ملفوظاتِ امام لاہوریؒ ’’تفسیر لاہوری‘‘کی روشنی میں(قسط۱۳)

مرتب: حافظ خرم شہزاد

ملفوظاتِ امام لاہوریؒ
(قسط۱۳)’’تفسیر لاہوری‘‘کی روشنی میں

 مرتب: حافظ خرم شہزاد*

صورتاًنیکیوں کا بدلہ دنیا میں

’’کافر کے کسی نیک کام میں ایمان کی روح نہیں ہوتی، محض صورت اور ڈھانچہ نیکی کا ہوتا ہے۔ ایسی فانی نیکیوں کا اجر بھی فانی ہے جو اسی زندگی میں مال، اولاد، حکومت، تندرستی، عزت و شہرت وغیرہ کی شکل میں مل جاتا ہے۔ اس کو فرمایا کہ تم اپنی صوری(ظاہری) نیکیوں کے مزے دنیا میں لے چکے اور وہاں کی لذتوں سے تمتع کرچکے، جو عیش و آرام ایمان لانے کی تقدیر پر آخرت میں ملتا، گویا اس کی جگہ بھی دنیا میں مزے اڑا لیے، اب یہاں کی عیش میں تمھارا کوئی حصہ نہیں۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں جن لوگوں نے آخرت نہ چاہی فقط دنیا ہی چاہی ان کی نیکیوں کا بدلہ اسی دنیا میں مل چکا۔‘‘ (تفسیر لاہوری جلد۸، ص:۴۴۷ )

احادیث نبویؐ سننے اور پڑھنے کے آداب

’’حضورؐکی وفات کے بعد آپؐ کی احادیث سننے اور پڑھنے کے وقت بھی یہ ہی ادب چاہیے اور قبر شریف کے پاس حاضر ہو،وہاں بھی ان آداب کو ملحوظ رکھے نیز آپؐ کے خلفاء علماء ربانیین اور اولوالامر کے ساتھ درجہ بدرجہ اسی ادب سے پیش آنا چاہیے تاکہ جماعتی نظام قائم رہے، فرق مراتب نہ کرنے سے بہت مفاسد اور فتنوں کا دروازہ کھلتا ہے۔‘‘ (تفسیر لاہوری جلد۹، ص:۱۱۹)

بلا تحقیق خبر ماننا اختلاف وتفریق کا سرچشمہ

’’اکثر نزاعات ومناقشات کی ابتداء جھوٹی خبروں سے ہوتی ہے اس لیے اول اختلاف وتفریق کے اسی چشمہ کو بند کرنے کی تعلیم د ی یعنی کسی خبر کو یوں ہی بلا تحقیق قبول نہ کرو۔ فرض کیجئے ایک بے راہرواور تکلیف دوہ آدمی نے اپنے کسی خیال اور جذبہ سے بے قابو ہوکر کسی قوم کی شکایت کی،تم محض اس کے بیان پر اعتماد کرکے اس قوم پر چڑھ دوڑے اور بعد میں ظاہر ہوجائے کہ اس شخص نے غلط کہاتھا،توخیال کرو اس وقت کس قدر پچھتاوا پڑے گا اور اپنی جلد بازی پر کیا کچھ ندامت ہوگی اور اس نتیجہ جماعت اسلام کے حق میں کیسا خراب ہوگا۔‘‘ (تفسیر لاہوری جلد۹، ص:۱۲۱)

تہذیب کے علمبردار اور مساواتِ انسانی

’’انگریز کے ہاں مساوات نہیں تھی جو اسلامی عبادات میں پائی جاتی ہیں مثلاً یورپین عیسائیوں کے گرجے الگ تھے اور جن ہندوستانیوں کو عیسائی بناتے تھے ان کے گرجے الگ تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان کی عبادت گاہوں میں بھی خدا کا قانون رائج نہ تھا۔
لندن میں پیدا ہونے والے بچے اور لندن سے باہر کسی دوسرے ملک میں پیدا ہونے والے میں حقوق کا فرق تھا، خواہ اس کے ماں باپ بھی لندن کے باشندے ہوں۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ انگریز افسر جب عورت کے وضع حمل کے دن قریب ہوتے تھے تو بیوی کو لندن بھیج دیتے تھے تاکہ بچہ وہاں پیدا ہو کیونکہ وہاں کے پیدا ہونے والے کے حقوق زیادہ ہوتے ہیں۔
امریکہ کو کودیکھ لیجئے کہ وہاں سیاہ فام حبشیوں کے بچوں کو سکولوں میں امریکیوں کے ساتھ پڑھنے کی اجازت نہیں دی جاتی کہ کالے(سیاہ) ہیں اور خدا جانے کتنے ہزارحبشیوں کو امریکہ میں قتل کیا گیا ہے کہ ہم جیسے انسان نہیں ہیں لہٰذا ان کالے لوگوں کو گوروں کے ملک میں رہنے کا کوئی حق نہیں،سبحان اللہ!یہ اسلام ہی ہے جس میں:
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمودوایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
(تفسیر لاہوری جلد۹، ص:۱۳۵ )

انکارِ حدیث کا سبب

’’جو لوگ رسول اللہؐ کی احادیث کے محفوظ رہنے کا انکار کرتے ہیں،انھوں نے کسی اہل سنت والجماعت کے محقق اور متبحر عالم سے احادیث نبویہؐ کی مستند کتب پڑھنے اور سند لینے کا شرف حاصل نہیں کیا ہے، اس کا نتیجہ ہے کہ جو ان کے خیال میں آتا ہے وہ منہ سے کہتے جاتے ہیں اور مسلمان پہلے عام طور پر جاہل واقع ہوئے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ چلو علم حدیث کے پڑھنے اور اس پر عمل کرنے بھی جان چھوٹی۔
اے انکارِ حدیث کی غلطی میں مبتلا ہونے والے نوجوان! اس فرمان کو غور سے پڑھ! مذکورۃ الصدر دونوں آیتوں (سورۃ النجم،آیت:۳،۴)میں اللہ تعالیٰ نے کی طرف سے یہ اعلان ہوا کہ میرے پیغمبر علیہ السلام کی زبان مبارک سے دین کے متعلق جو کچھ بھی ظاہر ہوتا ہے وہ سب وحی الٰہی ہے، البتہ اہل سنت والجماعت کے علماء سلف وخلف کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ حضور انورؐ کی زبانِ مبارک سے مرآمدہ وحی کی دوقسمیں ہیں(۱)وحی جلی(۲)وحی خفی۔
(۱) وحی جلی: جسے قرآن مجید کہا جاتا ہے کہ اس وحی کے معانی پر الفاظ کا جامہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے پہناکر بھیجا جاتا ہے۔ اس وحی کا دوسرا نام ’’وحی متلو‘‘ہے جو وحی جبریل علیہ السلام نے آپؐ کو پڑھ کر سنائی ہے۔
(۲)وحی خفی: وحی خفی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضورانورؐ کے قلب پر معانی کا القاء ہوتا ہے اور ان معانی پر حضورانورؐ الفاظ کا جامہ پہناتے ہیں۔ وحی کی اس قسم کا دوسرا نام ’’وحی غیر متلو‘‘ہے یعنی جس وحی کو الفاظ کا جامہ پہنا کر سنا یا نہیں گیا،معانی کا القاء اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا اور ان معانی کو الفاظ کا جامہ حضورؐ نے خود پہنایا۔‘‘ (تفسیر لاہوری جلد۹، ص:۱۲۲)

باجوں کی حرمت

’’اس میں شک نہیں کہ باجہ بجوانا دین نہیں بلکہ کھیل اور تماشا ہے اور اس امر پر فخر کرتا ہے کہ ہم دوسروں سے کم نہیں ہیں اور اس امر کا ظاہر کرنا مقصود ہے کہ بفضل خدا ہمارے پاس روپیہ کافی زائد ہے۔ علاوہ اس کے باجہ بجوانے والے یہ خیال کرتے ہیں کہ باجے کے بغیر بارات بیزینت ہے، بارات کی دھوم باجے کے ساتھ ہونے ہی سے ہے،ورنہ سالن بغیر نمک کی طرح بدمزہ ہے، اس میں شک نہیں کہ باجہ بجوانا لغو(بیہودہ کام) ہے کیونکہ دین تو ہے نہیں۔علاوہ اس کے دنیا کے نفع کے بجائے سراسر نقصان ہے کیونکہ اپنی حلال کی کمائی میراثیوں اوربھانڈوں کی نذر کرنی پڑتی ہے اور لغو کام اس کو کہا جاتا ہے کہ جس میں نہ دین کا فائدہ ہو نہ دنیا کا۔‘‘ (تفسیر لاہوری جلد۹، ص:۳۳۷)

ایک اہم قاعدہ کلیہ

’’عقلاکا قانون ہے کہ مخاطب سے خطاب کرتے وقت اسی لغت کا استعمال کرتے ہیں جس سے مخاطب واقف ہو ورنہ خطاب رائیگاں جائے گا اور متکلم کی تضییع اوقات ہوگی، جب ہر عقلمند انسان اس قاعدہ کلیہ کا پابند ہے تو خدائے قدوس وحدہٗ لا شریک لہ جو عقلاً خالق ہے، وہ بطریق اولیٰ اپنے بندوں سے خطاب کرتے وقت اس زریں قاعدے کا لحاظ فرمائے گا کیونکہ اس کے بغیر استفادہ ناممکن ہے۔چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہے:وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہ(نہیں بھیجا ہم نے کوئی رسول مگر اس قوم کی زبان کے ساتھ) یعنی ہر نبی اپنی اپنی قوم کو اسی زبان میں خطاب کرتا ہے جو اس کی مادری زبان ہے۔‘‘ (تفسیر لاہوری جلد۹، ص:۳۸۲ )

علمائے کرام کی ذمہ داریاں

’’اب العلماء ورثۃ الانبیاء کی حدیث کے سبب یہ چاروں فرائض علماء کے کندھوں پر ڈالے گئے ہیں اور ان پر ان کا انجام دینا فرض ہے،فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں یکایک عظیم الشان رسول اُنھیں میں سے مبعوث فرمایا اور پھر اَن پڑھوں کو وہ علم و حکمت نصیب ہوا جو دنیا کی کسی قوم کو حاصل نہ ہو سکا پھر آگے اللہ نے اس عظیم الشان رسول ؐ کے فرائض بھی بیان کیے ہیں کہ وہ رسول اپنی اُمی قوم کو خدا تعالیٰ کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انھیں اللہ کے احکام سے آگاہ کرتا ہے اور خود ان کو فرائض و منہیات سے روشناس کراتا ہے۔‘‘(تفسیر لاہوری جلد۹، ص:۱۴۴)

عظمت صحابہ ؓ

’’قران حکیم تو آج بھی مسلمانوں میں موجود ہے لیکن وہ دانش نہیں ہے جو صحابہ کرامؓ کو رسولؐ کی صحبت میں حاصل ہوتی تھی، دنیا بھر کے بہادر جرنیلوں سے بڑھ کر وہ بہادر جرنیل تھے۔ دنیا بھر کے علماء سے بڑھ کر وہ بڑے عالم تھے، دنیا بھر کے منصفوں سے عالی دماغ منصف تھے، دنیا بھر کی منظم فوجوں سے بڑھ کر وہ منظم فوج تھی، دنیا بھر کے سپاہیوں سے بڑھ کر فرمانبردار سپاہی تھے، دنیا بھر کے مبلغین سے بڑھ کر بہترین مبلغ تھے، غرضیکہ ان کے تمام اقوال و اعمال میں دانشمندی کا بین ثبوت ملتا ہے، آج ایک ہم ہیں کہ ہم پر ضرب المثل صادق آتی ہے، اونٹ ریاونٹ تیری کون سی کل سیدھی۔‘‘ (تفسیر لاہوری جلد۹، ص:۴۴۳)

ٓعلماء کرام اور صوفیہ عظام کی اقسام

’’(۱)علمائے ربانی: جن کے سینے قال اللہ تعالیٰ اور قال الرسول ؐ کے علم کا گنجینہ ہوں، خلق خدا کو ربانی علوم سے بہرہ مند کریں، رب جلیل کا پیام اس کے بندوں کے پاس پہنچائیں اور اس کے دروازے پر پہنچنے کے لئے لوگوں کی رہنمائی کریں۔
(۲) صوفیائے ربانی: جن کا مطلوب، مقصود اور محبوب رب ہی کی ذات ِاقدس ہو،ان کی صحبت میں بیٹھنے سے دنیا سے بے رغبتی پیدا ہو، آخرت کی یاد تازہ ہو، شیطانی وسوسوں سے نجات ملے، یادِ الٰہی کے ولولے پیدا ہوں، حسد کینہ بغض انانیت غرور تکبر جاہ طلبی زرپرستی کا جذبہ فنا ہو جائے۔ دوسرے کے عیب نظر نہ آئیں مگر اپنے عیوب کے چہرے سے پردہ اٹھ جائے۔
(۳) علمائے سوئ: جن لوگوں نے علم دین کو حصول دنیا کا ذریعہ بنایا ان کا کمال علمی فقط جلب زر تک محدود ہے۔ ان کا مقصود نہ دین الٰہی کی اشاعت ہے نہ توحید کی تبلیغ نہ شرک کا محو ہے کرنا نہ بدعت سے باز رکھنا نہ روٹھوں کو منانا نہ بگڑے کو بنانا، ان کی زندگی کا نصب العین محض روٹی کمانا،تعیش سے جینا، مسلمانوں کو لڑاکر اپنے حلوے مانڈے کی خیر منانا ہے اور بس۔
(۳) جعلی صوفی: جعلی صوفی سے مراد خانہ ساز فقیر ہے جسے باخدا صوفیائے کرام کے اخلاق حمیدہ سے کوئی نسبت نہیں، جن کا مقصود خدا نہیں بلکہ طرح طرح کے حیلوں سے دنیا کمانی مطلوب ہے۔ ان دنیا پرست صوفیوں کی صحبت میں بیٹھ کر انسان کا دل دنیا کی صحبت سے سرشار ہو جاتا ہے، ان کا لباس، ان کی خوراک، بنگلے جائیدادیںشاہانہ ٹھاٹھ غرض ہر چیز کو دیکھ کر بندگان سیم و زر کے منہ سے رال ٹپک پڑتی ہے۔ ان کا سیاہ لباس یا جوگیا رنگ کے کپڑے ان کی خواہشاتِ نفسانی کے فنا ہونے اور ترکِ لذات کا اعلان کر رہے ہوتے ہیں لیکن ان کے اعمال اور جذبات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بڑے سے بڑے دنیا داروں سے کہیں بڑھ کر حریص، طماع اور عیاش واقع ہوئے ہیں۔‘‘ (تفسیر لاہوری جلد۹، ص:۴۴۵ )

سچے پیر کی پہچان

’’حضرت شاہ ولی اللہؒ نے کھرے کھوٹے سچے اور جھوٹے پیر میں چند شرائط کے ساتھ امتیاز فرمایا کہ جو شخص لوگوں سے بیعت لے اس میں چند باتوں کا پایا جانا لازم ہے۔
پہلی چیز یہ ہے کہ اسے کتاب و سنت کا علم ہو لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ پورا عالم ہو بلکہ قرآن مجید میں اتنی بصیرت کافی ہے کہ تفسیر مدارک، جلالین یہ ان جیسی کوئی تفسیرکسی عالم سے پڑھی ہو اور حدیث میں سے کم از کم مصابیح السنۃ جیسی کتاب کی تحصیل کی ہو، اسکا مطلب مفہوم جانتا ہو،اسکی لغات مشکلہ کا ترجمہ اور مشکل الفاظ کے اعراب اور معضل کی تاویل فقہائے دین کی رائے پر معلوم کر چکا ہو، مشکل اس لفظ کو کہتے ہیں جو لفظ اور ترکیب نحوی کے اعتبار سے دشوار ہو اور معضل وہ ہے جس کے معنی مشتبہ ہوں، ایک معنی کا تعین نہ ہو سکے یا دوسری حدیث اسکے معارض ہو کیونکہ بیعت لینے سے غرض مرید کو نیکی کا حکم کرنا، برائی سے روکنا،باطنی تسکین کیلئے ارشاد فرمانا، عاداتِ رزیلہ سے دستبردار کرنا اور اخلاق حمیدہ پیدا کرنا ہے،اسکے بعد مرید کا ان سب چیزوں پر عمل کرنا ہے، اگر مرشد عالم نہیں ہوگا تو یہ مقصد کسی طرح حاصل نہ ہو سکے گا،بیعت لینے والے پیر کی دوسری شرط عدالت اور تقویٰ ہے، اس پر لازم ہے کہ کبائر سے اجتناب کرے اور صغائر پر مصر نہ ہو۔ خود مرشد کے لیے گناہوں سے باز رہنا اسلئے اشد ضروری ہے کہ مریدوں سے بیعت لینے کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ اس کی صحبت میں گناہوں سے بچیں، برائیوں سے تائب اور نیکی کے خوگر ہوں،پس جس حالت میں کہ پیر خود ہی منہیات سے نہیں بچتا دوسرے لوگ اس کی صحبت سے کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ع آں کس کہ خود گم است کرارہبری کند
تیسری شرط مرشد کیلئے ہے کہ دنیا سے بے رغبت اور آخرت کا طالب ہو، ضرورتوں عبادتوں کو ہمیشہ ادا کرے اور صحیح حدیثوں میں جو اذکار مروی ہیں ان کو بالالتزام ادا کرے، اس کا دل ہمیشہ یادِ الٰہی میں شامل ہو اور باطن میں ہر وقت کسی کی دھن رہے۔
مرشد کے لئے چوتھی شرط یہ ہے کہ لوگوں کو نیکی کا حکم کرے،برائی سے روکے، ایسا بھی نہ ہو کہ اپنی کوئی ذاتی رائے ہی نہ رکھتا ہو(جس طرف کسی نے لگایا لگ گیا) صاحب مروت اور عقل کامل سے موصوف ہو تاکہ جس چیز کا حکم کرے یا کسی کام سے روکے اس پر اعتماد کیا جا سکے جب ایک معمولی گواہ کے لیے مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّھَدَآئِ (گواہوں میں جن کو پسند کرتے ہو) کہا گیا ہے تو جس کے ہاتھ پر بیت کرنی ہے اس کے متعلق بطریق اولیٰ اس شرط کا لحاظ رکھا جائے گا۔
پانچویں شرط مرشد کے لیے یہ ہے کہ مدت مدید بڑے بڑے کاملوں کی صحبت میں گزاری ہو، عرصہ دراز تک ان کی صحبت میں ادب سیکھا ہو، ان سے انوار حاصل کیے ہوں۔ یہ شرط اس لئے لگائی ہے کہ جس طرح کوئی جاہل عالم کی صحبت کے بغیر عالم نہیں ہو سکتا یا صنعت و حرفت کا کام بلا مدد استاد سیکھ نہیں سکتا، اسی طرح جب تک کسی ایسے بر گزیدہ انسان کی صحبت نہ اٹھائی جائے جس کا باطن قدورتوں اور آلائشوں سے پاک ہو اس وقت تک پاکیزگی و طہارت باطنی کسی طرح میسر نہیں ہو سکتی۔‘‘(تفسیر لاہوری جلد۹، ص: ۶ ۴۴ )
اسلام کی تعلیم
’’اسلام صرف اپنے متبعین کو احسان و تصوف اور رہبانیت ہی کی تعلیم نہیں دیتا نہ وہ سادھوؤںکی طرح ترک خواہش کی تعلیم دیتا ہے کہ اچھا اورعمدہ کھانے پینے سے پرہیز کیا جائے اور شادی بیاہ اور اولاد پیدا کرنے سے اجتناب کیا جائے بلکہ وہ ان تمام دنیوی علائق کو بہترین طریق پر سرانجام دینے اور قومی و اجتماعی زندگی بسر کرنے کی تعلیم دیتے ہوئے یہ چاہتا ہے کہ ان جکڑ بندیوں میں گرفتار ہونے کے باوجود تم سرمایہ سعادت جمع کرو اور یہی ایمان اور ایک ایقان ہے۔

نہ تجرید تجرید تن از قباست کہ تجرید تجرید نفس از ہواست

حدیث شریف میں آتا ہے:یتبع المیت ثلثۃ فیرجع اثنان ویبقی واحدا یتبعہ اھلہ ومالہ وعملہ (البخاری:۶۵۱۴) یعنی کسی مرنے والے کے پیچھے تین چیزیں اس کی قبر تک جاتی ہیں، اس کے اہل و عیال، مال و منال اور اعمال۔ پہلے واپس آ جاتے ہیںمگر تیسری اس کیساتھ رہتی ہے۔
اگرچہ مال و دولت آنکھیں بند ہوتے ہی غیر کی ملک ہوتے ہیں تاہم میت کو قبر تک پہنچانے تک وہ اسی کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور خویش و اقارب بھی اس کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں مگر جو ہی میت کو دفن کیا ان دونوں نے رخ بدلا، اسی لیے حضورؐ نے فرمایا کہ مرنے کے بعد تین چیزیں اہل و عیال، مال و منال اور اعمال جن کے ساتھ اسے خاص تعلق تھا اس کے ساتھ ہوتے ہیں مگر خویش و اقارب اور مال و دولت واپس ہو جاتے ہیں اور وہ اعمال وہیں رہ جاتے ہیں، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسان کی زندگی کا مدار انہی تین چیزوں پر ہے اس لیے جس شخص نے ان کے حصول کے صحیح اصول معلوم کر لیے وہ کامیاب ہو گیا اور جو تیسری چیز کو بھول گیا وہ پہلی ہی دو چیزوں میں الجھا رہا، ناکام رہا۔‘‘ (تفسیر لاہوری جلد۱۰، ص: ۱۱۲ )

مغرب کی خلاف فطرت رسم کو اپنانا

’’لہٰذا ثابت ہو گیا کہ ڈانس فطرت انسانی کے ایک خصوصی جذبہ کے بالکل خلاف ہے جس جذبہ کا نام غیرت ہے اس غیر فطری حرکت کا آگے چل کر دوسرا اخلاق سوز نتیجہ جو نکلتا ہے وہ ملاحظہ ہو کہ جن لوگوں نے یورپ کی اس خلاف فطرت رسم کو اپنا لیا ہے، انہوں نے ایک دوسری (خلاف شرع اسلامی) رسم کو بھی اپنایا ہوا ہے اور وہ شراب خوری ہے(حالانکہ قرآن مجید نے صراحتاً شراب کو پلیدی اور عمل الشیطان سے تعبیر کیا ہے) آج کل شریعت اسلامی کہیے یا خوف خدا سے جن کے دل بے بہرہ ہو چکے ہیں بعض اوقات ان کی بیویوں کا آپس میں تبادلہ بھی ہو جاتا ہے مثلاً تفریحی اجتماعات میں پہلے کھانا کھایا، پھر خوب شراب پی کر بیویوں کے تبادلے کر کے ناچتے (ڈانس کرنے) لگ گئے پھر اس شراب کے نشے میں رخصت ہوتے وقت کوئی کسی کی بیوی کو لے گیا اور کوئی کسی کی بیوی کو لے گیا اور اپنے گھروں میں جا کر شب باشی کی، جب صبح کو نشہ اترا پھر عورتیں اپنے اپنے گھروں میں واپس آگئیں۔ جب تمہارا نشہ اتر جاتا ہے پھر ہوش میں آ کر سب کام صحیح کرنے لگ جاتے ہو،کبھی یہ سوچا کرو کہ جس خدا کے نام کا کلمہ پڑھتے ہووہ ان خلاف فطرت حرکتوں کو پسند کرتا ہے؟ اور جس رسولؐ کے نام کا کلمہ پڑھتے ہو کیا وہ ان حرکتوں کو پسند کرتا ہے؟ اور کیا جس قرآن مجید کی کلام الٰہی ہونے کا اقرار کرتے ہو اس کی تعلیم تمہاری ان حرکتوں کے جواز کی تعلیم دیتی ہے؟اور کیا جن بزرگوں کی اولاد کہلاتے ہو،یا تمہارے باپ دادا ناشائستہ حرکتوں کو مرتکب ہوتے تھے؟۔‘‘(تفسیر لاہوری جلد۱۰، ص:۳۱۲ )