پروفیسر محمد یونس خان میو
(گورنمنٹ گریجویٹ کالج آف کامرس گوجرانوالہ)
سید محبوب رضوی نے لکھا ہے کہ یہ جمعیت جن اغراض و مقاصد کے لیے قائم ہوئی ان میں سب سے اہم مقصد دارالعلوم کے اثرات کی اشاعت و ترویج اور ان کو ہمہ گیر بنانا تھا۔ اس کے ساتھ مالی امداد و اعانت بھی اس کے مقاصد میں شامل تھی نیز یہ کہ مولانا نانوتویؒ کے فلسفہ کی نشر و تعبیر اور اس کی نشر و اشاعت کا اہم کام بھی جمعیت الانصار مدینہ کے فرائض میں شامل تھا۔ (۲۴) بلاشبہ یہ جملہ اغراض و مقاصد اس تنظیم کے ہونے چاہیں اور تھے بھی کہ فضلائے دیو بند نے اس کے پلیٹ فارم سے علمی، مذہبی، قومی و ملی اور وطنی تمام ہی خدمات انجام دے رہے تھے۔شہر ہند میں اس کی شاخین کھلنے لگیں، جس کی کچھ تفصیل ’’حیات عثمانی‘‘ اور’’ ثمر التربیت سے ریشمی رومال کی تحریک تک ‘‘جیسی کتب اور مقالات میں ملتی ہیں لیکن اس سب کے باوجود اس بات سے کسی طور انکار ممکن نہیں ہے کہ اس تنظیم کے بانیوں کے پیش نظر ملک کے سیاسی حالات ضرورتھے۔ یوں یہ سارے اقدامات اسی سلسلہ کی کڑیاں نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غیر ملکی حکمران (British) الانصار کے پہلے اجلاس کی کامیابی سے چونک اٹھے (۲۵) اور ان کی نظریں دارالعلوم دیوبند کی سرگرمیوں پر مرکوز رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مدرسہ کے تحفظ اور بقا کی خاطر بانی تنظیم نے اس کو ایک اور نام سے دہلی میں منتقل کر دیا(۲۶)
ایک اور بات یاد آ رہی ہے جس سے شیخ الہندؒ کی سیاسی تحریک کے عالمگیر اثرات کا ثبوت ملتا ہے۔ وہ یہ ہے جب مولانا محمود حسن کو مکہ سے گرفتار کرکے قاسیرہ (جبزہ)لے جایا گیا جہاں سے آپ مالٹا نامی جزیرہ میں لے جا کر قید کر دیا جاتا تھا تو قاہرہ میں انگریزی حکام کی پولیس نے آپ سے ریشمی رومال خط، غالب نامہ کے علاوہ یہ وضاحت بھی چاہی کہ آپ نے دیو بند میں جمعیۃ الانصار کیوں قائم کی تھی؟ نیز ایک سوال یہ تھا کہ آپ برطانیہ کے خلاف سیاسی سازش میں شریک ہیں اور آپ فوجداری کمانڈر ہیں؟(۲۷) یہ وہ حقائق ہیں جو شیخ الہندؒ کی سیاسی جدو جہد پر مبنی ہیں۔ علاوہ ازیں خود دارالعلوم میں مولانا کے سیاسی نظریات پر تحفظات کا اظہار ہی اس امر پر دال ہے، مولانا مدنیؒ نے
اپنی خود نوشت میں اس طرف اشارہ کر دیا ہے اور ایک حاشیہ میں مولانا انور شاہ کشمیری اور مولانا عبید اللہ سندھی ؒکے سیاسی اختلاف کا عندیہ بھی موجود ہے۔ (۲۸) یہاں ایک اور رپو پیش نظر ہے جس کا تعلق ریشمی خطوط کی ڈائریکٹری سے ہے۔ اس میں ان مواد اور اداروں کی خفیہ سرگرمیوں کے بارے میں معلومات ہیں جو کسی نہ کسی طرح مولانا محمود حسن کی سیاسی تحریک سے وابستہ رہے تھے۔ یہ ڈائریکٹری برٹش سی،آئی،ڈی کی تیار کردہ دستاویز ہے جو انہوں نے اپنے ذرائع سے مرتب کی تھی، اس طرح کی رپورٹس میں اختلافی نوٹس کا آنا کوئی تعجب خیز بات نہیں ہوتی لیکن یہاں جو رپورٹ پیش کی جا رہی ہے اس کے جملہ مندرجات کی تصدیق دیگر ذرائع سے بھی ہوتی ہے نیز قرائن بھی اس پر شاہد ہیں۔ یہ شیخ الہند کی قائم کردہ انجمن طلبائے قدیم دارالعلوم دیو بند سے متعلق ہے جس کو تاریخی اور تنظیمی طور پر جمعیۃ الانصار دیو بند کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مولانا عبید اللہ سندھیؒ اس کے جنرل سیکرٹری تھے ۔ یہ ڈائریکڑی اس تنظیم اور اس کے بانیوں کے بارے میں کہتی ہے:
ایم عبید اللہ کی نظامت اور چھ سات مجروں پر مشتمل مجلس منتظمہ کے ساتھ ۱۹۰۹ء میں قائم ہوئی،(۲۹)یہ انجمن دیو بند میں تعلیم پائے ہوئے مولویوں کا انجمن کے طور پر قائم کی گئی تھی تاکہ (الف)مدرسہ دیو بند کا انتظام کرے اور اس کو بہتر بنائے۔ (ب)مدرسہ کیلئے رقم کا انتظام کرے (ج) دیو بند میں جن عقائد کی تعلیم دی جاتی ہے ان کی تبلیغ کرے اور انہیں فروغ دے اور (د)دوسرے مقامات پر ایسے ہی مدرسے قائم کرے۔
تجویز یہ تھی کہ تمام مدارس اسلامیہ کو جمعیۃ الانصار کے تحت کر دیا جائے اور دیو بند کے فارغ التحصیل مدرسوں کو ایسے تمام مدرسوں میں بھیجا جائے۔ اس کے قواعد و ضوابط تیار کیے گئے تھے (۳۰) اور اس کے سالانہ جلسے مراد آباد اور میرٹھ میں ہوئے(۳۱)تاکہ جمعیۃ الانصار کے مقاصد کی تبلیغ کی جا سکے ، لاہور کی صوفی مسجد کے ایم ابو احمد نے نائب ناظم کی حیثیت سے ۱۹۱۱ء میں چند ماہ کام کیا۔ ابتدا میں دیو بند کے مدرسہ کی ساری مجلس منتظمہ جمعیۃ الانصار کے حق میں تھی۔ جلد ہی عبید اللہ نے انگریزی پڑھے ہوئے نوجوانوں کو طالب علم بھرتی کرنا شروع کر دیا۔(۳۲) اس پر اس ادارہ نے نیم سیاسی نوعیت اختیار کر لی۔
جب جنگ بلقان شروع ہوئی اور دیو بند کے ذمہ داروں نے ترکی کی مالی امداد کے جواز کا فتوی جاری کر دیا تو اچانک جمعیۃ الانصار اپنے اصلی رنگ میں آگئی اور انتہائی متعصب سیاسی جماعت بن گئی۔ مولوی، طلبا اور دوسرے لوگ مبلغ بنا کر بھیجے جانے لگے اور ترکی کی مدد کے لیے جلال احمد کے فنڈ میں بڑی بڑی رقمیں جمع کی جانے لگیں۔(۳۳)غیر ملکی سامان کے بائیکاٹ کی تبلیغ بڑے شدومدسے کی گئی۔(۳۴) اس کی شاخ تاہم المعارف نے کلکتہ میں چندہ جمع کرنے کے سلسلہ میں بہت کافی سرگرمی دکھائی، اس پر مدرسہ کے عملہ کے سنجیدہ لوگ چوکتے ہوئے اور ایسے اختلاف پیدا ہوئے کہ عبید اللہ کو ۱۹۱۳ء میں استعفیٰ دینا پڑا۔جلد ہی اس ادارے کا جوود ختم ہو گیا۔
برٹش رپورٹ کا تنقیدی جائزہ
ریشمی رومال کی ڈائریکٹری کی اس رپورٹ پر ایک تنقیدی جائزہ مرتب کیا جا سکتا ہے۔ اس سے پندرہ صفحات کی یہ بحث نکلتی ہے لیکن یہاں اس کی بجائے اس رپورٹ پر تحقیقی اور تنقیدی حواشی مرتب کر دیئے گئے ہیں جو حضرات اس رپورٹ کی تحقیق کرنا چاہیں وہ ان حوالہ جات سے رجوع فرما سکتے ہیں۔ امید واثق ہے کہ یہ حواشی بھی اس کی مندرجات کی تصدیق کے لیے کافی ہوں گے۔ جمعیۃ الانصار کی یہ رپورٹ جامع ہونے کے ساتھ ساتھ حقائق پر مبنی نظر آتی ہے البتہ جہاں تک تعلق ہے اس رپورٹ کے آخری جملہ کا کہ اس مدرسہ کے سنجیدہ لوگ چوکتے ہوئے اور ایسے اختلاف پیدا ہوئے کہ عبیدا للہ کو استعفی دینا پڑا اور بعد ہی اس ادارے کا وجود ختم ہو گیا۔ اس سے جزوی اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ اب یہ بات بالکل واضح ہو چکی تھی کہ دارالعلوم دیو بند میں شیخ الہند ایک سیاسی نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ ثمر التربیت اور جمعیۃ الانصار جیسی تنظیمی اور مولانا عبید اللہ جیسے انقلابی علماء کی سر گرمیوں سے بھی باتیں سمجھ میں آرہی تھیں۔ اس وجہ سے اس بات کا امکان تھا کہ مجلس انصار کے وہ لوگ جو دارالعلوم دیو بند نے تعلیمی و علمی اور اصلاحی پہلو پر کام کر رہے تھے جن میں مولانا انور شاہ کشمیری ؒجیسے محدث بھی شامل تھے انہوں نے مولانا سندھیؒ کی سیاسی گرمیوں کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہو اور برٹش انٹیلی جنس کی نظر میں مدرسہ کے سنجیدہ لوگوں سے مراد ایسے حضرات ہی ہوں۔ اس بارے میں مولانا حسین احمد مدنی ؒنے بھی معنی خیز اشارہ کیا ہے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مولانا مدنی جمعیت الانصار کی اس خاص کمیٹی کے رکن تھے،جس کے ناظم مولانا سندھی ؒتھے اور جس کو نصاب ، طرز تعلیم اور نظم مدرسہ کے حوالہ مجلس خاص کا نام دیا گیا تھا۔ ان تمام امور کو پیش نظر رکھتے ہوئے مولانا مدنی کے اس تبصرہ کو پڑھیے تو بات کچھ سمجھ میں آنے لگتی ہے۔ مولانا لکھتے ہیں:واقعہ یہ ہے کہ دارالعلوم دیو بند کے ارباب کے سامنے انجام اور دارالعلوم کا بقاء و تحفظ سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ ۱۸۵۷ء کے واقعات اور اس کے بعد انگریز کی پالیسی ان کے سامنے تھی۔ انہوں نے مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی سر گرمیوں کو نہ صرف دارالعلوم دیو بند بلکہ عام مسلمانوں کے لیے خطرناک تصور کیا اور اپنے خیالات کے مطابق ضروری سمجھا کہ مولانا سندھیؒ کا تعلق اس مرکز سے نہ رہے۔ اسی زمانہ میں اتفاق سے چند علمی مسائل میں مولانا سندھیؒ اور دارالعلوم کے دوسرے علماء کے درمیان اختلاف پیدا ہو گیا، اسی اختلاف کو وجہ قرار دے کر مولانا سندھیؒ کو دارالعلوم سے علیحدہ کر دیا گیا (۳۵) چنانچہ روٹ کمیٹی کی رپورٹ میں اس کی طرف اشارہ موجود ہے۔(۳۶)اس اختلاف نے اگرچہ دارالعلوم کے اساتذہ ، ملازمین اور عام طلبہ کو حضرت مولانا سندھیؒ سے بہت زیادہ بعید کر دیا تھا(۳۷) لیکن شیخ الہند سے تعلق میں کوئی فرق نہیں آیا۔ خفیہ آمدورفت جاری رہی، رات کی اندھیری میں دیو بند کے باہرملاقاتیں ہوتی تھیں اور ضروری باتیں انجام دی جاتیں تھیں۔(۳۸)
نظارۃ المعارف دہلی اور شیخ الہند(۱۹۱۳)
برٹش رپورٹ کے جس حصے پر بات ہو رہی ہے اس کا آخری جملہ ہے جلدہی اس ادارہ کا خاتمہ ہو گیا، یہ ادار ختم نہیں ہوا بلکہ مولانا مدنی کے تحفظات کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ ادارہ دہلی منتقل ہو گیا اور شیخ الہند کی سیاسی بصیرت اور حکمت عملی کی وجہ سے اب جمعیۃ الانصار کی بجائے نظارۃ المعارف دہلی کے نام سے کام شروع کیا۔ نام کی اس تبدیلی سے بظاہر کئی حکم و اسرار تھے مثلا یہ کہ دیوبند کی نسبت کی جگہ اب دہلی کی نسبت اختیار کر لی گئی،خود مولانا سندھی نے اپنے احوال میں لکھا ہے:
حضرت شیخ الہندؒ کے ارشاد سے میرا کام دیو بند سے دہلی منتقل ہوا۔ ۱۹۱۳ء میں نظارۃ المعارف قائم ہوئی۔اس کی سر پرستی میں حضرت شیخ الہند کے ساتھ حکم اجمل خان اور نواب وقار الملک ایک ہی طرح پر شریک تھے۔ حضرت شیخ الہند نے جس طرح چار سال دیو بند میں رہ کر میرا تعارف اپنی جماعت سے کرایا تھا اسی طرح دہلی بھیج کر مجھے نوجوان طاقت سے ملانا چاہتے تھے۔ اس غرض کی تکمیل کے لیے دہلی تشریف لائے اور ڈاکٹر انصاری سے میرا تعارف کرایا اور ڈاکٹر انصاری نے مجھے مولانا ابو الکلام آزاد اور مولانا محمد علی مرحوم سے ملایا اس طرح تخمینا دو سال مسلمانان ہند کی اعلیٰ سیاسی طاقت سے واقف رہا۔(۳۹)
شیخ الہند کی تحریک کا مرکز اب دیو بند سے دہلی منتقل ہو گیا تھا۔ بظاہر یوں ہی لگتا ہے کہ اکابرین دارالعلوم نے مدرسہ کی تحفظ و بقا ایسا کرنا ضروری سمجھا ہو گا لیکن اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو اس میں بانی تحریک کے پیش نظر بہت سی سیاسی اور انتظامی مصلحتیں موجود تھیں۔ تحریک کی مقامی اور بین الاقوامی قیادت کے لیے ایک رابطہ مرکز کی بھی ضرورت ھی۔ نیز آپ کی نظر میں دہلی میں بیٹھے جدید تعلیم یافتہ طبقہ کا اعتماد بھی بہت ضروری تھا۔ چنانچہ آپ نے بڑی کامیابی سے اپنی سیاسی فکروں کو اس گروہ میں منتقل کر دیا اور اب وہ شیخ الہند کی تحریک میں برابری کی سطح پر شامل تھے۔ مولانا سندھیؒ نے ایک دوسری جگہ لکھا ہے : جب میں دہلی آیا تو مسیح الملک (حکیم اجمل خان)کی سر پرستی میں نظارۃ المعارف قائم ہوئی تو اس میں نواب وقار اور حضرت شیخ الہندؒ دونوں ایک درجہ پر شریک تھے، (۴۰) رہی بات رابطہ مرکز کی تو اس کی شہادت ریشمی خطوط کی ڈائریکٹری کی ایک رپورٹ میں ملتی ہے۔ لکھا ہے: …… بعد کی تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ ایم احمد علی(۴۱) اتحاد اسلامی کی سازش جہاد کا ایک سرگرم ممبر تھا۔ نظارۃ المعارف میں (بطور نائب ناظم)اس کی رہائش گاہ وقتا فوقتا سازشیوں کے لیے ملنے اور سازشیں گھڑے کے لیے مرکز کا کام دیتی تھی اور آزاد علاقہ کو جانے اور وہاں سے آنے والے سازشی اس میں ٹھہرا کرتے تھے۔(۴۲)
شیخ الہندؒ اور مولانا سندھیؒ اپنے اپنے راستے پر
دہلی میں مولانا سندھی ؒنے دو سال کام کیا(۴۳)اس کے بعد شیخ الہندؒ نے آپ کو افغانستان جانے کا حکم دیا۔ ایک روایت کے مطابق مولانا سندھیؒ نے اس کی وجہ بھی جاننی چاہیے۔ مولانا سندھی ؒ کی ڈائری کے مرتب لکھتے ہیں کہ: میرے عزیز مولوی عبد السیوح صاحب (فاضل دیو بند) کی روایت ہے کہ مولانا سندھی نے خود ایک مجلس میں بتایا کہ ایک دن مجھے حضرت شیخ الہندؒ نے فرمایا عبیداللہ، افغانستان چلو، میں نے پوچھا حضرت کیوں؟ اس پر حضرت شیخ خاموش ہو گئے اور زیادہ کچھ نہیں فرمایا۔ دوسرے دن پھر حضرت نے فرمایا کہ عبید اللہ افغانستان چلو۔ میں نے پھر پوچھا حضرت کیوں؟ اس پر خاموش تو ہوئے لیکن چہرے سے ناراضگی کے آثار ہی نمایاں تھے۔ اب میں بڑا پریشان ہوا اور دعائیں مانگنے لگا کہ حضرت ایک دوعہ پھر مجھے حکم دیں اور میں بلا چون و چراں تسلیم کر لوں۔ خوش قسمتی سے تیسرے دن حضرت نے پھر فرمایا عبید اللہ افغانستان چلو، میں بڑا مسرور ہوا اور تعمیل حکم کے لیے فورا تیار ہو گیا۔(۴۴)
مولانا کے اپنے بیان سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ لکھا ہے مجھے کوئی مفصل پروگرام نہیں بتایا گیا۔ اس لیے میری طبیعت اس ہجرت کو پسند نہیں کرتی تھی لیکن فیملی کے لیے جانا ضروری تھا۔(۴۵)چنانچہ آپ براستہ بلوچستان ۱۵؍اگست ۱۹۱۵کو افغانستان میں داخل ہو گئے اور پھر کابل پہنچ کر اپنا کام شروع کر دیا۔(۴۶) اس کے بعد اپنے مرشد شیخ مولانا محمود حسن سے ملاقات نہ ہو سکی کیونکہ شیخ الہند ۳۰؍نومبر ۱۹۲۰ء کو اپنے مرید ڈاکٹر مختار احمد انصاری کی کوٹھی واقع دہلی میں وفات پا چکے تھے، جب کہ مولانا سندھی جب پچیس سال کی جلا وطنی گزار نے کے بعد ہندوستان کے ساحل پر اترے تو مارچ 1939 کا سن سامنے کھڑا تھا۔ یوں تحریک آزادی ہند کے یہ دو عظیم رہنما اگست 1915 کے بعد اپنی اپنی منزلوں کی طرف رواں ہوئے۔ مولانا سندھیؒ کابل، روس، ترکی، مجاز میں مستعول رہے اور شیخ الہند مولانا محمود حسن یہ تحریک آزادی ہند کے یہ دو عظیم رہنما اگست 1905 میں اپنے اپنے فکری و عملی مخاذوں پر روانہ ہو گئے۔ مولانا سندھی کابل، روس، ترکی اور پھر حجاز میں مصروف عمل رہے اور مولانا حجاز اور پھر وہاں سے گرفتار ہو کر مالٹا پہنچے۔ ہر دو رہنماؤں کی اس سیاسی جدو جہد کا مقصد ہندوستان سے سامراج کی حکومت کو ختم کرتا تھا اور اس مقصد کیلئے عالم اسلام کو متحد کرنا اور اسکو ہندوستان کے عوام کی اخلاقی اور سیاسی مدد کرنے کیلئے قائل اور آمادہ کرتا تھا۔
شیخ الہند کی تحریک تحریک ریشمی مال
اس مقصد کے لیے مولانا محمود حسن اور ان کے رفقاء نے آزادی و حریت کے لیے جو سیاسی تاریخ رقم کی اس کو ہی مجموعی طور شیخ الہندؒ کی تحریک کہا جاتا ہے۔ تاریخی طور پر اس کو’’ تحریک ریشمی رومال‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ انگریزی سرکار کی زبان میں اس کو ریشمی خطوط سازش کیں (Silk letter conspiracy) سے تعبیر کیا جاتا ہے جو اصل میں انڈیا آفس لندن میں محفوظ ریکارڈ کا اردو ترجمہ ہے۔ رپورٹ خود اس نام کی وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہے: زیر نظرکیس کو ہم اپنی آسان کے لیے ریشمی خطوط کا کیس اس وجہ سے کہتے ہیں کہ اس بارے میں ہمیں گہری اور مکمل واقفیت اگست ۱۹۱۶ء میں ریشمی کپڑے پر لکھے ہوئے تین خطوط کے پکڑے جانے سے حاصل ہوئی ہے جو کابل میں موجود سازشیوں نے حجاز میں موجود سازشیوں کو بھیجنے کے لیے روانہ کیے تھے۔(۴۷۔۴۸) اسی رپورٹ میں ان خطو ط کی یہ تفصیل بھی درج ہے۔ یہ خطوط زرد رنگ کے ریشمی کپڑے کے تین ٹکڑوں پر میں ان میں پہلا خط عبد الرحیم کے نام ہے، یہ ٹکڑا چھ انچ لمبا اور پانچ انچ چوڑا ہے۔ دوسرا خط مولانا (محمود حسن)کے نام ہے ، دس انچ لمبا اور آٹھ انچ چوڑا ہے۔ تیسرا خط بظاہر پہلے خط ہی کے تسلسل ہیں، پندرہ انچ لمبا اور دس انچ چوڑا ہے۔(۴۹) اس رپورٹ میں یہ وضاحت بھی موجود ہے کہ یہ خط مولانا عبد اللہ سندھیؒ نے کابل سے مولانا محمود حسن کے نام لکھا جو ان دنوں حجاز کے مشن پر تھے۔ رپورٹ نے اس خط کا خلاصہ بھی نقل کیا ہے۔(۵۰) جس کا حاصل ان الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے کہ: حکومت موقۃ (۵۱) نے افغانستان سے عہد نامہ کر لیا ہے ، باقی حکومتوں کے پاس بھی سفارشیں بھیجی جار ہی ہیں۔ اس سلسلہ میں حکومت ترکیہ سے بھی ربط و ضبط پیدا کرنا منظور ہے۔ آخر میں حضرت موصوف (مولانا محمود حسن)سے درخواست کی گئی ہے کہ ربط و ضبط پیدا کرنے اور معاہدہ کرانے میں امداد دیں(۵۲) (جاری ہے)
حواشی
۲۴: تاریخ دارالعلوم دیو بند، 221/1۔ ۲۵: علمائے ہند کا شاندار ماضی، 122/1۔
۲۶: نقش حیات، 561/2۔ ۲۷: دیکھئے سفرنامہ، اسیر مالٹا، ص 79,78۔
۲۸ دیکھئے، نقش حیات، 561/2۔ ۲۹ مولانا عبید اللہ سندھی اس تنظیم کے جنرل سیکرٹری تھے لیکن چونکہ تنظیم کا ریکارڈ، اجلاس کا انعقاد وغیرہ سیکرٹری کی ذمہ داری ہوتی ہے اس عام اس عہدہ کی اہمتی کے پیش یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ تنظیم ان کی نظامت میں قائم ہوئی۔ تنظیم کے بانی اور صدر شیخ الہند ہی تھے جو مولانا سندھی کے دینی اور سیاسی قائد بھی تھے اس تنظیم کے قیام اور بانی وغیرہ کے بارے میں تاریخی روایات میں اختلاف نظر آتا ہے۔ مثلا سورج دیو بند سید محبوب رضوی نے لکھا ہے کہ یہ مولانا سندھی کی تحریک پر قائم کی گئی۔ حالانکہ ان کو شیخ الہند نے سندھ سے بلایا تھا جیسا کہ انہوں ںنے خود اپنی ڈائری میں لکھا ہے تو اس سلسلہ میں کسی اختلاف کا مثل ہونا قابل ذکر امیر نہیں ہے ۔نیز یہ کہ اس مجلس منتظمہ کی تعداد نو تھی۔جن میں مولانا انور شاہ کشمیری، حسین الامدنی، سید اصغر حسین، علامہ شبیر احمد عثمانی کے علاوہ عبید اللہ سندھی بھی تھے۔ جو رپورٹ کے مطابق ناظم جمیعۃ الانصار تھے وہ تمام تفصیلات اس دائری کی تصدیق کرتی ہیں۔ (حیات عثمانی، ص 102)یہاں جن مقاصد کا ذکر ہوا ہے۔ ۳۰: مولانا عبید اللہ سندھیؒ نے موثر الانصار مراد آباد وغیرہ کی جو رپورٹ مرتب کی تھی ان سے اس ڈائری کی تصدیق ہوتی ہے۔ جس کا حوالہ اوپر گزر چکا ہے۔ پروفیسر شیر کوٹی نے حیات عثمانی میں ا س کی کافی تفصیل جمع کر دی ہے۔ (مقالہ نگار)
۳۱: ایک دوسری جگہ پر ان حضرات میں چندہ ایک کے نام بھی ملتے ہیں۔ مثلا انیس احمد بی اے، خواجہ عبد الحئی اور قاضی ضیا الدین بی اے کو مدرسہ میں داخل کیا ان پر سیاسی رنگ چڑھا ہوا تھا ان کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ اعتدال پسند مسلم مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔(ریشمی خطوط کے کیس کا خلاصہ، مشمولہ تحریک شیخ الہند، ص 261) ۳۲: اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ شیخ الہند کے ایماپر دارالعلوم دیو بند میں حلال احمد کی شاخ قائم کی گئی اور تقریبا ایک لاکھ روپیہ استانبول بھجوایا۔ (حیات شیخ الہند، ص ۲۰۴۔
۳۳: شیخ الہند نے ترک موالات کا فتوی دیا تھا جس مولانا شبیر احمد عثمانی مرتب کردہ تھا۔ (حیات عثمانی، ص۴۰۲)
۳۴: برٹش رپورٹ میں اسی کو استعفیٰ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ (مقالہ نگار)
۳۵: مولانا مدنی روٹ کمیٹی کی رپورٹ کے جس حصہ کا ذکر رک رہے ہیں وہ ان سطور پر مشتمل ہے: عبید اللہ چاہتا تھا کہ دیو بند کے مشہور معروف فارغ التحصیل مولویوں کے ذریعہ ہندو ستان میں برطانیہ کے خلاف ایک عالمگیر اسلامی (یان اسلامک)تحریک چلائے۔ مگر مہتمم اور ارباب شوری نے اس کو اس کے چند وابستگان کو نکال کر اس کی تجویز کو درمیان میں ہی ختم کر دیا۔ (روٹ کمیٹی کی رپورٹ اور مولانا عبید اللہ سندھی، شمولہ ذاتی ڈائرہ، ص ۴۲)
۳۶: اس کے بعد کی وضاحت میں مولانا مدنی نے یہ حاشیہ لکھا ہے کہ حضرت مولانا انور شاہ صاحب مرحوم نے مولانا سندھی ؒکے نام مکہ معظمہ کے قیام کے زمانہ میں پیغام بھیجا تھا کہ قیام دیو بند کے زمانہ میں غلط فہمی کی وجہ سے میں آپ کے لیے تکلیف کا باعث بنا۔ اب میرے دل میں آپ سے کوئی رنجش نہیں ہے۔ امید ہے کہ آپ بھی معاف فرمائیں گے۔ (نقش حیات، ص ۵۰۱)
۳۷ نقش حیات، ص 562۔ ۳۸ استغاثہ مقدمہ ریشمی خطوط کی تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تنظیم یکم نومبر ۱۹۱۳ء میں قائم کی گئی تھی۔(استغاثہ بشمولہ تحریک شیخ الہند، ص ۲۴۸) ۳۹: ذاتی ڈائری،ص ۲۶۔۲۷
۴۰: ذاتی ڈائری، ص 67۔ ۴۱۔۴۲: مولانا احمد علی مولانا سندھیؒ کے شاگردوں میں سے تھے ، تحریک میں رابطہ آفسر کے طور پر کام کیا، مقدمہ ریشمی رومال کے استقاثہ میں ان کا نام بھی شامل تھا، گرفتار ہوئے بعدازاں ضمانت پر مارچ ۱۹۱۷ء میں رہا ہوئے۔ (ریشمی خطوط کی ڈائریکٹری، مشمولہ تحریک شیخ الہند، ص ۳۹۱)
۴۳: ذاتی ڈائری، ص۲۶۔ ۴۴: مولانامحمد عبد القدوس قاسمی، مقدمہ ذاتی ڈائری۔ ص ۱۴۔
۴۵: ذاتی ڈائری، ص ۲۷ ۴۶: مولانا سندھیؒ نے لکھا ہے کہ اپریل ۱۹۱۵ء کے شروع میں دہلی سے سندھ چلاآیا اور یہاں سے بلوچستان ہوتا ہوا افغانستان پہنچا، ۱۵؍اگست کی نماز مغرب سرحد افغانستان میں پڑھی۔ (ذاتی ڈائری، ص ۴۹)
۴۷: دیکھئے! ریشمی خطوط سازش کہیں رپورٹ جس مین سارا کیس مجمل طور پر بیان کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ رپورٹ انڈیا آفس لندن میں محفوظ ریکارڈ کا اردو ترجمہ ہے۔ ریکارڈ ایک ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے یہ صرف ایک سو پچیس صفحات کا ترجمہ ہے جن سے تحریک کی تاریخ کے بارے میں معلومات مرتب ہوتی ہیں۔
۴۸: تحریک شیخ الہند:( ص ۱۶۶۔۱۴۴) ۴۹: ریشمی خطوط کے کیس کا خلاصہ ، مشمولہ تحریک شیخ الہند، ص ۲۳۰
۵۰ : ریشمی خطوط سازش کیس، مشمولہ تحریک شیخ الہند، ص ۱۸۲
۵۱: ایضا، ص ۱۶۷ اس خط میں مولانا سندھی نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کی تفصیل بیان کی ہے، حکومت موقۃ ھندیہ کے ارکان کے علاوہ جنود ریانیہ کا ذکر بھی کیا گیا ہے ، خط کا خلاصہ اور اس پر تبصرہ کے لیے رپورٹ ھذا کے ۱۶۷تا ۱۷۱صفحات کا مطالعہ کیا جائے۔
۵۲: یہ ایک عارضی حکومت تھی جس کی حیثیت ایک فرضی حکومت سے زیادہ نہ تھی۔ مولاناسندھی اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ راجہ مہندر پرتاب اور مولانا برکت اللہ نے مل کر حکومت موقۃ ھند کی بنیاد ڈالی جس میں بعض جرمن اور ترک میں شامل ہوئے۔(ذاتی ڈائری، ص ۷۷ تا ۸۲ ؛ نقش حیات، ۲؍۵۸۰ )