قطر پر حملہ اسرائیلی جارحیت /گلوبل صمود فلوٹیلا: عالمی قافلہ جرأت و استقامت

مولانا راشد الحق سمیع /مدیر الحق‘‘

قطر پر حملہ اسرائیلی جارحیت

اسرائیلی صہیونی ریاست اپنی ابتدا سے آج تک انسانی تاریخ کے بدترین مظالم کا مرتکب رہی ہے، فلسطین پر قبضہ، لاکھوں مسلمانوں کی شہادت، گھروں کی مسماری، بستیوں کی اجاڑ اور غزہ کے باشندوں کی نسل کشی اور مسلسل محاصرہ، یہ سب اسرائیلی جرائم کی طویل داستان ہے، غزہ انسانی قبرستان بن چکا ہے جہاں معصوم بچے اور عورتیں صیہونی بمباری اور بھوک کا شکار ہیں، اس وقت غزہ کی سر زمین دہائیوں سے خون اور آنسوؤں میں نہلا دی گئی ہے لیکن عالمی طاقتیں مجرمانہ خاموشی سے تماشا دیکھتی رہیں، دنیا کی تاریخ میں ظلم اور بربریت کے جو ابواب اسرائیل نے رقم کئے ہیں، وہ قدیم و جدید تاریخ میں شاید کسی اور نے رقم نہیں کی ہوگی، فلسطین کی ارضِ مقدس پر یہودی ریاست کے قیام سے آج تک خونِ ناحق کا سلسلہ جاری ہے، غزہ کی پٹی پر معصوم بچوں، بے سہارا عورتوں اور نہتے مردوں پر بمباری، ہسپتالوں، اسکولوں اور پناہ گاہوں کو ملبے کا ڈھیر بنا دینا، یہ سب کچھ عالمی ضمیر اور حقوق انسانی کے دعویداروں کے سامنے ہو رہا ہے لیکن دنیا کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، حتی کہ اس ظلم و ستم کی پشت پناہی یہی عالمی قوتیں ہی کر رہی ہیں، اب یہ اسرائیلی صیہونی ریاست اتنی جرأت مند ہونے لگی ہے کہ وہ آگے آگے بڑھتے ہیں اور اپنے دائرہ ظلم کو بڑھاتے ہوئے ایران کے مختلف مراکز تک جا پہنچی اور پھر گزشتہ دنوں قطر جیسے آزاد خارجہ پالیسی رکھنے والے ملک کو نشانہ بنایا اور انہیں بھاری نقصان پہنچا دیا، اسرائیلی صہیونی ریاست کے مسلسل حملے اور اشتعال انگیزی امتِ مسلمہ کے خلاف کھلا اعلانِ جنگ ہے، یہ حقیقت واضح ہے کہ اسرائیلی صہیونی ریاست صرف فلسطین کو دبانا نہیں چاہتا بلکہ پورے خطے پر اپنی بالادستی قائم کرنا اس کا اصل ہدف ہے، قطر کی حیثیت خلیج میں ایک ایسے ملک کی ہے جس نے امت کی فلاح اور دفاعِ فلسطین میں ہمیشہ کردار ادا کیا لیکن اسرائیلی جارحیت نے قطر کے شہروں کو نشانہ بنا کر اس کی معیشت کو نقصان پہنچایا، سرمایہ کاری اور سیاحت کے دروازے بند کرنے کی کوشش کی، توانائی کے منصوبے متاثر ہوئے اور عام عوام کو خوف اور اضطراب میں مبتلا کردیا ۔
دوسری طرف یہ بھی ایک المیہ اور لمحہ فکریہ ہے کہ مسلم دنیا عموماً اور بالخصوص عرب ممالک کے سربراہان نے چند مہینے پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جیسے شخص (جو اسرائیل جیسے غاصب صہیونی ریاست کے سب بڑے پشت پناہ ہیں)کو کس طرح عزت دی، سرخ قالین بچھائے گئے، شاہانہ پروٹوکول دئے گئے، بڑے بڑے اعزازات سے نوازے گئے، اربوں ڈالر کے معاہدے ہوئے اور قطر کی طرف سے تو قیمتی تحائف اور شاہی جہاز تک پیش کیا گیا لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ وہی امریکہ اور اسرائیل کی مشترکہ پالیسی کہ عرب کو کبھی معاف نہ کیا جائے، نہ عزت دی جائے، تحائف اور قربانیاں ان کی نظر میں محض وقتی دل لگی ہیں، اصل ہدف ہمیشہ مسلم ممالک کی کمزوری اور تنہائی رہا ہے، یہ اس حقیقت کی کھلی دلیل ہے کہ استعمار اور صیہونی قوتیں کبھی اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ مخلص نہیں ہو سکتیں چاہے انہیں کتنے ہی تحائف کیوں نہ دیے جائیں، ان کے نزدیک اصل معیار صرف اپنے مفادات ہیں اور جو ملک ان کے آگے اپنی آزادی کی بات کرتا ہے وہ ان کے ظلم کا نشانہ بنتا ہے۔
آج قطر کے نقصانات صرف معاشی یا دفاعی نہیں بلکہ اس کا سب سے بڑا نقصان مسلم امت کے اتحاد کی چوٹ ہے، اگر ایک چھوٹے ملک پر حملہ ہوتا ہے اور بڑی بڑی عرب طاقتیں خاموش تماشائی رہتی ہیں تو یہ دشمن کو مزید حوصلہ دیتا ہے، اسرائیل نے قطر کی سالمیت کو نشانہ بنا کر دراصل پوری امت مسلمہ کی غیرت کو للکارا ہے۔ایسی صورتحال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ پورا عالم اسلام بالعموم اور عرب ممالک بالخصوص اپنے خوابِ غفلت سے بیدار ہو، اسرائیل اور اس کے حامیوں کی حقیقت پہچانے اور اپنی دولت و وسائل کو غلامی کے تحفے پیش کرنے کے بجائے اپنی آزادی اور امت کے دفاع کے لئے استعمال کرے، قطر کے خلاف اسرائیلی صہیونی ریاست کی جارحیت ایک تنبیہ ہے کہ اگر آج ہم مسلمان متحد نہ ہوئے تو کل ہر مسلم ریاست یکے بعد دیگرے اسی آگ کا ایندھن بنے گی، یہ مسئلہ صرف قطر یا فلسطین کا نہیں، یہ پورے عالمِ اسلام کا مسئلہ ہے، آج اگر ہم خاموش تماشائی بنے رہے تو کل کوئی اور اسلامی ملک اس ظلم کی زد میں آئے گا لہٰذا مسلم ممالک کے حکمران اجتماعی موقف اختیار کریں اور عملی اقدامات کریں، عالم اسلام کے علما اور دانشور اسرائیل کی سازشوں کو بے نقاب کریں اور عوام اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ اور فلسطین و قطر کی عملی حمایت کو اپنا دینی فریضہ سمجھیں، اسرائیل کی بڑھتی ہوئی یہ جارحیت امت کے اتحاد و بیداری کا امتحان ہے، اگر آج ہم نے اپنے مسلم بھائیوں کا ساتھ نہ دیا تو تاریخ ہمیں بے حسی اور بزدلی کے ساتھ یاد کرے گی، دشمن کے مقابلے میں ایمان، استقامت اور اتحاد ہی ہماری بقا کی ضمانت ہے، اللہ تعالیٰ امت کو بیداری عطا فرمائے اور قطر سمیت تمام مسلم ممالک کو ظالموں کے شر سے محفوظ رکھے (آمین)

گلوبل صمود فلوٹیلا: عالمی قافلہ جرأت و استقامت

یہ حقیقت ہر کسی پر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ غزہ صہیونی اسرائیلی غاصب ریاست کے مظالم کی وجہ سے لہو لہان ہے، بچے بھوک اور پیاس سے بلک رہے ہیں، ہسپتال ادویات سے خالی ہیں اور وہاں کی مظلوم عوام بچے ،بوڑھے اور خواتین ایک عظیم المیہ کا سامنا کر رہی ہے، ظلم کی انتہا یہ ہے کہ معصوم بچوں اور عورتوں کو زندہ رہنے کے بنیادی حقوق سے بھی محروم کر دیا گیا ہے، یہ محاصرہ صرف غزہ کی زمین کو نہیں بلکہ امتِ مسلمہ کے زندہ ضمیروں کو بھی جھنجھوڑ رہا ہے ،ایسے مایوس کن صورتحال میں امید کی ایک کرن گلوبل صمود فلوٹیلا کے نام سے امدادی قافلے کی صورت میں سامنے آئی ہے، جسے دنیا کشتی غزہ کے نام سے جانتی ہے، اس قافلے کا مقصد صرف چند بوری آٹا یا دوائی پہنچانا نہیں بلکہ اسرائیل کے ظالمانہ محاصرے کو چیلنج کرنا اور پوری دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ غزہ کے باشندے تنہا نہیں، یہ کشتی صہیونی ریاست کے مقابلے میں امت کے زندہ ضمیر اور غیرتِ ایمانی کی علامت ہے،یہ قافلہ کسی ایک ملک یا خطے کی جدوجہد نہیں بلکہ ایک عالمی تحریک ہے، اطلاعات کے مطابق فلوٹیلا میں ۴۶ ممالک کے کارکن اور نمائندے شامل ہیں، پاکستان کی نمائندگی جماعت اسلامی کے عظیم جرأت مند، نڈر اور امت مسلمہ کے درد سے سرشار رہنما اور سابق سینیٹر محترم مشتاق احمد خان صاحب اور مرد آہن ، مجاہد،عظیم خطیب حضرت مولانا پیر مظہر سعیدشاہ صاحب (رکن اسمبلی آزاد کشمیر) ،مولانا خطیب الرحمن سمیت دیگر افراد کر رہے ہیں،’’عالمی قافلہ استقامت ‘‘ کے تین بنیادی مقاصد ہیں(۱)ناکہ بندی ومحاصرہ کو توڑنا (۲) انسانی امداد کی راہداری کھلوانا (۳)غزہ کے مسلمانوں کا قتل عام اور نسل کشی رکوانا۔ اس بحری قافلے کا طریقِ کار پرامن اور قانونی ہے، یہ بین الاقوامی پانیوں سے غزہ کی طرف بڑھتا ہے تاکہ عزہ کا محاصرہ توڑ کر وہاں بھوک و پیاس سے نڈھال متاثرین کو امداد پہنچایا جا سکے اور دنیا کو اسرائیلی مظالم کا حقیقی چہرہ دکھا سکے ۔پاکستانی عوام ہمیشہ فلسطین کے حق میں آواز بلند کرتی رہی ہے، اس بار مشتاق احمد خان اور مولانا مظہر سعید شاہ صاحبان نے عملی شرکت کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ امت کا ایک فرد بھی اگر ایمان و غیرت کیساتھ کھڑا ہو جائے تو وہ دنیا کے بڑے بڑے ایوانوں سے زیادہ اثر ڈال سکتا ہے۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ نے اس قافلے کی حمایت کرتے ہوئے اسے ایک عظیم دینی، انسانی اور اخلاقی فریضہ قرار دیا۔ فلوٹیلا دراصل امت کے ضمیر کو بیدار کرنے کا ایک وسیلہ ہے اور یہ ہمیں آگاہ کرتی ہے کہ اگر چند کشتیوں کے ذریعے ظالم کا محاصرہ چیلنج ہو سکتا ہے تو پوری امت اگر یکجا ہو جائے تو صہیونی غاصب ریاست کا ظلم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا، ہم اس تاریخی اور جراتمندانہ اقدام پر پاکستان اور دنیا بھر کے جراتمند قافلے کے شرکاء کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں ۔