انڈونیشین کی حکومت کی دعوت پر پاکستانی علماء ،دانشوروں کا دورہ
صبح ناشتہ کے بعد مقامی مدرسہ مدینہ العلوم کے مہتمم مولانا نانک اسماعیل صاحب ہم سے ملنے ہوٹل پہنچ گئے تھے پھر مولانا نعیم صاحب ،مولانا اسرار صاحب اور راقم جکارتہ کے لئے کمربستہ ہوگئے تھے،یوںہم بذریعہ سڑک گاڑی میں ڈھائی تین گھنٹوں میں جکارتہ کے ایئرپورٹ پہنچے، بندونگ شہر آتے ہوئے یہ راستہ بلٹ ٹرین میں ہم نے صرف چالیس منٹ میں طے کیا تھا،مولانا نعمان نعیم صاحب انٹرنیشنل لائونج میں ہم سے اتر گئے اوران کے فاضل ومخلص محب مولانا علی صاحب ہمیں لوکل ٹرمینل تک لے گئے،میں اور اسرار صاحب انڈونیشیا کے سب سے معروف ترین جزیرے ’’بالی‘‘ کے لئے روانہ ہورہے تھے کیونکہ انسان انڈونیشیا جیسے دور دراز ملک میں جائے اورپھر وہ بالی کے جزیرے نہ جائے تو یہ تعجب کی بات ہوگی…
کس کی تلاش ہے ہمیں کس کے اثر میں ہیں
جب سے چلے ہیں گھر سے مسلسل سفر میں ہیں
بالی جزیرہ سیاحت کے عالمی معیار میں غالباً پہلی پوزیشن پر ہے۔اس کو ’’پیراڈائز آف ارتھ ‘‘بھی کہتے ہیں۔انڈونیشیا کے اٹھارہ ہزار جزائر میں یہ اپنی قدرتی خوبصورتی ،محل وقوع، جغرافیہ ، پہاڑوں، ندیوں،چشموں، کھیت کھلیانوں ،تفریح گاہوں، پارکوں اور خوبصورت اور شفاف ساحلوں کی وجہ سے دلکشی و دلآویزی کا ایک حسین مرکز ہے۔ڈیڑھ دو گھنٹے کی فلائٹ کے بعد ہم بالی کے جزیرے پر اترنے والے تھے۔جہاز کی کھڑکی سے نیچے نیلگوں سمندرآنکھوں کو بہت بھلا لگ رہا تھا،ناریل کے لمبے بے شمار درختوں اور جزیرے پر قدرتی ماحول کی خوبصورتی نے ہمیں ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا۔ واقعی فطری حسن نے بالی کو دل کھول کر بہت کچھ عطا کیا ہے ۔یہاں کا ایئرپورٹ بھی بہت خوبصورت اور وسیع و عریض بنایا گیا ہے ، دنیا بھر سے ہر منٹ بعد یہاں جہاز اترتے ہیں ،یہ ایرپورٹ بہت زیادہ مصروف رہتا ہے۔ انڈونیشیا کی معیشت میں غیرملکی سیاحوں کی آمد کی وجہ سے بھی روز افزوں ترقی ہو رہی ہے ،کروڑوں اربوں ڈالرز سالانہ کی انکم صرف اس جزیرے سے انڈونیشین حکومت کو موصول ہورہی ہے۔ ایئرپورٹ پرہی دنیا بھر کے سیاحوں کو ویزا دیا جاتا ہے اور دیگر متعدد سہولیات بھی سیاحوں کو دی جاتی ہیں تاکہ سیاحت کو فروغ حاصل ہو۔حیرت کی بات یہ ہے کہ عالم اسلام کے سب سے بڑے آبادی والے ملک انڈونیشیا میں بالی جزیرے کی نوے فیصد آبادی ہندو مذہب پر مشتمل ہے اورانہیں مذہبی حوالے سے مکمل آزادی حاصل ہے۔ہر گلی اور ہر سڑک پر چھوٹے بڑے روایتی مندر بنائے گئے ہیں،اگرچہ ہندوستانی ہندومت اور انڈونیشین ہندو مت میں بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے،مگر شرک پہ یہ دونوں متفق ہیں۔
جہاز سے اتر کر امیگریشن اور سامان کی حصولی کے مراحل سے گزرنے کے بعد ہم دونوں ایئرپورٹ سے باہر نکلے تو ایک ٹیکسی کے ذریعے شہر کے مرکزی علاقہ جو سمندر کے کنارے پرواقع ہے اور زیادہ تر معیاری ہوٹل اسی جگہ پر واقع ہیں ، ہم ٹیکسی میں بیٹھے اور کچھ ہی دیر میں ہم مطلوبہ ہوٹل پہنچ گئے۔یہ ہوٹل انتہائی خوبصورت،آرام دہ اور مختلف جدید سہولیات سے آراستہ تھا ۔مغرب کی نماز کی ادائیگی کے بعد ہم کھانے کی تلاش میں نکلے،تو یہ جان کر خوشی ہوئی کہ بالی میں مشرقی کھانے یعنی ہندوستانی ریسٹورنٹس اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں جو بہت معیاری اور عمدہ قسم کے ہیں اور کچھ ان میں سے ہندوستانی مسلمانوں کی ملکیت والے بھی ہیں۔
بالی شہر کی اپنی ہی ایک خاص قسم کی روایتی تہذیب و تمدن ہے اور بالکل الگ ہی پہچان ہے، یہ دنیا بھر کے شہروں سے ہر لحاظ سے منفرد ہے۔الحمدللہ ! میںنے دنیا بھر کے درجنوں ممالک دیکھے ہیں اوراس میں سینکڑوں شہر وں اور دیہاتوں کا مشاہدہ کیا ہے مگر بالی کی مخصوص طرز تعمیر، چھوٹے چھوٹے بازاروں اور انتہائی تنگ گلیوں اور خاص قسم کی سڑکوں اور بہت بڑے بڑے خوبصورت چوراہوں پر مشتمل گرین جزیرہ نما شہر کو پہلی دفعہ دیکھاہے، بالی شہر میں مغربی سیاحوں کی آمد ورفت سب سے زیادہ ہے، اس کے بعد ہندوستانی اور تیسرے نمبر پر عرب سیاح یہاں کا رُخ کرتے ہیں،یہ شہر انڈونیشیا کی طرح انتہائی ارزاں ہے۔اس شہر کا رقبہ 5780 کلومیٹر ہے،اسکی کل آبادی تقریباً بیالیس لاکھ رہے، اسمیں ہندو 92.29%،مسلمان 5.69%، عیسائی 1.38%، بدھ مت 0.64%رہتے ہیں ،بالی کی سرکاری زبان انگریزی ہے۔
بالی جزیرے میں ہم چھ روز رہے ،یہاں پر کافی گرمی تھی،یہ جکارتہ سے بھی زیادہ گرم تھا، پاکستان میں دسمبر کے پہلے ہفتے میں ٹمپریچر 1 اور صفر کے قریب تھا اور یہاں بالی میں ۳۳ اور ۳۵ چل رہا تھا، اسی لئے سردیوں میں یورپین باشندے یہاں زیادہ آتے ہیں کہ وہاں پر تو ٹمپریچر مائنس ۲۰ اور ۲۵ تک ہوتا ہے۔ یہاں گاڑی سے لے کر ریسٹورنٹس، بازاراور ہوٹل کے کمروں میں ایئرکنڈیشنز چل رہے تھے، قدرت کے کمالات دیکھئے کہ اس وسیع و عریض کائنات میں کہیں دن ہوتا ہے تو دوسرے خطوں میں کہیں رات ہوتی ہے۔ایک علاقے میں ٹھنڈ تو دوسرے علاقے میں گرمی، بالی اور آسٹریلیا میں دسمبر جنوری میں موسم بہت گرم ہوتا ہے جبکہ جون جولائی میں وہاں ٹھنڈ پڑتی ہے۔
دوسرے دن اسرار بھائی کے ہمراہ ہم دونوں ساحل سمندر پر گئے جہاں سمندر میں مختلف قسم کی سرگرمیاں کھیلوں کی صورت میں جاری تھیں ،اسرار صاحب نے سمندر کے نیچے (یعنی تہہ میں) اترنے والے پیکج کا انتخاب کیا ، لہٰذ ہم دونوں ایک تیز رفتار بوٹ میں بیٹھ کر ایک بڑی لانچ تک پہنچے جہاں پر انہوں نے ہمیں سمندر میں نیچے اترنے کا خصوصی بھاری بھرکم لباس پہنایا ،مجھے سمندر کے نیچے پانی میں اترنے میں تردد تھا مگر مروّت میں آکر حامی بھرلی۔لانچ میں کچھ انتظار کے بعد مقامی غوطہ خور نے پہلے مجھے اشارہ کیا کہ آپ سمندر میں اترنا شروع کردیں اور پھر میرے سرپر بہت بھاری شیشہ نما ہیلمٹ کا بکسہ رکھ دیا مگر اُن سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے مجھے پورا سمجھایا نہیں اور نیچے اترتے ہوئے میرے منہ ،ناک اور حلق میں سمندر کا انتہائی نمکین اور کھارا پانی چلا گیا،ابھی میں اس جھٹکے سے سنبھلنے بھی نہیں پایا تھا کہ انہوں نے مجھے نیچے سمندر کے پانی کی تہہ میں اتار دیا ۔
نیچے سمندر میں آکسیجن کی کمی ،اندھیرے اور وحشت کے باعث مجھے اس خطرناک مہم جوئی کا بالکل بھی مزہ نہیں آیا اور اشارے سے اپنے ہمراہ آئے ہوئے مقامی غوطہ خور سے اوپر جانے کا کہا مگر اس نے اشارے سے کہاکہ ’’ابھی نہیں‘‘ تھوڑا انتظار کرو کچھ دیر میں تم نارمل ہو جاؤ گے مگر میری طبیعت نمکین پانی اور سمندری ماحول و گھٹن کے باعث پانی کے نیچے ٹھہرنے میں آمادہ نہیں ہورہی تھی لہٰذا سمندر کی تہہ میں چہل قدمی (Sea Walking)سے میں انکاری ہوگیا اور غوطہ خور کو اشارے سے کہاکہ اوپر مجھے واپس بھیج دو۔مجھ سے یہاں مزید انتظار نہیں ہوسکتا ، وہ غوطہ خور جو آکسیجن کے بغیر میرے ساتھ نیچے پانی میں کھڑا تھا،میری حالت دیکھ کر مسکرا رہاتھااور مجھے اُس پر غصہ آرہا تھا…
یہ انتظار نہ ٹھہرا کوئی بلا ٹھہری
کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھہری
دراصل غوطہ خوری تو ان کی فطرت ثانیہ بن گئی تھی،یہ لوگ بچپن ہی سے سمندروں میں تیرتے ،کھیلتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں اور ہم لوگ تو پہلی دفعہ سمندر کے نیچے اترے تھے، اس لئے یہاں ٹھہرنا اور چہل قدمی کرنا طبیعت پر بوجھل بن گئی تھی۔ خدا خدا کرکے میں جلد ہی سطح آب پر واپس آگیا اور ہیلمٹ اتار دیا،لانچ والوں نے دوبارہ آفر کی کہ کچھ دیربعد آپ کو دوبارہ لے جاتے ہیں، اس دفعہ تمہارادل نیچے لگ ہی جائے گا، مگر میں نے صاف انکار کردیا کہ اس قسم کی مہم جوئی اور گھٹن سے بھرپور تفریح سے میری توبہ۔ اس کے بعد اسرار صاحب سمندر کی تہہ میں چہل قدمی کے لئے گئے اورانہوں نے سمندر کی سیاحی مجھ سے زیادہ کی۔میں نے اس کا راز پوچھا توانہوں نے کہاکہ جب آپ ہیلمٹ پہن کر نیچے اتررہے تھے تو آپ نے کچھ غلطیاں کیں تھیں جس کا میں نے غور سے مشاہدہ کیاتھا تواس لئے میری ناک ،آنکھوں اور منہ میں نمکین پانی نہیں گیا اور میں قدرے حفاظت اور سکون سے سمندر میں اتر گیا تھا۔اس لئے انہوں نے زیادہ دیر تک نیچے مشاہدہ کیا۔پانی میں مختلف قسم کی آبی مخلوقات پھر رہی تھیں اور طرح طرح کی مچھلیاں و دیگر جانور صاف نظر آرہے تھے۔بہرحال اس خطرناک تجربے کے بعد ہم لوگ واپس ساحل پر آئے اور یہاں سے درختوں کے جھنڈ میں ایک خوبصورت ریسٹورنٹ میں دوپہرکا کھانا کھانے کے لئے رُک گئے۔یہ ریسٹورنٹ بھی ہندوستانی تھا۔ گوگل سرچ انجن کا ایک بڑا کمال یہ بھی ہے کہ شہر کی ہر چیز کے محل وقوع کے بارے میں وہ آپ کو آگاہ کردیتا ہے۔اس لئے ہمیں ہندوستانی ریسٹورنٹس کی تلاش میں زیادہ دقت نہیں رہی۔ کھانے کے بعد ٹیکسی ڈرائیور ہمیں شہر کی دوسری معروف جگہ لے گیا جہاں پر مختلف قسم کے پارک وغیرہ بنے تھے۔
یہ شہر کے بالکل دوسری جانب کا علاقہ تھا،یہاں پر اسرار صاحب نے چار پہیوں والی ہیوی موٹرسائیکل (کواڈ) کا انتخاب کیا جس میں بالی جزیرے کے جنگل،اس کے پرپیچ ، پرخطرپگڈنڈیوں، نالوں ،چشموں کے درمیان یہ موٹر سائیکل نما گاڑی ان راستوں اور گڑھوں اور ڈھلوانوں پر چلائی جاتی ہے، ہمیں ہیلمٹ پہنائے گئے اور خاص قسم کے لمبے بوٹ (جو ٹخنوں تک پاؤں کو کور کرتے تھے) ہم نے پہنے اور گھنے جنگلوں میں مہم جوئی کیلئے نکل پڑے۔ایک پائلٹ موٹر سائیکل گاڑی ہم سے آگے روانہ ہوگئی۔یہ سفر بھی ہمارا ایک نیا تجربہ تھاکہ ان پرخطر راستوں میں ہیوی موٹر سائیکل پر ہم بھٹکنے کیلئے دشت و بیاباں میں جارہے تھے۔ اسرار صاحب تو ماشاء اللہ نوجوان ہیںاوران کا دل بھی ولولوں اور جذبوں سے بھرا ہوا ہے مگر ہم جیسے لوگوں کیلئے یہ تجربات کچھ خوشگوار نہ تھے مگر مروّت میں خاموشی کے ساتھ انکے ہمراہ ہوگئے لیکن اس دوران بالی کے سفر میں سمندر اور پہاڑوں میں جب ستر اسّی سالہ یورپین و جاپانی بوڑھوں کو دیکھا کہ وہ اس عمر میں بھی مہم جوئی اور سیاحت کیلئے بالی کے جنگلوں و پُر خطر راستوں میں ٹھوکریں کھارہے ہیں اور اسے انجوائے کررہے ہیں تو میرا ذہن بھی اس طرف مائل ہوا کہ ابھی تومیں بھی جواں ہوں ۔یہ سفر بھی گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہا اور ایک خوشگوار تجربہ تھا۔بالی جزیرے کے کھیت کھلیان،کھلے میدان، ناریل کے اونچے درخت ،ہرا سبزہ،سمندر کی ہوائیں،اوپر آسمان پر بادلوں کا گشت اور نیچے زمین پر ہماری دیوہیکل موٹر سائیکل نما گاڑی پر ’’آوارہ گردی‘‘،یہ سارے حسین و دلفریب وخوش کن مناظر انسان کو ایک نئی دنیا میں لے چلے جاتے ہیں۔
سبزہ و گل موج و دریا انجم و خورشید و ماہ اِک تعلق سب سے ہے لیکن رقیبانہ مجھے
میں رات کے کھانے کے بعد چہل قدمی کیا کرتا ہوںاور پھر باہر کے ممالک میں تو کھانے کے بعد واک لازمی ہوجاتی ہے۔ چین کے سفر میں بھی یہی عادت تھی اور جکارتہ کی پررونق سڑکوں اور ویران وسنسان فٹ پاتھوں ،چوراہوں اور بالی کی ہری بھری سڑکوں پر کافی دیر تک اس شہراور ان لوگوں کی تہذیب و تمدن واخلاق کا مشاہدہ کرتا رہا اور معروف شاعر اسرار الحق مجاز کی نظم کے اشعار بھی ساتھ ساتھ لب پر آتے رہے ۔
شہر کی رات اور میں ناشاد و ناکارا پھروں
جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارا پھروں
غیر کی بستی ہے کب تک در بہ در مارا پھروں
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
یہ روپہلی چھاؤں یہ آکاش پر تاروں کا جال
جیسے صوفی کا تصور جیسے عاشق کا خیال
آہ لیکن کون جانے کون سمجھے جی کا حال
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
راستے میں رک کے دم لے لوں مری عادت نہیں
لوٹ کر واپس چلا جاؤں مری فطرت نہیں
اور کوئی ہم نوا مل جائے یہ قسمت نہیں
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
منتظر ہے ایک طوفانِ بلا میرے لیے
اب بھی جانے کتنے دروازے ہیں وا میرے لیے
پر مصیبت ہے مرا عہد وفا میرے لیے
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
جی میں آتا ہے کہ اب عہدِ وفا بھی توڑ دوں
ان کو پا سکتا ہوں میں یہ آسرا بھی توڑ دوں
ہاں مناسب ہے یہ زنجیرِ ہوا بھی توڑ دوں
اے غم دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں
دل میں اک شعلہ بھڑک اٹھا ہے آخر کیا کروں
میرا پیمانہ چھلک اٹھا ہے آخر کیا کروں
زخم سینے کا مہک اٹھا ہے آخر کیا کروں
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
جی میں آتا ہے یہ مردہ چاند تارے نوچ لوں
اس کنارے نوچ لوں اور اس کنارے نوچ لوں
ایک دو کا ذکر کیا سارے کے سارے نوچ لوں
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
گھومنے اور ٹہلنے کی یہی عادت مجھے بالی اور نوسا پنیڈا جزائز میں بھی ساحل سمندر پربھی راتوں کو بھی چہل قدمی کے لئے لے گئی۔کراچی میں بھی دوران طالب علمی دوسال پڑھنے کے دوران اکثر و بیشتر جمعہ کی رات کو ساحل سمندر پر چہل قدمی کرنے کے لئے چلا جاتا۔اسی طرح مصر میں دوران طالب علمی دریائے نیل کے کنارے پھرنا اور اسکندریہ کے ساحل سمندرکی خاک چھاننا بھی من پسند مشغلہ تھا۔اس کے علاوہ دنیا بھر کے دیگر ساحل سمندروں پر بھی جانے کا اتفاق ہوا ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ دن کے کھیل تماشوں میں وہاں دل نہیں لگتا ،نجانے کیوں رات کے اندھیروں اور سناٹوں میں سمندر کی لہروں کا شورمجھے ہمیشہ سہانا لگتا ہے، میری کوشش ہوتی ہے کہ آس پاس کوئی آدم زاد نہ ہویا کم ہوں۔ خاموشی اور تنہائی کا ماحول ہو ،دور افق پر چاندنی اور تاروں کی لو ہو اوران کا عکس پانی میں پڑتا ہو اور سمندر کی موجوں کی پیدا کردہ قدرتی موسیقی کی دھنیں ہوں ،اس قدر خوبصورت ،دلکش کیف و سرور پر مبنی مناظر میں دل کی کشتی کے بادبان ہمیشہ کھل جاتے ہیں، پانی کی مست موجوں کی مدھر آوازوں میں سارا سمندر ایک طرح سے گنگنانے لگتا ہے پھر اگر وہ انسان فطرتاً شاعر مزاج اور ادب کا طالب علم بھی ہو تو وہ اس خوبصورت فطری منظر میں ایسا کھو جاتا ہے کہ وہ کائنات کے اس خوبصورت دلچسپ کھیل پر عش عش کراٹھتا ہے…
ڈرتا ہوں پاگل ہی نہ کر ڈالیں
رات، سمندر، چاند، سفر اور یہ خاموشی
اور ایسے میں کبھی وہ صوفی کا تصور ،کبھی شاعر کا تخیل ،کبھی عاشق کی آہ اور کبھی زخمی دل کی فغاںبن جاتا ہے۔ انسان کا درد بھرا دل بھی کیا عجیب تماشگاہ ہے۔
رات بھی چاند بھی سمندر بھی
مل گئے کتنے غم گسار مجھے
بالی کے یہ چھ دن ہم نے بہت فارغ البالی اور سکون میں گزارے کیونکہ یہاں نہ میٹنگز تھیںنہ دیگر رسمی و غیر رسمی تقریبات اور نہ ہی گھربار و دیس کے جھمیلے۔یہاں شہر کے لو گ بھی بہت معصوم ،مہمانوں کی بہت عزت کرنے والے تھے اور دل و طبیعت کے اتنے نرم مزاج لوگ میںنے اور کہیں نہیں دیکھے جیسے انڈونیشن معصوم صفت لوگ ہیں ،شاید سمندروں کی نمی اور ریت کی نرمی نے ان کے خمیر میں یہ اوصاف پیدا کردئیے تھے۔
برادرم اسرار صاحب نے مجھے بتایا کہ بالی کے ساتھ ایک اور خوبصورت جزیرہ ’’نوسا‘‘ بھی ہے، وہاں بھی جانا چاہیے ،لہٰذا ہم لوگ جمعے کے دن گیارہ بجے ہوٹل سے تیار ہوکر نکلے اور ٹیکسی کے ذریعے بالی کی بندرگاہ کے قریب بنی مسجد میں نماز جمعہ پڑھنے کے لئے پہنچ گئے۔ یہ مسجد نمازیوں سے کھچاکھچ بھری ہوئی تھی مگر الحمدللہ ہمیں جگہ مل گئی ، نوے فیصد ہندوؤں کے شہر میں نماز جمعہ پڑھنے کا احساس بہت اچھا لگا۔ الحمدللہ کہ اسلام کی رونق اور بہاریں ایک مسلم کے لئے کتنی جانفزاء ہوتی ہیں۔ یہ احساس غیر مسلم ممالک اور اجنبی ماحول میں انسان کو زیادہ اچھا لگتا ہے ۔نماز جمعہ کے بعد کھانا کھایا اور پھر ہم لوگ بذریعہ لانچ نوسا جزیرے کے لئے روانہ ہوگئے، یہ لانچ جدید ترین سہولیات پر مبنی تھی،ہم سمندر میں انتہائی برق رفتاری کے ساتھ جارہے تھے لیکن یہ سفر انتہائی خطرناک تھا اور تقریباً ۴۵۔۵۰ منٹ کے لگ بھگ نوسا جزیرہ پہنچ گئے۔
نوسا پنیڈا : ایک خوبصورت منفرد جزیرہ
نوسا پنیڈا ایک منفرد و خوبصورت جزیرہ ہے جو جنوب مشرقی انڈونیشیا کے جزیرے بالی کے قریب واقع ہے اور Klungkung Regency کا ایک ضلع ہے ، نوسا پینیڈا کا اندرونی حصہ پہاڑی ہے جس کی زیادہ سے زیادہ اونچائی 524 میٹر ہے، یہ بالی کے قریبی جزیرے سے زیادہ خشک ہے اور سیاحوں کیلئے پرکشش مقامات میں سے انتہائی اہم جگہ ہے،نوساپنیڈا میں اور بھی کئی خوبصورت اور دلکش بیچ پائے جاتے ہیں جن میں معروف بیچ کیلنگ کلنگ بیچ، کرسٹل بیچ،اینجلز بلابونگ ، بروکن بیچ،ڈائمنڈ بیچ وغیرہ شامل ہیں۔
نوسا جزیرہ بہت پرسکون،بہت ہی آئیڈیل اور ناقابل یقین تک خوبصورت جگہ ہے،بالی جزیرہ میں تو سیاحوں کی بہتات، رش اور ہلہ گلہ رہتا ہے مگر نوسا پنیڈا اس سے بالکل مختلف ہے،ہم لوگوں نے بکنگ ڈاٹ کام کے ذریعے اپنے لئے ہوٹل بک کیا تھا۔ہوٹل بالکل ریت کے ساحل کے اوپر بنا ہوا تھا، سمندر کے کنارے لکڑیوں سے بنا یہ ایک خوبصورت سا بڑا سا کمرہ تھا جس کی سمندر کی طرف دیوار کی بجائے مکمل شیشہ لگا ہوا تھا،پلنگ میں بیٹھ کر ایسا محسوس ہوتاتھا کہ سمندر کمرے کے ساتھ ہی بہہ رہا ہے۔ یہ انتہائی افسانوی ،رومانوی جگہ تھی،ہمارے چھوٹے سے ہوٹل میں اس قسم کے دو تین کمرے ہی تھے۔ گیلے بیچ پر بیٹھ کر بہت مزہ آیا،رات کو بھی ہم لوگ کھانے کیلئے قریبی ریسٹورنٹ گئے جو ہر لحاظ سے منفرد، بڑے خوبصورت اور الگ انداز میں بنائے گئے تھے۔ انڈونیشیا میں سیاحت بہت بڑی انڈسٹری ہے اس لئے وہاں کے انجینئرز نے اسی مناسبت سے ہوٹلز،ریزارٹس، ریسٹورنٹس نت نئے ڈیزائن فطری ،روایتی اور مقامی ماحول کے مطابق بناتے ہیں۔نوسا کے ان شاہکار ریسٹورنٹس کا بھی جواب نہیں تھا،کھانا کھانے کے بعد ہم لوگ طویل چہل قدمی کیلئے جنگل نما جزیرے میں پھرتے رہے۔اس کے بعد واپس آکر پھر ریت کے ٹیلوں پر بیٹھ گئے۔ نوسا کا سمندر،رات کا منظر،سناٹا اور بہت ہی کم لوگ اس وجہ سے سب کچھ بہت پرسکون تھا۔ رات دیر تک اس منفرد جگہ کو دیکھتے رہے،پھر سمندر کے اسی سُروساز کے ماحول میں ہم نیند کے جزائر میں سونے کے لئے چلے گئے ۔
علی الصبح کسی موذن کی خوبصورت اذان سمندر کی لہروں کے شور کے درمیان سنائی دی تو انتہائی مسرت و خوشی ہوئی کہ الحمدللہ کہ سمندروں کے بیچوں بیچ،پہاڑوں اور جنگلوںاور دیارِ شرک میں نغمہ توحید گونج رہی ہے۔ حالانکہ بالی و نوسا میں نوے فیصد سے زیادہ لوگ ہندو ہیں پھر بھی فرزندانِ اسلام نے چراغ توحید اندھیروں کے اس نگر میں جلایا ہوا ہے۔نماز کی ادائیگی کی توفیق اللہ تعالیٰ نے بخشی اس کے بعد کچھ دیر پھر ساحل سمندر پر چہل قدمی کی کہ صبح کے پرنور وقت میں ساحل سمندر پر رات گزارنا اور صبح کی سیر کرنا زندگی کے یادگار لمحات میں سے تھا۔پھر صبح نو بجے تک آرام کیا،ناشتہ ہوٹل کی طرف سے تھا،ہم لوگوں نے ٹیکسی بک کروائی تھی۔ آج سارادن نوسا جزیرے کو دیکھنے کا پلان تھا۔توّکل کرکے ہمیں ڈرائیور ’’کیلنگ کنگ بیچ‘‘ پر لے گیا جو کافی دوری پر واقع تھا یہ ایک بلند پہاڑ، خوبصورت پرفضا مقام تھا اور نیچے سینکڑوں فٹ ساحل سمندر ’’کیلنگ کنگ بیچ‘‘ تھا۔
دوسرے دن ’’نوسا‘‘ سے ہماری ’’بالی‘‘ کے لئے روانگی تھی، ہم عصر کے بعد ساحل سمندر پہنچے اور اُسی کشتی میں سوار ہوگئے جو کشتی ہمیں لے کے آئی تھی۔شام کا وقت تھا ،کشتی یورپین اور ہندوستانی سیاحوں سے لبالب بھری ہوئی تھی،کشتی روانہ ہوئی نوسا کا جزیرہ ہم سے پیچھے کی طرف رہ گیا تھا۔ اس کے خوبصورت پہاڑ،ہریالی اور یادگارمناظرپر میں باربار میں آخری نظریں دوڑا رہاتھا۔ واقعی نوسا فطرت کا تراشا ہوا ایسا خوبصورت سمندری جزیرہ بلکہ موتی ہے جسے قدرت نے بہت توجہ کے ساتھ تراشا اور بنایا ہے۔بہرحال! مسافر کی قسمت میں آگے بڑھنا ہوتا ہے وہ پڑاؤ اورمنزلوں کا مکین و سنگِ میل نہیں بن سکتا ۔اسی اصول کے تحت ہم بھی بڑھتے چلے گئے،کچھ دیر کے بعد سمندر کی لہریں اس قدر بلند ہونا شروع ہوگئیں کہ الامان والحفیظ۔ یہ موجیں نہیں تھیں بلکہ یہ پانی کی چٹانیں اور پہاڑوں کے برابر اس کی بلندی پہنچ گئی تھی، وَ ھِیَ تَجْرِیْ بِھِمْ فِیْ مَوْجٍ کَالْجِبَالِ’’ وہ کشتی انہیں پہاڑوں جیسی موجوں میں لے کر جا رہی تھی‘‘ ہماری لانچ بلامبالغہ کئی کئی فٹ ہوا میں اچھل رہی تھی اورپھر نیچے پانی میں دھڑام سے گر جاتی ،پھرنیچے سے دوبارہ پہاڑ نما لہر اس کو اوپر کی طرف اچھال دیتی، اندھیرا بھی ہر طرف چھا رہا تھا ،کسی طوفان نوح کی مانند ہماری کشتی ہواؤںمیں ہچکولے کھارہی تھی، ہمیں لانچ میں نہ ہی حفاظتی بیلٹس پہننے کو دی گئی تھیں اورنہ ہی لائف جیکٹس۔ موت کا یہ ڈراؤنا منظر بہت قریب سے دیکھ رہے تھے اوراندھیروں اور ہچکولوں میں ہم کشتی میں دھکے کھارہے تھے۔
اَوْ کَظُلُمٰتٍ فِیْ بَحْرٍ لُّجِّیٍّ یَّغْشٰہُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِہِ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِہِ سَحَابٌ ظُلُمٰتٌ بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْضٍ اِِذَآ اَخْرَجَ یَدَہٗ لَمْ یَکَدْ یَرٰہَا وَمَنْ لَّمْ یَجْعَلِ اللّٰہُ لَہٗ نُوْرًا فَمَا لَہٗ مِنْ نُّوْرٍ (النور:۴۰)’’یا جیسے کسی گہرے سمندر میں تاریکیاں ہوں جس کو اوپر سے ایک موج نے ڈھانپ لیا ہو، اس موج پر ایک اورموج ہو، (پھر)اس (دوسری)موج پر بادل ہوں ۔ اندھیرے ہی اندھیرے ہیں ایک کے اوپر دوسرا اندھیرا ہے کہ جب کوئی اپنا ہاتھ نکالے تو اسے اپنا ہاتھ بھی دکھائی دیتا معلوم نہ ہواور جس کیلئے اللہ نور نہ بنائے اس کے لیے کوئی نور نہیں ۔‘‘ یورپین اور ہندو سیاح کشتی کی اس اچھل کود اور بقاء وفناکے خطرناک ماحول میں بھی مست و الست نظر آرہے تھے،یہ لوگ تو خوشی میں چیخ وچلا رہے تھے اورادھر ہم لوگ حیرت وخوف کے پتلے بنے ہوئے تھے کہ خدایا کس قسم کی مخلوق سے واسطہ پڑگیا ہے جو کشتی کے اس خطرناک ترین سفر میں بھی خوشیاں منا رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل ہیں۔ بہرحال ! ذکرواذکار واستغفار کا ورد زبانوں پر الحمدللہ آخر تک جاری رہا۔ اسی کی برکت سے ساحل عافیت پر اترنا نصیب ہوا۔ہمارا واپسی کا سفر انتہائی جان جوکھوں والا ثابت ہوا، کیونکہ شام کے وقت سمندر کی موجوں میں طغیانی اور انتہائی تیزی آجاتی ہے اِِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَآئُ حَمَلْنٰکُمْ فِی الْجَارِیَۃِ O لِنَجْعَلَہَا لَکُمْ تَذْکِرَۃً وَّتَعِیَہَآ اُذُنٌ وَّاعِیَۃٌ ’’جب پانی میں طغیانی آگئی تو اس وقت ہم نے تمہیں کشتی میں چڑھا لیا تاکہ اسے تمہارے لئے نصیحت اور یادگار بنادیں اور تاکہ یاد رکھنے والے کان اسے یاد رکھیں۔‘‘ خدا خدا کرکے ناخدا نے ہمیں بالی کے جزیرے پر اتار دیا۔میں نے اسرار بھائی سے کہاکہ اس قسم کی سیاحت سے آئندہ کے لئے توبہ۔وہ مجھے غصے میں دیکھ کر مسکرا رہے تھے اور مجھے کہاکہ مجھے تو اس سے پہلے بھی ایک مرتبہ نوسا جانے کا تجربہ ہوچکا تھا مگر آپکو نہیں بتایا کہ کشتی کا یہ واپسی کا سفر انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔ بہرحال! دوسرے دن مغرب تک ہم بالی کے پررونق جزیرے میں واپس آگئے تھے۔
۱۱؍دسمبر کو ہماری وطن کے لئے واپسی تھی،علی الصبح مقررہ وقت پر ایئرپورٹ کیلئے روانہ ہوگئے اور بالی سے تقریباً نو دس گھنٹوں کا ہوائی سفر طے کرکے ہم قطر کے انٹرنیشنل ائرپورٹ دوحہ میں اترے یہاں ڈھائی تین گھنٹے کا Stay تھا۔اس کے بعد رات کو یہاں سے اسلام آباد کے لئے فلائٹ تھی، الحمدللہ انڈونیشیا کا طویل ملک اور اس کا طویل سفر طے کرکے ہم لوگ اسلام آباد ایرپورٹ پر خیر وعافیت کیساتھ اتر گئے۔وطن کی مٹی کی خوشبو اور اپنائیت کے ماحول نے طویل سفر کی گرد اور تھکاوٹ لمحوں میں دور کردی اور یوں یہ سفر بخیراختتام پذیر ہوا۔
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب ہم نے اس دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا