عدت کی حکمت جدید سائنس نے عدت کی حکمت کی تصدیق کردی
مولانا انیس الرحمن ندوی
عدت کی حکمتجدید سائنس نے عدت کی حکمت کی تصدیق کردیمولانا انیس الرحمن ندوی(جنرل سیکرٹری، فرقانیہ اکیڈمی وقف بنگلور، ومدیر اعلیٰ مجلہ تعمیر فکر)
عدت کے تعلق سے آج کل ایک سوال یہ کیا جاتا ہے کہ طلاق یا شوہر کے انتقال کے بعد عورتیں عدت کیلئے آج سائنٹفک طریقہ کیوں نہیں اپناسکتی ہیں؟ یعنی ایسی عورتوں کا pregnancy test کروایا جانا چاہئے اگر عورت حاملہ ہو تو وہ عدت پوری کریں اور اگر ٹیسٹ منفی آئے تو پھر ان پر عدت ساقط مانی جانی چاہئے چونکہ اسلام دین فطرت ہے اس لئے ایسا حکم اسلام کے دین فطرت ہونے کی نمائندگی بھی کرے گا۔
بلاشبہ اسلام دین فطرت ہے۔ دراصل اسلام ایک مکمل ضابطہء حیات ہے جو زندگی کے ہر ہر پہلو کی راہنمائی کرتا ہے۔ ازدواجی زندگی اور اس سے متعلقہ مسائل میں بھی اسلام نے نہایت حکمت وبصیرت سے احکام دئے ہیں، انہی احکام میں ایک اہم حکم عدت waiting period کا ہے، جو نہ صرف عورت کی عزت ووقار کی حفاظت کرتا ہے بلکہ معاشرتی نظم وضبط کو بھی قائم رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں جدید سائنسی تحقیقات نے عدت کی حکمت ومصلحت اور اس کی گہرائی اور گیرائی کو اجاگر کرتے ہوئے اس کی معنویت ومصداقیت کی ایک نئے جہت فراہم کردی ہے، جس سے شریعت اسلامی کے اعجازی پہلو ظاہر ہوتے ہیں، جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ عدت صرف انتظار نہیں ہے بلکہ وہ ایک گہرا فطری، سائنسی اور روحانی عمل ہے۔اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عدت کا مقصد صرف یہ دیکھنا ہے کہ عورت حاملہ ہے یا نہیں۔ لیکن درحقیقت، عدت کا تصور صرف حمل کے امکان تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ایک مکمل، سائنسی، طبی اور روحانی حکمت پر مبنی مدت ہے، جس کا تعلق عورت کے جسم، ذہن اور جذبات کے توازن سے بھی ہے۔
جدید میڈیکل سائنس نے ثابت کیا ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان جنسی رابطہ کے بعد مرد کے نطفے sperm کے اجزاء صرف چند دنوں تک نہیں، بلکہ کئی مہینوں تک عورت کے جسم میں موجود رہ سکتے ہیں، یہ اجزاء نہ صرف عورت کے رحم میں بلکہ اس کے خون، ہڈیوں، حتیٰ کہ دماغ میں بھی trace کئے جا سکتے ہیں، اس کیفیت کو سائنسی اصطلاح میں microchimerism کہا جاتا ہے، یعنی ایک مرد کے خلیے عورت کے جسم میں مہینوں تک موجود رہتے ہیں اور اس کے جسمانی نظام پر اثر ڈالتے ہیں۔
عدت کے سلسلے میں دو سائنسدانوں کی تحقیقات کافی اہم ہیں۔ ایک ڈاکٹر جمال الدین ابراہیم اور دوسرے ڈاکٹر رابرپ گلہیم، ڈاکٹر جمال الدین ابراہیم مصری ہیں اور Toxicology and Biological Chemistry کے ماہر ہیں، انہوں نے ڈی این اے اور خلیاتی یادداشت Cellular Memory پر تحقیق کرتے ہوئے یہ معلوم کیا کہ ’’عورت کے رحم میں مرد کے ڈی این اے اور حیاتیاتی اثرات لمبے عرصے تک محفوظ رہتے ہیں، اگر ایک عورت بغیر عدت مکمل کئے دوبارہ شادی کرے تو سابق شوہر کے DNA کے اثرات نئے شوہر کے DNAکے ساتھ کیمیکل طور پر متصادم ہو سکتے ہیں، یہ تنازعہ عورت کی اولاد، رحم کی صحت اور جذباتی کیفیت پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ تقریباً ۳ ماہ کا عرصہ یا تین حیض کا گزرنا عورت کے جسم کو مکمل طور پر صاف detox کرنے کے لئے ضروری ہے۔
دوسرے سائنسدان ڈاکٹر رابرٹ گلہیم ہیں جو ایک فرانسیسی سائنسدان ہیں، جنہوں نے نکاح کے بعد عورت کے جسم میں مرد کے اثرات پر تحقیق کی، اُن کی تحقیق سے درج ذیل باتیں سامنے آئیں:
٭ ہر مرد کا ایک منفرد بیولوجیکل کوڈ ہوتا ہے، جو جماع کے دوران عورت کے جسم میں منتقل ہوتا ہے۔
٭ عورت کے جسم میں یادداشت کے خلیےmemory cells سابقہ مرد کے کوڈ کو محفوظ رکھتے ہیں۔
٭ اگر عورت فوراً نیا تعلق قائم کرے، تو کئی حیاتیاتی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں، جن میں بچے کی صحت پر اثر، جینیاتی پیچیدگیاں اور جذباتی عدم توازن شامل ہیں۔
یہاں پر ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ ڈاکٹر رابرٹ گلہیم ایک یہودی تھے اور جب انہیں اسلام میں مطلقہ اور بیوہ کی عدت کی مشروعیت کے متعلق معلوم ہوا تو انہوں نے اسلام کے ایک برحق دین ہونے کا اقرار کرتے ہوئے اسلام قبول کرلیا۔
بہر حال ،امریکہ کے ادارہء صحت NIH سمیت کئی تحقیقی ادارے بھی اس بات کی تصدیق کر چکے ہیں کہ مرد کا جینیاتی مواد عورت کے جسم میں تین سے چار ماہ تک رہ سکتا ہے، یہ خلیے عورت کے ہارمون، مدافعتی نظام اور جسمانی توازن کو متاثر کرتے ہیں۔ ان سائنسی دریافتوں نے قرآن کے اس حکم کی حیران کن تصدیق کی ہے کہ عورت کو طلاق یا بیوگی کے بعد عدت گزارنی چاہئے جو:
٭ طلاق کی صورت میں: تین حیض یعنی تقریباً تین ماہ ہے
٭ شوہر کی وفات کی صورت میں: چار ماہ اور دس دن ہے
یہ مدت عورت کے جسم کو سابقہ تعلق کے اثرات سے پاک کرنے اور ایک نئے مرحلے کے لئے مکمل طور پر تیار کرنے کیلئے قدرتی طور پر موزوں ہے۔ اس دوران رحم صاف ہو جاتا ہے، ہارمون توازن میں آ جاتے ہیں، اور مدافعتی نظام نئے ممکنہ تعلق کو قبول کرنے کے لئے خود کو تیار کرتا ہے۔ یہ ایک مکمل حیاتیاتی ری سیٹ reset کی مانند ہوتا ہے،لہٰذا عدت نہ صرف جسمانی صفائی کا عمل ہے بلکہ یہ عورت کے لئے ایک روحانی و ذہنی سکون کا وقت بھی ہے۔ وہ اس دوران اپنے جذبات، غم اور آنے والی زندگی کے لئے خود کو سنبھال سکتی ہے۔ اسلئے یہ کہنا کہ عدت صرف حمل جانچنے کے لئے ہے یا آج کل چونکہ pregnancy test موجود ہے اس لئے عدت کی ضرورت نہیں، ایک سطحی اور لاعلمیت پر مبنی بات ہے۔
عدت کو نظر انداز کرنے کے خطرات
اب یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا عدت کے دوران نکاح یا جنسی تعلق طبی اعتبار سے نقصان دہ ہوسکتا ہے؟ اور کیا microchimerism کے باعث عدت کی خلاف ورزی سے عورت کو کسی قسم کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟ اس سلسلے میں جدید سائنسی تحقیقات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی صورت میں عورت کو اسکے بڑے سنگین طبی وصحی خطرات لاحق ہوں گے جن کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے:
مدافعتی نظام کی الجھن
عدت میں عورت کے جسم میں پچھلے شوہر یا مرد کے خلیاتی باقیات cellular remnants موجود ہوتے ہیں، اور عورت کا جسم پچھلے مرد ساتھی کے خلیات یا جینیاتی ذرات کو ابھی تک پراسیس کر رہا ہو سکتا ہے۔ اس دوران اگر عورت دوسری مباشرت میں جائے اور نیا ڈی این اے اس کے جسم میں داخل ہو تو دو مختلف مردوں کے جینیاتی مواد کا عورت کے جسم میں overlap ہوسکتا ہے اور اس سے مدافعتی نظام میں پیچیدگیاں یا بے ترتیبی پیدا ہو سکتی ہے۔جس سے اس کے صحت کو سنگین قسم کے خطرات لاحق ہوتے ہیں۔
سوزش اور تولیدی صحت کے مسائل
نئی تحقیقات یہ اشارہ دیتی ہے کہ تولیدی بافتوں reproductive tissues میں ایک سے زائد مردوں کا جینیاتی مواد موجود ہونے سے بعض تولیدی مسائل کا خطرہ بڑھ سکتا ہے، جیسے کہ:اسقاط حمل، بانجھ پن، خود مدافعتی autoimmune ردعمل وغیرہ۔
حمل میں جینیاتی الجھن
بعض صورتوں میں، مائیکروچیمریزم microchimerism غیر متوقع جینیاتی امتزاج کا باعث بن سکتا ہے۔
ہارمونی اور جذباتی اثرات
ہر جنسی تعلق عورت کے ہارمونی اور جذباتی نظام کو متاثر کر سکتا ہے۔ تیزی سے ایک تعلق سے دوسرے تعلق میں جانا ذہنی صحت، جذباتی وابستگی کی صلاحیت، اور ہارمونی توازن کو متاثر کر سکتا ہے، اور عورت کا tissue repair mechanisms متاثر اور خراب ہوسکتے ہیں۔
کینسر کے خطرات
اس سلسلے میں چونکانے والی متعدد سائنسی تحقیقات سامنے آچکی ہیں کہ عدت کے وقفے میں ایک سے زائد مرد کا DNA داخل ہونے سے اس عورت کو کئی قسم کے کینسر کے خطرات لاحق ہونے کاسبب بن سکتا ہے۔ جن میں عنق رحم کا سرطان (سروائیکل کینسر) اور چھاتی کا سرطان (بریسٹ کینسر) قابل ذکر ہیں۔ لہذا عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ یہ کینسر ان خواتین کو لاحق ہوتا ہے جو ایک سے زیادہ مردوں کے ساتھ جنسی تعلقات رکھتی ہیں۔آج عالمی پیمانے پر مختلف قسم کے کینسروں میں زیادتی کی ایک اہم وجہ آزادانہ جنسی تعلقات کو قرار دیا جارہا ہے، جس میں ایک عورت بیک وقت ایک سے زائد مردوں سے جنسی تعلقات استوار کرتی ہے۔ لہٰذا ایسی صورتوں میں کینسر پہلے عورتوں کے جسم میں پیدا ہوتا ہے اور پھر اس سے جنسی طور پر رابطہ میں آنے والے افراد کو منتقل ہوکر دوسروں تک پھیلنے کا سبب بنتا ہے۔بہر حال، اسلام نے چودہ سو سال پہلے عدت کا وہ پاکیزہ نظام دیا جسے آج سائنس بھی تسلیم کر رہی ہے۔ شریعت کے احکامات نہ صرف روحانی اور اخلاقی لحاظ سے بلند ہیں بلکہ طبی اور سائنسی لحاظ سے بھی فطرت کے عین مطابق ہیں لہٰذا عدت عورت کے جسم، ذہن اور روح کو سابقہ تعلق کے اثرات سے پاک purification کرنے اور ایک نئی شروعات کے لئے تیار کرنے کا ایک قدرتی اور حکیمانہ عمل ہے۔ یہ شریعت کا وہ نظام ہے جس میں انسان کی فطرت، صحت اور عزت کا مکمل خیال رکھا گیا ہے۔
____