حضرت مولانا حامد الحق حقانی شہید ؒ: تعزیتی کانفرنس

ضبط و ترتیب : مولوی شبیرحقانی ؍مولانا اشرف علی*

حضرت مولانا حامد الحق حقانی شہید ؒ: تعزیتی کانفرنس

ضبط و ترتیب : مولوی شبیرحقانی ؍مولانا اشرف علی

(متعلمین جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک)

یکم مئی ۲۰۲۵ء بروز جمعرات اسلام آباد ہوٹل میں خدمات حضرت مولانا حامد الحق شہیدؒ اور یکجہتی فلسطین کے عنوان سے ایک اہم کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں ملک بھر سے مشائخ واکابر، مذہبی و سیاسی زعماء اور مختلف جماعتوں کے مذہبی و سیاسی قائدین نے شرکت کی ، اس تقریب کا باقاعدہ آغاز صاحبزادہ محمد عمرراشد کی تلاوت کلام پاک سے ہوا،اس کے بعد علمائے کرام و زعمائے ملت نے اپنے خطابات میں حضرت مولانا حامد الحق شہیدؒ کی علمی و سیاسی، سماجی و ملی خدمات کو سراہا،خصوصاً فلسطین کاز کیلئے انکی خدمات پر روشنی ڈالی او رکثیر تعداد میں مختلف طبقات سے وابستہ افراد نے اس کانفرنس میں شرکت کی،اس پروقار تقریب میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض مولانا سید محمد یوسف شاہ اور مولانا عرفان الحق حقانی صاحبان نے سرانجام دیئے، اس کانفرنس سے جن قائدین نے خطابات فرمائے ان میں سے چیدہ چیدہ اقتباسات نذر قارئین کئے جارہے ہیں۔(ادارہ)

کلمات تشکر

l    مولانا راشد الحق سمیع صاحب  ( نائب مہتمم جامعہ دارالعلوم حقانیہ )
زعمائے ملت ومہمانان گرامی! سب سے پہلے میں صمیم قلب سے آپ سب حضرات کا شکرگزار ہوں کہ آپ نے بے پناہ مصروفیات کے باوجود وقت نکال کر اس تعزیتی کانفرنس میں شرکت فرمائی،آپ حضرات کی شرکت اور سرپرستی نے ہمارے حوصلے بلند کردیئے ہیں اور غم و حزن کی اس گھڑی میں ہمارے دلوں کو آپ نے تسکین بخشی،آپ حضرات کی آمد اس بات کی دلیل ہے کہ آپ جامعہ دارالعلوم حقانیہ ،شہید ناموس رسالت ؐ حضرت مولانا سمیع الحق شہیدؒ ، حضرت مولانا حامد الحق شہید ؒ اور خانوادہ حقانی کیساتھ ہر پلیٹ فارم اور ہر محاذ پر کھڑے ہیں۔مجھے امید ہے کہ آپ حضرات کی سرپرستی، رہنمائی مجھے (راشد الحق سمیع) اور میرے پیارے بھتیجے مولانا عبدالحق ثانی کو مستقبل میں بھی حاصل رہے گی، ہم اپنے دونوں عظیم بزرگوں اور پیاروں سے بظاہر محروم ہوگئے ہیں لیکن آپ جیسے مہربانوں کی صورت میں ہمیں آج بھی سائبان شفقت میسر ہے جو ہمارے خاندان کیلئے ایک بڑا اثاثہ ہے۔ مسئلہ فلسطین اور برادرم مولانا حامد الحق حقانی ؒکی ظالمانہ شہادت کے حوالے سے آج ہم سب یہاں جمع ہیں، مجھے امید ہے دونوں مسئلوں پر رہنمایان ملک و ملت آج واضح اور دو ٹوک موقف و لائحہ عمل پیش کرینگے ،آخر میں ایک بار پھر آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔
خطبہ استقبالیہ
l    مولانا عبدالحق ثانی  (سربراہ جمعیت علمائے اسلام پاکستان )
محترم مہمانان گرامی !زعمائے ملت ،علمائے کرام ،مشائخ عظام ! میں اپنی طرف سے اور جمعیت علمائے اسلام کی پوری قیادت کی طرف سے آج کی اس پروقار تقریب میں آپ سب کو خوش آمدید کہتا ہوں، اھلاً و سہلاً و مرحبا۔ آپ کو علم ہے کہ یہ تقریب مولانا حامد الحق شہیدؒ کی دینی ،قومی ،ملی اور سیاسی خدمات کے تذکرہ اوران خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے منعقد کی جارہی ہے۔میرے والد ماجد مولانا حامد الحق حقانی شہید کو ایک خود کش حملہ آور نے اس وقت شہید کردیا جب وہ دارالعلوم حقانیہ کی جامع مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے گئے تھے ۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے اوران کی شہادت کو قبول کرتے ہوئے اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے۔ (آمین)
محترم زعمائے ملت! ہمارا خاندان ،جمعیت علمائے اسلام اور محب وطن پاکستانی ابھی تک شہید ناموس رسالتؐ حضرت مولاناسمیع الحقؒ کی المناک شہادت کے صدمے سے نکل نہیں پائے تھے کہ ان کے جانشین میرے والد ماجد مولانا حامد الحق حقانی ؒکو بھی بربریت کا نشانہ بناتے ہوئے شہید کر دیا گیا اور پھر جمعیت علما اسلام کی قیادت کا بوجھ مجھ جیسے نو آموز شخص کے ناتواں کندھوں پر رکھ دیا گیا، میں آپ سے تعاون کے ساتھ دعا کا متمنی ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس منصب جلیل کی ذمہ داری کو احسن طریقے سے پوری کرنے کی توفیق سے نوازے۔(آمین)
معزز علمائے کرام! مجھے آج ایسے حالات میں آپ سے خطاب کرنے کا فریضہ سرانجام دینا پڑ رہا ہے جب ملکی اور بین الاقوامی سطح پر امت مسلمہ کو تاریخ کے شدید ترین مسائل کا سامنا ہے،ایک طرف ڈیڑھ برس سے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں پر جنگ مسلط ہے اور اسرائیلی درندے مسلسل فلسطین کے نہتے مظلوم مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں، نام نہاد عالمی برادری اور انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں اسرائیل کی پشت پناہ ہیں جبکہ خطے کی مسلم ریاستیں خاموش تماشائی بلکہ صہونیت کے لیے سہولت کاری کے جرم کا ارتکاب کر رہی ہیں اور فلسطین میں امت مسلمہ کے عظیم دینی اور تاریخی ورثہ کو خطرات لاحق ہیں تو دوسری طرف پاک بھارت کشیدگی اپنے عروج پر ہے، ہماری اپنی سرزمین پر جنگ کے خطرات منڈلا رہے ہیں، بھارت اپنی نفسیات کے مطابق پاکستان پر حملہ آور ہے ۔نہیں کہا جا سکتا کہ کسی بھی وقت کیا ہو جائے ؟
محترم قائدین ! قوم کو آج حضرت مولانا سمیع الحق شہیدؒ کی ضرورت بڑی شدت سے محسوس ہو رہی ہے کہ وہ پوری قوم اور ملک کے تمام طبقات کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے دشمنان ملک و قوم کو ایک واضح اور جرات مندانہ پیغام دیا کرتے تھے ۔تاہم ہمیں مقتدر قوتوں سے بہرحال یہ شکوہ ضرور ہے کہ قوم و ملت کے عظیم رہنما اور اتحادِ امت کے داعی و علمبردار حضرت مولانا سمیع الحق شہیدؒ کی مظلومانہ شہادت اور مولانا حامد الحق شہید ؒ کی شہادت کے بعد کارکنان تفتیش و تحقیق اور ذمہ داران عدل وانصاف وہ کردار ادا نہ کرسکے جس سے مظلوم شہداء کے خون کی داد رسی ہو سکے۔اس موقع پر میں سانحہ دارالعلوم حقانیہ کے شہداء کے حوالے سے ارباب اختیار اور اصحاب اقتدارسے یہ مطالبہ ضرور کروں گا کہ خدارا! اپنے ہمہ جہتی اختیارات و وسائل سے کام لے کر مجرموں کی نشاندہی کرکے  انہیں کیفر کردار تک پہنچانے میں وہی کردار ادا کریں جس کیلئے قوم و ملت آپ سے توقع کررہی ہے۔
محترم حضرات ! شش جہات سے پیدا ہونے والے مسائل اور ان گنت محاذوں سے درپیش مسائل اور چیلنجز کے ماحول میں مجھے یہ فریضہ سونپا گیا ہے جو ایک اعتبار سے جمعیت علماء اسلام اور دارالعلوم حقانیہ کا ورثہ ہے اور تاریخ کا تسلسل ہے۔ میں اللہ تعالیٰ سے اس ورثے کی حفاظت اور ان ذمہ داریوں سے عہدہ برا ء ہونے کی دعا کے ساتھ آپ حضرات سے بجا طور پر امید رکھتا ہوں کہ میرے قدم بہ قدم وقت کے ان مشکل ترین حالات میں وہ کردار ادا فرمائیں گے جس کا یہ وقت اور یہ حالات تقاضا کر رہے ہیں اور مجھے اپنے آباؤ اجداد کی بصیرت دینی حمیت اور سیاسی تدبر کی روشنی میں یقین ہے کہ ہم وہ کردار ادا کرنے میں کامیاب ہوں گے اور جمعیت علماء اسلام ملک و ملت کی ضرورت کے سلسلے میں ایک لازوال تاریخ رقم کرنے میں کامیاب ہوگی ۔
بارِدِگر ہم آپ کی تشریف آوری کا شکریہ ادا کرتے ہیں، آپ سے مسلسل تعاون سرپرستی اور قیمتی مشوروں سے رہنمائی کی درخواست کرتے ہوئے ان الفاظ پر اپنی گفتگو کو ختم کرتا ہوں کہ مایوسی گناہ ہے امید اور یقین کے چراغ جلائے رکھنا ہی جرات مندی بہادری اور ایمان ہے۔
   حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب  (مرکزی امیر جے یو آئی (ف))
مولانا عبدالحق ثانی صاحب اور میرے نہایت عزیز مولانا راشد الحق سمیع صاحب ! اور یہاں موجود اکابر علمائے کرام و دانشور حضرات! مولانا حامد الحق صاحبؒ اور مولانا سمیع الحق صاحب ؒ شہیدین مکرمین کی یاد میں آج معزز شخصیات پر مشتمل اس اجتماع کا انعقاد کیا گیا ہے۔ظاہر ہے کہ ہمارا تعلق اس سلسلے کے ساتھ ہے جہاں رحلتوں اور شہادتوں پر ماتم برپا نہیں کیے جاتے بلکہ ان کے مشن کو زندہ رکھنے اور ان کے مشن کو آگے بڑھانے کا عزم کیا جاتا ہے، سو آج کا اجتماع بھی ہمیں یہی درس دے رہا ہے کہ ہم اپنے اسلاف، اپنے اکابرین کے اس مشن کو زندہ بھی رکھیں، اسے ہم نے آگے بھی بڑھانا ہے اور ہم تحریک ہیں، تحریک سمندر میں کوئی بہت بڑا پتھر پھینک کر ایک بڑے دھماکے کا نام نہیں بلکہ تحریک سمندر کی لہروں کا نام ہے، لہروں میں نشیب و فراز آتا ہے، لہریں کبھی ڈوب جاتی ہیں لیکن پھر اُبھرتی ہیں اور لہریں بالآخر ساحل پر جا کر دم لیتی ہیں، حضرت مولانا عبدالحق صاحبؒ دارالعلوم دیوبند کے سند یافتہ تھے، وہاں پر چھ سال مدرس رہے اور جس سال وہ اپنے گھر اکوڑہ خٹک تشریف لائے تو اسی رمضان شریف میں پاکستان بن گیا اور وہ واپس نہ جا سکے اور اکوڑہ خٹک کے ایک محلے کی مسجد میں انہوں نے بیٹھ کر درس و تدریس کا آغاز کیا، اب ظاہر ہے کہ ہماری یہ درسگاہیں اوریہ تعلیم گاہیں یہ محض تعلیم گاہیں نہیں ہیں بلکہ یہ نظریاتی ادارے ہیں، یہ فکری ادارے ہیں اور ہمہ جہت وہ اپنے علم سے بھی اور اپنے عمل سے بھی امت کی رہنمائی کرتے ہیں۔
انگریز کے خلاف ڈیڑھ سو سال تک میدان میں جہاد لڑا گیا تحریکیں چلیں، پچاس ہزار علمائے کرام سولیوں پہ لٹکائے گئے، توپوں سے اڑا دیئے گئے اور ایک مؤرخ لکھتا ہے کہ ایک انگریز (جو اس وقت انہیں سزا دینے کے موقع پر ڈیوٹی پہ تھا)نے کہا کہ ہم نے ہزاروں علمائے کرام سے تنہائی میں ایک ایک سے پوچھا کہ اگر آپ اتنا کہہ دیں کہ اس جہاد سے میرا تعلق نہیں تھا تو آپ کی سزا معاف ہو جائے گی، وہ کہتا ہے کہ تمام کے تمام علماء پھانسی پر لٹک گئے لیکن کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ میرا اس جہاد سے کوئی تعلق نہیں،یہ ہے قربانیوں کی وہ تاریخ جس سے ہم اور آپ وابستہ ہیں، ہم اس نسبت کے لوگ ہیں اور ظاہر ہے کہ جس کی یہ نسبت ہو، جن کی یہ تعلیم ہو، جن کی یہ تربیت ہو تو آج کے امت مسلمہ کے حکمرانوں کو سامنے رکھتے ہوئے اور ان کی روش کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں اور آپ کو پریشان نہیں ہونا چاہیے، یہی جو آج ہمارے حکمران ہیں یہ اس وقت بھی انگریز کے وفادار تھے۔ ہم اپنے اور اسلامی دنیا کے حکمرانوں کی تاریخ کو جانتے ہیں کہ کن وفاداریوں کے نتیجے میں انہیں مراعات ملے، انہیں یہ ملک ملا اور ان مراعات کو آج بھی ہمارے حکمران استعمال کر رہے ہیں، لہٰذااس پر مایوس ہونے کی ضرورت نہیں،خلافت عثمانیہ کے ٹوٹ جانے کے بعد ۲۷ممالک کے وجود میں آنے کے بعد جغرافیائی تقسیم نے ہمارے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے اور منقسم جسم پھر دفاع میں کمزور ہو جاتا ہے وہ اپنا دفاع نہیں کر سکتا۔
میرے محترم دوستو! اس وقت ہم ہمہ جہت مشکل میں مبتلا ہیں، ایک طرف افغانستان میں ۲۰سال سے امریکہ کے خلاف جنگ رہی وہ کامیابی سے ہمکنار ہوئے فتح سے ہمکنار ہوئے لیکن ابھی وہ مشکل برقرار ہے کہ فلسطین کا موضوع سامنے آگیا دنیا اب اس طرف متوجہ ہوئی ، اسرائیل کے مظالم سب کے سامنے ہیں۔اسی طرح آج ایک بار پھر پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالات کشیدہ ہیں ایسی صورتحال میں ہماری فوج کو اپنی قوم کے ساتھ بیٹھنا ہوگا، آپ کو اپنی سیاست کے ساتھ بیٹھنا ہوگا، آپ کو اپنے اقتصاد کے ساتھ اٹھنا ہوگا، اپنے وسائل کے ساتھ اٹھنا ہوگا، تب جا کر ہم وہ ملک حاصل کر سکیں گے کہ جس کے لیے مولانا حامد الحق ؒ نے بھی جان دی اور سب نے جان دی۔ہم سب پہ حملے ہوئے ہیں، کوئی بچا نہیں، دو تین مرتبہ میرے گھر پہ حملہ ہوا ہے لیکن اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی سامنے ہیں، ہمارے ساتھ کتنے علماء شہید ہوئے، کس جرم میں؟
جامعہ دارالعلوم حقانیہ دارالعلوم دیوبند کا تسلسل ہے،مجھے یہ شرف حاصل ہے کہ میں نے آٹھ سال دارالعلوم حقانیہ میں پڑھا،آج جو کچھ ہوں اس ادارے کی برکت سے ہوں، کافیہ سے دورہِ حدیث تک حضرت شیخ ؒکی سرپرستی ونگرانی اور شفقت کے سایہ میں پڑھا، میں ان کے احسان کو نہیں بھول سکتا، میں اس تعلق کو کیسے بھول سکتا ہوں، میری زندگی اس سے عبارت ہے اور یہ نقصان ان کے خانوادے کا نقصان نہیں، میرے گھر کا اور میرے خاندان کا نقصان ہے اور اس میں یہ تنہا نہیں ہے، ہم سب اس نقصان میں ان کے ساتھ شریک ہیں اور ان شاء اللہ اس کی تلافی میں بھی ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں،اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
   مولانا محمد احمد لدھیانوی صاحب  (سربراہ سنی علماء کونسل پاکستان)
محترم سامعین! حضرت مولانا سمیع الحق شہیدؒ کے ساتھ میرا سفر و حضر کا ایک بڑا طویل وقت گزرا، میری یہ خوش قسمتی اور سعادت مندی تھی، آج انہی کے نام پر یہ گلدستہ سجا ہوا ہے، اللہ تعالیٰ اسے نظر بد سے بچا کرکے رکھے۔ (آمین)آج جس انڈیا کی بات ہورہی ہے تو حضرت مولانا سمیع الحق شہیدؒ کے ساتھ لاہور جاکر میں یوسف شاہ صاحب، جناب سراج الحق صاحب نے انڈیا کے بارڈر پر جاکر پاکستان کا پرچم لہرایا تھا، پاکستان زندہ باد کے نعرے بھی لگائے تھے، انڈیا کو مردہ باد بھی کہا تھا۔ فلسطین کا عنوان ہو، کشمیر کا عنوان ہویا افغانستان کا عنوان ہو، ان سب میں حضرت مولانا سمیع الحق شہیدؒ کی خدمات نمایاں ہیں،میں نہیں چاہوں گا کہ میں اس تفصیل میں جاؤں ،یہ ایک تاریخ ہے اور کتابوں میں اس کی پوری تفصیلات حضرت نے لکھی ہوئی ہے، حضرت کا ایک کردار تھا، میں نے ان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھے ہوئے دیکھا وہ روزانہ کی بنیاد پر اپنی ڈائری گاڑی میں بیٹھ کر لکھا کرتے تھے، ایک ایک بات کو محفوظ کیا کرتے تھے، یہی وجہ ہے جتنے خطوط انہوں نے اپنے اکابر کے جمع کئے، شاید کسی اورکے پاس اتنے خطوط نہ ہوںکہ جتنے حضرت مولانا سمیع الحق صاحبؒ کے پاس تھے اور انہوں نے باضابطہ کتابی شکل میں سات جلدوں میں انہیں شائع کرکے دکھایا۔
ایک مرتبہ دارالعلوم کے دارالحدیث میں جب حضرت نے مجھے فرمایا کہ طلباء سے کچھ کہیں، میں نے کہا میں آپ کی موجودگی میں کیا کہہ سکتا ہوں؟ میری کیا حیثیت ہے؟ مجھے حکم فرمایا میں نے چند منٹ باتیں کیں تو مجھے بعد میں فرمانے لگے، سیاست میں تو مجبوری کی وجہ سے مجھے جانا ہوتا ہے جو میرا شوق اور ذوق ہے وہ اس دارالحدیث میں بیٹھ کر طلباء کو پڑھانے میں اس میں جو لذت ہے،اس میں جو لذت ہے وہ کسی اور کام میں نہیں ،یہ بھی ان کا ایک عنوان تھا جب بھی ملک کے حالات کبھی بھی جیسے اس وقت ہے ایسے ہوا کرتے تھے تو مولانا سمیع الحق صاحب تڑپ جایا کرتے تھے۔ ان کی کیفیت کو ہم نے دیکھا اور پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر یہ صفت رکھی ہوئی تھی کہ وہ جس وقت کوئی آل پارٹیز کانفرنس بلایا کرتے جس جس کو دعوت دیا کرتے، وہ تمام کے تمام مولانا سمیع الحق صاحب کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آجایا کرتے تھے، ان کی خدمات پارلیمنٹ میں بھی ہیں، ملک کے ایوانوں میں بھی ہیں، پھر ہماری جماعت کے ساتھ جو تعلق رہا اس سے ہماری جماعت کے ذمہ داران کارکنان پوری طرح سے آگاہ ہیں۔ شریعت بل ہو یا تحفظ ناموس صحابہ واہل بیت بل ہو دونوں عنوانوں کے اوپر باپ بیٹے کی خدمات ہماری جماعت کے ساتھ تھی۔ ہم نے بھی دیکھی آپ حضرات نے بھی انہیں دیکھا، اتفاق کی بات ہے والد کی شہادت بھی جمعہ والے دن ہوئی اور بیٹے کی شہادت بھی جمعہ والے دن ہوئی، میں یہ بات کہنا چاہوں گا شیخ الہند کی پوری زندگی شہادت کیلئے میدان جہاد میں گزری، آخری وقت میں کسی نے پوچھا کہ کیوں رو رہے ہو موت کے ڈر سے ؟تو فرمایا کہ ساری زندگی شہادت کے لئے میدان جہاد میں گزری اور موت چارپائی پر آئے، موت بستر پر آئے اور شہادت نصیب نہ ہو۔
مولانا عبدالحق ثانی صاحب! افسوس اپنی جگہ پر آپ کے والد کے جانے کا، دادا کے جانے کا جدائی کا غم ہوگا مگر یہ شہادت ہر کسی کے حصے میں نہیں ہوا کرتی ہے، یہ کسی نصیب والے کو ملا کرتی ہے، جہاں تک یہ کہا گیا کہ نہ مولانا سمیع الحق صاحب کے قاتلوں کو پتہ چلا اور نہ مولانا حامد الحق صاحب کے قاتل کا۔ میرے سامنے مفکر اسلام مفتی محمود نے فرمایا، ان کا ایک جملہ ہے میں نے سنا ہے کہ کوئی بھی بڑا آدمی قتل ہوجائے اور اس کا قاتل نہ ملے تو سمجھ جا کہ اس کا قاتل وقت کی حکومت ہے۔ افسوس یہ ہے قوم کے جذبات اور طرح کے ہیں، ہمارے حکمرانوں کی نیتِ جذبات اور طرح کے ہیں، اللہ کرے ان کے جذبات بھی اس طرح بن جائیں جو ملک قوم کے ہیں۔ مولانا یوسف شاہ صاحب ،مولانا حامدالحق شہیدؒ کے بھائی مولانا راشد الحق صاحب اور مولانا عبدالحق ثانی صاحب ہمارابیٹا ہے اور یہ بھی کہنا چاہوں گا ان کے والد کے جانے کا غم ایک طرف جدائی کا صدمہ آپ کو بھی ہے ہم کو بھی ہے، اسباب کے درجے میں شاید ہم وہ کردار ادا تو نہ کرسکے مگر آپ کو کبھی کمی بھی محسوس نہیں ہونے دیں گے، اللہ تعالیٰ میرا اور آپ کا حامی و ناصر ہو(آمین)
   جناب سراج الحق صاحب   (سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان)
صدر مجلس جناب مولانا فضل الرحمن صاحب! میزبان محترم جناب مولانا عبدالحق ثانی صاحب !
اور مجلس میں موجود واجب الاحترام قائدین ملت اور معزز صحافی حضرات! آج کا دن بہت افضل ہے اور آج کی اس مجلس میں پاکستان کی وہ قیادت شامل ہے جو سیاست بھی کرتی ہے جو عملی طور پر جانوں کی قربانی بھی دے چکے ہیں، مولانا حامد الحق صاحبؒ اور مولانا سمیع الحق صاحبؒ دونوں شہید ہوگئے ہیں، دونوں کی شہادت نے امت کو ایک نیا جذبہ دیا ہے، شہید کبھی نہیں مرتا اور یہ ایک ایسا خاندان ہے کہ ہماری اسلامی تاریخ میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو میدان جہاد کے شہسوار ہوتے ہیں، کچھ میدان سیاست کے شہسوار ہوتے ہیں اور کچھ علمی میدان کے شہسوار ہوتے ہیں لیکن مولانا سمیع الحق صاحبؒ کو اللہ تعالیٰ نے ان تمام خوبیوں سے نوازا تھا، انہوں نے عملی جہاد میں بھی امت کی قیادت کی، سیاسی میدانوں میں بھی امت کی قیادت کی اور علمی میدان میں بھی امت کی قیادت کی ہے، سچی بات یہ ہے کہ کسی ایک مرد میں یہ تمام خوبیاں کم ہی جمع ہوسکتی ہیں، مولانا سمیع الحق صاحبؒ اور مولانا حامد الحق صاحبؒ یہ ایک نظریے کانام ہے اور فرد کے جانے کی وجہ سے نظریہ ختم نہیں ہوتا جب تک یہ نعرہ زندہ ہے کہ اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام، ایک اسلامی پاکستان، یہ نعرہ، یہ نظریہ جب تک زندہ ہے تب تک مولانا عبدالحق صاحبؒ بھی زندہ ہیں، مولانا سمیع الحق صاحب بھی زندہ ہیں، مولانا حامد الحق صاحب بھی زندہ ہیں، یہ وہ شخصیات ہیں جنہوں نے اپنی تربیت کے نتیجے میں اور اپنے کلاس رومز میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ایسے علماء کرام تیار کئے ہیں جو آپ کو مشرق اور مغرب، شمال اور جنوب میں ملتے ہیں۔
دارالعلوم دیوبند کے بعد جامعہ حقانیہ دارالعلوم دیوبند ثانی ہے، اس ادارے کے ساتھ ہمارا ایک علمی اور ایک روحانی تعلق ہے، میں سمجھتا ہوں کہ مولانا حامد الحق کی شہادت نے ایک بار دوبارہ اکھٹا کیا اور ایک طویل عرصے کے بعد اتنی بڑی تعداد میں ان علماء کا اکھٹا ہونا یہ اس معصوم خون کی برکت ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ مولانا حامد الحق شہیدؒ ایک طرف عالم دین تھے مگر اپنی شخصیت میں بہت معصومیت رکھتے تھے اور ہر آدمی کے ساتھ جس عاجزی وانکساری کیساتھ ملتے تھے ،فقیرانہ اور درویشانہ انداز میں،یہ ایک بہت بڑی جماعت ،ایک ادارے کے سربراہ ہوتے ہوئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ اسلاف کا ایک نمونہ تھے۔ اس لئے وہ مرے نہیں بلکہ وہ زندہ ہیں اور ان کا یہ خاندان بھی اس مشن سے وابستہ ہیں۔ لاکھوں اور کروڑوں عوام بھی اس مشن سے وابستہ ہیں لیکن آج صوبائی حکومت اور مرکزی حکومت عوام کے درمیان سینڈوچ بن گیا ورنہ کیا مسئلہ ہے کہ مولانا حامد الحق کی شہادت کو اتنے دن گزر گئے آج بھی ان کے قاتل کو گرفتار نہیں کیاگیا، میں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ افغانستان کیساتھ لڑ کر نہ پاکستان بچے گا نہ افغانستان بچے گا،میں عبدالحق ثانی صاحب،جناب راشد الحق صاحب ،مولانا سید یوسف شاہ صاحب اور پورے خاندان کو تسلی دیتا ہوں کہ آپ ہمارے دلوں میں رہتے ہیں، آپ سے ہم محبت کرتے ہیں۔ اللہ نے آپکے خاندان کو شہادتوں سے نوازا ہے، نبوت کے بعد سب سے بڑا جو رتبہ ہے وہ شہادت ہے، اللہ نے اگر وہی مرتبہ آپکے خاندان کو نوازا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے، ان شاء اللہ یہ قافلہ جہاد ہے، یہ کاروان شہدا ہے، یہ اسی طرح جاری رہے گا۔
   مولانا معاویہ اعظم طارق صاحب  (مرکزی رہنماء پاکستان راہ حق پارٹی )
مولانا عبدالحق ثانی صاحب ! جمعیت علما اسلام کے مشائخ، اکابر علمائے کرام! اس ملک میں سب سے آسانی کے ساتھ علمائے حق کا خون بہا دیا جاتا ہے مولانا سمیع الحق شہیدؒ کی شہادت کا واقعہ جب پیش آیا اس وقت میں پنجاب اسمبلی میں تھا وہاں پر پنجاب اسمبلی میں بیٹھے ہوئے تمام ہی پنجاب کے حکمرانوں کو ہم نے متوجہ کرنے کی کوشش کی کہ یہ واقعہ پنجاب میں ہوا ہے اور مجھ سے پہلے علی محمد خان صاحب اس بات کو واضح کر چکے ہیں کہ اس وقت کی حکومت نے اس پر غفلت کی،اس وقت ان کے جو بھی مسائل رہے، بہرحال! اس کی سازش کا اور ان قاتلوں کا آج تک پتہ نہیں لگایا جا سکا اور حضرت مولانا حامد الحق شہیدؒ کی شہادت بھی ہو گئی میرے والد حضرت مولانا اعظم طارق شہید ؒ ۶؍ اکتوبر۲۰۰۳ء کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے تشریف لا رہے تھے، ان پر قاتلانہ حملہ کر کے انہیں شہید کر دیا گیا اور رمضان المبارک میں ایک بڑی تعداد میں علمائے کرام کو نشانہ بنایا گیا اور ان کی شہادت سے آپ سب آگاہ ہیں، جن حکمرانوں سے ہم بار بار مطالبہ کر رہے ہیں ان کا عمومی مزاج یہی ہے کہ ہر وقت کی جو حکومت ہوتی ہے، اسے اپنی اپوزیشن سے کبھی فرصت نہیں ملتی ،ہر وقت کی حکومت کیلئے سب سے بڑا مسئلہ کسی عالم دین کا خون کسی بے گناہ کا لاشہ اور اس کے قاتلوں کو گرفتار نہ کرنا اور اپنی حکومت کرنا ہے، سب سے بدترین شخص دنیا میں وہ ہے جو نبی کے ہاتھ سے قتل ہو اور سب سے بدترین شخص وہ ہے جس کے ہاتھ سے نبی قتل ہو جائے یہ علماء انبیاء کے وارث ہیں، اس ملک کے سب سے بدترین لوگ وہ ہیں جن کے ہاتھوں سے علمائے کرام کو شہید کیا جا رہا ہے، اس ملک میں سب سے بدترین طبقہ وہ ہے جس کے ہاتھ قال اللہ اور قال الرسول کہنے والے لوگوں کے خون سے رنگین ہو رہے ہیں۔
میں آج کی حکومت اور پچھلی حکومتوں( جو گزر چکی ہیں، اسد قیصر صاحب تشریف فرما ہیں، ہو سکتا ہے کل دوبارہ سپیکر کی کرسی پہ آجائیں، سمیع الحق صاحب کی شہادت کے وقت یہی سپیکر تھے، حکومت ان کے پاس تھی ) پر واضح کرنا چاہتاہوں کہ یہ کلمے کے نام پر بننے والا ملک ہے اگر اس ملک کی سلامتی ترقی استحکام یقینی طور پر ممکن ہو سکتا ہے تو علمائے کرام کی جانوں کو حفاظت دینے کے ساتھ ہو سکتا ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کلمے کے نام پر بننے والے ملک میں تعمیر و ترقی کے ہم خواب بھی دیکھیں اور روزانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثاء کے جنازے بھی اٹھیں، یہ مولانا حامد الحق شہیدؒ کی قربانی کی برکت ہے ۔آج علمائے کرام متحد ہیں حضرت مولانا یوسف شاہ صاحب کو اللہ تعالی عمر دراز دے، میں بعض دفعہ سوچتا ہوں شاید دکھ دیکھنے کیلئے یہی شخص رہ گیا ہے کہ پہلے دن سے دکھ دیکھتے دیکھتے آج بھی اس تحریک میں جس حوصلہ اور ہمت کے ساتھ موجود ہیں اللہ تعالیٰ ان کو سلامت رکھے جو الاؤ حضرت مولانا عبدالحقؒ نے روشن کیا تھا جس کی لو سے حضرت مولانا سمیع الحق پھر مولانا حامد الحق نے دنیا کو روشن کیا،آج دشمن سے میں کہتا ہوں تمہاری گولی کا ،گالی کا ،تمہارے حملے کا کیا فائدہ ہوا بات تو عبدالحق سے شروع ہو کر پھر عبدالحق پر آگئی۔
حضرت مولانا عبدالحق ثانی صاحب! آپ تنہا نہیں ہیں پوری قوم آپ کے ساتھ ہے فلسطین کے مظلوموں کے لئے حضرت مولانا سمیع الحق صاحب کی جو فکر تھی، کشمیر کے مظلوموں کے لئے جو فکر تھی، حضرت مولانا حامد الحق صاحب نے شریعت بل پر میرے والد شہیدؒ کے ساتھ مل کر جو کام کیا ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سے بڑا کام لے گا اور میری درخواست ہوگی کہ اعلامیہ میں اس بات کو شامل کیا جائے کہ جس طرح آج یہ فکر فلسطین کے مظلوموں کو لیکر پاکستان میں علمائے کرام کے ناحق قتل کو لے کر اور مظلوم کشمیریوں کو لے کر اور ہندوستان کی جارحیت کو لیکر جمعیت علمائے اسلام کے پلیٹ فارم سے جو مولانا عبدالحق ثانی صاحب کی سرپرستی میں منعقد ہوئی ہے، میری یہ درخواست ہوگی کہ اسلام آباد سے نکل کر حضرت مولانا سمیع الحقؒؒکا مولانا حامد الحق ؒکا یہ خوبصورت پیغام شرق و غرب میں گھر گھر تک، کراچی سے کشمیر تک پھیلنا چاہیے اور ان شاء اللہ لوگ منتظر ہیں حضرت مولانا سمیع الحق اور مولانا حامد الحق شہیدؒ کی جس طرح آواز پر ساری قوم لبیک کہتی تھی، آپ کی آواز پر بھی قوم ہمیشہ لبیک کہے گی ،اللہ تعالیٰ آپ کے گھرانے کی دارالعلوم حقانیہ کی اور سب کی حفاظت فرمائے (آمین)
   جناب علی محمد خان صاحب  (مرکزی رہنما پاکستان تحریک انصاف )
افسوس کی بات ہے کہ جس انسٹیٹیوٹ کی برکت سے بہت سے لوگوں کا کردار ہے کہ افغانستان میں وقت کے فرعون کو ایک لوہے کا مکا مارا اور اِسے نیست ونابود کیا اور افغانستان کی دھرتی پر سویت یونین کا خاتمہ کیا، اس کا انعام یہ ملا کہ دارالعلوم حقانیہ میں مجاہدین کے سرخیل کو اپنے خون میں نہلا دیا گیا، اس کی تحقیقات ہونی چاہیے تھی وہ تو نہ ہوسکی لیکن یہ تو ہم نے نہ سوچا تھا کہ مولانا عبدالحقؒ نے جو عظیم دینی درسگاہ بنائی ہے، یہ انہی کے بچوں کے خون سے نہلائی جائے گی لیکن آپ نے یاد تازہ کردی حسینی کردار کی۔ مولانا عبدالحق ثانی!  آپ اس پر فخر کریں کہ آپ شہید ابنِ شہید کے بیٹے ہیں۔
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن      نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
ایک وقت آئے گا یہ حقانیہ کے شہدا کا خون رائیگاں نہیں جائے گا، مجاہدین کا خون رائیگاں نہیں جائے گا، مولانا عبدالحق ثانی صاحب آپ عمر میں مجھ سے چھوٹے ہیں اور رتبے میں مجھ سے بڑے ہیں اور اتنی بڑی انسٹیٹیوٹ سے آپ کا تعلق ہے آپ یہ صرف علمی درسگاہ نہیں
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا
دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اس کے پاسباں ہیں وہ پاسباں ہمارا
تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں
خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا
ہم یہ درخواست کرتے ہیں اور پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ مولانا حامد الحق شہیدصاحب اور ان کے والد محترم مولانا سمیع الحق ؒکی شہادت کی تحقیقات کی جائے،میں پرزور طریقہ سے یقین دہانی کراتا ہو میری صوبائی حکومت میرے وزیر اعلیٰ علی امین خان گنڈا پور اور ہماری جماعت کی طرف سے جو تعاون چاہیے ہوگا ہم دیں گے۔ پاکستان زندہ باد ،دارالعلوم حقانیہ زندہ باد
مولانا فضل الرحمان خلیل صاحب  (امیر انصارالامہ پاکستان)
محترم بھائیواوربزرگو! اور شہید ابن شہید کے خاندان کے وارث مولانا عبدالحق ثانی صاحب!
ہماری جو روایات ہیں وہ شہیدوں پر ماتم کرنا نہیں ہے۔ ہماری روایات شہادتوں کی تمنا کرنا ہے اور میدان جہاد کے اندر کود پڑنا ہے، شہادت مل جائے تو سجدہ ریز ہو جاتے ہیں کہ اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ شہادت کی موت عطا کردی۔شہادت ایک اعزاز ہے، شہادت ایک انعام ہے، شہادت ایک مسلمانی تمنا ہے اور سب سے زیادہ تمنا جو کی ہے ہمارے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے کہ اے اللہ! شہادت کی موت دیں پھر زندگی دیں،پھر شہادت کی موت دے پھر زندگی دے پھر شہادت کی موت دے تو یہ تو ہمارا اعزاز ہے۔ آج میں اس اجتماع کے اندر آپ کو مبارک باد دینے آیا ہوں کہ آپ کے دادا بھی شہید ہیں، آپ کے والد بھی شہید ہیں اور شہادت تو ان کو ملتی ہے جو کچھ کرتے ہیںتو ہمیں فخر ہونا چاہیے کہ میرے دادا نے بھی بہت کچھ کیا میرے باپ نے بھی بہت کچھ کیا، ان کے کارناموں کیلئے اتنا کافی ہے کہ اغیار نے ان کو راستے سے ہٹا دیا تو اسی لئے میں پوری جمعیت علمائے اسلام کو مبارکباد دوں گا حقانیہ کے حضرات کو مبارکباد دوں گا کہ آپ شہدا کے وارث ٹھہرائے
دارالعلوم حقانیہ ایک نظریے کا نام ہے،وہ صرف جامعہ نہیں ہے اگر گوروں سے پوچھوں تو یہ کہتے ہیں کہ افغانستان کے اندر جو امارت اسلامیہ کا قیام ہوا اس کی بنیادی وجہ دارالعلوم حقانیہ ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہاں سے بنیاد رکھی گئی، وہاں پڑھنے والے پڑھانے والے میدانوں میں لڑنے والے علماء کی اکثریت کا تعلق دارالعلوم حقانیہ سے ہے،دارالعلوم حقانیہ ایک تحریک کا نام ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ ان شاء اللہ ان کا صاحبزادہ شہادتوں کے سلسلے سے ڈرنے والے نہیں بلکہ یہ ہمارے لئے اعزاز و انعام ہے تو اسی حوالے سے میں بات کروںگا کہ یہ شہداء کا سلسلہ آگے جاری رہے گا۔مولانا حامد الحق شہیدؒ کے پیچھے جو ایجنڈا تھا شہادت کا میں سمجھتا ہوں کہ وہ بھی بین الاقوامی ایجنڈا ہے۔ آج جو ہمارا دشمن ہے اس کے پیچھے انڈیا کا ایجنڈا ہے جو ایک تسلسل ہے اس کا۔ مولانا سمیع الحق شہیدؒ کا اور مولانا حامدالحق شہیدؒ کا قاتل کوئی اورنہیں یہی مودی ہے اور پاکستان کے اندر جو علماء شہید ہو رہے ہیں ان کے پیچھے انڈیا ہے۔ ہاں! وہ اپنے ایجنٹوں سے کام لے رہا ہے لیکن میرے خیال سے اس میں ہمارے حکمرانوں نے سستی دکھائی ہے ورنہ سیدھی سی بات یہ ہے کہ ہماری تاریخ گواہ ہے ہمیں معلوم ہے ہمیں کیا کرنا ہے اور ہمارے ہاتھ باندھ دیئے گئے، ہمیں روک دیا گیا اگر ایسا ہوتا تو مجھے یقین ہے کہ ایسے واقعات نہ ہوتے۔
 سینیٹر مشتاق احمد خان صاحب  (سینئر رہنما جماعت اسلامی )
حضرات علمائے کرام ! میں دارالعلوم حقانیہ کو، حضرت مولانا عبدالحق ثانی صاحب کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے یکجہتی فلسطین و خدمات مولانا حامد الحق شہیدؒ کانفرنس کا انعقاد کیا، قبلہ اول کی آزادی، فلسطین کی آزادی کی بات کرنا تو مولانا حامد الحق کا مشن تھا تو فلسطین اور قبلہ اول کی بات کرنا دراصل حضرت مولانا حامد الحق شہیدؒ ہی کی بات ہے،حضرت مولانا حامد الحق حقانی شہیدؒ کے حوالے سے میں اتنا کہوں گا کہ وہ میرے دوست تھے، میرے بھائی تھے۔ ۲۰۰۲ء کے الیکشن میں میں نے ان کی انتخابی مہم چلائی اور ان کے ساتھ ۲۵۔۲۶ سال تک ہمارا ایک بھرپور تعلق رہا، ان کا جرم کیا تھا؟ ان کا جرم قال اللہ اور قال الرسولؐ کی پکار بلند کرنا، علوم نبوت کی اشاعت کرنا، ختم نبوت کی بات کرنا،ناموس رسالتؐ کی بات کرنا،ناموس صحابہؓ و اہل بیت اطہارؓ کی بات کرنا، پاکستان کے اندر نفاذِ شریعت کی بات کرنا، انکا اور کوئی جرم نہیں تھا لیکن میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ ہر مولانا سمیع الحق شہیدؒ کے پیچھے ایک مولانا حامد الحق شہیدؒ کھڑا ہوگا اور ہر مولانا حامد الحق شہیدؒ کے پیچھے ایک مولانا عبدالحق ثانی کھڑا ہوگا اور یہ مشن جاری رہے گا (ان شاء اللہ)
مدرسہ حقانیہ پر حملہ کرنا اسلام کے مرکز پر حملہ کرناہے، یہ مسلمانانِ عالم کے دلوں پر حملہ کرناہے لہٰذا میں حکومت وقت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ ان کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے، ان کے قاتلوں کو قوم کے سامنے لایا جائے، ان کے قاتلوں کی عدم گرفتاری وفاقی،صوبائی حکومت ،انٹیلی جنس ایجنسیوں اور سیکیورٹی فورسز کی کھلی ناکامی ہے، جہاں تک فلسطین کی بات ہے تو مولانا حامد الحق شہید آواز تھے فلسطین کی ،وہ آواز تھے کشمیر کی ،وہ آواز تھے رسول اللہؐ کی مظلوم امت کے ۔
  جناب اسد قیصر صاحب  (سابق اسپیکر قومی اسمبی و رہنما پاکستان تحریک انصاف)
محترم جناب مولانا فضل الرحمن صاحب اور مولانا عبدالحق ثانی صاحب جو کہ مولانا حامدالحق صاحبؒ کے فرزند ہیں،ان کے پورے خاندان ،مولانا یوسف شاہ صاحب،جملہ علمائے کرام اور جناب سراج الحق صاحب اور اہل علم یہاں تشریف فرما ہیں۔ ماشاء اللہ مشتاق صاحب نے ایک موثر تقریر کی اور ایک بڑی جذباتی تقریر کی تو اس کے بعد میری باتوں کا تو اتنا وزن نہیں ہوگا۔مولانا حامد الحق صاحبؒ اور حضرت مولانا سمیع الحق صاحبؒ سے میرا ایک پرانا رشتہ ہے ،جب میں سٹوڈنٹ تھا تو اس وقت سے ان کی فیملی کے ساتھ تقریباً۲۷،۲۸سال سے میرا آنا جاناہے اور حضرت مولانا سمیع الحق صاحبؒ جب شہید ہوئے تو اس وقت میں نیشنل اسمبلی کا اسپیکر تھا، میں ان کے خاندان کے ساتھ کلوزلی ٹچ تھا جو میرے بس میں تھا تو میں کر رہا تھا، ان کے ساتھ میرا تعلق ایک فیملی کی طرح ہے، اس وقت پوری دنیا میں اسلام کی ترویج کے لئے اور اسلام کی خدمات کے لئے حقانیہ کا بنیادی کردار ہے تو حضرت مولانا حامد الحق صاحبؒ کی شہادت پہ جتنی تکلیف ان کے خاندان کو ہوئی ہمیں بھی اتنی ہی تکلیف ہے اور ان کے بیٹے (جو میرا برخوردار ہے) ان کے ساتھ میرا اکثر رابطہ رہتا ہے یہ جو جرأت کے ساتھ، ہمت کے ساتھ کھڑے ہیں میں ان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔
  جناب اعجاز الحق صاحب   (سربراہ پاکستان مسلم لیگ ضیا)
سب سے پہلے تو میں مولانا عبدالحق ثانی صاحب ، مولانا یوسف شاہ صاحب اور یہاں موجود تمام حاضرین کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آج اس موضوع پر یہ تقریب منعقد کی گئی ہے اس کے ساتھ میرا ایک لگاؤ بھی ہے اور ایک تعلق بھی کیونکہ میں مہمانوں میں نہیں میزبانوں میں سے ہوں، حضرت مولانا سمیع الحق شہیدؒ اور جامعہ حقانیہ کے ساتھ ایک بڑا گہرا تعلق رہا اور حامد الحق صاحبؒ تو نہ صرف میرے بھائیوں کی طرح تھے بلکہ شہید ہونے سے پہلے بات ہوتی تھی بلکہ ہفتے میں ایک آدھ مرتبہ ہماری گفتگو ہوتی تھی اور بات چیت کرتے تھے۔مولانا سمیع الحق شہیدؒ اور حامد الحق شہیدؒ کی شہادت کا یہ ایک بہت بڑا سانحہ تھا اور ایک بہت بڑی ذمہ داری ہم سب پر ہے یہاں کہا گیا کہ انوسٹی گیشن نہیں کرائی گئی یہاں کہا گیا کہ جی ان کے قاتلوں کو نہیں ڈھونڈا گیا تو جو بین الاقوامی سازشیں ہوتی ہیں، ان کے قاتل نہیں ملتے کیونکہ میں بھی ان لوگوں میں ہوں جو اپنے والد کے قاتلوں کو ڈھونڈتا پھر رہا ہوں لیکن حکومتوں پر اتنا پریشر آجاتا ہے کہ وہ پھر اس سے آگے جانے کی کوشش نہیں کرتے، یہ مولانا سمیع الحق صاحبؒ کے ساتھ ہوا کہ ایک بین الاقوامی سازش کے تحت جو ان کے خلاف بھی تھی اور جامعہ دارالعلوم حقانیہ کے خلاف بھی تھی اور مولانا حامد الحق صاحبؒ کو بھی اس لئے شہید کیا گیا کہ انہوں نے بھی دفاع پاکستان کے حوالے سے اور افغانستان کے حوالے سے گفتگو کی لیکن ان لوگوں کے قاتل جن کے پیچھے بین الاقوامی سازش نہیں تھی وہ پکڑے بھی گئے اور پھانسی پر بھی چڑھ گئے جیسے کہ جنرل پرویز مشرف پر حملہ ہوا قاتل پکڑے بھی گئے پھانسی پر بھی چڑھ گئے شاید بہت سے لوگوں کو معلوم بھی نہ ہوگا شوکت عزیز صاحب پر حملہ ہوا قاتل پکڑے بھی گئے اور پھانسی بھی چڑھ گئے، آج اگر ہم یہاں اکھٹے ہوئے ہیں تو میں درخواست کروں گا کیونکہ بزرگ یہاں بیٹھے ہوئے ہیں اور موضوع کو اچھی طرح سمجھتے بھی ہیںاور ایک مولانا سمیع الحق صاحبؒ اور مولانا حامدالحق صاحبؒ کی حیات و خدمات کے موضوع پر یہاں جتنے بھی علمائے کرام جمع ہیں جو جہاد سے تعلق رکھتے ہیں،جہاد کو جہاد سمجھتے ہیں تو آج میں ان سے یہ کہنا چاہوں گا کہ آج ہم کو مولانا سمیع الحق صاحبؒ، مولانا حامدالحق صاحبؒ کے نقشِ قدم پر چلنے اور دفاع پاکستان کونسل (جو انہوں نے بنائی تھی)کے پلیٹ فارم پر سارے علمائے کرام کوجمع ہونا چاہیے بلکہ سارے علمائے کرام اور سیاسی پارٹیز کے قائدین کو دعوت دی جائے تاکہ وہ آئین اور دفاع پاکستان کونسل کے اندر اکھٹے ہوں اور پاکستان کے دفاع کیلئے پیغام دیں کہ ہم ایک ساتھ کھڑے ہیں،میں عبدالحق ثانی صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں مجھے اس بات کا علم ہے کہ میرے والد صدر پاکستان بھی تھے تو مولانا عبدالحق صاحبؒ کو ملنے جب جاتے اور ان کے پاؤں دباتے تو یہ تعلق ہے ہمارا حقانیہ کے ساتھ مولانا عبدالحق صاحبؒ اور مولانا سمیع الحق صاحبؒ کے ساتھ اور ان شاء اللہ جب تک ہماری زندگی ہے یہ تعلق ہمارا قائم رہے گا۔
 جناب عبداللہ گل صاحب (سربراہ تحریک نوجوانان پاکستان)
معززعلمائے کرام ومہمانان گرامی! مولانا عبدالحق ثانی صاحب برخوردار ہیں، میرا ان کے ساتھ قلبی ونظریاتی رشتہ ہے اور سب بخوبی جانتے ہے اور یقینا مولانا سمیع الحق شہیدؒ کی شہادت کے بعد مولانا حامد الحق شہیدؒ نے جس طریقے سے کاروان کو چلایا( جو کہ دفاع پاکستان کونسل کے سربراہ بھی تھے) آج میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح سے عبدالحق ثانی صاحب مضبوط انداز میں اپنے مؤقف پر ڈٹے رہیں گے۔ ہم یہ بھی جانتے ہے کہ ان کو کیوں شہید کیا گیا؟ ان کے والد کو کیوں شہید کیا گیا؟ لیکن حکومت ان کے قاتلوں کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی۔ حکومت کو آج یہ اندازہ ہوجانا چاہیے کہ پاکستان کے محافظ یہی علماء ہیں، یہی مدارس ہیں، انہی کے اوپر اعتراض ہوتا ہے، مار بھی کھاتے ہیں اور قربانی بھی پاکستان کے لئے یہی دیتے ہیں۔ آج ان کی ایک دفعہ پھر ضرورت پڑ گئی، چاہے وہ مسئلہ فلسطین ہو یا بھارت کی بات ہو یا افغانستان کا مسئلہ ہو۔ اسی مسئلے پر مولانا سمیع الحق کو شہید کیا گیا تاکہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بحال نہ ہوسکے،آج ایک بار پھر پاک افغان تعلقات کیلئے مولانا حامد الحق حقانی کی ضرورت پڑ گئی اور دفاع پاکستان کونسل ایک دفعہ پھر میدان میں کود پڑی تو اسی تائید پر مولانا حامد الحق کو شہیدؒ کیا گیا، مولانا حامد الحق شہیدؒ میرے بھائی تھے، میرے گھر والے تھے ہمارے گھر میں ایک دفعہ پھر ان کی شہادت پر صفِ ماتم بچھ گئی۔ اب ہم نے یہ فیصلہ کرنا ہے معاملات کفر کے ساتھ ہے، ہمیشہ کفر کو شکست اور اسلام کو غلبہ حاصل ہوا ہے اور دارالعلوم حقانیہ ایک عظیم انسٹی ٹیوشن ہے جس سے پوری دنیا واقف ہے اور ہمیشہ انہوں نے نظریہ پاکستان کی حفاظت کی اور نظریہ اسلام کے اوپر کاربند رہے، میں مولانا عبدالحق ثانی صاحب کیلئے تمام جمعیت کی لیڈرشپ کے لئے، کارکنان کے لئے دعاگو ہوں، اللہ تعالیٰ ان کو استقامت بخشیں اور اللہ تعالیٰ شہدائے حقانیہ کا خون رنگ لائے اور قاتل بے نقاب ہو۔
  مفتی حبیب الرحمن درخواستی صاحب   (مرکزی سرپرست اعلی جمعیت علما اسلام پاکستان)
آج کے اس عظیم الشان اجتماع کے دو عنوان ہیں کہ شہید اسلام حضرت اقدس مولانا سمیع الحق صاحبؒ اور شہید اسلام حضرت مولانا حامدالحق صاحبؒ کی دینی، سیاسی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنا اور دوسرا بیت المقدس کی حفاظت کے لئے اہل فلسطین نے جو اپنے آپ کو اپنے بیٹے، بیٹیوں کو، اپنے گھروں کو، اپنے خاندانوں کو سب کچھ قربان کردیا ہے ان مظلوم مسلمانوں سے یکجہتی کا اظہار کرنا ہے،بس ایک بات ہی عرض کروں گا کہ یہ اجتماع ہمارے ان بزرگوں کی یاد برائے یاد کیلئے نہیں بلکہ اس میں بھی ہمارا ایک عظیم الشان مقصد ہوتا ہے کہ جو ہمارے اتنے عظیم اکابرین اور قائدین باکمال اکابرین جو ہر وقت ہر محاذ پر باطل سے ٹکرانے والے تھے اور پوری دھرتی پر مظلوم مسلم امہ کے لئے مضبوط توانا آواز جرات کے ساتھ بلند کرتے تھے، وہ حضرات جو عظمت اور استقامت کے پہاڑ تھے، سیاست اسلامیہ اور نفاذ شریعت کے لئے ہمہ وقت کوشاں اور ہمیشہ میدان عمل میں اترے رہے تھے، مجاہد لیڈر بھی تھے اور دارالحدیث کی درسگاہوں میں مشغول بھی تھے۔ ایسے جید علماء اور مخلص قائدین کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے پر کانفرنس منعقد کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو ان کے احوال اور صورت حال بتاکر انہیں پیغام دیں اور انہیں تیار کریں کہ تم بھی اپنے اکابرین کی طرح دین کی خدمت کے لئے اپنی جانوں کو قربان کرنے کا عزم رکھیں اور صرف یاد برائے یاد نہیں۔
   پیر سیدہارون شاہ گیلانی صاحب  (سربراہ ہدیۃ الہادی پاکستان)
محترم سامعین! مولانا سمیع الحق شہیدؒ کی انتہائی مظلومانہ اور بے دردی کے ساتھ کی گئی شہادت کی درست تحقیقات ہوتی اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاتا تو شاید بہت سے ایسے واقعات کا سدِ باب ہوتا اور پھر یہ اسی تسلسل میں مولانا حامد الحق شہیدؒ کی مظلومانہ شہادت کا واقعہ ہوتا ہے، ذاتی طور پر میرے ان سے دوستانہ مراسم تھے جس طرح سے مولانا سمیع الحق شہید نے ہمیشہ اپنے مقام پر مجھے عزت دی احترام دیا اور ہمارے سرپرست کی حیثیت سے دستِ شفقت رکھا،قومی اور بین الاقوامی کا مسائل ہمیں ساتھ لے کر چلے۔ امت کے اتحاد کیلئے کوشاں رہیں، اسی طرح سے ان کے رخصت ہونے کے بعد مولانا حامد الحق شہیدؒ ہمارے بہترین ساتھی تھے اور آخر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ وہ ایک سچے قسم کے پاکستانی تھے، دردِ دل رکھنے والے ملک اور قوم کا درد رکھنے والے، وہ بہت کچھ کرنا چاہتے تھے لیکن یہ چیزیں دشمنوں کیلئے قابل قبول نہ تھی اور پھر اسی تسلسل میں علماء کو بالخصوص خیبر پختونخوا کے علماء کو راستے سے ہٹایا جارہا ہے ہم اسکی مذمت کرتے ہیں اور پر زور مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ مجرموں کو منظر عام پر لایا جائے اور مولانا حامد الحق شہیدؒ کے قاتلوں کو سرعام سزا دی جائے۔
   مولانا پیر سعادت علی شاہ صاحب (سجادہ نشیں آستانہ چورہ شریف و مرکزی چیئرمین علماء مشائخ پاکستان)
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے    لوگ آساں سمجھتے ہے مسلماں ہونا
حضرت شہید ملت مرحوم و مغفور سمیع الحق صاحب ؒ اور پھر ان کے صاحبزادے حامد الحق صاحب کی شہادت، یہ شہادتوں کا تسلسل آپ دیکھتے ہیں کہ ان کے باپ بھی شہید ہیں اور بیٹا بھی۔ اس سے ثابت ہو رہا ہے کہ آپ اپنے راستے سے ہٹے نہیں، یہ اپنے نظریے کے ساتھ ہیں، یہ اپنے ویژن کے ساتھ ہیں، یہ کئے ہوئے عہد کے ساتھ ہیں۔اقبال کہتا ہے …
قوموں کے لئے موت ہے مرکز سے جدائی   یہ صاحب مرکز یہ نہ دائیں ہوئے نہ بائیں ہوئے
حضرت مجدد الف ثانی سے کہا گیا ہے کہ رخصت کا بھی ایک راستہ ہے آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے رخصت کو رخصت کر کے عزیمت کا راستہ اپناؤں گا، جس قوم میں مشکل راستے والے موجود ہوں وہ قومیں بھی زندہ رہتی ہیں، وہ نظریہ بھی زندہ رہتا ہے اور وہ راہیں بھی آباد رہتی ہیںتو میں یہ گزارش کروںگا، مبارکباد دوںگا،اکوڑہ خٹک کے وارث کو کہ یہ اپنے باپ دادا کے راستے سے نہ دائیں ہوئے ہیں نہ بائیں ہوئے ہیں،اُسی راستے پہ چل رہے ہیں اور یہی راستہ اللہ کو پسند ہے اور یہی راستہ اللہ کے رسول کو پسند ہے اور یہی راستہ صحابہ کرامؓ کا منتخب کردہ ہے جس میں آج تک برکت اور عزت ہے اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ یہ راستہ اختیار کریں اور یہ جناب عبدالحق ثانی صاحب شاید کہ عمر کے لحاظ سے چھوٹے ہوں، عمل اور کام کے لحاظ سے ہمارے امام ہیں، اللہ انکو یہ توفیق عطا فرمائے کہ اپنے باپ دادا کے راستے کو آباد رکھے (آمین)
    جناب علی محمد ابو تراب صاحب  (مرکزی جمعیت اہل حدیث کے مرکزی نائب امیر)
میں مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کی طرف سے مولانا حامدالحق صاحبؒ کی شہادت کے اس کانفرنس کے موضوع پر بات کرنا چاہوں گا یہاں کے جو منتظمین ہیں مولانا عبدالحق ثانی صاحب، مولانا راشد الحق صاحب، مولانا یوسف شاہ صاحب سب کو میں اپنے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ان کو تعزیت بھی پیش کرتا ہوں اور اس کانفرنس کے حوالے سے خراج تحسین بھی پیش کرتا ہوں اور یقینا یہ کانفرنس ایک اہم موضوع پر ہے جو کہ مولانا حامدالحق صاحب شہیدؒ مولانا سمیع الحق صاحب شہیدؒ کی خدمات پر اور فلسطین کے ساتھ یکجہتی کے موضوع پر ہے اور ہمارے پاکستان کے تمام قائدین اس میں موجود ہیں، حضرت مولانا عبدالحق ثانی صاحب کی صدارت میں دیگر علمائے کرام اکابرین ملت اور زعمائے امت موجود ہیں تو یہ اس کی گواہی ہے کہ اہل حق اور اہل سنت والجماعت اور تمام مسالک کے علماء اس دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں جس طرح مولانا سمیع الحق صاحب کو شہید کیا گیا اور مولانا حامدالحق صاحب کو شہید کیا گیا تو ہم شہید ابن شہید مولانا عبدالحق ثانی صاحب کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں اور ہم ان کے ساتھ ہیں۔
کانفرنس اعلامیہ
(۱)  حضرت مولانا حامد الحق شہیدؒ کی شہادت جو ملک و ملت کا عظیم خسارہ ہے، اس واقعہ کے مجرموں کو عالم اسلام اور پاکستان کے عوام کے سامنے فوراً بے نقاب کرکے انہیں قرار واقعی سزا دینا چاہیے۔
(۲)  چھ برس قبل عظیم عالمی لیڈر ،محدث دوراں، مفکر ملت،قائد اسلام مولانا سمیع الحق شہیدؒ کو خنجروں کے وار کرتے ہوئے شہید کیا گیا ،ان کے مجرموں کو دنیا کے سامنے لانے کا قرضہ جو ارباب اختیار و اقتدار کے ذمہ باقی ہے۔ مجرموں کو فوری طشت ازبام کرکے سرعام سزا دی جائے ۔
(۳)  غزہ فلسطین جہاں پونے دو سال سے ساٹھ ہزار فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام پوری دنیا کے سامنے ہے اس پر پوری قوم علماء ،سیاسی رہنما بالخصوص مسلم ارباب اقتدار ایک ہوکر قبلہ اول کو صیہونی تسلط سے آزاد کرنے کیلئے اپنا کردار دنیا کے سامنے پیش کریں،مذمتوں ، قراردادوں اور جذباتی تقاریر سے آگے بڑھ کر عملی اقدام کی طرف بڑھنا چاہیے۔
(۴)  آج انڈیا کی طرف سے پاکستان پر جس جارحیت کا آغاز کیا گیا جس کی وجہ سے آج یہ پورا خطہ خطرات میں گھر گیا ہے ان دونوں ممالک کے درمیان جو کشیدہ مسائل ہیں اسے عالمی اسلامی اصولوں کے تحت حل کرنے کی طرف قدم اٹھانا چاہیے، پوری قوم اہل پاکستان بلکہ عالم اسلام اس سلسلے میں پاکستانی فوج کے شانہ بشانہ ہے۔ اسلام امن و آشتی کا درس دیتا ہے اسی اصول پر کارفرما رہتے ہوئے مسائل حل کئے جائیں ۔
(۵)  پاکستان کے عظیم مفتیان کرام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب، مولانا منیب الرحمن صاحب اور جملہ مسالک کے علمائے کرام کی طرف سے فلسطین کے بارے میں جو فتوی دیا گیا ہے جس کے تحت مظلوم فلسطینیوں کا ہر ممکن تعاون اور معاشی طور پر یہودیوں کی رگ و جان کاٹنے کے حوالے سے ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کا جو متفقہ موقف آیا ہے یہ زعماء ملت اس کی بھرپور تائید کرتے ہیں۔