(قسط14)ملفوظاتِ امام لاہوریؒ ’’تفسیر لاہوری‘‘کی روشنی میں

مرتب: حافظ خرم شہزاد

ملفوظاتِ امام لاہوریؒ
’’تفسیر لاہوری‘‘کی روشنی میں

اللہ تعالیٰ سے تعلق درست رکھنے کے لیے تزکیہ کے عنوانات

’’تزکیہ کے سلسلہ میں چند چیزیں ایسی ہیں کہ جب تک انسان کا ان چیزوں سے تزکیہ نہ ہو یعنی ان آلائشوں سے انسان کا دل جب تک پاک نہ ہو، اللہ تعالیٰ کا تعلق اس سے درست ہو نہیں سکتا اور وہ چھ چیزیں ہیں: (۱ )شرک(۱)کفر  (۳ )   نفاق اعتقادی   (۴ ) ریاء  (۵ ) سمعہ  (۶ ) عجب
اور انسانوں کے ساتھ تعلقات درست رکھنے کے لیے دو چیزوں سے بچنا ضروری ہے۔ ایک ان میں سے تکبر ہے اور دوسرا حسد ہے۔‘‘(تفسیر لاہوری ج۱۰، ص:۵۸ ۲)

مسلمانوں میں ہندوانہ تمدن

’’ہندوستانی مسلمانوں کا موجودہ تمدن زیادہ تر ہندوؤں سے آیا ہے،اس کا سبب تلاش کیا جائے تو دو چیزیں معلوم ہوتی ہیں: پہلی یہ کہ سوائے ساداتِ کرام صدیقی، فاروقی یاعباسی وغیرہ حضرات کے جو اپنا نسب نامہ سرزمین مقدس حجاز سے وابستہ کرتے ہیں، باقی سب مسلمان ہندوستان کی پیداوار ہیں دراصل یہ لوگ ہندو تھے بعد میں مسلمان ہوئے مگر قرآن مجید اور سنت نبی کریمؐ کی تعلیم نہیں پائی۔ہندوستان کی آبادی کا اکثر حصہ ہندوؤں سے نکل کر حلقہ بگوش اسلام ہوا ہے اور تعلیم کتاب و سنت سے بے بہرہ رہا ہے، نام کا وہ مسلمان ہے اور رسم و رواج، عادات و اطوار، شادی غمی وغیرہ میںسے ہندوانہ رسمیں ادا کرتا ہے، مثلاً شادی کے موقع پر مسلمانوں کے ہاں جو کچھ ہوتا ہے وہ زیادہ تر ہندؤں کے تمدن کی یاد تازہ کرتا ہے ڈھولک بجانا، تیل مہندی، گانا، گھوڑی، سہرا، باجے بجانا،آتش بازی کرنا، جہیز پھیلا کر کنبے اور محلے والوں کو نام و نمود کے لیے دکھانا، لڑکی کی رخصتی کے وقت اس کی ڈولی پر پیسوں کا مینہ برسانا، علیٰ ہذا القیاس اور کئی رسمیں ادا کی جاتی ہیں حالانکہ یہ سب ہندؤں سے لی ہوئی ہیں شادی کے سارے سلسلے میں فقط ایک چیز اسلامی ہے خطبہ مسنو نہ پڑھ کر میاں بیوی سے ایجاب و قبول کرانا اور یہ کام پانچ منٹ میں ختم ہو جاتا ہے اور مرنے کے بعد میں جو مسلمان کرتا ہے وہ چیزیں بھی زیادہ تر ہندؤں سے ہی لی ہوئی ہیں، فقط ابلیس کے تخت کی طرح ذرا سا ان کا رنگ و روپ بدل دیا گیا ہے مثلاً ہندؤں کے ہاں مردے کے تیسرے دن پھل چنے جاتے ہیں۔‘‘ (تفسیر لاہوری ج۱۰، ص: ۱ ۵ ۳)

 امام کے لئے زیادہ علم رکھنے کی حکمت

’’حضرت مولاناسید حسین احمد مدنی ؒ، مولاناامر وٹی ؒ کی اثر انگیز مثالوں میں سے ایک یہ ہے کہ کسی نے کہا امام کے لیے اعلم ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ فرمایا دل سے جو بات نکلتی ہے اس کا اثر کچھ اور ہوتا ہے … آں کہ از دل می ریزدبردل خیزد
حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ کا کہنا ہے کہ جب سمجھ ہو اور پھر تلاوت کرے تو قرآن رنگ لاتا ہے۔ خلافت کے زمانے میں جب جلسے ہو رہے تھے تو حضرت اور پیر مولانا امروٹی بھی اس میں شامل ہوتے تھے،ان دنوں مَیں(احمد علی) قید تھا، سلطان معظم گرفتار ہوئے تھے خلافت عثمانیہ تباہ کر دی گئی تھی،جب آپ تقریر فرماتے تو لوگوں کی چیخ چیخ کر جان نکلتی تھی مجسٹریٹ نے منع کر دیا فرمایا میرے گھر کو آگ لگ گئی ہے اور رونے بھی نہیں دیتے ہو!یہ کیا تھا؟ یہ آہ و فریاد کامل کے دل سے نکل رہی تھی اور کامل کے دل پر پڑ رہی تھی۔‘‘ (تفسیر لاہوری ج۱۰، ص:۴ ۵ ۳)

 شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کی شان استغناء

’’یہاں ہمارے دوست مولانا عبداللہ فاروقی تھے جو شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کے شاگرد رشید تھے، گزشتہ سال وفات پا گئے،وہ کہتے ہیں کہ میں جب دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوا تو ایک عورت اپنے بچوں کے لیے استاد طلب کرنے کے لیے آئی، شیخ الہندؒ نے مجھے بھیج دیا۔ کچھ مدت بعد اس عورت نے مجھے دو ہزار روپے دے دیے اور کہنے لگی کہ اس کو کسی صحیح مصرف میں خرچ کر دیجئے تاکہ مجھے ثواب ملے، تو میں نے سوچا کہ حضرت شیخ الہندؒ سے زیادہ اور کون اس کا مستحق ہے؟ وہ اس امداد کا صحیح مصرف ہیں۔ خوشی سے وہ رقم لے کر میں حضرت ؒکے پاس لے آیا اور کہا کہ حضرت! یہ روپیہ فلاں عورت نے دیا، آپ قبول فرمائیں تو حضرت نے فرمایا مجھے تو ضرورت نہیں اور روپیہ لینے سے انکار کر دیا۔ میں نے کافی اصرار کیا، حضرت نے فرمایا مجھے ایک پیسے کی ضرورت نہیں۔
    یہ ہے اہل اللہ اور ربانیین جو تکاثر مال سے نفرت کرتے ہیں، ایک وہ ہے جو تکاثر کے لیے ایمان تک بیج دیتے ہیں۔ببیں تفاوت را از کجا است تابہ کجا۔‘‘(تفسیر لاہوری، ج۱۰، ص:۲۴۰ )

دارالعلوم حقانیہ کے سالانہ جلسے میں خان عبدالغفار خان سے ملاقات اور میری دعوت

’’قصہ خوانی پشاور میں مسلمانوں نے جوانمردی اور شجاعت سے کافروں کا مقابلہ کیا انگریز نے گولیاں چلائیں وہاں ایک نوجوان سینہ تان کرآگے بڑھا اور کہا مارو! یہ کانگرس کے زمانے کا واقعہ ہے۔ خان عبدالغفار خان صاحب کو ہم اب بھی مانتے ہیں خدا ان کو سلامت رکھے ان کی نیت یہ تھی کہ اسلام کو آزاد کرایا جائے، سرخ پوشی ایک اسلامی تحریک تھی، ہم اکوڑہ خٹک دارالعلوم حقانیہ کے سالانہ جلسہ دستار بندی میں گئے تھے، خان صاحب نے ہمیں دعوت دی پھر ہم ان کے گاؤں چلے گئے، حقیقت میں انھوں نے مسلمانوں کی لاج رکھی ہے۔‘‘ (تفسیر لاہوری، ج۱۰، ص:۳۴۱ )

آزادی کی جنگ علماء کی مرہونِ منت

’’ہندو یہ نہیں کہہ سکتے کہ آزادی ہم نے دلائی ہے۔ ارے ہندو! تیرے ہاں گاندھی جی کی قدر ہے ہمارے شیخ الہند مولانا محمود حسن ؒ،مولانا حسین احمد مدنی ؒاور مفتی کفایت اللہ صاحبؒ پر دس کروڑ ہندو قربان، ہندوؤں کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ یہ کہیں کہ آزادی کی جنگ ہم نے جیتی ہے، آزادی ان اکابر علماء کی مرہون منت ہے۔‘‘ (تفسیر لاہوری، ج۰۱، ص:۳۴۱ )

پختونوں کا جذبہ جہاد

’’نبوت کا دروازہ اب بند ہو چکا ہے، حضرت محمدؐ جو خاتم النبیین ہیں ان کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا، اگر کوئی آئے بھی تو وہ دجال اور کذاب ہوگا مگر ملائکہ عظام کا مجاہدین کی مدد کے لیے آنا بند نہیں ہوا۔ نوے سال انگریز نے حکومت کی مگر باوجود کئی حملوں کے یاغستان کو فتح نہ کر سکا، قبائلی مسلمان پکے نمازی ہیں، بندوق اور کارتوس کا گٹھا ان کے گلے کا ہار ہوتا ہے، جہاد کے عاشق ہیں،پٹھان سے گناہ بھی سرزد ہو جائے مگر وہ جہاد کے لیے سب سے آگے نکلتا ہے۔ اسلحے کے ماہر ہوتے ہیں ان کی ایک گولی ایک آدمی کی قیمت رکھتی ہے، ان کا نشانہ صحیح ہوتا ہے۔ جذبہ جہاد بھی تو کوئی چیز ہے،انگریز نے اب یہ جذبہ جہاد مسلمانوں کے دلوں سے نکال دیا ہے، انگریز نے مرزا غلام احمد کو بناوٹی نبی اس کے لیے بنایا تھا کہ وہ لوگوں کو جہاد سے منع کرے چنانچہ مرزا غلام احمد کہتا تھا:
اے دوستو اب چھوڑ دو جہاد کا خیال
اب دین میں حرام ہے قتل و قتال‘‘
(تفسیر لاہوری، ج۱۰، ص:۴۱۴)

مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ، شیخ الہندؒ کے شاگرد

’’یاد رکھو! ہر زمانے میں اہل حق ہوتے ہیں، اہل حق نے مرزا غلام احمد کا منہ توڑا، حضرت مولانا ثنا اللہ امرتسریؒ اہل حدیث تھے مگر وہ شیخ الہند محمود حسنؒ کے شاگرد تھے۔ مولانا ثناء اللہ نے خود ایک شعر میں کہا ہے کہ میں جب وہاں شیخ الہندؒ کے درس میں سوال کرتا تھا تو طلبہ ناراض ہوتے تھے مگر شیخ الہندؒ میرے تمام شکوک و شبہات کے جوابات دے کر میری تشفی فرماتے، وہ پنجاب میں ’’فاتح قادیان‘‘ کے نام سے مشہور ہیں۔‘‘(تفسیر لاہوری، ج۱۰، ص:۴۱۵ )

علامہ انورشاہ کشمیریؒ اور امیر شریعتؒ کی عظیم خدمات

’’ہمارے علماء میں حضرت شاہ انور شاہ کشمیریؒ(اور) حضرت سید عطا ئاللہ شاہ بخاریؒ نے اس بناوٹی اور مصنوعی نبی کا خوب مقابلہ کیا،اگر دیوبندی علماء مقابلے میں نہ آتے تو آج یہ سارے پنجاب والے اس کذاب نبی کی امت بن جاتے۔ قادیانیت کا یہ فتنہ انگریزی سامراج کا خود ساختہ فتنہ تھا۔‘‘ (تفسیر لاہوری، ج۱۰، ص:۴۱۵ )

قرآن پر فنون کو ترجیح دینا توہین

’’علماء کرام جو اِن دو شعائر اللہ کے مجاور ہیں ان کی توہین کر رہے ہیں یعنی مدارس عربیہ کی تعلیم سے کہ وہ عملاً بالکل توہین کر رہے ہیں کیونکہ جو قافیہ کی کتاب پڑھائی جاتی ہے تو اول اس کا متن مستقبل پڑھایا جاتا ہے پھر چند شرحیں مثلاً تحریر سنبٹ، غایۃ التحقیق، شرح جامی اور پھر جامی کے دو حاشیے پڑھائے جاتے ہیں یعنی حاشیہ عبدالغفور اور تکملہ اور پھر عبدالغفور کے دو حاشیے یعنی عبدالحکیم اور نور محمد مدقق بھی پڑھایا جاتا ہے اور قافیہ ایسا ازبر ہوتا ہے گویا کہ نوکِ زبان پر رکھا ہوا ہے اور ہر ہر مسئلہ کی کئی دلیلیںاور توجیہات ترتیب ابواب و فصول بھی محفوظ ہوتے ہیں۔ اس مجموعہ پر تین چار سال صرف ہوتے ہیں بہ خلاف قرآن مجید کے کہ جس کا متن نہیں پڑھایا جاتا بلکہ جلالین پڑھائی جاتی ہے اور وہ بھی ختم نہیں ہوتی، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ فارغ التحصیل کو اتنی قوت نہیں ہوتی کہ قرآن کا ترجمہ، تفسیر کے دیکھے بغیر ادا کر سکے اور یہی حال حدیث شریف کا بھی ہے کہ ایک سال میں تمام دورہ حدیث شریف یعنی صحاح ستہ پڑھ لیتے ہیں یہ ناممکن ہے کہ حدیث کا حق بحیثیت فن حدیث کی ادا ہو اور ترمذی شریف کو بحیثیت فقہ پڑھایا جاتا ہے۔ فلاں حدیث سے فلاں مسئلہ ثابت ہوا نہ بحیثیت فن حدیث مثلاً امام ترمذی فرماتے ہیں کہہ ہٰذا حدیث حسن یا غریب۔ اس کا کچھ پتہ نہیں کہ یہ حدیث کیوں صحیح ہے، کیوں حسن اور کیوں غریب ہے؟ فقط تقلید کی جاتی ہے اور بصیرت سے صحیح، حسن اور غریب کا پتہ نہیں لگایا جاتا اور باقی کتب صحاح بھی نہایت سرسری طریقے سے پڑھائی جاتی ہیں اور یہ مسلمات میں سے ہے کہ مکتوب کی عزت کاتب کی عزت کو مستلزم ہے تو عصرحاضر کے بعض حضرات کے اس طرزسے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے قلوب میں ابن حاجبؒ کی عزت اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ؐکی عزت سے زیادہ ہے (العیاذ باللہ) یہ تو صاف عملاً توہین ہے اور اسی وجہ سے دلیل بھی ہے اور یہ ذلت من جانب اللہ نازل ہوئی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وَ تُعِزُّمَنْ تَشَآء وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآء اس کو دو ذلتیں اور ہیں ایک افلاس کی یہ بہت بڑی ذلت ہے اور دوسری محکومیت کی، حالانکہ مذہبی جماعت کسی کی محکوم نہیں ہوا کرتی اور اللہ تعالیٰ کسی کو ذلیل نہیں کیا کرتے جب تک وہ خود ذلیل نہ ہو چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ اور ہر بلاد کے علماء مختلف امراض میں مبتلا ہیں، کوئی گور پرستی میں کوئی جزئیات فقہ کے رہن میں، کسی نے منطق اور فلسفے کو اپنا مبلغ علم بنا لیاہے، جو واعظ ہیں وہ بھی قرآن نہیں بیان کرتے بلکہ چند جھوٹی کہانیاں اور موضوع احادیث کے بیان کرنے کو اپنی روزی کمانے کا ذریعہ بنا رکھا ہے لیکن قرآن مجید کی طرف کسی کو بھی توجہ نہیں ہے۔‘‘(تفسیر لاہوری، ج۱۰، ص:۴۳۱ )

جنگ عظیم اول ودوم

’’۱۹۱۴ ء سے گھمسان کی لڑائی شروع ہوئی اور۱۹۱۷ء تک جاری رہی، جرمن نے لڑائی لڑی جس میں کئی لاکھ ہلاک ہوئے، سمندر اور خشکی میں ان پر بمباری ہوتی رہی۔ یہ ذلت نہیں تو اور کیا چیز ہے؟ بظاہر تو بجا نظر آرہے ہیں مگر باطن میں گوناگوں، درد و کرب، تکالیف اور ذلتوں میں مبتلا ہیں، دو ایٹم بم سے جاپانی قتل ہو گئے پھر انھوں نے مغلوب ہو کر ہاتھ جوڑے۔ کیا یہ اللہ تعالیٰ کا عذاب نہیں ہے؟ یہ بڑے بڑے آفیسر اور حکام جو شعائر اللہ کی توہین و تدمیر میں لگے ہوئے ہیں ان کو مٹانے اور محو کرانے میں دن رات کوشاں ہیں، یہ تمام کے تمام ذلتوں کا شکار ہیں مختلف بیماریوں اور گوناگوں پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔‘‘ (تفسیر لاہوری، ج۱۰، ص:۴۳۲ )

سچی توبہ کے لیے تین شرائط

’’(۱)گزشتہ گناہوں پر ندامت    (۲)مستقبل میں گناہ نہ کرنے کا عزم مصمم اور
(۳) حال میں فوری دستبرداری۔‘‘  (تفسیر لاہوری، ج۱۰، ص:۴۷۹)(جاری ہے)