شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ کی حقانیہ آمد

حضرت مولانا حامد الحق حقانی کی شہادت پر اظہار تعزیت

شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ کی حقانیہ آمد
 حضرت مولانا حامد الحق حقانی کی شہادت پر اظہار تعزیت
مولانا راشد الحق سمیع اور مولانا عبدالحق ثانی کی دستار بندی
عالمِ اسلام کی عظیم علمی و روحانی شخصیت، صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان، شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے ۹؍اپریل ۲۰۲۵ء بروز بدھ حضرت مولانا حامد الحق شہیدؒ کی شہادت پر اظہار تعزیت کے لیے جامعہ دارالعلوم حقانیہ کا خصوصی دورہ فرمایا اور مولانا راشدا لحق سمیع صاحب کی رہائش گاہ پر چار گھنٹے طویل قیام فرمایا،آپ نے اس موقع پر خانوادہ حقانی کے تمام افراد سے تعزیت کی اور حضرت مولانا حامد الحق حقانی شہیدؒ کی دینی، علمی، سیاسی اور قومی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’حضرت مولانا حامد الحق شہیدؒ نہ صرف اپنے عظیم والد حضرت مولانا سمیع الحق شہیدؒ کے سچے جانشین تھے بلکہ ایک باکردار، باصلاحیت اور دور اندیش عالمِ دین، مفکر اور سیاسی رہنماء بھی تھے، ان کی شہادت ایک عظیم سانحہ ہے جو نہ صرف خانوادہ حقانی بلکہ پوری امتِ مسلمہ کے لئے باعثِ غم ہے، حضرت مولانا سمیع الحق شہید ؒ کی دینی ،علمی، سیاسی اور ملی خدمات کسی پر مخفی نہیں، حضرت مولانا سمیع الحق شہیدؒ کے ساتھ میرا دیرینہ و برادرانہ تعلق اور عقیدت ومحبت کا رشتہ تھا۔‘‘
اس موقع پر جامعہ دارالعلوم حقانیہ کے مہتمم حضرت مولانا انوار الحق صاحب مدظلہ ،مولانا راشد الحق سمیع نائب مہتمم جامعہ حقانیہ ، مولانا عبدالحق ثانی فرزند مولانا حامد الحق شہیدؒ ، مولانا عرفان الحق، مولانا لقمان الحق ، مولانا اسامہ سمیع، مولانا خزیمہ سمیع،مولانا بلال الحق، صاحبزادہ محمد احمد، صاحبزادہ محمد عمر،دارالعلوم کے اساتذہ کرام سمیت دیگر مہمان افراد بھی موجود تھے۔ حضرت شیخ الاسلام کے ہمراہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صوبائی ذمہ داران حضرت مولانا حسین احمد صاحب، حضرت مولانا عبدالبصیر شاہ صاحب و دیگر ہمراہ تھے، جنہوں نے جامعہ کے مہتممین اور اساتذہ کرام سے ملاقات کی اور ادارے کی دینی و علمی خدمات کو سراہا۔ اس موقع پر اتحادِ امت، دینی مدارس کی خدمات اور شہدائے اسلام کے مشن کو آگے بڑھانے کے عزم کا اعادہ بھی کیا گیا۔ حضرت شیخ الاسلام صاحب نے خانوادہ حقانی کو صبر و تسلی دی اور شہدائے سانحہ حقانیہ،حضرت مولانا حامد الحق حقانی شہیدؒ کے درجات کی بلندی، جامعہ کی ترقی، خانوادہ حقانی کی حفاظت اور ملک و ملت کی سلامتی کیلئے  خصوصی دعا بھی فرمائی۔بعد ازاں آپ نے تمام خانوادہ حقانی اور علماء کی کثیر تعدادکی موجودگی میں مولانا راشد الحق سمیع صاحب کی بطور نائب مہتمم دستاربندی فرمائی اور انہیں دارالعلوم حقانیہ کی نئی ذمہ داریاں سنبھالنے پر اپنی خصوصی دعاؤں سے نوازا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حضرت مولانا سمیع الحق شہیدؒ کا علمی و ادبی ورثے کا جانشین بنایا ہے۔ اسی طرح حضرت مفتی صاحب مدظلہ نے مولانا عبدالحق ثانی کی بھی مولانا حامد الحق شہیدؒ کی سیاسی جانشین کے طور پر دستاربندی کی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے آپ دونوں کو اپنے آباؤاجداد کا صحیح وارث بنائے۔ (آمین)
___________________
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کا مفصل خطاب
ضبط و ترتیب : مولانا اسامہ سمیع
خطبہ مسنونہ کے بعد! حضرت مولانا حامد الحق صاحب ؒکی شہادت کا جو واقعہ پیش آیا یہ دارالعلوم حقانیہ کی عظیم تاریخ کا عظیم واقعہ ہے ،اللہ تبارک و تعالیٰ نے دارالعلوم حقانیہ کو ایک مرکز فیض بنایا، حضرت گرامی قدر مولانا عبدالحق صاحب قدس سرہ اللہ کے روحانی فیوض کا ایسا مرکز بنایا جس کی روشنی اور اس کی شعائیں صرف اس علاقے میں نہیں، صرف پاکستان میں نہیں صرف افغانستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا کے اندر پھیلی، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اللہ نے اس کو جہاں علم کا، تحقیق کا، عمل کا مرکز بنایا وہاں اللہ تبارک و تعالیٰ نے جہاد فی سبیل اللہ اور اس کے راستے میں شہادتوں کا بھی ایک نمونہ اور ایک بہت بڑا امتیاز عطا ء فرمایا، میرے بہت ہی عزیز اور محترم بھائی حضرت مولانا سمیع الحق صاحبؒ (اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے ان کو مقعد صدق میں اپنا جگہ عطا فرمائے ) میرے بہت ہی محبوب دوست بھی تھے، بھائی بھی تھے ،پیارے بھی تھے اور ان کے ساتھ میرا بہت ہی زیادہ قریبی اوربے تکلف تعلق تھا، اللہ تعالیٰ نے ان کو مجھ سے ہمیشہ آگے رکھا، علم میں بھی، عمل میں بھی، جہاد میں بھی اور پھر شہادت میں بھی، میں بھی بچپن سے یہ دعا کرتا تھا کہ یا اللہ! مجھے بھی مجاہد کی زندگی اور شہید کی موت عطا فرما لیکن وہ مجھ سے ہمیشہ آگے رہے، (ماشاء اللہ) اور شہادت کاعظیم مقام بھی انہوں نے حاصل کیا اور میں دیکھتا رہ گیا اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو اولاد بھی ایسی بخشی  جنہوں نے اُن کے مشن کو جاری رکھا، ان کا علمی، تعلیمی و تحقیقی اور ادبی ذوق ان کے وارثوں (مولانا راشد الحق سمیع وغیرہ )کی طرف منتقل ہوا ،پھر مولانا حامد الحق صاحبؒ نے ان کا جو جذبہ جہاد تھا ان کا جو سیاسی میدان کے اندر شریعت کی بالادستی قائم کرنے کا جو جذبہ تھا اس کو برقرار رکھا اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ سعادت بھی ان کو عطاء فرمائی کہ اسی راہ میں جو شہادت کا مقام ان کے والد کو اللہ تعالیٰ عطاء فرمایا تھا، ان کے خلف صدق کو بھی وہ مقام عطا فرمایا اور اس طرح عطاء فرمایا کہ دنیا دنگ رہ گئی ،اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی شہادت کے عظیم مرتبے پر رمضان کا مقدس مہینے میں فائز کردیا اور ایسے وقت میں اس کی ہمیں اطلاع ملی کہ جب رمضان کی ساعتیں تھیں، میرا دل تو چاہتا تھا کہ اُڑ کر کسی طرح یہاں پہنچ جاؤں لیکن اپنی عمر اپنے ضعف اور رمضان میں سفر کرنا مشکل ہونے کی وجہ سے میں خود حاضری سے قاصر رہا الحمدللہ میرے بہت ہی عزیز ساتھی مولانا ابراہیم سکر گاہی صاحب میرے نمائندے کے طور پر یہاں حاضر ہوئے تھے، ان سے حالات بھی معلوم ہوئے اس وقت مولانا انوار الحق صاحب سے ٹیلی فون پر بات ہوئی اور ان سے حالات معلوم ہوئے تھے لیکن مولانا ابراہیم صاحب سے زیادہ تفصیل کے ساتھ حالات معلوم کئے اور اسی وقت سے چاہتا تھا کہ یہاں پر حاضری دوں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ مولانا حامد الحق صاحب کو شہادت کا اعلیٰ مقام عطاء کرنے کے ساتھ ان کی خدمات کو، ان کی جدوجہد کو، ان کے جو علمی اور عملی کارنامے ہیں، اس کو اپنی بارگاہ میں شرف قبول عطا فرمائے اور جو راستہ حضرت مولانا عبدالحق صاحبؒ نے اور ان کے صاحبزادگان نے خاص طور پرحضرت مولانا سمیع الحق صاحب شہیدؒ نے اختیار کیا اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔
اس بات سے بہت ہی خوشی ہوئی کہ حضرت مولانا حامد الحق صاحب کی وفات کے بعد ان کے فاضل صاحبزادے عبدالحق ثانی کو ان کا جانشین بنایا گیا، خاص طور پر ان کی جدوجہد کے سلسلے میں اور میں نے ان کا انٹرویو بھی سنا اور اس سے اندازہ ہوا کہ الحمدللہ وہ ایک ایسا اپنا جانشین چھوڑ کر گئے ہیں کہ جو بہت ہی متوازن فکر کے ساتھ اور اعتدال کی سوچ کے ساتھ ان کے مشن کو آگے بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں، میری دل سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے حضرت مولانا حامد الحق صاحبؒ کو درجات عالیہ جنت الفردوس میں عطا فرمائے۔ حضرت مولانا انوار الحق صاحب دامت برکاتہم العالیہ کا سایہ ہمارے اوپر سلامت رکھے عافیت کے ساتھ ،صحت کے ساتھ، ان کے فیوض جاری رکھے اور علماء طلباء ان کے فیوض سے سیراب ہوتے رہے، ان کو ہمیشہ مولانا عبدالحق ؒ کے فیوض پہنچانے کا بہترین وسیلہ بنائے رکھے اور حضرت مولانا حامد الحق صاحب کے صاحبزادے مولانا عبدالحق ثانی کو اور انکے چھوٹے بھائی کو اسی خانوادے کا ایک عظیم فرد بنا کر دین کی خدمت میں مصروف رکھیں اور دارالعلوم حقانیہ جو ہمارے لیے بہت بڑا روشنی کا مینار ہے،اس کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے اور اس کے اندر اس کے فیوض میں اور زیادہ ترقی عطا فرمائے یہاں کے اساتذہ اور طلبہ کو اس اخلاص کا اور اس تواضع کا حصہ عطا فرمائے جو حضرت مولانا عبدالحق قدس سرہ کا طرہ امتیاز تھا علم میں بھی ،تحقیق میں بھی ،عمل میں بھی ،رجوع الی اللہ میں بھی، رضائے الٰہی کے حصول کی کوشش میں بھی اللہ تعالیٰ حقانیہ کو اور اس کے تمام اساتذہ کرام کو اور تمام طلبہ کو اسی مشن کو آگے بڑھاتے رہنے کی توفیق عطاء فرمائے اس کی صلاحیت بھی عطاء فرمائے اس کے اسباب بھی عطاء فرمائے اور یہ روشنی کا عظیم مینار مسلسل اپنی روشنی پھیلاتا رہے اور یہاں پر علم کا، حکمت کا، جہاد فی سبیل اللہ کا پرچم لہراتے رہے (آمین)افسوس ہے کہ اتنے بڑے بڑے حادثات ہمارے ملک میں ہو جاتے ہیں اور ان کے قاتلوں کا اور ان فتنہ پردازوں کا سراغ نہیں لگایا جا سکتا، حضرت مولانا سمیع الحق صاحب شہیدؒ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، آج چھ سال ہو چکے ہیں اور ان کے بارے میں کوئی سراغ نہیں لگ پایا اور اب مولانا حامد الحق صاحبؒ کا اتنا بڑا حادثہ پیش آیا، اس کا بھی کوئی سراغ نہیں لگا اور جتنے بھی علمائے کرام آج تک شہید ہوئے، پاکستان کی خاطر شہید ہوئے پاکستان کی آزادی راستے میں شہید ہوئے، پاکستان کو صحیح معنی میں اسلامی ریاست بنانے کی جدوجہد میں شہید ہوئے، انہوں نے پاکستان کی خاطر ان دشمنوں سے دشمنی مول لی جو پاکستان کو مٹانا چاہتے ہیں، یا پاکستان کے اوپر حملہ آور ہیں،انہوں نے اپنی جان پر کھیل کر پاکستان کی حفاظت کی اور وہ اسی راہ میں شہید ہوئے لیکن افسوس ہے کہ کسی ایک کا بھی سراغ نہیں لگ سکا کہ ان کے قاتل کون ہے؟ یہ حکومت کے لیے بھی اور ہماری سراغ رساں ایجنسیوں کے لیے بھی اتنا بڑا چیلنج ہے اور اتنی بڑی افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ملک کے اندر اتنی بڑی بڑی شخصیتیں اس طرح چلتے چلتے شہید ہو جائیں اور کسی کا پتہ نہ لگ سکے جس کے پیچھے قاتل کون ہے اور کون سے لوگ اس کے پیچھے کام کر رہی ہیں؟ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے اور حکومت اور ہماری ایجنسیوں کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے اگر اس چیلنج کو انہوں نے قبول نہ کیا اور ٹھنڈے پیٹوں اس قسم کے حادثات کو برداشت کرتے رہے تو یہ سلسلہ رکنے والا نہیں ہے، بے شک علمائے کرام پاکستان کے لیے اور دین کے لیے اپنی جان قربان کرنے کے لیے تیار ہیں اور رہیں گے لیکن یہ کتنی بڑی شرم کی بات ہوگی کہ ان میں سے کسی ایک کے قاتل کو بھی پکڑا نہ جا سکے اور اس سے اس بربریت کا بدلہ نہ لیا جا سکے ، اللہ تبارک و تعالیٰ حکومت کو بھی اور متعلقہ اداروں کو بھی توفیق عطا فرمائے کہ وہ اس کا صحیح سراغ لگا کر جو اس کی ذمہ دار ہیں ان کو کیفر کردار تک پہنچائیں اور لوگوں کو یہ بات واضح ہو کہ علماء کو قتل کرنا اتنا آسان کام نہیں ہے اس سے نتائج کتنے ہولناک ہو سکتے ہیں ؟
قومی کانفرنس میں مولاناحامد الحق ؒ کی تحقیقات کے حوالے سے شیخ الاسلام صاحب کا خطاب
اسی طرح شیخ الاسلام صاحب نے قومی کانفرنس براے فلسطین ۱۰؍اپریل ۲۰۲۵ء کنونشن سنٹر اسلام آباد میں بھی ایک بڑے نمائندہ اجتماع کے موقع پر مولانا حامد الحق صاحبؒ اوردارالعلوم حقانیہ کے بارے میں ان تاثرات کا اظہار فرمایا:
’’رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں جامعہ دارالعلوم حقانیہ جیسا اتنا بڑا عظیم ادارہ جس کے بارے میں حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کہتے ہیں کہ یہ میری مادر علمی ہے،اس مدرسہ کے اندر گھس کر اس کی مسجد کے پاس جاکر وہاں حضرت مولانا عبدالحق ؒ کے پوتے، حضرت مولانا سمیع الحق شہید ؒ کے بیٹے حضرت مولانا حامد الحق ؒکو شہید کردیا گیا اور آج تک معلوم نہ ہوسکا،حالانکہ قاتل کا سر بھی مل گیا لیکن پھر بھی آج تک پتہ نہ چل سکا کہ قاتل کون ہے؟ ہم جو فلسطین وغیرہ پر آواز اٹھاتے ہیں دراصل ہم سے اس کا بدلہ لیا جارہا ہے کہ اس طرح تم بھی ہمارے نشانے پر ہو لیکن ہماری حکومت اور ایجنسیوں کو نوٹس لینا چاہیے کہ جو لوگ اس سازش میں ملوث ہیں انہیں بے نقاب کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔‘‘
___________________________
نامور دانشور ،ممتاز محقق پروفیسر خورشید احمد صاحبؒ کا سانحہ ارتحال
جماعت اسلامی کے مرکزی رہنماء ،نامور محقق و دانشور محترم جناب پروفیسر خورشید احمد صاحبؒ ۹۳سال کی عمر میں برطانیہ کے شہر لیسٹر میں بروز اتوار ۱۳؍اپریل ۲۰۲۵کو انتقال کر گئے(انا للہ وانا الیہ راجعون)
پروفیسر خورشید احمد صاحب پاکستان کے نامور عالم، ماہر معاشیات، صاحب بصیرت سیاستدان اور جماعت اسلامی کے قدیم مرکزی رہنماؤں میں سے تھے،مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے بعد سب سے زیادہ آپ نے دنیا بھر میں علمی ،تحقیقی اور فکری مراکز قائم کئے۔ آپ ایک ایسی باکمال ہشت پہلو شخصیت کے مالک تھے کہ جنہوں نے اپنی زندگی دین کی خدمت، علم کے فروغ، معاشی انصاف، تحقیق، تعلیم، سیاست اور سماجی بہبود اور اسلامی فکر کے فروغ کے لئے وقف کر دی تھی، ان کی علمی، سیاسی اور دینی خدمات نے پاکستان اور عالم اسلام میں گہرے نقوش چھوڑے، وہ مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ کے قریبی ساتھیوں اور تلامذہ میں سے تھے۔ اسلامی معاشیات کے فروغ میں ان کا کردار نمایاں رہا، وہ نہ صرف ایک ماہر معاشیات، فلسفی اور سیاستدان تھے بلکہ ایک نامور دانشور اور جماعت اسلامی کے فکری رہنما بھی تھے، ان کی زندگی کا سفر، جدوجہد اور کارنامے امت مسلمہ کے لئے ایک روشن مثال ہیں، آپ نے کراچی یونیورسٹی سے معاشیات اور اسلامیات میں ماسٹر اور برطانیہ کی لیسٹر یونیورسٹی سے معاشیات میں پی ایچ ڈی مکمل کی تھیں، ان کی ڈاکٹریٹ کا مقالہ اسلامی معاشیات پر تھا، جو اس وقت ایک نیا اور اہم موضوع تھا۔
آپ دور طالبعلمی سے مولانا سید ابو الاعلی مودودیؒ کے افکار و نظریات سے متاثر ہوئے، بعد میں جماعت کے نظریاتی اور دعوتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنی علمی صلاحیتوں سے جماعت اسلامی کو تقویت بخشی، آپ جماعت اسلامی کے نائب امیر کے عہدے پر بھی فائز رہے اور اپنی فکری دانشمندی وسعت ظرفی اور اعتدال پسندی سے جماعت کو نئی جہتیں عطاء کیں، آپ جماعت اسلامی کے ترجمان رسالے ’’عالمی ترجمان القرآن‘‘لاہور کے مدیر رہے، اسکے علاوہ بھی کئی دینی و تحقیقی مجلات کی ادارت فرماتے رہے۔
پروفیسر خورشید احمدصاحب نے اسلامی معاشیات کو ایک تعلیمی نظم و ضبط کے طور پر متعارف کرانے میں کلیدی کردار ادا کیااور معاشیات کے مغربی ماڈلز کے مقابلے میں اسلام کے معاشی اصولوں کو اجاگر کیا اور انہیں عصری تقاضوں کے مطابق پیش کیا، آپکو پاکستان میں اسلامی معاشیات کے بانیوں میں سے ایک سمجھا جاتا تھا، آپ نے اسلامی بینکنگ اور مالیاتی نظام کے فروغ کیلئے بہت زیادہ کام کئے، معاشیات پر آپکی کتابیں ’’اسلامی معاشیات کے بنیادی اصول‘‘ اور’’اسلام اور مغربی معاشی نظام‘‘ نے عالمی سطح پر پذیرائی حاصل کی، اسکے علاوہ دیگر موضوعات پر بھی آپکی کتابوں جیسے کہ’’اسلامی نظریہ حیات‘‘،’’ ترقیاتی پالیسی کی اسلامی تشکیل‘‘ اور’’امریکہ اور مسلم دنیا کی بے اطمینانی‘‘کو بھی علمی دنیا میں پذیرائی حاصل ہے، آپ نے علمی و تحقیقی جستجو کے تحت ’’انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز‘‘اسلام آباد کی بنیاد رکھی جو ایک اہم تھنک ٹینک کے طور پر پاکستان کی فکری ترقی میں کردار ادا کرتا ہے اور’’اسلامک فاونڈیشن ‘‘ لیسٹر کے قیام میں بھی آپ نے اہم کردار ادا کیا ہے جو لندن میں اسلامی تحقیق اور تعلیم کا ایک اہم مرکز ہے۔
آپ ایوان بالا (سینیٹ) کے ۲۰۰۲۔۲۰۱۲ء تک رکن رہے اور سیاسی میدان میں اسلامی اصولوں کی ترویج کے لیے سرگرم رہے اور سینٹ میں جماعت اسلامی کی نمائندگی کرتے ہوئے اسلامی دفعات کے اندراج کیلئے کردار ادا کیا، وہ ہمیشہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ پاکستان کا سیاسی نظام اسلامی اقدار پر مبنی ہونا چاہیے، ان کی سیاسی جدوجہد کا مقصد پاکستان کو ایک مثالی اسلامی فلاحی ریاست بنانا تھا۔ پروفیسر صاحبؒ اور حضرت والد ماجد حضرت مولانا سمیع الحق شہیدؒ کے درمیان گہرے فکری، علمی، ادبی اور سیاسی مراسم و تعلقات تھے،جماعت اسلامی میں حضرت قاضی حسین احمد مرحوم ،پروفیسر خورشید احمد مرحوم اور منور حسن مرحوم کے ساتھ حضرت والد ماجدؒ کی کئی دینی و سیاسی امور میں ہم آہنگی تھی اور مختلف تحریکات میں شانہ بشانہ جدوجہد فرماتے رہے ۔ جب حضرت والد ماجد’’مکاتیب مشاہیر‘‘مرتب فرمارہے تھے توان میں پروفیسر صاحب کے خطوط بھی شامل تھے جن پر حضرت والد شہیدؒ نے تعارفی نوٹ (حاشیہ) بھی لکھا:
’’سینیٹر پروفیسر خورشید احمد مشہورماہرمعاشیات وقانون ،جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر،سالہا سال سے سینیٹ کے کولیگ ہیں۔‘‘
حضرت والد ماجد اور آپ کے درمیان یہ تعلق دینی جدوجہد کے مشترکہ مقاصد کی بنیاد پر استوار تھا، ان کے درمیان باہمی احترام اور تعاون کا رشتہ تھا، خاص طور پر پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کے لیے ان دونوں کے کردار کے سب معترف ہیں، یہ دونوں شخصیات پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں اسلامی اقدار کے نفاذ میں پیش پیش تھے، جب پاکستان کے آئین کی تشکیل ہو رہی تھی تو ان دونوں رہنماؤں نے مل کر اسلامی دفعات کے اندراج اور اسلامی اصولوں کی ترویج کے لیے کام کیا، دونوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پاکستان کا آئین اسلامی شریعت کے مطابق ہونا چاہیے، ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوتؐ کے دوران، پروفیسر خورشید احمدؒ اور حضرت والد ماجد مولانا سمیع الحق شہیدؒ نے قادیانی مسئلے پر ایک مشترکہ موقف اپنایا، یہ تحریک پاکستان کی دینی اور سیاسی تاریخ کا ایک اہم موڑ تھی، جس نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا راستہ ہموار کیا۔ مولانا سمیع الحق شہید نے پارلیمنٹ میں اس سلسلے میں علمی مواد اور دلائل فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا جبکہ پروفیسر خورشید احمد نے جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے اس تحریک کی حمایت کی، دونوں رہنماؤں نے اس موقع پر دینی اتحاد کی اہمیت پر زور دیا، حضرت والد ماجد مولانا سمیع الحق شہیدؒ کے ساتھ مل کر کئی مواقع پر سیاسی اتحاد بنانے کی کوشش کی،جس میں متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے)کا قیام قابل ذکر ہے ۔
پروفیسر خورشید احمدؒ نے ہمیشہ حضرت مولانا سمیع الحق شہیدؒ کی دینی اور سیاسی خدمات کو سراہا اور ان کے ساتھ ذاتی احترام کا رشتہ برقرار رکھا، حضرت مولانا سمیع الحق شہیدؒ کے ساتھ ان کے تعلقات باہمی احترام، دینی اتحاد اور مشترکہ مقاصد کی عکاسی کرتے ہیں، پروفیسر خورشید احمد صاحب نے ستر سے زائد کتابیں تصنیف کیں، جن میں اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں شاہکار تصانیف شامل ہیں، ان کے مضامین، کتابیں اور لیکچرز نے نئی نسل کو اسلامی اصولوں سے روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کیا، پروفیسر خورشید احمد کو ان کی علمی تصنیفی اور معاشی خدمات کے صلے میں قومی اور بین الاقوامی سطح کے متعدد اعزازات اور ایوارڈز سے نوازا گیا۔
پروفیسر خورشید احمد صاحبؒ ایک سادہ مزاج، اصول پسند اور متقی انسان تھے، ان کی علمی گہرائی، فکری وسعت اور عملی جدوجہد نے انہیں عالم اسلام میں ایک ممتاز مقام عطاء کیا، وہ ہمیشہ نئی نسل کو تعلیم، تحقیق اور نظریاتی وابستگی کی طرف راغب کرتے رہے اور علم اور عمل کے امتزاج سے امت مسلمہ کو ایک نئی راہ دکھائی، ان کی زندگی ایک مشعل راہ ہے جو آنے والی نسلوں کو راستہ دکھاتی رہے گی، ان کی وفات سے عالم اسلام ایک عظیم مفکر سے محروم ہو گیا لیکن ان کا فکری ورثہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔اللہ تعالی مرحوم کو جنت میں اعلی درجات عطا فرمائے اور جملہ پسماندگان کوصبر جمیل عطا فرمائے۔(آمین)
جامعہ دارالعلوم حقانیہ،خانوادہ حقانی،ادارہ ’’الحق‘‘اس غم میں برابر کے شریک ہیں،جماعت اسلامی پاکستان کی قیادت سے اس دکھ و غم کی گھڑی میں ہم تعزیت پیش کرتے ہیں۔
’’مکتوبات مشاہیر‘‘ میں حضرت والد ماجد مولانا سمیع الحق شہیدؒ کے نام پروفیسر خورشید احمد مرحوم کے چند خطوط نذر قارئین کئے جارہے ہیں۔

پروفیسر خورشید احمد صاحب مرحوم کے حضرت مولانا سمیع الحق شہیدؒ کے نام چند خطوط

……………(۱)……………
دینی تعلیمی نظام کو منظم کرنے اور بحث طلب مسائل کی نشاندہی کے بارہ میں
مکرمی ومحترمی مولانا سمیع الحق صاحب۔ السلام علیکم۔ ملک میں تعلیمی نظام کا ایک بڑا حصہ دینی تعلیم اور اس سے متعلق اداروں پر مشتمل ہے اس نظام اور ان اداروں کا اپنا ایک تاریخی تسلسل ہے چنانچہ نامساعد حالات اور مناسب حکومتی سرپرستی نہ ہونے کے باوجود یہ نظام الحمدللہ کامیابی سے جاری ہے تاہم یہ ضرورت فطری طور پر باقی رہتی ہے کہ دینی تعلیم کے نظام کو جو مسائل درپیش ہیں اہل فکر ان پر غور وحوض کرکے ان مسائل کو حل کرنے کا کوئی اہتمام کریں۔ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز نے اس پس منظر میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ اکتوبر کے تیسرے ہفتہ میں اسلام آباد میں ایک مجلس کا انعقاد کیا جائے جسمیں دینی تعلیم سے متعلق ماہرین شریک ہوں اور باہم تبادلہ خیال کے ذریعہ ان مسائل کے بارے میں کوئی لائحہ عمل اختیار کریں۔ (چند بحث طلب مسائل کی نشاندہی منسلکہ نوٹ میں کی گئی ہے)دینی تعلیم کی درس وتدریس سے ایک طویل عرصے سے آپ کی وابستگی کی روشنی میں ہماری خواہش ہے کہ آپ بھی اس مجلس میں شریک ہوں اور ہمیں اپنے خیالات سے مستفیض فرمائیں، آپکی متعدد مصروفیات کے باوجود ہمیں یقین ہے کہ کام کی اہمیت کے پیش نظر آپ اس مجلس میں شرکت کیلئے وقت ضرور نکالیںگے۔مجوزہ تاریخیں۲۷۔۲۶اکتوبر۱۹۸۶ء ہیں ازارہ کرم اپنی شرکت کے بارے میں مطلع فرمائیے آپکی آمدرفت اور طعام وقیام انسٹیٹیوٹ کی ذمہ داری ہوگی۔
نوٹ:  بسلسلہ سیمینار ’’دینی تعلیم‘‘ مجوزہ تاریخیں۲۷۔۲۶؍اکتوبر۱۹۸۶ء
پاکستان میں تعلیم کے شعبہ میں ایک بہت بڑا حصہ دینی تعلیم کے اداروں (درس نظامی)پر مشتمل ہے۔ جدید اور عام تعلیمی نظام کے مقابلے میں دینی تعلیم کانظام بظاہر نسبتاً غیر منظم محسوس ہوتا ہے چنانچہ یہ سوال فطر ی طور پربہت اہم ہے کہ جدید تعلیمی نظام ہی کی طرح دینی مدارس اوردینی تعلیم کے اس نظام کومنظم کرنے اورنئے حالات کے مطابق اس کے ارتقا کی طرف توجہ دینے کی کیا صورت ہونی چاہیے؟ بلاشبہ ان اداروں کی اپنی روایات اوران کا اپنا تاریخی تسلسل ہے لیکن متعدد مسائل ایسے ہیں جن پر غور وخوض کرکے آج کے حالات کی روشنی میں ان کا حل تلاش کیا جانا چاہیے۔ذیل میں ان ہی نکات کی نشاہدہی کی گئی ہے۔
(۱) دینی مدارس سے فارغ ہونے والے افراد عام طور پر امام مسجد،دینی مدارس اور اسکول اساتذہ اور اب کچھ عرصے سے مسلح افواج میں خطیب کی حیثیت اختیار کرتے ہیں،کیا معاشرے میں ان کا یہی کردار کافی ہے یا اسے اس سے زیادہ وسیع کرنے کی ضرورت ہے؟ اس وسعت کی کیا نوعیت ہو اور کیا اس کی مناسبت سے دینی مدارس کے نظام میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہے؟
(۲) درس نظامی کے معیار کو بہتر کیسے بنایا جاسکتا ہے۔ موجودہ صورت میں کسی بھی مقام پر کسی بھی انتظام کے تحت دینی مدرسہ کے آغازپر کوئی پابندی نہیں کیا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہنا چاہیے یا اس میں کچھ ضابطے اور قواعد کی ضرورت ہے؟ یہ ضابطے اور قواعدکیا ہوں؟ اور ان کے نفاذکی ذمہ داری کس ادارے پر ہو؟
(۳) کیا دینی مدارس سے فارغ التحصیل علماء عہد حاضر میں دینی اور عصری قیادت کے تقاضے پورے کرنے کی قرار واقعی اہلیت رکھتے ہیں؟ اگر نہیں تو اس کے اسباب کیا ہیں؟ کیا نصاب اورنصابی کتب میں موجودہ دور کے تقاضوں اورترقی کو پیش نظر رکھ کر کسی تبدیلی کی ضرورت ہے؟ کن نئے مضامین کی ضرورت ہے اور موجودہ مضامین میں کیا تبدیلی درکار ہے۔
(۴) نصابی کتب کی ازسرنو تحریر (موجودہ صورت میں حاشیوں کی بہتات کی بنا پر یہ بہت پیچیدہ اور مشکل ہیں)کی کس قدر افادیت ہے؟
(۵) موجودہ دور میں فن تعلیم وتدریس ایک سائنس کی شکل اختیار کرگیا ہے جس میں محض پڑھنے اور سننے کی بجائے تدریسی مصاونات موثر کردار ادا کرتی ہیں نیز طلبہ کی علمی اور فنی استعداد کے جائزے کیلئے  زیادہ بہتر طریقے دریافت ہو چکے ہیں۔ کیا دینی مدارس میں اس علمی وفنی استعداد سے استفادہ نہیں کیا جانا چاہیے ؟ کیا استفادہ کیلئے وقتا فوقتا اساتذہ کی فنی تربیت اور ریفریشر کورسز کا انتظام مفید ہوگا؟ اگر یہ انتظام مفید ہے تو اس انتظام کی نوعیت اور تفصیلات کیا ہوں؟
(۶) دینی اداروں میں اختلاف مسالک کی نوعیت اس کی تاریخ اوراس کے اسباب کی تفصیل کیا ہے؟کیا ان اختلافات کو کم کرنا یا دور کرنا ممکن ہے ؟
(۷) حکومت اور دینی مدارس کے درمیان تعلق کی اس وقت کیا نوعیت ہے؟ نصاب معیار تعلیم (امتحانی نظام) نظم ونسق،مالیات اوردیگر متعلقہ امور میں تعلق کی تفصیلات کیا ہیں؟ کیا تعلق کی موجودہ نوعیت میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہے؟
(۸) ملک میں بیک وقت دو نظام (جدید تعلیمی نظام درس نظامی ) رائج رہنامفید اور مطلوب ہے یا انہیں کسی سطح پر قریب لانے اور انجام کار باہم مربوط کرنے کی ضرورت ہے۔اب تک اس ضمن میں جوکچھ ہوا ہے اس کا جائزہ اور آئندہ کیلئے تجاویز کیا ہیں؟
(۹) دیگر مسلم ممالک میں دینی تعلیم کا کیا نظام ہے؟ اس کی تفصیلات کیا ہیں؟ پاکستان میں اس نظام سے کیا چیزیں اخذ کی جاسکتی ہیں؟ مندرجہ بالا امورکے علاوہ بھی دینی تعلیم سے متعلق دیگر مسائل شرکا سیمینار کی گفتگو کا موضوع بن سکتے ہیں۔     والسلام:  پروفیسر خورشید احمد   ۱۸؍ستمبر ۱۹۸۶ء
……………(۲)……………

شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق ؒکی تعزیت

میں آپ کو اور آپ کے خاندان کو اس موقع پر تعزیت پیش کرتا ہوں۔  پروفیسر خورشید احمد
……………(۳)……………

پالیسی انسٹیٹیوٹ کے سیمینار میں شرکت کی دعوت

مکرمی ومحترمی مولانا سمیع الحق صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
چندروز قبل منسلکہ خط آپ کی خدمت میں ارسال کیا تھا تو قع ہے آپ کو موصول تو ہوگیا ہوگا لیکن غالبا آپ اپنی مصروفیت کے باعث ہمیں جواب نہ ارسال کرسکے۔سیمینار کی تاریخیں (۲۶۔۲۷ اکتوبر) چونکہ اب بہت قریب ہیں اس لئے درخواست ہے کہ ازراہ کرم اپنی شرکت کے بارے میں جلد مطلع فرمائیے۔ میں آپ کا ممنون ہوںگا۔ سیمینار کے سلسلہ میں مزید تفصیلات کیلئے انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر جناب خالد رحمن صاحب آپ سے رابطہ کرلیںگے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ دین کے لئے آپ کی مساعی کو قبول فرمائے (آمین)    والسلام    پروفیسر خورشید احمد
……………(۴)……………

سینیٹ اور پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں اہلیہ کیلئے دعائے مغفرت

برادر عزیز محترم مولانا سمیع الحق صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ کی اہلیہ محترمہ کے انتقال کی خبر سے بے حد رنج وافسوس ہوا۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ ان کی نیکیوں کو قبول فرمائے۔ اوربشری لغزشوں سے صرف نظر کرے۔ آپ کو صبر جمیل سے نوازے اور گھر کے تمام افراد کو اس غم کو صبر و ثبات سے برداشت کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے( آمین) میں تعزیت کے لئے حاضر ہونا چاہتا تھا مگر طبیعت کی خرابی اور جوڑوں کی تکلیف کے باعث لمبے سفر سے اجتناب کررہا ہوں، تار دفتر سے بھیجا تھا جس میں کچھ غلطی ہوگئی جس کے لئے معذرت خواہ ہوں،سینٹ میں دعائے مغفر ت میں شرکت کی اور ایم ایم اے کے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میںبھی مرحومہ کیلئے دعائے مغفرت میں شریک ہوا۔ میری طرف سے تعزیت قبول فرمائیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔بلاشبہ ہم سب کو اپنے مالک کی طرف جانا ہے کوئی پہلے اور کوئی بعد۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حفظ وامان میں رکھے اور آخری لمحہ تک اپنے دین پر قائم رکھے۔ (آمین)   آپ کا بھائی  خورشید احمد    ۲۰؍جنوری۲۰۰۴
……………(۵)……………

کتاب ’’صلیبی دہشت گردی اور عالم اسلام‘‘

اہم دور کی تاریخ کی حفاظت اور سامراج کے پیدا کردہ خطرات کی نشاندہی
 محترم مولانا سمیع الحق صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! امید ہے مزاج بخیر ہوگا۔
عالمی سامراج کے کردار کے بارے میں آپ کے قیمتی انٹرویوز(صلیبی دہشت گردی اورعالم اسلام کے نام سے عالمی مغربی میڈیا سے کئے گئے احقر کے انٹرویوز کا مجموعہ ہے) کا مجموعہ موصول ہوا۔ اس کتاب کی اشاعت سے آپ نے ایک اہم دور کی تاریخ ہی محفوظ نہیں کی بلکہ آج مسلمان عالمی سامراج کے پیدا کردہ جن خطرات سے دوچار ہیں ان کی بھی بھر پور نشان دہی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کوشش کا بہترین اجر عطا فرمائے اور اس آواز کو قبول عام سے نوازے۔
فقط والسلام آپ کا بھائی   پروفیسر خورشید احمد  ۱۶؍جون ۲۰۰۴ء
مو
۱۷؍اپریل ۲۰۲۵ بروز جمعرات کو وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلی مولانا محمد حنیف جالندھری صاحب نے جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کا دورہ کیا،مولانا حامد الحق حقانی کی شہادت پر تعزیت اور دکھ کا اظہارفرمایا،مولانا جالندھری صاحب نے جامعہ حقانیہ پر حملہ تمام دینی مدارس پر حملہ اور مولانا حامد الحق حقانیؒ پر حملے کو تمام علماء پرحملے کے مترادف قرار دیا، انہوں نے کہاکہ مولانا حامد الحقؒ سمیت دیگر علمائے کرام کی پے درپے شہادتیں منظم سازش کا حصہ ہے،مولانا جالندھری کی طرف سے قاتلوں کی فوری گرفتاری اور علمائے کرام کی مسلسل ٹارگٹ کلنگ کے اسباب و محرکات کو قوم کے سامنے لانے کا مطالبہ،مولانا جالندھری صاحب نے حکومتی کارکردگی اور سنجیدگی پر سوالات اٹھا دئیے، انہوں نے کہا کہ مرکزی اور صوبائی حکومت کی طرف سے مولانا حامد الحقؒ کے قاتلوں کی گرفتاری کے حوالے سے نتیجہ خیز اقدامات نہ اٹھانے کی صورت میں علمائے کرام کی باہمی مشاورت سے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا، وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ مولانا محمد حنیف جالندھری صاحب نے وفاق المدارس صوبہ خیبر پختونخوا کے ناظم مولانا حسین احمد اور رکن مجلس عاملہ مولانا سید عبدالبصیر شاہ صاحبان کی معیت میں جامعہ حقانیہ کا دورہ کیا اور جامعہ کے نائب مہتمم مولانا راشد الحق حقانی، مولانا حامد الحقؒ کے فرزند عبد الحق ثانی اور خاندان حقانی کے دیگر افراد اور جامعہ حقانیہ کے اساتذہ و طلبہ سے مولانا حامد الحق ؒکی شہادت پرتعزیت کی اور مولانا کے درجات کی بلندی کیلئے دعا کی، مولانا جالندھری صاحب نے مولانا حامد الحق حقانی ؒکی شہادت پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے جامعہ حقانیہ پر حملے کو تمام مدارس اور مولانا حامد الحق حقانی ؒپر حملے کو تمام علمائے کرام پر حملہ قرار دیا- مولانا جالندھری صاحب نے کہا کہ مولانا حامد الحقؒ سمیت دیگر علما کرام کی پے درپے شہادتیں اور مسلسل ٹارگٹ کلنگ کسی منظم سازش کا حصہ ہے جسے جلد بے نقاب کیا جائے-مولانا جالندھری صاحب نے وفاقی اور صوبائی حکومت کی سنجیدگی پر سوالات اٹھاتے ہوئے ابھی تک کی کارکردگی کو غیر تسلی بخش قرار دیا،انہوں نے کہا کہ آئی جی خیبرپختونخوا نے گزشتہ دنوں جو بیان دیا کہ وہ قاتلوں کے قریب پہنچ چکے وہ رسمی اور روایتی بیان ہے جب تک قاتل گرفتار نہیں کرلیے جاتے تب تک اس قسم کے بیانات ناکافی ہیں، ناظم اعلیٰ وفاق المدارس نے خبردار کیا کہ اگر مولانا حامد الحق حقانیؒ اور دیگر علمائے کرام کے قاتلوں کے حوالے سے پیشرفت نہیں ہوتی تو علمائے کرام اور مختلف دینی و سیاسی جماعتوں کے قائدین کی باہمی مشاورت سے آئندہ کے لائحہ کا اعلان کیا جائیگا۔