سفرنامہ انڈونیشیا(چوتھی قسط)

مولانا راشدا لحق سمیع"مدیراعلیٰ ماہنامہ ’’الحق‘‘

 انڈونیشین کی حکومت کی دعوت پر پاکستانی علماء ،دانشوروں کا دورہ

بندونگ شہر کو انڈونیشیا کا پیرس بھی کہا جاتا ہے،اسلئے کہ یہاں پر لوکل اور انٹرنیشنل فیشن وملبوسات سے متعلقہ عالمی برانڈز کی کثرت پائی جاتی ہے ،بندونگ کو مقامی لوگ فیشن کی ’’جنت ‘‘بھی کہتے ہیں۔اسکے علاوہ یہاں پر پرتعیش ہوٹلز ،کافی ہاؤسزاورکپڑوں کی بوتیک وغیرہ کثیر تعداد میں ہیں، ان تمام خصوصیات کی بناء پر بندونگ شہر کی اہمیت بڑھ جاتی ہے ۔یہاں شام کے وقت گہماگہمی ، خریداروں اور گاہکوں کے باعث کافی ہلچل دکھائی دے رہی تھی۔اتنے میں حضرت مولانا محمد طیب طاہری صاحب ہمیں راستے میں ملے جو رات کا کھانے کیلئے ’’براگا سٹریٹ‘‘ تشریف لائے ،میں نے انکا ساتھ دیا اور ریسٹورنٹ میں مختلف موضوعات پر گپ گپ کی ۔حضرت مولانا محمد طیب صاحب مرنجان مرنج شخصیت کے مالک ہیں،جہاں بیٹھتے ہیں مجلس کو خوبصورت بنادیتے ہیں۔ہر عمر اور ہرمزاج کے لوگوں سے اُنکی طبیعت کے موافق بات چیت کرتے ہیں لیکن انکی تمام باتوں ولطائف میں علمیت و مقصدیت جھلکتی ہے اور انسان کو بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔ حضرت والد ماجد مولانا سمیع الحق شہیدؒ کا ان کے بڑے بھائی محترم میجر عامر صاحب اور مولانا محمد طیب صاحب دونوں کیساتھ برادرانہ و دوستانہ تعلق تھا۔اب بھی ان حضرات نے ہمارے ساتھ محبت وشفقت کا تعلق حسب سابق قائم رکھا ہوا ہے، دارالعلوم حقانیہ اور پنج پیر کے علمی مرکز ’’دارالقرآن‘‘ کا کئی امور میں ایک دوسرے کیساتھ روابط مضبوط ہیں۔
رات کے کھانے کے بعد ہم لوگ ہوٹل واپس ہوئے،دن بھر کے سفر ،مختلف مقامات کے دورے اور تھکاوٹ سے اپنا برا حال تھا،سوتے ہی نیند کی وادیوں میں ایسا اترا کہ پھر موذن کی اذان سے الحمدللہ آنکھ کھلی۔کچھ دیر توقف کے بعد صبح کی نمازپڑھی ، میرا کمرہ ہوٹل کے پندرہویں فلور پر تھا، جس کی کھڑکی اور چھت سے پورا شہر صاف دکھا ئی دے رہاتھا۔ شہر کی ایک جانب پہاڑی سلسلہ ہے اور باقی تمام شہر میدانی علاقے میں ہے، ہر طرف سبزے اور درختوں نے شہر کو خوبصورتی کا ایک حسیں مخملی پیراہن پہنایا ہوا تھا۔ صبح کے مبارک اوقات میں تجلیات،برکات اور رحمتوں کا نزول ہوتا ہے،
اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْھُوْدًا ’’بیشک صبح(یعنی مراد صبح کی نمازاور وقت ہے) کے قرآن میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں ‘‘ سونے پہ سہاگہ ٹھنڈک،شبنم کے قطرے، تازگی، پرندوں کی چہچہاہٹ، انسانی مزاج کی شگفتگی کا باعث بنتے ہیں۔ الحمدللہ ! کہ اللہ تعالیٰ نے خوابِ گراں اور خوابِ گراں سے راقم کو بیدار ہونے اور ذوقِ سحر خیزی یعنی صبح کی نماز پڑھنے کی عادت اور اس کے بعد کے اوقات میں بیدار رہنے کی توفیق بخشی ہے، اس نعمت کے حصول پر جتنا بھی رب کا شکر اداکروں وہ کم ہے۔گھر میں میرے سرہانے ایک کھڑکی چمن کی طرف کھلتی ہے، اس کے قریب ہی میں نے لیموں کا ایک خوبصورت درخت لگایا ہوا ہے، جس میں طلوع آفتاب کے ساتھ ہی درجنوں چڑیاں و پرندے آکر بیٹھ جاتے ہیں ،انکے چہچہانے اور اذانوں سے میرا چمن،خوابگاہ بلکہ محراب جاں تک گونج اٹھتی ہے۔

ہم ایسے اہل نظر کو ثبوت حق کے لیے
اگر رسول نہ ہوتے تو صبح کافی تھی

تو بندونگ کی صبحِ خندہ بھی جلوئہ گاہ حسن جاناں کا منظر پیش کررہی تھی ۔اس جاں بخش اور رنگین صبح کی فضاء کا کیا کہنے وَالصُّبْحِ اِِذَا تَنَفَّسَ ’’قسم ہے صبح کی جب وہ گہری سانس لے‘‘ وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلًا ’’ اور صبح و شام اپنے رب کا نام یاد کرو‘‘

گردوں پہ جگمگاہٹ کھیتوں میں لہلاہٹ
چڑیوں کی چہچہاہٹ کلیوں کی مسکراہٹ

اسی طرح غروب آفتاب کا طلسماتی وقت ہو اور شفق کے رنگوں کی قوس وقزح ہو تو ان لمحات کے دوران مَیں خیالوں کی بزم اور یادوں کی بارات دل و دماغ میں سجا لیتا ہوں ، اس وقت نگارخانہ ہستی کے کیسے کیسے دل فریب و خوش کن مناظر فطرت سامنے آتے رہتے ہیں۔مَیں خود بھی سورج کے ہمراہ ان حسین نظاروں میں افق کی وسعتوں اور رنگینیوں میں ڈوب جاتا ہوں۔اس خوبصورت وقت پر توخالق کائنات نے بھی قسم کھائی ہے فَلَآ اُقْسِمُ بِالشَّفَقِ ’’ تو مجھے شام کے اجالے کی قسم ہے۔‘‘اْفق اور فضاؤں میں یوں گھورنے پر مجھے کبھی کبھی میرے ہمنشیں ساتھی اوردوست پوچھتے ہیں کہ تم کیا فلسفیوں کی طرح آسمانوں میں گھورتے ہو؟ اُن کورمغزو کورنظرلوگوں کو کیا معلوم کہ خیمہ شب و افلاک میں کیا کیا عیاں و پنہاں ہے اور لال ،دھانی ، سرمئی ،سبز گلابی شام کے آنچل میں آنے والی شب ،ماہ اور تارے کیا قیامت ڈھا رہے ہیں،اسی طرح سمندر اور دریا پر ڈوبتے سورج کی لالی بھی کیا ظالم شوخی بکھیرتی ہے۔

چراغ چاند شفق شام پھول جھیل صبا
چرائیں سب نے ہی کچھ کچھ شباہتیں تیری

طلوع و غروب آفتاب کے مناظر سے بہتر روح پرور ،جاں فزاء اورنشاط انگیز لمحات انسان کو مل ہی نہیں سکتے، قدرت کے مظاہر،اُس کی بے مثل صناعی اوراس کی تخلیق ورنگا رنگ مصوری سے انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَ قَبْلَ غُرُوْبِھَا ’’اور سورج طلوع ہونے سے پہلے اور غروب ہونے سے پہلے اپنے رب کی تعریف کرتے ہوئے اس کی پاکی بیان کرو‘‘
المختصر بندونگ شہر کی صحبیں اور شامیں مجھے بہت پسند آئیں۔

تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے
میں ایک شام چرا لوں تمہیں برا نہ لگے

  بندونگ شہر

بندونگ شہرانڈونیشیا میں صوبہ مغربی جاوا کا صدر مقام ہے۔ یہ سطح سمندر سے دو ہزار تین سو فٹ کی بلندی پر واقع ہے، یہ شہر انڈونیشیا میں اعلیٰ تعلیمی مراکز کے حوالے سے بھی معروف ہے،اس میں ملکی و بین الاقوامی معیار کی متعدد یونیورسٹیاں بھی ہیں ۔بندونگ فیشن ،سیاحت اور معیشت کے علاوہ تعلیمی لحاظ سے بھی انڈونیشیا میں نمایاں ہے،ہمارے دورہ میں منتظمین سے اس بات کی کمی رہ گئی تھی کہ انہوں نے بندونگ شہر میں کسی یونیورسٹی،کالج ،مدرسہ یا لائبریری کا وزٹ نہیں رکھا حالانکہ جکارتہ میں تو سارا زور تعلیمی اداروں کے دیکھنے پر تھااگر بندونگ شہر میں بھی اس حوالے سے وفد کے لئے ارینجمنٹ ہو جاتی تو سفر زیادہ کارآمد ہوتا۔بہرحال یہ امر انتہائی خوش آئند ہے کہ یہ عظیم شہر فن و ثقافت سے زیادہ تعلیمی اعتبار سے بھی ممتاز ہے۔ بندونگ کی کل آبادی ۲۰۰۷ء کی مردم شماری کے مطابق 4.7ملین ہے۔اسے پھولوں کا شہربھی کہا جاتاہے،یہ انڈونیشیا کا سابقہ دارالخلافہ بھی رہ چکا ہے ،یہ مغربی جاوا کا صوبہ ہے، اسے سمارٹ سٹی بھی کہاجاتا ہے۔ مجھے بندونگ شہر جکارتہ سے بھی زیادہ اچھا لگا،یہ بہت کھلا وسیع سرسبز وشاداب اور پہاڑوں کے نزدیک بنایا گیا ہے۔
بندونگ شہر میں آج ۳؍دسمبر کو ہمارا دوسرا دن تھا ،صبح تیاری کے بعد ہم لوگ بندونگ شہر کے ہی ایک حصے ’’باباکان سیپارے ویلج آف ریلیجئس موڈریشن‘‘ میں گئے جو گاؤں کی طرز پر بنا تھا، یہاں پر شہر کی مختلف کمیونٹیز اور مذاہب سے وابستہ لوگ ہمارا انتظار کر رہے تھے۔جب ہم پہنچے تو مقامی لوگوں نے ہمارا گرمجوشی کے ساتھ استقبال کیا،شہر کی انتظامیہ اور میئر وغیرہ نے اپنے استقبالیہ کلمات میں مہمانوں کی آمد پرشکریہ ادا کیا اور شہر کی تاریخی اورموجودہ انتظام وانصرام کے بارے میں ہمیں آگاہ کیا،یہاں پر مقامی مسلمانوں کے علاوہ ہندو،عیسائی، بدھسٹ اوردیگر مذاہب کے لوگوں نے بھی اس موقع پر اظہار خیال کیا اورانڈونیشین حکومت کی دیگر مذاہب اور فرقوں کے ساتھ اچھے رویے اور مساویانہ حقوق دینے پر اس کا شکریہ اداکیا۔یہ تقریب کافی دیر تک جاری رہی،تقریب کے اختتام پر ہم لوگوں کو مقامی ریسٹورنٹ میں ظہرانے کے لئے لے جایا گیا،یہ ریسٹورنٹ انتہائی خوبصورت اور قدرتی ماحول میں بنایا گیا تھا،اس کے ماحول کو لکڑی، بانس ، پودوں اور فواروں سے بہت دلکش بنایا گیا تھا۔ہماری مختلف انواع و اقسام سے مقامی کھانوں سے تواضع کی گئی، مقامی فروٹس اور ناریل کا پانی بھی پیش کیا گیا،انڈونیشین مقامی پھل ’’دوریان‘‘ (Duryaan)جو ذائقے اور لذت میں بہت منفرد ہوتاہے، یہ پھل انڈونیشیا ، ملائیشیا ،تھائی لینڈ ،سنگاپور وغیرہ ہی میں اُگتا ہے، مجھ سے مولانا نعمان صاحب نے اس کی بڑی تعریفیں کی تھیں اورانہوں نے ہی مجھے اس کا خوب اشتیاق دلایا لہٰذا آپ مجھے خصوصی طورپر اپنے مقامی فضلاء کے ہمراہ اس کو کھلانے کیلئے عشاء کے وقت دوریان کی دکان پر لے گئے، جہاں یہ قیمتی پھل بڑے پروٹوکول کے ساتھ سجائے گئے تھے۔دکان کے باہر اوراندر اس کیلئے خصوصی نشست گاہیں بنائی گئی تھیں،مقامی لوگ اس کو کھانے کیلئے دکان پر ہی زیادہ تر آتے ہیں، یہ پھل طاقتور غذائی مواد پر مشتمل ہوتا ہے ۔یہ پھل مستطیل نما ہوتا ہے،اس کی باہر کی جلد سخت اور خاردار ہوتی ہے لیکن اندر سے اس کا گودا آم کی طرح نرم اورذائقے میں بادام اور مکھن کی طرح ہوتا ہے لیکن اس کی ایک مخصوص و ناگوار بدبو بھی ہوتی ہے اسلئے بعض لوگ اس کو ناپسند بھی کرتے ہیں،یہ پھل دوسرے پھلوں کی نسبت کافی مہنگا ہوتا ہے۔اس پھل کو میں نے زندگی میں پہلی دفعہ یہاں کھایا اور اپنے ساتھ برادرم مولانا اسرار صاحب و دیگر ساتھیوں کی طلب پر ہوٹل بھی لے آیا۔

گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی

اے خانہ برانداد چمن کچھ تو ادھر بھی

تقریب وظہرانے کے بعد ہم لوگ ہوٹل واپس پہنچے۔شام کو دوبارہ ہم لوگ شہر کی تفریح کے لئے باہر نکلے،مقامی علماء اور شہر کے لوگوں سے ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں۔مغرب کی نماز کے بعد اسرار صاحب کے ساتھ دوبارہ براگا کے ایک معروف ’’کافی ہاؤس‘‘ میں کافی پینے کے لئے گئے، مجتبیٰ صاحب بھی ہمراہ تھے،یہ کافی ہاؤس بڑا وسیع ،خوبصورت اور ایلیٹ کلاس کے لئے بنایاگیا تھا، اندر ساری فضاء کافی کی بھینی بھینی خوشبو سے مہکی ہوئی تھی،مجھے کافی پینے سے زیادہ اس کی مہک میں ڈوبی ہوئی فضا ، خوشبو اور اُڑتی بھاپ بھلی لگتی ہے،گلِ نرگس ،موتیا،رات کی رانی اور گلاب کی خوشبوؤں کے علاوہ بھی مجھے کئی چیزوں کی خوشبوئیں پسند ہیں ان میں کافی چائے،بارش کے بعد گیلی زمین کی خوشبو، پرانی کتابوں، کاغذوں اور سیاہی سے اٹھتی ہوئی خوشبوئیں بھی مجھے پسند ہیں ۔معلوم نہیں کہ یہ ذوق کی کون سی منزل ہے؟کچھ لوگ تو ہم پر بدذوق اور مجنوں کی پھبتی بھی کستے ہیںکہ یہ تم نے کیسے کیسے شوق پال رکھے ہیں؟ بہرحال! ہم نے تین کافیوں کا آرڈر دیا،انڈونیشین کافیوں کا تو جواب نہیں۔
یہ ریسٹورنٹ اپنی جدت اور خوبصورتی میں بے مثال تھا(اسلام آباد، پشاور میں اس معیار کے کافی ہاؤسز نہیں ہیں )کافی پیتے ہوئے ہم کافی دیر تک انڈونیشین تہذیب و تمدن اور اس کی حیرت انگیز ترقی پر تبادلہ خیال کرتے رہے اورساتھ ساتھ کافی کے تلخ و شیریں گھونٹ بھی نوش کرتے رہے ، انڈونیشین کافیوں اور چائے کا الگ ہی ذائقہ ہے۔ہمارے کے پی کے اور پاکستان میں کافی پینے کا رواج انتہائی کم ہے اور یار لوگ کافی جیسی بڑی نعمت کے ایک دو گھونٹ پی کر اسے دھتکار دیتے ہیں کہ یہ بھی کوئی پینے کی چیز ہے؟اب ان بدذوقوں کو کوئی کیا سمجھائے۔

لذت مے تجھ سے کیا کہوں زاہد
ہائے کمبخت تو نے پی ہی نہیں

کافی کی تلخی ،تندی اور کڑواہٹ ہی میں اصل شیرینی چھپی ہوتی ہے،ہم کافی لورز کو تو ہر طرح کی مٹھاس چاہیے چاہے مصری، شہد ہو یا چینی،گڑوغیرہ ہو یا قند و نبات۔ یہ سب ’’گنج ِ شیریں‘‘کافی کے تلخ گھونٹوں پر نچھاورہے، اسلام آباد میں بھی ’’بٹلر کیفے ہاؤس‘‘ مجھے پسندہے کیونکہ اس میں کافی کی ورائٹی اور کوالٹی لاجواب ہوتی ہے، مجھے کافی میں کیپی چینو (Cappuccino)ذاتی طورپر پسند ہے۔ اس کے علاوہ کافی کی دیگر اقسام میں لاٹے، امریکینو، ایسپریسو،Macchiato، موکا، ریسٹریٹو،فلیٹ وائٹ،آئریش کافی شامل ہیں ۔
انڈونیشیا چائے اور کافی کے حوالے سے بھی بہت شہرت رکھتا ہے،اس کی سبز چائے، کالی چائے اور کافی کی اقسام جہاں بھر میں معروف ہیں،دنیا کی سب سے مہنگی کافی (civet coffee) وہاں کی ایک مخصوص جنگلی بلی کوپی لواک (Kopi Luwak) کے فضلے سے بنائی جاتی ہے، اس جنگی بلی کو پہلے کافی بین کھلائے جاتے ہیں پھر اسے خشک ، صاف اور پراسیس کرکے ایک لاکھ اسی ہزار روپے کلو تک اس کو فروخت کیا جاتا ہے۔میں اور اسرار صاحب کافی کے باغ میں گئے، وہاں اس کے پودے دیکھے (کافی ایک پھل ہے جو کہ جھاڑی نما پودے میں اُگتا ہے جس کو کسان پانچ فٹ تک رکھتے ہیں تاکہ انہیں اسے توڑنے میں آسانی ہو، اس پودے کی عمر تیس سے چالیس سال تک ہوتی ہے) اور خصوصاً وہ بلی بھی دیکھی جس کو کافی بین کھلائے جاتے ہیں اور پھر انہیں پراسیس کرکے بیچا جاتا ہے، معلوم نہیں کہ کون سے بدذوق اسے اتنا مہنگا خرید کر پیتے ہوں گے،ہمیں تو کوئی مفت بھی یا پیسے دے کر بھی پلائے تو ہم یہ زہر نہ پیئںاورنہ اس کے قریب بھٹکیں۔انسان بھی کیا عجیب مخلوق ہے،پینے پہ آئے تو گائے کا پیشاب بھی پیتا ہے ،تلخ اور بدبودار شراب اور اسپرٹ بھی پیتا ہے اور اس طرح فضلے وپاخانے بھی اب کافی کے نام پر فروخت ہورہے ہیں اوریار لوگ اسٹیٹس اور دکھلاوے کے طورپر دھڑا دھر اسے خرید کر پی رہے ہیں ۔ الامان والحفیظ ۔

آج کل مہ خانہ میں تقسیم ہوتے ہیں جگر
زہر کے ساغر شرابِ زندگی کے نام سے

  کافی کی تاریخ اوراقسام

’’اصل میں کافی بھی عربوں کی دریافت ہے اور اسی طرح الکوحل بھی۔آج بھی کافی کے سب سے اعلیٰ دانوں کو ’’عریبیکا‘‘ کہا جاتا ہے،کافی لاطینی امریکہ، صحارا افریقہ، ویت نام اور انڈونیشیا جیسے گرم خطوں میں پیدا ہوتی ہے، بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ کافی امریکہ کی پیداوار ہے کیوں کہ چاکلیٹ اور تمباکو کی طرح کافی بھی یورپ میں سولہویں اور سترہویں صدی میں مقبول ہوئی تھی۔اگرچہ کہا جاتا ہے کہ ایتھوپیا کے ایک چرواہے نے سب سے پہلے کافی کے جنگلی پودوں سے کافی کشید کر کے پی تھی، لیکن اصل بات یہ ہے کہ دنیا میں سب سے پہلے کافی یمن میں اگائی گئی۔ یمنیوں ہی نے اسے عربی نام ’’قہوہ‘‘ دیا، جو بعد میں بگڑ کر انگریزی میں کافی اور فرانسیسی میں کیفے بن گیا۔لفظ قہوہ کا اصل مطلب شراب تھا، اور صوفی درویش اسے ذکرِالٰہی کرتے وقت توجہ مرکوز رکھنے اور روحانی سرور حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔۱۴۱۴ء تک کافی مکہ پہنچی اور سولہویں صدی کی ابتدا میں یمن کی بندرگاہ ’’المخا‘‘ سے ہو کر مصر تک پھیل گئی۔اُس وقت بھی کافی صوفیوں کا مشروب تھا۔ قاہرہ میں جامعۃ الازہر کے اردگرد کئی کافی خانے کھل گئے۔ اس کے بعد کافی شامی شہر حلب میں داخل ہوئی اور وہاں سے کچھ ہی عرصے بعدپندرہویں صدی میں وسیع و عریض عثمانی سلطنت کے دارالخلافہ قسطنطنیہ (حالیہ استنبول)میں مقبول ہو گئی۔مکہ، قاہرہ اور استنبول میں مذہبی حکام نے کافی پر پابندی لگانے کے کوشش کی۔ علماء نے اس بات پر بحث شروع کر دی کہ آیا کافی کے اثرات الکوحل کی طرح نشہ آور ہیں یا نہیں؟ بعض شیوخ نے کہا کہ کافی خانوں میں کافی کی بھری ہوئی صراحی شراب کے ساغر کی طرح محفل میں گردش کرتی ہے۔کافی خانے ایک ’’علمی مجلس و محفل‘‘کے طورپر ابھرے جہاں لوگ مل بیٹھ کر مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے تھے، شعراء سے ان کا تازہ کلام سنتے تھے اور شطرنج کھیلتے تھے۔ جلد ہی کافی خانے علمی زندگی کا محور بن گئے اور انہیں اس معاملے میں مسجد کا حریف سمجھا جانے لگا۔ بعض علماء نے فتویٰ جاری کر دیا کہ کافی شراب سے بھی بدتر ہے اور حکام کو تشویش لاحق ہو گئی کہ کافی خانوں میں حکومت کے خلاف بغاوت کی سازشیں تیار کی جا سکتی ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ عثمانی سلطان مراد چہارم کے دور سولہویں صدی میں کافی پینے کی سزا موت مقرر کر دی گئی لیکن اس کے باوجود کافی پینے کی عادت کو ختم نہیں کیا جا سکا۔رفتہ رفتہ مذہبی رہنما بھی اس نتیجے پر پہنچے کہ کافی پینا جائز ہے، کافی عثمانی سلطنت سے اور یمن کی بندرگاہ ’’المخا‘‘ سے یورپ پہنچی۔ برطانوی اور ولندیزی ایسٹ انڈیا کمپنیوں نے سترہویں صدی کی ابتدا میں ’’المخا‘‘ سے بڑے پیمانے پر کافی خریدنا شروع کر دی۔ دوسری طرف کافی کی تجارت بحیرئہ روم سے بھی شروع ہو گئی۔ جب ترک فوجوں نے یورپ پر چڑھائی کی تو وہ اپنے ساتھ کافی بھی لے گئے۔ یورپ میں بھی مشرقِ وسطی کی طرح کافی خانے گپ شپ اور کھیل کے مرکز بن گئے۔ لفظ کیفے نہ صرف مشروب بلکہ کافی خانے کو بھی کہا جانے لگا،مشرق کی طرح یورپ میں بھی حکام نے کافی خانوں کو شک کی نظر سے دیکھا۔ 1675 میں برطانیہ کے بادشاہ چارلز ثانی نے یہ کہہ کر کافی خانوں کی مذمت کی کہ یہ منحرف لوگوں کے مل بیٹھنے کی جگہیں ہیں جہاں سے بادشاہ اور اس کے وزیروں کے خلاف شرانگیز افواہیں پھیلتی ہیں۔اس کے علاوہ یورپ میں کافی پر ایک اور اعتراض یہ بھی کیا جاتا تھا کہ یہ مسلم مشروب ہے لیکن 1600 کے لگ بھگ پوپ کلیمنٹ ہشتم نے کافی کا ایک پیالہ پیا تو انھیں اتنا لطف آیا کہ انھوں نے کہا اس قدر عمدہ مشروب پر مسلمانوں کی اجارہ داری نہیں ہونی چاہیے اور اسے بتسمہ دے کر عیسائی بنا دینا چاہیے۔جب 1683 میں ترک ویانا کا محاصرہ ختم کر کے پسپا ہو گئے تو پیچھے کافی کا بڑا ذخیرہ چھوڑ گئے جسے ویانا کے باسیوں نے فوراً قبضے میں لے لیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ویانا میں آج بھی کافی ترکی انداز میں پی جاتی ہے۔تاہم عرب دنیا میں کافی مختلف انداز میں پی جاتی ہے۔ عربوں کی کافی خاصی تلخ ہوتی ہے اور بعض اوقات اس میں الائچی اور دوسرے مسالہ جات شامل کیے جاتے ہیں۔عرب خطے میں رواج ہے کہ مہمان کی آمد کے کچھ دیر بعد اسے کافی پیش کی جاتی ہے۔ اگر فوراً ہی کافی دی جائے تو اس کا مطلب ہے کہ میزبان کو بہت جلدی ہے،البتہ افسوس کی یہ بات ہے کہ یمن میں کافی کی پیداوار میں کمی آ گئی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو دوسرے ممالک کی سستی کافی ہے اور دوسرے یہ کہ خود یمن میں کافی کو قط جیسے نشہ آور مشروبات سے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔دنیا میں سب سے زیادہ کافی کی پیداوار برازیل میں ہوتی ہے اور یہ فن لینڈ میں سب سے زیادہ پی جاتی ہے۔اسی طرح باقاعدہ کافی ہاؤس استنبول ترکی میں ۱۴۷۵ء میں بنایا گیا تھا۔‘‘ (بحوالہ ویکیپیڈیا)

 انڈونیشین پارلیمنٹ

ہم انڈونیشیا کے پارلیمنٹ میں بھی مدعو تھے، ،وفد نماز جمعہ سے پہلے پارلیمنٹ ہاؤس کی بلڈنگ میں پہنچا تووہاں حکام نے ہمارا استقبال کیا اورمسجد میں مہمانوں کے لئے جگہ پہلے سے مختص کی ہوئی تھی۔وقت مقررہ پر تقریر شروع ہوئی،خطبہ کی اذان شروع ہوئی تو اس قدر خوبصورت اور مترنم آواز تھی کہ ہم لوگ موذن صاحب اس خوش الحانی پر جھوم اٹھے ۔ تقریر اور خطبہ انڈونیشین زبان میں تھا، امام صاحب نے بھی بہت عمدہ تلاوت کی، نماز کے بعد میں ، مولانا نعیم صاحب اور جناب ظفر اللہ خان صاحب و خطیب و امام مسجد سے ملے ،ان سے تعارف کرایا تو ان لوگوں نے بہت خوشی اور مسرت کا اظہار کیا، خطیب صاحب نے میرا تعارف جاننے کے بعد فرط جذبات سے اپنے گلے میں ڈالی ہوئی روایتی چادر میرے گلے میں ڈال دی اور دارالعلوم حقانیہ اور حضرت والد صاحب ؒ کے متعلق عقیدت پر مبنی خیالات کا اظہار کیا ،مسجد سے ہم لوگ نکلے تو باہر ایک رکن پارلیمنٹ نے فلسطین سے اظہار یکجہتی کے لئے فلسطینی مفلر خود بھی پہنا ہوا تھا اور ہم سب کو بھی پہنایا۔اس کے بعد ہم لوگ پارلیمنٹ داخل ہوئے ۔پارلیمنٹ کی عمارت بہت ہی وسیع و عریض اور سرسبز وشاداب علاقے پر محیط ہے۔ہم نے مختصر وزٹ کیا پھرکھانا تیار تھا،یہاں پر انڈونیشین حکام اورجناب اسپیکر صاحب نے بہت شاندار دعوت کا اہتمام کیا تھا۔ کھانے کے بعد ہم لوگ کمیٹی روم گئے جہاں دو طرفہ خیالات کا اظہار ہوا اور کئی موضوعات پر شرکاء نے اظہار خیا ل کیا۔یہاں انڈونیشین گرینڈرا پارٹی، پارلیمانی کمیٹی برائے دفاع و خارجہ کے رکن ڈاکٹر فضلی زون، پارلیمانی کمیٹی کے نائب چیئرمین رکن صنعت و سرمایہ کاری کمیٹی اور جسٹس پارٹی کے رکن ڈاکٹر سوکامت، ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن پوتو سوپادما روڈانا، رکن کمیشن برائے مذہبی و سماجی امور و آفات اور حقوق نسواں وشنو ویجے آدی پترا، گولکار پارٹی آف انڈونیشیا کے رکن محمد علی رضا سمیت دیگر اراکین پارلیمنٹ اور وزرا شامل تھے۔میٹنگ میں جمہوریت،انتخابات اوروہاں کے معاشروں کے دیگر اہم مسائل پر تفصیلی گفت و شنید ہوئی۔آخر میں راقم نے پارلیمنٹ کے اسپیکر صاحب کو روایتی چترالی ٹوپی پیش کی جس پر وہ بہت خوش ہوئے۔ اس کے بعد پارلیمنٹ ہاؤس کی گیلری میں چکر لگایا جہاں صدر سوئریکارنو،سہارتو اوردیگرانڈونیشین لیڈروں کی تصاویر آویزاں تھیں۔ فروری میں انڈونیشیا میں بھی پاکستان کی طرح انتخابات ہورہے ہیں ۔یہاں دو ڈھائی گھنٹے گزارنے کے بعد ہم لوگ باقی شہر کو دیکھنے کے لئے پروگرام کے مطابق چل پڑے۔
<h4جمہوریہ انڈونیشیا کا ایوان نمائندگان/h4> انڈونیشیا میں دو ایوان ہوتے ہیں، ایک انڈونیشیا کا ایوان نمائندگان (ڈڈDPR) اور دوسرا علاقائی نمائندہ کونسل (DPD) ۔ ڈی پی آر کو قومی مقننہ کا ایوان زیریں سمجھا جاتا ہے، جبکہ علاقائی نمائندہ کونسل (DPD) ایوان بالا کے طور پر کام کرتی ہے۔ انڈونیشیا میں ڈی پی ڈی کے مقابلے ڈی پی آر کو زیادہ طاقت، استحقاق اور وقار حاصل ہے۔ڈی پی آر کے ارکان کا انتخاب ہر پانچ سال بعد عام انتخابات کے ذریعے کیا جاتا ہے، اس کے 575 ممبران ہوتے ہیں جو ارکان پارلیمنٹ کہلاتے ہیں۔انڈونیشیا کے پہلے صدر سوئکارنو تھے جو ایک سیاستدان، خطیب، انقلابی اور قوم پرست رہنما تھے ، جنہوں نے 1945 سے 1967 تک شاندار قومی خدمات سرانجام دیں۔ سوکارنو ڈچ استعمار سے آزادی کے لیے انڈونیشیا کی جدوجہد کے رہنما تھے۔
بندونگ شہر میں تیسرے صبح ناشتے میں جامعہ بنوریہ کے فضلا اورمقامی مدرسے کے مہتمم صاحب بھی تشریف لائے تھے،ان سے مل کر بہت خوشی ہوئی جو انڈونیشیا جیسے لبرل ملک میں قرآن وحدیث کی صحیح فکر کی ترجمانی کررہے ہیںاور اسلامی تعلیمات وہاں پہ پھیلا رہے ہیں۔
دوسری رات کو عشاء کے بعد مولانا اسرار صاحب نے مقامی ریسورنٹ میں تمام وفد کو عشائیے پر مدعو کیا تھا۔یہ ایک ہندوستانی صاف اور خوبصورت ہوٹل تھاجو مشرقی کھانوں کی وجہ سے بندونگ شہر میں معروف تھا۔یہ بندونگ شہر میں ہمارے وفد کی آخری دعوت تھی ۔پھر آدھی رات کو تمام شرکاء پاکستان کو واپس جارہے تھے، صرف مولانا نعیم صاحب ہمارے ساتھ بندونگ میں رُک رہے تھے کیونکہ ان کی فلائٹ کل دوپہر کے بعد کراچی کے لئے تھی۔لہٰذا وہ ہم دونوں کے ساتھ بندونگ میں رُک گئے تھے۔ وفد کے تمام اراکین عشائیے میں مدعو تھے ،ابھی ہم ریسٹورنٹ کی نشستوں پر بیٹھے ہی تھے کہ موسلادھار بارش شروع ہوگئی اورسارا ماحول جھل تھل ہوگیا،کھڑکیوں اور شیشوں سے باہر بارش بڑی بھلی معلوم ہورہی تھی۔ یوں لگ رہاتھا کہ بارش کی بوندیں اور لکیریں شیشوں پر بہتے ہوئے بندونگ شہر کی افسانوی تاریخ اور مختلف ادوار کی کہانی ہمارے سامنے لکھ رہی تھیں۔بندونگ شہر جکارتہ سے زیادہ پیارا، کھلا اورخوبصورت ہے۔وقت ہوتا تو یہاں پر کم سے کم ایک ہفتہ قیام کرنا چاہیے تھا کہ میرے جنوں اور وحشت کو اس کا سایہ دیوار زیادہ بھلا معلوم ہوا۔ (جاری ہے )

مولانا راشدا لحق سمیع”مدیراعلیٰ ماہنامہ ’’الحق‘‘

تیسری قسط