غبارِخاطر: مولانا ابوالکلام آزادؒ کی زندہ کرامت

(ڈاکٹر محمد عظیم الدین (ادیب و مصنف مہاراشٹر انڈیا

غبارِخاطر: مولانا ابوالکلام آزادؒ کی زندہ کرامت
(ڈاکٹر محمد عظیم الدین (ادیب و مصنف مہاراشٹر انڈیا
اردوئے معلی کی بزم میں جب فکر و فلسفے کو ادب کی چاشنی میں گوندھ کر پیش کرنے والوں کا ذکر آتا ہے تو ذہن کے افق پر مولانا ابوالکلام آزاد کا نام آفتابِ نیم روز کی طرح طلوع ہوتا ہے۔ وہ محض ایک عالم، سیاست داں یا انشا پرداز نہیں بلکہ ایک ایسے صاحبِ طرز ادیب تھے جن کا قلم فکر کی گہرائیوں سے موتی رولتا اور الفاظ کو ایسی ترتیب دیتا کہ نثر میں شعر کی سی نغمگی اور خطابت کا سا جلال پیدا ہو جاتا، پندرہ برس کی عمر میں’’لسان الصدق‘‘ کی ادارت سے لیکر ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ کے ذریعے برصغیر کے علمی و سیاسی شعور کو جھنجھوڑنے تک، ان کا قلم ایک روشن قندیل کی طرح فکر و نظر کی راہوں کو منور کرتا رہا، انکی ہر تصنیف، خواہ وہ تذکرہ کی خود نوشت سوانحی جھلکیاں ہوں یا ترجمان القرآن کی عالمانہ بصیرت، اپنی جگہ ایک مستقل دبستان کی حیثیت رکھتی ہے لیکن ان تمام علمی جواہر پاروں کے درمیان ’’غبارِ خاطر‘‘ ایک ایسی کہکشاں ہے جس کی روشنی آج بھی ذہن و دل کو مسحور کر دیتی ہے۔
یہ محض خطوط کا مجموعہ نہیں بلکہ قلع احمد نگر کی تنہائیوں میں لکھا گیا ایک ایسا صحیفہ ہے جس میں مولانا کا دل دھڑکتا اور دماغ سوچتا ہوا صاف سنائی دیتا ہے۔’’غبارِ خاطر‘‘ کی تخلیق کا پس منظر ہی اسے اردو ادب کی دیگر تصانیف سے ممتاز کرتا ہے،یہ۱۹۴۲ء کی بات ہے جبہندوستان چھوڑو تحریک کے دوران مولانا کو دیگر کانگریسی رہنماؤں کے ساتھ گرفتار کر کے قلع احمد نگر میں نظر بند کر دیا گیا، یہ قید محض جسمانی نہ تھی بلکہ ذہنی اور فکری لحاظ سے بھی سخت ترین تھی، باہری دنیا سے ہر طرح کا رابطہ منقطع تھا، یہاں تک کہ خط و کتابت پر بھی مکمل پابندی عائد تھی، ایک ایسا شخص جس کی زندگی ہی گفتگو، تحریر اور ابلاغ سے عبارت ہو، اس کے لیے یہ خاموشی کسی عذاب سے کم نہ تھی لیکن مولانا جیسے کوہِ گراں کو بھلا یہ پابندیاں کیسے خاموش رکھ سکتیں؟ جب ہونٹوں پر قفل لگا دیئے گئے تو انہوں نے قلم کو زبان عطا کر دی، انہوں نے اپنے دیرینہ دوست اور رفیقِ علم، نواب صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمن خان شیروانی ؒکو مخاطب کیا لیکن یہ خطوط درحقیقت اپنے آپ سے، اپنے عہد سے اور آنے والی نسلوں سے ایک طویل مکالمہ تھے، یہ وہ خطوط تھے جو لکھے تو گئے مگر بھیجے جانے کے لیے نہیں، اسی لیے ان میں وہ رسمی قیود اور تکلفات نہیں جو مکتوب نگاری کا لازمہ سمجھے جاتے ہیں، یہ ایک آزاد پنچھی کی وہ پرواز تھی جسے قید کی دیواریں بھی محدود نہ کر سکیں۔

غبار خاطر: اوصاف ادب کا مجموعہ

ان خطوط کو پڑھتے ہوئے قاری پر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ یہ مکتوبات کی روایتی صنف سے ماورا ہیں، یہ بیک وقت انشائیے بھی ہیں، عالمانہ مضامین بھی اور خود کلامی کے بہترین نمونے بھی، ڈاکٹر سنبل نگار نے درست نشان دہی کی کہ یہ فیصلہ کرنا دشوار ہے کہ انہیں کس خانے میں رکھا جائے، بعض خطوط، جیسے موسیقی یا چائے کی تاریخ پر، اپنے سنجیدہ اور تحقیقی انداز میں مضمون کی شان رکھتے ہیں، تو ’’چڑیا چڑے کی کہانی‘‘ جیسا خط اپنے ہلکے پھلکے اور بے تکلف اسلوب میں انشائیے کے فن کو چھوتا ہے، بعض اہلِ نظر نے یہ خیال بھی ظاہر کیا کہ مولانا نے دراصل مضامین اور انشائیے ہی تحریر کیے اور انہیں خط کا پیرایہ دینے کے لیے آغاز میں صدیقِ مکرم کا القاب اور آخر میں اپنا نام تحریر کر دیا، اس رائے میں وزن ہو سکتا ہے لیکن اس کی خوبی یہی ہے کہ اس نے کسی ایک صنف میں خود کو قید نہیں کیا، اس نے مکتوب کی صنف کو ایک نئی وسعت اور ایک نیا افق عطا کیا۔

غبار خاطر کا اسلوب بیان

یہ اردو نثر میں ایک ایسا تجربہ تھا جس نے ثابت کیا کہ عظیم ذہن جب اظہار پر آتا ہے تو بنی بنائی اصناف کی سرحدیں اس کے لیے تنگ پڑ جاتی ہیں۔ یہ اس کی خامی نہیں، بلکہ اس کی وہ انفرادیت ہے جو اسے لازوال بناتی ہے۔’’غبارِ خاطر‘‘ کا اصل اعجاز اس کے اسلوب میں پوشیدہ ہے، مولانا آزاد کا نثری اسلوب اردو کے مروجہ اسالیب سے یکسر مختلف اور اپنی مثال آپ ہے، سرسید نے سادگی اور مقصدیت پر زور دیا، حالی و شبلی نے متانت اور سلاست کو اپنایا لیکن مولانا آزاد نے علمیت، ادبیت اور شعریت کو یوں یکجا کیا کہ ایک نیا دبستانِ انشا وجود میں آ گیا، ان کی نثر کی سب سے بڑی خصوصیت اس کا صوتی آہنگ اور موسیقیت ہے۔ وہ جملوں کو اس طرح تراشتے ہیں کہ پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی نغمہ کانوں میں رس گھول رہا ہو، مثال کے طور پر یہ جملہ دیکھئے! اس کارخانہ ہزار شیوہ و رنگ میں کتنے ہی دروازے کھولے جاتے ہیں تاکہ بند ہوں اور کتنے ہی بند کیے جاتے ہیں تاکہ کھولے جائیں، یہ محض ایک جملہ نہیں بلکہ فلسفے اور حقیقت کا ایک ایسا نچوڑ ہے جسے شعری زبان کی دلکشی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، اس اسلوب پر عربی اور فارسی ادب کے گہرے اثرات نمایاں ہیں، جس کی وجہ سے بعض اوقات عام قاری کے لیے اسے سمجھنا قدرے مشکل ہو جاتا ہے۔ نیاز فتح پوری جیسے اہلِ قلم نے بھی مولانا کے اسلوب میں عربی و فارسی تراکیب کی کثرت پر گرفت کی اور ترقی پسند ناقدین نے اسے عوام سے دور اور محض خواص کے لیے مخصوص قرار دیا،یہ تنقید اپنی جگہ جزوی طور پر درست ہو سکتی ہے لیکن یہ مولانا کے اسلوب کا صرف ایک رخ ہے، حقیقت یہ ہے کہ مولانا موضوع کے مطابق اپنا اسلوب بدلنے پر بھی قادر تھے، جہاں فلسفے اور مذہب کی دقیق بحثیں ہیں، وہاں ان کی زبان عالمانہ اور پر شکوہ ہو جاتی ہے لیکن جہاں وہ روزمرہ کے مشاہدات، جیسے چڑیا چڑے کی کہانی یا قید خانے کی صبح و شام کا ذکر کرتے ہیں، وہاں ان کا قلم انتہائی سادہ، شگفتہ اور رواں ہو جاتا ہے۔ ان کا مقصد قاری کو مرعوب کرنا نہیں بلکہ اپنے خیال کی پوری گہرائی اور جمالیاتی حس کے ساتھ اس تک پہنچانا تھا۔ وہ اپنی تحریر میں فکر اور احساس کا ایسا امتزاج پیدا کرتے ہیں جو قاری کو بیک وقت سوچنے اور محسوس کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

غبار خاطر کے موضوعات کا تنوع

رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر کا یہ اعتراف کہ ’’میں نے لیڈری ابوالکلام آزاد کی نثر اور اقبال کی شاعری سے سیکھی، اس بات کا ثبوت ہے کہ مولانا کی نثر میں محض ادبی چاشنی ہی نہیں بلکہ دلوں کو گرمانے اور اذہان کو بدلنے کی غیر معمولی قوت بھی موجود تھی۔’’غبارِ خاطر‘‘ کے موضوعات کا تنوع قاری کو حیرت میں ڈال دیتا ہے، یہ کتاب ایک ایسے سمندر کی مانند ہے جس میں علم و فن کے ان گنت دریا آ کر ملتے ہیں۔ مولانا کبھی وجود اور عدم کے فلسفیانہ مسائل پر گفتگو کرتے ہیں، کبھی تاریخ کے اوراق سے حکمت کے موتی چنتے ہیں، کبھی انسانی نفسیات کی گتھیاں سلجھاتے ہیں اور کبھی موسیقی کے روحانی اثرات پر ایسی عالمانہ بحث کرتے ہیں کہ بڑے بڑے موسیقار بھی ششدر رہ جائیں۔ وہ خود موسیقی کے دلدادہ تھے اور ان کا یہ قول کہ ’’آوازِ خوش میرے لیے زندگی کا سہارا، دماغی کاوشوں کا مداوا اور جسم و دل کی ساری بیماریوں کا علاج ہے، ان کی جمالیاتی حس کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے صرف موضوعات کا تنوع ہی نہیں برتا بلکہ اردو نثر کو نئی تراکیب، استعارے اور الفاظ بھی عطا کیے۔’’کارخانہ ہزار شیوہ‘‘، ’’شعل نوا‘‘ اور ’’نقشِ دوام‘‘ جیسی تراکیب آج اردو ادب کا مستقل حصہ بن چکی ہیں۔

خطوط غالب کے بعد غبارِ خاطر کا مرتبہ

غالب کے خطوط کے بعد اگر اردو مکتوب نگاری میں کسی کتاب کو زندہ جاوید ہونے کا شرف حاصل ہوا تو وہ ’’غبارِ خاطر‘‘ ہے۔ غالب نے اپنے خطوط میں بے تکلفی اور ’’مراسلے کو مکالمہ بنا کر ایک نئی روایت قائم کی لیکن ان کا تخاطب حقیقی تھا اور جواب کی توقع موجود تھی۔ مولانا کے خطوط یک طرفہ ہیں وہ ایک ایسے دوست سے ہم کلام ہیں جو عالمِ خیال میں موجود ہے۔ اس یک طرفہ گفتگو نے انہیں وہ فکری آزادی عطا کی جو دو طرفہ مکالمے میں ممکن نہیں۔ اسی لیے ’’غبارِ خاطر‘‘ پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے جیسے ہم کسی صاحبِ علم کی ذاتی ڈائری کے وہ اوراق پڑھ رہے ہیں جس میں اس نے بغیر کسی جھجک اور بناوٹ کے اپنے دل و دماغ کو کھول کر رکھ دیا ہے۔ یہ کتاب محض ایک ادبی شاہکار نہیں بلکہ ایک عظیم شخصیت کے ذہن کو سمجھنے کی کلید بھی ہے۔عبد الماجد دریابادی جیسے صاحبِ طرز ادیب نے مولانا آزاد کے بارے میں لکھا تھا کہ ’’وہ اپنے طرزِ انشا کے جس طرح موجد ہیں، اسی طرح خاتم بھی ہیں۔ یہ قول ’’غبارِ خاطر‘‘ پر پوری طرح صادق آتا ہے۔‘‘

مولانا آزاد کی تحریروں میں پنہاں روح قرآنی

مولانا کے بعد بہت سے ادیبوں نے ان کے اسلوب کی تقلید کی کوشش کی مگر وہ محض الفاظ و تراکیب کی نقالی تک محدود رہے، اس روح کو نہ پا سکے جو مولانا کی تحریر میں دوڑتی ہے،یہ روح قرآنِ حکیم کے اعجازِ بیانی سے گہرے تاثر کا نتیجہ تھی۔ سجاد انصاری کا یہ مشہور قول کہ ’’میرا عقیدہ ہے کہ اگر قرآن نازل نہ ہوچکا ہوتا تو ابوالکامی نثر اس کے لیے منتخب کی جاتی، بظاہر ایک جذباتی مبالغہ لگتا ہے مگر اس کی تہہ میں ایک گہری حقیقت پنہاں ہے، اس مبالغے کی وجہ مولانا کی نثر میں موجود وہ قرآنی خصوصیات جیسے خطابت کا جلال، استدلال کی قوت، دلائل کی قطعیت اور ایک پیغمبرانہ آہنگ ہیں، جو ان کے ہم عصروں میں کسی اور کے ہاں نہیں ملتیں، وہ محض الفاظ نہیں لکھتے تھے بلکہ ایک پورے فکری نظام کو ایسی زبان میں پیش کرتے تھے جس میں عقل اور وجدان دونوں کے لیے تسکین کا سامان تھا۔

عصر حاضر میں غبار خاطر کی معنویت

آج جب ہم اکیسویں صدی کی تیز رفتار، ڈیجیٹل دنیا میں سانس لے رہے ہیں، یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ’’غبارِ خاطر‘‘ کی کیا معنویت باقی ہے؟ کیا آج کا قاری، جو مختصر اور فوری معلومات کا عادی ہو چکا ہے، مولانا کے ٹھہرے ہوئے، پر شکوہ اور علمیت سے لبریز اسلوب سے خود کو جوڑ سکتا ہے؟ اس کا جواب ہاں میں ہے۔ ’’غبارِ خاطر‘‘ محض ایک تاریخی دستاویز یا ادبی نمونہ نہیں بلکہ ایک تہذیبی رویے کا نام ہے، یہ ہمیں سکھاتی ہے کہ زندگی کے مشکل ترین لمحات میں بھی فکر و نظر کی شمع کیسے روشن رکھی جا سکتی ہے، یہ بتاتی ہے کہ اصل آزادی جسم کی نہیں بلکہ ذہن اور روح کی آزادی ہے، آج کے دور میں، جہاں سطحی پن اور فوری ردِ عمل کا غلبہ ہے، ’’غبارِ خاطر‘‘ ہمیں گہرائی میں اتر کر سوچنے، علم سے محبت کرنے اور زندگی کے چھوٹے چھوٹے پہلوؤں میں جمال تلاش کرنے کی دعوت دیتی ہے، مولانا آزاد کے یہ تخلیق آج کے نوجوان ادیبوں اور قلمکاروں کیلئے بھی ایک مشعلِ راہ ہے، یہ انہیں سکھاتی ہے کہ زبان محض ابلاغ کا ذریعہ نہیں بلکہ فکر کو تشکیل دینے اور تہذیب کو محفوظ کرنے کا وسیلہ بھی ہے، مولانا کی تحریر ثابت کرتی ہے کہ اپنی کلاسیکی روایات سے جڑے رہ کر بھی جدید خیالات کا اظہار ممکن ہے، عبدالقوی دسنوی نے بجا فرمایا تھا کہ ’’غبارِ خاطر‘‘ میں آزاد کبھی مورخ، کبھی فلسفی، کبھی موسیقار اور کبھی محض ایک خط نگار بن جاتے ہیں۔ یہی اس کتاب کا کمال ہے کہ اس کی ہر پرت میں ایک نیا جہانِ معنی آباد ہے اور ہر قاری اپنی ذہنی سطح اور ذوق کے مطابق اس سے فیضیاب ہو سکتا ہے۔

غبار خاطر مولانا آزاد کے فیضان قلم کی زندہ کرامت

حسرت موہانی کا یہ شعر مولانا کی نثر کی قدر و قیمت کا حتمی فیصلہ ہے:
جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر
نظمِ حسرت میں کچھ مزا نہ رہا
پس یہ حقیقت اپنی تمام تر تجلیوں کے ساتھ آشکار ہو جاتی ہے کہ ’’غبارِ خاطر‘‘ محض چند خطوط کا مجموعہ نہیں بلکہ مولانا ابوالکلام آزاد کے فیضانِ قلم کی ایک زندہ کرامت ہے، اردو ادب کی وہ لازوال کرشمہ سازی جو قلعہ احمد نگر کی سنگلاخ دیواروں سے پھوٹی اور ادب کے چمنستان میں ایک سدا بہار پھول بن کر مہک اٹھی۔ یہ ایک ایسی شمعِ فروزاں ہے جسے حوادثِ زمانہ کی کوئی تند و تیز آندھی بجھا نہیں سکی، ایک ایسا نغمہ سرمدی ہے جس کی گونج وقت کے سناٹوں میں کبھی ماند نہیں پڑے گی، جب تک اردو زبان زندہ ہے اور فکر و نظر کی قدر باقی ہے، ادب کا یہ شہ پارہ آنے والی نسلوں کے لیے عقل کی رہنمائی اور روح کی بالیدگی کا سامان فراہم کرتا رہے گا، یہ وہ نقشِ جاوداں ہے جسے گردشِ لیل و نہار کی کوئی گرد گزند نہیں پہنچا سکتی، یہ علم و ادب کے اس آسماں پر ایک ایسا درخشندہ ستارہ ہے جس کی ضو کبھی مدھم نہ ہوگی ۔
_______________________