خیبر پختونخوا قدرتی آفات کی زَد میں آزمائش یا قدرت کی سرزنش
مولانا محمد اسلام حقانی (نائب مدیر ’’الحق‘‘)
خیبر پختونخوا قدرتی آفات کی زَد میںآزمائش یا قدرت کی سرزنشمولانا محمد اسلام حقانی (نائب مدیر ’’الحق‘‘)
کتنی مشکل زندگی ہے کس قدر آساں ہے موت
گلشنِ ہستی میں مانندِ نسیم ارزاں ہے موت
زلزلے ہیں بجلیاں ہیں قحط ہیں آلام ہیں
کیسی کیسی دخترانِ مادر ایام ہیں
بدقسمت سرزمین پاکستان بالخصوص ہمارا صوبہ خیبرپختونخوا عرصہ دراز سے مختلف مسائل، مشکلات چیلنجز، آزمائشوں اور قدرتی آفات کی زَد میں ہے۔پشتون قوم جوپہلے ہی وادی تیہ میں سرگرداں اورحیراں ماری ماری پھر رہی تھی،کبھی بم دھماکوں ،کبھی آپریشنوں،کبھی بدامنی سے نڈھال اور کبھی حکمرانوں کی بدعنوانیوں سے بدحال وپریشان۔اس پر مستزاد پے درپے قدرتی آفات اور خداوند جبار و قہار کی ناراضگی کی وجہ سے اب ایسے مقام پر پہنچ گئی ہے جہاں اس کی تب وتاب، صلاحیتیں، تعمیر وترقی، خودداری ، حمیت بلکہ زندگی اور جینے کی رمق تک اس میں باقی نہیں رہی…
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
گزشتہ ہفتے خیبر پختونخوا کے شمالی علاقہ جات بونیر ،پیربابا،سوات،باجوڑ،صوابی، گدون کو ایک ایسی خطرناک قدرتی افتاد نے آنا ً فاناً اپنی لپیٹ میں لے لیا جس کی مثال ماضی میں کے پی کے میں نہیں ملتی ہے، اگر اس سیلابِ بلا کو طوفانِ نوح ثانی کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا۔اس سیلاب کی وجہ کلاوڈ برسٹ، موسلادھار بارشیں تھیں ،اس خطرناک سیلاب سے سینکڑوں لوگ متاثر ہوئے جس میں بوڑھے،بچے، خواتین شامل تھے جو اس سیلابی ریلے میں بہہ کر شہید ہوگئے اور سینکڑوں لوگ زخمی حالت میں ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں، کافی تعداد میں ابھی تک لوگ لاپتہ ہیں جس کی تلاش میں حکومت ،فلاحی ادارے اور مقامی لوگ پیش پیش ہیں اوراپنی مدد آپ خلق خدا ایک دوسرے کی مدد کررہے ہیں،اس کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں مکانات ، دکانیں،کھیت،باغات، مال مویشی وغیرہ بھی اس بے رحم سیلاب کی نذر ہوگئے۔
سیلاب کے پانی نے لمحوں میں علاقے، شہر، دیہات اور ہزاروں گھروں کو آنِ واحد میں غرق و تباہ کردیا اور ہزاروں انسان ہمیشہ کے لئے اپنے جنت نما گھروں سے خیموں میں پہنچ گئے اور سینکڑوں ماؤں سے سیلابی ریلے نے ان کے جگر گوشوں کو اچک کر چھین لیا اور کئی جگہ تو خاندان کے خاندان سیلاب کی نذر ہوگئے، افراتفری ، نفسانفسی اور خوف کا ایسا عالم تھا کہ یوں لگتا تھا کہ نفخ صور کسی نے پھونک دیا ہو اور چند لمحے میں قیامت بپا ہونے والی ہے ۔
پوری دنیا اور بالخصوص ہمارے اس خطے میں سیلابوں کی بڑی وجہ موسمیاتی تبدیلی ہے جو ہماری فطرت دشمنی کی وجہ سے رونما ہے ،ہم اپنے بہت ہی کم نفع کی خاطر قیمتی جنگلات کو بے دریغ کاٹ رہے ہیں، بے تحاشہ فیکٹریوں کا اضافہ،ماحولیاتی وفضائی آلودگی کی کثرت ،ڈسپوزایبل کلچراور اپنے ہی اعمال بد، اخلاق قبیحہ اور انفرادی و قومی کج شعوری نے ہی ہمیں یہ روز بد دکھایا ہے۔
میں اگر کچھ سوختہ ساماں ہوں تو یہ روزِ سیاہ
خود دکھایا ہے مرے گھر کے چراغاں نے مجھے
بہرحال!سیلاب متاثرین کی حالت اور ان کی دربدری دیکھ کر دل خون کے آنسو رو رہا ہے،اس کرب اور دکھ کی گھڑی میں دینی مدارس اوردینی جماعتوں کے اہل کاروں نے متاثرین سیلاب کا مداوا کرنے کے لئے اپنی بھرپور خدمات پیش کیں اور بالخصوص جامعہ دارالعلوم حقانیہ نے الحمدللہ حسب سابق امداد و تعاون کے سلسلے میں بھرپور حصہ لیا ،یہاں کے اساتذہ و مشائخ اور طلبائے کرام سب مل کر موجودہ صورتحال میںمتاثرین سیلاب کے لئے اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، بالخصوص ’’حقانیہ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ نے امدادی کیمپ لگا کر متاثرین سیلاب کے لئے اشیائے خوردونوش و دیگر ضروریات زندگی جمع کرکے وہاں پہنچائی جارہی ہیں۔
تمام پاکستانیوں سے خاص کر اہل خیر حضرات سے گزارش ہے کہ وہ خود ان متاثرہ علاقوں کا وزٹ کریں اور وہاں کے بے بس و لاچار متاثرہ لوگوں کی تعمیر ِ نو میں ان کا بھرپور ساتھ دیںتاکہ ان کے دکھ اور درد کا مداوا ہوسکے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ شہیدوں کے درجات بلند فرمائے اور متاثرہ لوگوں کی حال پر اللہ رحم فرمائے اور ملک کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔(آمین)