جلتا شام اور سوشل میڈیا

جناب سلمان علی

جلتا شام اور سوشل میڈیا
جناب سلمان علی
کالم نگار روزنامہ جسارت کراچی
قرآن مجید میں جس سرزمین کے تقدس و برکت کا ذکر ہے، اس وجہ سے مسجدِ اقصیٰ اور فلسطین کی سرزمین کے ساتھ ایک تقدس اور برکت جڑی ہے لیکن شاید لوگ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اس برکت، اس تقدس کا دائرہ موجودہ ملک شام تک پھیلا ہوا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو بشارتیں شام کے نام کے ساتھ ہیں، ان کا دائرہ بھی بیت المقدس سے جڑا ہوا ہے، اسلئے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ بات فرما رہے تھے، اس وقت وہ سارا خطہ شام ہی کہلاتا تھا،شام میں ۸ماہ قبل بشارالاسد کی ظالمانہ حکومت کا خاتمہ مسلمانوں کے ایک جہادی عمل سے ہوا، اسکے بعد وہاں سنی مسلمانوں کی نئی حکومت کے خلاف مختلف پروپیگنڈے شروع ہوئے، اس میں یہ حقائق بھی مدنظر رکھنے چاہئیں کہ اس وقت بھی اسرائیل بدمست ہاتھی کی طرح مشرق وسطی میں دوڑتا پھر رہا تھا۔ غزہ، مغربی کنارہ، لبنان، یمن اور شام سب نشانے پر تھے۔ حکومت کی تبدیلی کیساتھ ہی اس نے جارحانہ پیش قدمی کی اور شام کے تمام فوجی اڈے اور دفاعی تنصیبات ختم کرڈالیں، اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے یہ سب دو باتیں کہہ کر کیا
’’ یہ سب میں اسرائیل کے دفاع میں کررہا ہوں کیونکہ شام سے غزہ کے مجاہدین کو بھی کوئی مدد جاتی تھی اوردوسرا یہ کہ شام میں سنی مجاہدین کی حکومت اسرائیل پر حملہ نہ کردے۔‘‘
احمد الشرع کا خاکہ
اس کے بعد دنیا نے دیکھا کہ احمد الشرع نے صدر بن کر دنیا سے رابطے بحال کیے۔ سعودی حکومت کی مدد سے امریکی صدر ٹرمپ نے بھی ہاتھ ملایا۔ ایسا تاثر گیا کہ شام میں بھی اب صرف امریکی پٹھو حکومت قائم ہوگئی ہے پھر ایران سے شکست کے بعد اسرائیل (مقبوضہ فلسطین) کے شہر تل ابیب میں ابراہم اکارڈ کا پوسٹر لگا جس میں احمد الشرع کو بھی دکھایا گیا تو اس سے بھی یہ پیغام گیا کہ شام کی حکومت کے سب کس بل نکال دیے گئے ہیں۔ معاشی اور عسکری طور پر تباہ حال شام کے ساتھ کوئی روسی پشت پناہی نہیں تھی، نہ ہی اس کے پڑوسی ترکیہ، عراق ایسی پوزیشن میں ہیں کہ اس کو مضبوط کرسکیں، نہ ہی ایران ایسی پوزیشن میں تھاکہ وہاں کوئی عسکری امداد دے سکے،کسی اور اسلامی ملک کی تو خیر ہمت ہی نہیں ہوسکتی تو شام کے صدر کے پاس سانس بحال کرنے کے لئے وقفہ ضروری تھا، ہر طرح کا لیبل احمد الشرع پر لگایا گیا، اس کے حلیے، داڑھی، بیوی، میل جول سب پر باتیں کی گئیں، بیشک ہر بات ظاہری طور پر درست ہی تھی، اس لیے کسی بات کا دفاع نہیں کیا گیا، بس سکوت رہا لیکن پھر یہ ہواکہ آٹھویں مہینے میں اسرائیل کے تابڑ توڑ حملوں نے سارے شخصی خاکے و اعتراضات ازخود دھو ڈالے۔

دروزی اسرائیلی تعلق

ایسی صورت ِحال میں اسرائیل نے ایک اور ناپاک منصوبے پر عمل کا آغاز کردیا۔ شام میں آبادی کاتین فیصد دروزی مذہب کے ماننے والوں پر مشتمل ہے (یہ بھی خودساختہ، لیکن خفیہ مذہب ہے جو اہلِ تشیع، عیسائیت اور یہودکے عقائد کو لے کر بنایا گیا ہے، اس میں اپنے آپ کو خفیہ رکھا جاتا ہے، اس میں کوئی نیا داخل بھی نہیں ہوسکتا)۔ ان تین فیصد دروزیوں کے اسرائیل ہی نہیں یہودیوں سے بھی بہت گہرے مراسم ہیں۔ ان کا مذہبی و سیاسی پیشوا لبنان میں رہتا ہے۔ دنیا میں یہ کوئی دس لاکھ کے قریب باقی ہیں اور سب شام، لبنان، اسرائیل، اردن میں ہی بستے ہیں۔ شام میں اِنہوں نے ایک شہر السویدا میں اپنی تعداد کو جمع کررکھا ہے۔ اس شہر سے اسرائیل صرف ۷۰ کلومیٹر دور ہے۔ یہاں انہوں نے اپنی خودساختہ حکومت قائم کررکھی ہے اور نہیں چاہتے کہ شامی حکومت کے ماتحت رہیں۔ یہ حکومتی احکامات و پالیسیوں کی مستقل مخالفت کرتے ہیں۔ اسرائیل نے بھی دھمکی دی ہوئی ہے کہ دروزیوں کے علاقے میں شام کی حکومت کوئی دفتر، کوئی پولیس، کوئی فوج نہیں لا سکتی، وہ مکمل دروزیوں کی مرضی سے چلے گا،شام کی آبادی کو یوں بھی سمجھ لیںکہ وہاں سنی مسلمانوں کی تعداد آبادی کا ۷۸ فیصد ہے، اسکے بعد دس فیصد نصیری مذہب، پانچ فیصد اہلِ تشیع، چارفیصد عیسائی اور تین فیصد دروزی شمار کیے جاتے ہیں، اسلئے وہاں نصیری، اہل تشیع اور دروزیوں کے اہلِ سنت سے مختلف معاملات پر جھگڑے چلتے رہتے ہیں۔ نیتن یاہو چار دن کے دورے پر امریکا آیا اور ۱۰؍جولائی کو واپس پہنچا، اس دورے میں وہ غزہ جنگ بندی پرآمادہ نہیں ہوا، جس کا اعلان ٹرمپ کرنا چاہتا تھا، سب نے سنا اور دیکھا کہ ٹرمپ نے غزہ کے لیے وہی پرانا منصوبہ یعنی غزہ کو مسلمانوں سے خالی کرانے کا دہرایا۔

سویدا منصوبہ

شام کے شہر سویدا میں لڑائی ۱۱جولائی ۲۰۲۵ء کو شروع ہوئی۔ دیہی عرب مسلمانوں اور دروزیوں کے درمیان ڈکیتی کی واردات سے مسئلے کو پھیلایا گیا۔ ۱۳؍جولائی کی صبح تک، بدو جنگجوئوں نے مشرقی السویدا شہر کے المقواس محلے میں ایک چوکی قائم کرلی تھی، جس نے کئی دروزیوں کو پکڑ لیا تھا۔ مارٹر اور دیگر بھاری ہتھیاروں کے استعمال کی اطلاعات کے ساتھ، تشدد جلد ہی دیہی علاقوں میں پھیل گیا۔ ایسے میں اسرائیل نے دروزیوں کی مدد کے لیے حیرت انگیز طور پر شدید بمباری شروع کردی۔ مقامی سطح کے ایک مسئلے پر اسرائیل کا اچانک اس سطح پر آجانا حیرت انگیز تھا۔ اسرائیل کی اپنی زمینی سیکورٹی فورسز بھی صورتِ حال کو قابو میں کرنے کے لیے میدانِ عمل میں آچکی تھیں۔ آسمان سے اسرائیل کی بمباری نے دنیا کو حیرت زدہ کردیا۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ امریکا نے اِس بار بھی اسرائیل کو سختی سے منع کیا کہ وہ شام پر کوئی حملہ نہ کرے، مگر اسرائیل باز نہیں آیا۔ سویدا سے بمباری چلتی ہوئی عین دارالحکومت دمشق تک پہنچ گئی۔ صدارتی محل سمیت کئی حکومتی دفاتر نشانہ بن گئے۔
سوشل میڈیا پر ایک بار پھر فوٹیجز کا بازار گرم ہوگیا۔ مسلمانوں کے قتلِ عام، عرب مسلم قبائل پر حملوں، ان کی عزت و املاک پر حملوں کی فوٹیجز نے پھر دل دہلا دیئے مگر ہم سب غزہ کی لاشیں 650 دن سے دیکھ رہے ہیں اس لیے اب شاید کسی پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ ان سب میں سب سے اہم فوٹیج شام کے شہر میں نیلے ستارے والے مقبوضہ فلسطین یعنی اسرائیلی پرچم کے لگنے کی تھی۔ یہ دروزی تھے جو اپنے دوست اسرائیل کی بمباری کی وجہ سے زیادہ ہی جوش میں آگئے تھے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ اسرائیل کو اس وقت خطے میں لبنان، یمن، ایران، شام سے ہی خطرہ ہے۔ چاہے اس کو امریکی صدر منع کرے مگر وہ کسی کی نہیں سنتا۔ وہ یہ دیکھ چکا ہے کہ غزہ کو بچانے، لبنان کو بچانے، شام یا ایران کو بچانے کوئی نہیں آیا تو اب کوئی کیوں آئے گا؟ یہ پرچم والے مناظر دیکھ کر یہی تاثر گیا کہ اسرائیل نے اچانک اپنے چاہنے والوں کو شام کا اقتدار دلانے کی ضد پکڑی ہے تاکہ وہ یہاں سے بے فکر ہوجائے۔ اسرائیل کو اپنے ناپاک منصوبے ابراہم اکارڈ کے لیے شام میں مکمل حمایت چاہیے۔ یہ حمایت اس کو دروزیوں سے بہتر کوئی نہیں دے گا۔اسرائیل کے سب سے قریبی تعلق دار دروزی عسکری لیڈرحکمت الہجری نے ۱۶؍جولائی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور اردن کے شاہ عبداللہ دوم سے سویدا کو بچانے کی اپیل کا بیان جاری کیا اور صاف کہا کہ حکمران گروہ کے چہرے سے نقاب اترگیا ہے۔ اس طرح وہ بھی ایک مقامی جھگڑے کو حکومت تک کھینچ رہا ہے، یعنی دال پوری کالی ہے۔

اسرائیلی حملے

شام پر اسرائیلی حملے کے بعد بالکل ایسا ہی ہوا، تین دن اسرائیل بمباری کرتا رہا، اقوام عالم ہی نہیں اقوام اسلام پر بھی سناٹا طاری رہا۔ ٹوکن زبانی مذمت کا اخباری بیان دینے کی بھی شاید کسی میں ہمت نہیں رہی۔ اس خاموشی سے بھی صاف پیغام گیا ہے کہ ٹینشن نہ لو باری سب کی آئے گی۔ شروع کے دو دن جب اسرائیل ان کے شہر پر بم برسا رہا تھا تو اس وقت یہی سمجھا جارہا تھا کہ وہ یہ سب دروزیوں کی مدد کے لیے کررہا ہے مگر دارالحکومت پر حملوں نے اور اسرائیلی پرچموں کی وڈیوز نے صورت حال کو یکسر بدل دیا ہے۔ سارا عالمی میڈیا ایک خاص زاویے سے ہی خبریں نشر کررہا ہے، ہم سب انہی خبروں، انہی وڈیوز، انہی پوسٹوں کے قیدی بن چکے ہیں۔جنوبی شام کے شہر سویدا کے دروزیوںکے ساتھ جہادی عمل میں مصروف بدو قبائل نے شام بھر کے قبائل سے مدد کی اپیل کی ہے، شامی سیکورٹی فورسز بھی علاقے میں پہنچ گئی ہیں۔ دروزیوں کو اسرائیلی اسلحے کی مدد حاصل ہے، دروزیوں نے مسلمان قبائلیوں کے بدترین قتل عام کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔
دوسری جانب یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ ہوسکتا ہے شر میں سے خیر کو برآمد ہونا ہو، یہ بھی اللہ کی نصرت ہی کہلائے گی کہ جس ریاستی مشینری کا سویدا میں داخلہ ممنوع تھا آج وہ پوری قوت کے ساتھ امن کرانے کے نام پر سویدا میں داخل ہی نہیں ہوئی بلکہ بغاوت ختم کرکے کنٹرول سنبھال چکی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ سب پلان جولانی کا ہی ہو۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ مسلمان تو اپنے عقیدے کے مطابق جہادی تصورات، شہادت، رب کی رضا اور جنت کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ پھر یہ کہ اس خطے کی اپنی برکات ہیں۔ مزید یہ کہ کفر کے خلاف نکلنے پر الگ وعدے و نصرت ہوتی ہے، اسلئے مسلمان بنیادی طور پر بہادری، دلیری اور شجاعت رکھتاہے۔ اس کے برعکس سامنے دروزی کے پاس کچھ بھی نہیں سوائے دولتِ دنیا و اقتدار کے۔ پھر وہ جانتا ہے کہ وہ جو بھی ہے ایک اقلیت ہے، اس لیے وہ اندر سے ہوتا بزدل ہی ہے۔

چال الٹ گئی

اس ساری صورتحال پر سوشل میڈیا پر خاصے تبصرے جاری رہے۔ فیض اللہ خان نے اس موقع پر جو امت کی ترجمانی کی وہ پیش ہے۔
’’جولان کے پہاڑوں کا بیٹا جولانی کل بھی یہیں تھا آج بھی ہے۔دروز نے فوری معاہدے کی پیشکش کی جولانی نے معاہدہ تسلیم کرلیا۔ اسرائیل جنگ میں کودا تو دروز اپنے معاہدے سے پھر گئے، اسرائیلی حملوں کے بعد شامی فوج پیچھے ہٹ گئی،سارا علاقہ دروز و بدوئوں کے درمیاں ہی رہ گیا، شامی فوج کے نکلتے ہی بدوئوں نے نفیر عام کی اور مختلف قبائل کے جنگجو سویدا میں گھس گئے۔ اب دروز دوبارہ شامی حکومت کو آوازیں دے رہے ہیں کہ بدو قبائلیوں سے بچاؤ،امن کراؤ۔ایسے سارے دھندے نمٹانے کیلیے احمد الشرع جولانی بننا نہیں بھولتا۔یوں ایک بار پھر شام کی فوجوں کے سویدا میں داخلے کی تازہ اطلاعات آگئی ہیں۔ظاہر ہے پھرنیلے ستارے والے پرچم بھی اتر ہی گئے ہوںگے۔‘‘
فیض اللہ لکھتے ہیںکہ،احمد الشرع نہایت پیچیدہ معاملات کا سامنا کر رہے ہیں شام جنگوں کی سرزمین ہے اسرائیلی پڑوسی ہونے کے سبب شام میں مکمل امن خواب جیسا ہے جب تک غزہ آزاد نہیں ہوتا یہاں چھوٹے معرکے جاری رہیں گے۔تاریخ یہی بتاتی ہے یہ ریاست اپنی فطری وحدت ایک دن ضرور پائے گی۔

غزہ کی صورتحال

غزہ سے ہم منہ نہیں موڑ سکتے،650 خونیں دن ناقابلِ بیان ہیں، غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کیلئے اسپین کے بعد اب اٹلی سے ایک اور کشتی امدادی سامان و قافلہ لے کر اِس ہفتے نکلی ہے۔ شہدا کے پاک خون کی برکت ہے کہ پوری دنیا میں ان کی آواز گونج رہی ہے۔ مغرب کے اپنے بنائے انسانیت کے جھوٹے نظریات زمیں بوس ہوچکے۔ بھوک، پیاس، بمباری، موسم کی سختی، بے گھری، مستقل نقل مکانی کون سی قیامت ہے جو اہلِ غزہ پر نہیں بیت رہی،Death to the IDFکا نعرہ سوشل میڈیا کی زینت بن چکا ہے۔ مسلم ممالک میں تو اب احتجاج بھی ناپید ہے جبکہ مغربی ممالک میں لوگ ناچ ناچ کر،گاگاکر، یونیورسٹیوں میں ڈگری ایوارڈنگ تقریبات میں، سڑکوں پر، چوکوں چوراہوں پر مستقل احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بائیکاٹ مہم وہاں آج بھی جاری ہے، اس سے کچھ ہو یا نہ ہو مگر اس عظیم استقامت کے ذریعے اسلام کی حقانیت کا جو پیغام جارہا ہے وہ بہت طاقت رکھتا ہے، مغربی نظریات جب زمیں بوس ہورہے ہیں ان کو خود سمجھ میں آرہا ہے کہ یہ فریڈم، یہ ہیومنٹی سب دھوکا ہے تو پھر اصل کیا ہے؟ اصل وہ عقیدہ ہے جو یہ اہلِ غزہ اپنے پیاروں کی لاشوں پر پڑھتے ہیں حسبی اﷲ نعم الوکیل۔ اﷲ اکبر۔اشہد ان لا الہ الا اﷲ۔ وہ یہ نعرے، یہ جملے سن کر سوچنے پر مجبور ہیںکہ یہ کیسی قوت ہے جو اتنی شدید جنگ میں بھی ان کو ایسا رکھتی ہے؟ ایسے عقیدے پر جان بھی جائے تو کوئی پروا نہیں۔ تو پھر یہی برحق عقیدہ ہے۔