قادیانیوں کے خلاف پہلی پارلیمانی جدوجہد
۱۹۷۳ء میں قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دینے کی مولانا عبدالحق ؒ کی پیش کردہ قرارداد
پیش کردہ :حضرت مولانا عبدالحق ؒ
ممبر قومی اسمبلی (۱۹۷۳ء)
شیخ الحدیث مولانا عبدالحق ممبر قومی اسمبلی ومہتمم دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک نے قومی اسمبلی کے ۲۴؍مئی ۱۹۷۳ء کے اجلاس میں قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کی قرارداد پیش کرنے کی کوشش کرتے ہوئے نیشنل اسمبلی کے سیکرٹری کے نام حسب ذیل قرارداد شامل کرنے کا تحریری نوٹس بھیجا تھا۔
’’اس اسمبلی کی رائے ہے کہ پاکستان میں مرزائی جماعت اور اس کے تمام افراد (قادیانی اور لاہوری ہر دو جماعتوں)کو قرآن و سنت اور اجماع امت کے متفقہ فیصلہ کی بنا پر غیرمسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ ان کی تمام تبلیغی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی جائے اور انہیں زندگی کے تمام شعبوں میں اپنی علیحدہ تشخص قائم کرنے کی ہدایت دی جائے۔ یہ اسمبلی آزاد کشمیر اسمبلی کی اس قرارداد کی تحسین اور تائید کرتی ہے جس میں مرزائیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دینے اور ان کی رجسٹریشن کرانے پر زور دیا گیا ہے نیز آئندہ کے لیے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کا دعویٰ نبوت کرنے یا ایسے کسی مدعی کی پیروی کرنے والوں کے ساتھ مرتد کا سلوک کیا جائے‘‘۔
قومی اسمبلی کے سپیکر کی طرف سے ڈپٹی سیکرٹری نے ۲۴مئی کو تحریری جواب میں یہ کہتے ہوئے اس نوٹس کو مسترد کردیا کہ ایسی کوئی قرارداد اسمبلی کے قواعد اور طریق کار پر پوری نہیں اترتی اس لیے زیربحث نہیںلائی جاسکتی۔ سرکاری چٹھی کی نقل حسب ذیل ہے۔
قومی اسمبلی سیکرٹریٹ
نمبر ایف۔ ۱۷(۱)؍۷۳ لیجس ۔(آر ٹی۲)
اسلام آباد، ۲۴مئی ۱۹۷۳
بخدمت مولانا عبدالحق ،رکن قومی اسمبلی
موضوع: قادیانیوں کا بطور غیر مسلم اقلیت قرار دیا جانا
حسب خواہش میں جناب کو مطلع کرتا ہوں کہ قومی اسمبلی (مقننہ)کے قواعد ضابطہ کار و انصرام کاروائی کے قاعدہ ۹۰ بملاحظہ قاعدہ ۸۹ کے تحت سپیکر نے آپ کی مندرجہ بالا قرارداد کو جس کا نوٹس آپ نے ۲۲مئی ۱۹۷۳ء کو دیا تھا، اِسے نامنظور کردیا ہے۔
آپ کا مخلص
دستخط ڈپٹی سیکرٹری
۹؍جون۱۹۷۳ء کو شیخ الحدیث مولانا عبدالحقؒنے قومی اسمبلی میں ان کی قرارداد کہ ’’قادیانیوں کو اقلیت قرار دیا جائے ‘‘کے استرداد پر تقریر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’ قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کی میری قرارداد یہ کہہ کر مجھے واپس کردی گئی کہ یہ مفاد عامہ کے خلاف ہے حالانکہ یہ مسئلہ عین مفاد عامہ کا تقاضا ہے اور مرزائیوں کو الگ کردینا خود قادیانیوں کے مسلک اور پالیسی کے مطابق بھی ہے۔‘‘
سپیکر نے کہا کہ اس بارے میں آپ میرے چیمبر میں آکر مجھ سے گفتگو کریں، یہاں نہیں کرسکتے۔ دوسری وضاحت مولانا نے یہ کی، میں نے جناب سپیکر اور وزیر قانون کے مشورہ اور یقین دہانی پر مشنریوں کی قرارداد ملتوی کردی ہے، واپس نہیں لی۔ کیا میں نعوذ باللہ ارتداد کی اجازت دے سکتا ہوں۔ سپیکر نے کہا ہاں! یہ واپسی آئین کے نفاذ تک ہے۔ مولانا شاہ احمد نورانی نے بھی مولانا کی تائید میں فرمایا کہ نئے آئین کے بعد قرارداد کو ایوان میں لانے کے بارہ میں وزیر قانون کی یقین دہانی ریکارڈ پر ہے۔ مشورہ قبول کرنے کا مطلب قرارداد کو بالکل واپس لینا نہیں۔
(قومی اسمبلی میں اسلام کا معرکہ:ص۳۰)
۱۹۷۳ء کے آئین کے تدوین کے وقت حضرت مولانا عبدالحق ؒ کی پیش کردہ اہم ترامیم
صدر مملکت کا مسلمان مرد ہونا ضروری ہے
دفعہ نمبر۴۴میں مولانا عبدالحق کی ترمیم نمبر۴۴۱یہ تھی کہ صدر کم از کم چالیس سال کا مسلمان مرد ہونا ضروری ہے۔ اس پر آپ نے تقریر کرتے ہوئے کہا:
صدر محترم! میں اپنی ان ترمیموں پر مختصرا عرض کروں گا۔ یہ اسلامی مملکت ہے۔ خدا کرے کہ مکمل اسلامی بن جائے۔ اسلامی مملکت کے معنی یہ ہیں کہ جس کا نظام ملکی اور ملی اور بیرونی سب کا سب شریعت کے مطابق ہو۔ پیغمبر اللہ کا خلیفہ ہوتا ہے اور پیغمبر کا نائب خلیفہ یا امیر ہوتا ہے تو امیر تمام ملک کا گویا نگران ہے۔ فوج کا وہی نگران ہوگا اور اس طریقہ سے آئین کا بھی وہی نگران ہوگا اور ملک کے اندرونی فتنہ و فساد دور کرنے کے لیے بھی وہی ذمہ دار ہوگا تو امیر کی ایک مرکزی حیثیت سے ملک اور بیرون ملک معاہدات کرانا، صلح کرنا یا کسی کے ساتھ شرائط طے کرنا وغیرہ امور میں اسلامی قوانین کے تحت اور اسلامی نظام شریعت کے تحت اس کو تمام کاموں کی نگرانی کرنا پڑتی ہے… اس لیے یہاں اس ترمیم میں میں نے ایک قید یہ لگادی ہے کہ وہ۴۵سال کے بجائے کم از کم چالیس سال کا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے جو چالیس سال کی قید لگادی ہے وہ اس لیے پیغمبروں کو نبوت بھی چالیس سال میں ہی ملی ہے۔ بچپن کے زمانے میں کھانے پینے کا شوق ہوتا ہے، جوانی میں غصے کا غلبہ ہوتا ہے۔ چالیس سال کا عرصہ ہے کہ جس میں وہ تجربہ کار اور پختہ عقل، متحمل مزاج اور مدبر ہوجاتا ہے تو ایسی صورت میں جبکہ انبیاء علیہم السلام کو ۴۰ سال میں نبوت ملی تو جو اس کا قائم مقام ہو، اس کے لیے بھی ۴۰سال کافی ہی ہیں۔ ۴۵سال کی قید لگانا مناسب نہیں؛ تاکہ جو لوگ اس کے اہل ہیں وہ انتخاب بھی لڑسکیں۔
ترمیم کی دوسری قید کے بارہ میں عرض کرتا ہوں وہ یہ کہ صدر مملکت مسلمان مرد ہو۔ مسلمان کی قید ضروری ہے اس لیے کہ جب ملک اسلامی ہے تو اسلامی ملک میں اسلامی شریعت کا نافذ کرنے والا، اسلامی قوانین کا نافذ کرنے والا، اسلامی قوانین کو جاری کرنے والا صدر وہ شخص ہونا چاہیے جو ان قوانین پر ایمان رکھتا ہو اگر وہ اس پر عقیدہ نہ رکھتا ہو اور یہ جانتا ہو کہ یہ چیزیں نعوذ باللہ صحیح نہیں ہیں تو وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشین کیسے ہوسکتا ہے اور ان چیزوں کا نفاذ کیسے کرسکتا ہے؟ اور مسلمان تب ہی ہوگا جب ان چیزوں کو صحیح جانے اور صحیح جاننے کے بعد پھر ان کو نافذ کرے۔ ایک چیز اور باقی ہے اور وہ یہ ہے کہ امیر مملکت ایسا شخص ہوگا جو مرکز شجاعت ہو جو کہ بھارت کا مقابلہ کرسکے جو کہ دوسرے موقعوں پر کافروں کا مقابلہ کرسکے، لاکھوں فوجیوں کو داد شجاعت دے سکے، مورچوں پر بھی جاسکے تو وہ شخص ظاہر بات ہے کہ صنف نازک سے نہیں ہوسکتا بلکہ مرد میں یہ صلاحیتیں پائی جاسکتی ہیں۔
عورت کی حکمرانی کی نفی
مسٹر سپیکر : مولانا!یہ ترمیم نہیں ہے۔
مولانا عبدالحق: تو ظاہر بات ہے کہ مرکز شجاعت خدا نے مردوں کو بنایا ہے۔ کل ایک محترمہ نے تجویز پیش کی ہے کہ خواتین کے لیے ہر شعبہ میں حصہ ہونا چاہیے یہاں تک کہ افواج میں بھی تو میں کہتا ہوں کہ آج ہماری ۹۳ ہزار فوج کافروں کے قبضہ میں ہے۔ خدانخواستہ اگر یہ عورتیں ہوتیں تو ایسی فوج کا کیا حشر ہوتا اور ہمارے لیے کتنی بدنامی ہوتی، ہمارے لیے دنیا میں رہنے کی صورت ہی نہ ہوتی۔ یہاں میں آپ کے سامنے ایک حدیث پیش کرتا ہوں۔ کسری کی بیٹی جب تخت نشین ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بتایا گیا تو انہوں نے فرمایا: لن یفلح قوم تملکہم امر ’’ہرگز نجات نہیں پاسکتی وہ قوم جس کی بادشاہ ایک عورت ہو‘‘ چنانچہ حضرت عمر ؓ کے زمانے میں اس کو شکست ہوئی۔ برطانیہ کی حکومت اتنی عظیم تھی کہ جس میں آفتاب غروب نہیں ہوتا تھا مگر جب سے ملکہ وکٹوریہ اور الزبتھ تخت نشین ہوئی تو سلطنت پر زوال آنے لگا اور بالآخر وہ ایک جزیرہ میں محصور ہوکر رہ گئی تو خدا نے مردوں کو جو شجاعت دی ہے، ظاہر بات ہے کہ وہ صنفِ نازک کو عطا نہیں ہوئی اور وہ کسی طرح بھی ان ذمہ داریوں کو پورا نہیں کرسکتی۔ (۱۶مارچ ۱۹۷۳ء)
غیرمسلموں کو کلیدی مناصب پر فائز کرنا ملکی مفاد کے خلاف ہے
قائم مقام صدر بن سکنے والا سپیکر اور چیئرمین لازما مسلمان ہونا چاہیے:
(۲۰؍اپریل گیارہ بج کر بیس منٹ)
مولانا عبدالحق: جناب!اس آئین کی دوسری خواندگی باقی ہے، یہ ابھی بل کی شکل میں منظور نہیں ہوا ہے، ابھی ہمارے محترم وزیر قانون صاحب اس کیلئے سب کچھ کرسکتے ہیں،میں نے جو اشکال پیش کیے ہیں وہ یہ ہیں کہ اسپیکر اور چیئرمین جو صدر کا قائم مقام بنایا جاتا ہے اور غور کرنے کے بعد ضرور بنایا جائیگا تو اس کیلئے مسلمان کی شرط لگادی جائے چونکہ دوسری خواندگی باقی ہے اور ابھی یہ منظور نہیں ہوا ہے تو ہم کہہ سکیں گے کہ یہ اسلام کیخلاف نہیں ہے
مسٹر سپیکر: دوسری خواندگی ابھی باقی تو ہے مگر ایک دفعہ جو ترمیم مسترد ہوجائے تو پھر وہ دوبارہ نہیں آسکتی۔آپ کا خیال یہ ہے کہ جو صدارت کا امیدوار ہو اس کے لیے مسلمان ہونا لازمی ہے یا وزیراعظم کے لیے بھی مسلمان ہونا لازمی ہے تو بعض موقعوں پر چیئرمین یا اسپیکر کو بھی عارضی طور پر صدارت کے عہدے پر فائز کرنا ضروری ہوگا، خواہ وہ چیئرمین یا اسپیکر چند ہفتوں کیلئے ہو مگر وہ صدر رہے گا لیکن مستقل طور پر جو صدر منتخب ہوگا وہ مسلمان ہی ہوگا۔
مولانا عبدالحق: گذارش یہ ہے کہ وہ ہر صورت میں مسلمان ہوگا۔ مسلمان کے اوپر ہمارا دینی لحاظ سے پورا اعتبار ہے۔ ان کا قائم مقام اگرچہ چند گھنٹوں کے لیے بھی کوئی غیرمسلم ہوگا تو وہ ہمارے رازوں کو دوسرے ملکوں میں پہنچادے گا۔ اگر وہ پانچ منٹ کے لیے بھی ہوگا تو وہ ملک کے مفاد میں نہیں رہے گا۔
مسٹر سپیکر: یہ اسمبلی میں پیش ہوچکی ہے اب اس کو دوبارہ نہیں پیش کیا جاسکتا۔ آپ نے اس پر ترمیم بھی دی ہے اور آپ کی کوشش برابر ظاہر ہے اور آپ مسلسل کوشش کررہے ہیں اور اس پر اب تقریر کرنے کا فائدہ نہیں ہے۔
مولانا مفتی محمود: سوال یہ ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم پوری دیانت داری کے ساتھ اس آئین میں قوم کو مطمئن کرسکیں۔ جب ہم نے آئینی سمجھوتے میں وضاحت کے ساتھ یہ بات تسلیم کرلی ہے کہ پاکستان کا صدر مسلمان ہوگا۔ اس کے بعد آئینی کمیٹی نے وزیراعظم کے مسلمان ہونے کی شرط بھی منظور کرلی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ صدر خواہ ایک دن کے لیے ہو، چھ مہینے کے لیے ہو، تین مہینے کے لیے ہو اس کے لیے مسلمان ہونے کی شرط لازمی ہے جو صدر کے لیے ہونا چاہیے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اس ترمیم کو اگر اس ایوان میں پورے اتفاق کے ساتھ قبول کرلیا جائے تو اس سے وقار اور بڑھ جائے گا، کم نہیں ہوگا۔
مسٹر عبدالحفیظ پیرزادہ: اس پر ایک فیصلہ تو ہوا ہے۔ نیشنل اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے سلسلے میں یہ ترمیم کہ مسلمان کا لفظ ہونا چاہیے اس پر کافی بحث ہوچکی ہے۔ اب مزید گفتگو کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ووٹنگ کرانا چاہیں تو کروائیں، اصول طے ہوگیا ہے۔
مسٹر سپیکر: جب سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے متعلق یہ ترمیم منظور نہیں ہوسکتی تو چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے متعلق ظاہر ہے کہ اس کا کیا اثر ہوگا۔