دارالعلوم حقانیہ میں تقریب ختم بخاری و دستاربندی

قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کی خصوصی شرکت اور خطاب

مولانا راشدا لحق سمیع”

مدیراعلیٰ ماہنامہ ’’الحق‘‘

اس سال بھی حسب سابق ۲۰؍جنوری ۲۰۲۵ء بروز پیر جامعہ دارالعلوم حقانیہ میں تقریب ختم بخاری و دستاربندی کی مختصر مگر پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا۔سیکورٹی و دیگر عوارض کی بناء پر دستار بندی کی تاریخ کا اعلان پہلے سے نہیں کیا گیا تھا،صرف چند گھنٹے قبل فضلائے کرام کو مطلع کیا گیا کہ ظہر کے بعد آپ کی دستار بندی ہورہی ہے پھر بھی ماشاء اللہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع ہوگئے تھے اور دارالعلوم کی علمی و روحانی رونقیں دوبالا ہوگئی تھیں۔
دارالعلوم حقانیہ سے فارغ التحصیل علمائے کرام کی تعداد اس سال ۱۶۰۰ رہی، فارغ التحصیل ہونے والوں میں شعبہ درس نظامی ،شعبہ تخصصات، شعبہ حفظ ، شعبہ بنات سمیت متعدد شعبوں میں ڈگریاں مکمل کرنے والے فضلائے کرام شامل تھے،اس پروقار تقریب میں حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب نے فارغ التحصیل طلبہ کو مبارکباد پیش کی اور ان کو مستقبل میں پیش آنے والے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے رہنمااصول بتائے اور وعظ و نصیحت بھی فرمائی۔انہوں نے علمائے کرام پرزور دیا کہ عصر حاضر کے فتنوں سے بچنے کے لئے باہمی اتفاق و اتحاد ضروری ہے، آپ نے وحدت امت اور وحدت جماعت کے قیام پر زور دیا تاکہ افتراق وانتشار سے بچا جائے۔ انہوں نے کہا کہ میں دارالعلوم حقانیہ میں آٹھ سال پڑھا ہوں اوریہیں سے فارغ التحصیل بھی ہوں، میں خود کو دارالعلوم میں مہمان خصوصی نہیں سمجھتا۔(آپ کا تفصیلی خطاب اداریہ کے بعد ملاحظہ ہو)
اس پرنورتقریب میں بخاری شریف کی آخری حدیث کا درس مہتمم جامعہ شیخ الحدیث حضرت مولانا انوار الحق صاحب نے دیا اور فارغ التحصیل ہونے والے طلبائے کرام کو قیمتی نصائح سے نوازا۔
تقریب سے جامعہ کے نائب مہتمم مولانا حامد الحق حقانی صاحب نے ترحیبی کلمات ارشاد فرمائے اور حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کی تشریف آوری پر ان کا خصوصی شکریہ ادا کیا اور آپکی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا، آپ نے فضلاء سے خطاب میں فرمایا کہ دینی مدارس سے مسلمانوں کا تشخص اور اسلامی شعور زندہ ہے، اس شعور، خودداری، جذبہ حریت اور اپنے تہذیب اور مذہب کا دفاع ہی مسلمانوں کا اصل سرمایہ ہے جو ان مدارس کی تعلیم کا مرہون منت ہے۔ تقریب کے اختتام پر دارالعلوم کے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد ادریس ترنگزئ صاحب نے ملک عزیز پاکستان میں امن و استحکام اور خوشحالی،امت مسلمہ کی وحدت اور اہل اسلام کے لئے خصوصی طورپر دعاؤں کا اہتمام کیا، تقریب میں جامعہ کے شیوخ واساتذہ اور اہل علاقہ نے کثیر تعداد میں شرکت کی، بعدازاں مولانا حامد الحق حقانی صاحب کی رہائش گاہ پر حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب مدظلہ تشریف لے گئے اورانہوں نے برادرم مولانا حامد الحق حقانی اور راقم (مولانا راشد الحق سمیع) سے خصوصی ملاقات فرمائی جس میں ملکی و بین الاقوامی امور پر تبادلہ خیال ہوا۔
حضرت والد صاحب شہیدؒ کی زندگی پر حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب دارالعلوم حقانیہ اور ہماری رہائش گاہ پر تشریف لاتے رہے ہیں ، ہمیشہ ہر قسم کے حالات اورسیاسی اختلاف رائے کے باوجود رشتہ الفت و محبت میں کوئی کمی نہیں کی اور پھر حضرت والد صاحب کی شہادت کے بعد بھی آپ نے یہ سلسلہ برقرار رکھا ہوا ہے اور مسلسل ہماری سرپرستی و دلجوئی فرماتے رہتے ہیں۔حضرت والد ماجد مولانا سمیع الحق ؒکی شہادت کے پہلے سال ۲۸ مارچ ۲۰۱۹ء میں آپ دارالعلوم کی تقریب دستاربندی میں تشریف لائے تھے اور آپ نے بڑا اہم و پرمغز خطاب فرمایاتھا کہ :
’’میرا تعلق بھی دارالعلوم حقانیہ سے ہی ہے،یہیں سے فارغ التحصیل ہوں اور حضرت مولانا عبدالحق ؒ اور حضرت مولانا سمیع الحق شہید ؒ سے بہت ہی پراناو دیرینہ تعلق رہا ہے ، میں نے سوچا کہ اس دفعہ طلباء و فضلاء حضرت مولانا سمیع الحق شہید ؒ کی جدائی پر افسردہ ہوں گے،میری شرکت سے ان کی ڈھارس بندھ جائے گی اوران قوتوں کو بھی یہ پیغام دوں کہ جامعہ حقانیہ حضرت مولانا کی شہادت کے بعد اکیلا اور کمزور نہیں بلکہ تمام امت ، قوم اور جمعیت علمائے اسلام اس کی پشت پر کھڑے ہیں۔‘‘
قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب مدظلہ کے دارالعلوم حقانیہ اور حضرت مولانا عبدالحق ؒ و اساتذہ کرام کے متعلق جذبات واحساسات ہمیشہ سے نہایت مخلصانہ رہے ہیں۔اس وقت مسلک دیوبند کی تمام تنظیموں ،جماعتوں، وفاق المدارس العربیہ، ختم نبوتؐ اور دیگر مذہبی جماعتوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضرت مولانا مدظلہ نے دینی مدارس کا مقدمہ ،پارلیمنٹ ہاؤس سے منظور کرا کر اورعقیدہ ختم نبوتؐ کا سپریم کورٹ میں دفاع و تحفظ جیسے دیگر اہم قومی و بین الاقومی اسلامی و سیاسی معاملات پر بڑے جرات مندانہ و قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔آپ دارالعلوم حقانیہ کے قابل فخر فاضل وفرزند رشید ہیں جو اس وقت پورے ملک میں مذہبی و سیاسی جماعتوں کے مسلّم رہنما ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب مدظلہ کو بہت سی متعدد بے مثل خوبیوں وصفات سے نوازا ہے، آپ سیاسی و علمی قابلیت، بے مثل قادر الکلامی اور عقل و برہان کی اوج ثریا پر فائز شخصیت ہیں۔ حضرت والدماجدؒ کی شہادت کے بعد اگر میرے بس ودائرہ اختیار میں ہوتا تو میں حضرت حسنؓ کی اتباع کرتے ہوئے سیاسی اختلاف رائے اور تفریق کو بالائے طاق رکھ کر فوری باہمی سیاسی و جماعتی ہم آہنگی ویکجہتی کو ہی ترجیح دیتا کیونکہ یہ سب کی ایک دیرینہ تمنا اورتشنہ آرزو رہی ہے، اس آرزو کی تکمیل و شرح کا عنوان ’’باہمی وحدت ،اتحاد و انضمام ‘‘سے زیادہ معنی خیز کوئی نہیں ہو سکتا۔ اتفاق واتحاد میں مسلک دیوبند کی مضبوطی،دینی ملکی سیاست میں علماء کی بھرپورکامیابی اور عالمی وبیرونی دشمنوں سے ملک اور دین و مسلک کی حفاظت کا راز مضمر ہے۔
میری ہمیشہ سے یہ ذاتی خواہش ہے کہ جمعیت علمائے اسلام کے دونوں گروپ فوری طور پر یکجا ہوں اور مل جل کر پاکستان میں نفاذ اسلام کے غلبے اور ملکی سیاست میں اپنی مشترکہ جدوجہد کو بروئے کار لائیں ۔ وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا۔