی مجموعی قومی پیداوار کا ایک حصہ ہر سال اس کے لئے وقف کرنا چاہیے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مغربی اقوام کا اخلاقیات سے کوئی تعلق ہی نہیں، وہ لوٹی ہوئی رقم کیا واپس کریں گی، وہ تو اپنی سابقہ کالونیز کو گزشتہ پچاس سال سے قرضوں کے جال میں جکڑنے کے لئے کوشاں ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ اس وقت ترقی پذیر ممالک چار ہزار ارب ڈالر سے زیادہ کے قرضوں میں ڈوبے ہوئے ہیں، صرف پاکستان کے بیرونی قرضے ایک سو ارب ڈالر ہوگئے ہیں اور آئی ایم ایف سے عمران خان کی حکومت کے مذاکرات کامیاب رہے تو بہت جلد پاکستان کا بیرونی قرض ایک سو سات ارب ڈالر ہوجائے گا، مغربی ممالک اور ان کے مالیاتی ادارے تاثر دیتے ہیں کہ وہ غریب ممالک کو قرض مہیا کرکے ان کی معاشی مشکلات کو کم کرتے ہیں اور ان کی معیشت کو مضبوط بناتے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے قیام کا بنیادی مقصد غریب اور کمزور ممالک کو مغرب کا معاشی غلام بنانا ہے، اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف دنیا کے ۷۵سے زیادہ ممالک کو مدتوں سے قرض دے رہے ہیں مگر ان ممالک میں سے کسی ملک کی معیشت مضبوط نہیں، اس کے برعکس صورتحال یہ ہے کہ غریب ممالک کے قومی بجٹ کا بڑا حصہ بیرونی قرضوں پر سود کی ادائیگی میں صرف ہو رہا ہے، مثلا اس وقت پاکستان کے بجٹ کا تقریبا چالیس فیصد سود کی ادائیگی پر خرچ ہو رہا ہے یا ہونے ہی والا ہے، پاکستان کا قرض بڑھے گا تو سود کی ادائیگی کا دائرہ مزید وسیع ہوگا اور وہ وقت آسکتا ہے کہ پاکستان کا آدھے سے زیادہ بجٹ سود کی ادائیگی پر خرچ ہونے لگے، یہی قصہ دنیا کے دوسرے غریب اور ترقی پذیر ممالک کا ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ مغربی اقوام دو سو سال تک براہِ راست اپنی نوآبادیات کو لوٹ کر اپنی معیشتوں کو مضبوط کرتی رہیں اور اب گزشتہ پچاس سال سے وہ یہی کام قرضوں کا سود وصول کرکے انجام دے رہی ہیں یعنی یہ قومیں کل بھی انسانیت کی دشمن تھیں اور آج بھی انسانیت کی دشمن ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مغربی اقوام نے اربوں انسانوں کیلئے اس دنیا کو سیاسی، معاشی اور سماجی جہنم بنایا ہوا ہے، Oxfame کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا کے صرف آٹھ افراد کی دولت 3.6 ارب انسانوں کی دولت کے مساوی ہے، مغرب اور اس کے احمق متاثرین اکثر شور مچاتے رہتے ہیں کہ بادشاہت کا نظام بڑا انسانیت کش تھا، ایک بادشاہ کے پاس اپنی پوری قوم سے زیادہ دولت ہوتی تھی، بادشاہ عیش کرتا تھا اور اس کی رعیت معاشی مشکلات کا شکار رہتی تھی مگر آج مغرب کی تخلیق کردہ آزاد دنیا، جمہوری دنیا، عقل پرست دنیا، روشن خیال دنیا اور جدید دنیا کا یہ حال ہے کہ صرف آٹھ بادشاہ تین ارب ساٹھ کروڑ افراد سے زیادہ دولت مند ہیں، یہ دولت کی عریانی و فحاشی کی انتہاء ہے، یہ مغرب کی پیدا کردہ دنیا کی ایسی تصویر ہے کہ اگر اس تصویر کو شیطان بھی غور سے دیکھ لے اور اس کے معنی سمجھ لے تو وہ بھی مغرب پر تھوک دے اس کی وجہ ہے، مغرب کی پیدا کردہ دنیا میں ایک طرف آٹھ لوگ آدھی دنیا کی دولت کے مالک ہیں، دوسری طرف اسی دنیا میں ایک ارب انسان انتہائی غربت میں مبتلا ہیں، ان افراد کی یومیہ آمدنی ایک ڈالر اور دو ڈالر کے درمیان ہے، مغرب کے پیدا کردہ جہنم کی سنگینی کا مزید اندازہ کرنا ہو تو سویڈن کے تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ ملاحظہ کرنی چاہیے روزنامہ ڈان کراچی کی ایک تفصیلی خبر کے مطابق۲۰۱۸ء میں دنیا کے تمام ممالک نے اپنی عسکری صلاحیت کو بہتر بنانے پر صرف اٹھارہ سو بائیس ارب ڈالرصرف کئے ہیں۔ (ڈان کراچی:۳۰؍ اپریل۲۰۱۹ء )
یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ اس سے ساری دنیا کے انسانوں کو صاف پانی مہیا کیا جا سکتا ہے، تمام غریبوں کو علاج کی سہولتیں فراہم کی جا سکتی ہیں، دنیا کے تمام بچوں کے لئے بنیادی تعلیم کا بندوبست ہوسکتا ہے مگر مغرب کی پیدا کردہ دنیا میں اتنا عدم تحفظ، اتنا خوف اور ایک دوسرے سے اتنی نفرت ہے کہ ہر ملک اپنے دفاع پر زیادہ سے زیادہ رقم صرف کر رہا ہے، مغرب کی پیدا کردہ دنیا اگر مہذب ہوتی، مغرب کی پیدا کردہ دنیا اگر عقل پرست ہوتی، مغرب کی پیدا کردہ دنیا اگر انسانی ہوتی، مغرب کی پیدا کردہ دنیا اگر علم کی پیروکار ہوتی، مغرب کی پیدا کردہ دنیا اگر جمہوری ہوتی تو دنیا میں اتنا خوف نہ ہوتا کہ وہ صرف ایک سال میں ہتھیار خریدنے اور افواج کو بہتر بنانے پر ۱۸۲۲؍ارب ڈالر صرف کرتی، رپورٹ کے مطابق امریکہ نے ۲۰۱۸ء میں دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہتھیاروں اور فوج پر خرچ کیا، رپورٹ کے مطابق امریکہ نے ۲۰۱۸ء میں ہتھیاروں اور فوج پر ۶۴۹ارب ڈالر خرچ کئے، امریکہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے، عسکری اعتبار سے سب سے طاقتور ملک ہے مگر اس کے حکمران جنگی خواہشات پر سب سے زیادہ خرچ کر رہے ہیں، یہ دراصل دنیا پر غلبے کی نفسیات کا حاصل ہے، غلبے کی یہ نفسیات ہمیشہ سے موجود ہے مگر مغرب نے اس نفسیات کو جنون بنا دیا ہے، اس لئے بھی مغرب کی پیدا کردہ دنیا جہنم بنی ہوئی ہے۔
مغرب کے دعوے کے مطابق اس کی پیدا کردہ دنیا قانون و انصاف کی دنیا ہے مگر اس دنیا میں قانون و انصاف کا کیا عالم ہے؟ اس کا اندازہ مغرب کے قائم کردہ ادارے ورلڈ جسٹس فورم کی ایک رپورٹ سے بخوبی کیا جا سکتا ہے، رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا کے پانچ ارب دس کروڑ افراد بامعنی انصاف تک رسائی نہیں رکھتے (ڈان کراچی:۳۰؍ اپریل۲۰۱۹ء )
رپورٹ کے مطابق پچیس کروڑ سے زیادہ انسان نا انصافی کی انتہائی صورت میں زندہ ہیں جبکہ چار ارب پچاس کروڑ افراد ایسے ہیں جنہیں قانون سے مہیا ہونے والے مواقع میسر نہیں، رپورٹ کے مطابق ناانصافی سے مزید نا انصافی جنم لیتی ہے، پاکستان میں انصاف کا یہ حال ہے کہ ماتحت عدالتوں کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ان عدالتوں میں وکیل کرنے سے بہتر یہ ہے کہ جج کر لیا جائے یعنی جج کو خرید لیا جائے، اعلیٰ عدالتوں کا یہ حال ہے کہ ان کے اکثر فیصلے سیاسی ہوتے ہیں، ملک میں ماتحت عدالتوں کا انصاف بھی اتنا مہنگا ہے کہ ملک کی اسی فیصد آبادی اس کا مالی بوجھ نہیں اٹھا سکتی، عام آدمی مالی اعتبار سے اعلیٰ عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے کی استعداد نہیں رکھتا مگر یہ انصاف کا صرف ایک پہلو ہے، انصاف کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ اتنا سست ہے کہ اس کے حصول میں برسوں لگ جاتے ہیں اور انصاف کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے، ہمارے عدالتی نظام میں وکلاء کا کردار بنیادی ہے اور وکیل کے بارے میں اکبرالٰہ آبادی نے ڈیڑھ سو سال پہلے کہا تھا… پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا لو آج میں بھی صاحبِ اولاد ہوگیا
بدقسمتی سے یہ صرف پاکستان کے حقائق نہیں ہیں، یہ کم و بیش اس پوری دنیا کے حقائق ہیں جو مغرب کی پیدا کردہ ہے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ساڑھے سات ارب انسانوں کی دنیا میں پانچ ارب دس کروڑ انسان بامعنی انصاف تک رسائی ہی نہیں رکھتے، جس دنیا میں ظلم ہی ظلم ہو، عدم مساوات ہی عدم مساوات ہو، طاقت ہی طاقت ہو، اس دنیا میں اگر انصاف بھی نہ ہو تو اس دنیا کے جہنم ہونے میں کیا کلام ہوسکتا ہے؟ ایک جانب مغرب کی تخلیق کردہ دنیا کا یہ عالم ہے کہ وہ جہنم کا منظر پیش کر رہی ہے، دوسری جانب مغرب اپنے پروپیگنڈے کے ذریعے یہ تاثر دے رہا ہے کہ اس نے دنیا کو جنتِ ارضی میں ڈھال دیا ہے، انسان چاند پر پہنچ چکا ہے، مریخ پر کمند ڈالنے والا ہے، مغرب کے دانشور کہہ رہے ہیں کہ انسان موت پر قابو پانے ہی والا ہے اور دائمی زندگی انسان کا مقدر بننے ہی والی ہے، بدقسمتی سے مغرب کی جنت ایک مفروضہ ہے مگر مغرب کا جہنم ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے، اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ مغرب نے جنتِ ارضی تخلیق کی ہے تو یہ جنت کہیں مغرب کے چند ملکوں کیلئے ہے، کہیں دنیا کی ایک فیصد آبادی کیلئے، کہیں ان آٹھ افراد اور ان کے متعلقین کیلئے ہے جنہوں نے ساڑھے تین ارب انسانوں کے برابر دولت جمع کر لی ہے ۔
مولانا اجون سید حقانی
نائب مدیر ماہنامہ ’’الحق‘‘