تاریخی فیصلے پر مولانا سمیع الحق ؒ کا نذرانہ عقیدت

۷ستمبر ۱۹۷۴ء کا تاریخی اور اسلامی فیصلہ… یوم ختم نبوت ؐمنانے کا عزم

حضرت مولانا سمیع الحق شہیدؒ

۷ستمبر ۱۹۷۴ء کی شام کو ان آنکھوں نے قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ کا جو عظیم اور مبارک فیصلہ ہوتے دیکھا اس کے تاثرات اور احساسات کے اظہار سے قطعی طور پر اپنے آپ کو عاجز پاتا ہوں، میرے سامنے وہ نازک لمحات گزر رہے تھے جن کا تقریباً پون صدی سے ملت مسلمہ کو انتظار رہا۔ کتنے اہل اللہ تھے جن کی نیندیں مسلیمہ پنجاب علیہ ما علیہ کی فتنہ سامانیوں کو دیکھ دیکھ کر حرام ہوگئیں تھیں۔ کتنے اکابر علم و فضل اور مردان بحث و تحقیق تھے جن کی علم و فکر کی ساری قوتیں اس راہ میں خرچ ہوئیں، کتنے اصحاب عشق و عزیمت تھے جنہوں نے شہنشاہ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں سرخروئی پانے کے لیے اپنی جانیں لیلائے ناموس ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم پر لٹادیں۔ کتنے ارباب جہد و جہاد تھے جنہوں نے کھلے دل اور کشادہ پیشانی سے اس راہ کی ہر قید و بند کی صعوبتوں کو گلے سے لگایا

روئے کشادہ باید و پیشانی فراخ

آن جا کہ لطمہ ہائے ید اللہ می زنند

کتنے اعاظم صدق و صفا تھے جنہوں نے وصیتیں کیں کہ اگر ایسا یوم مسعود اور فتح مبین دیکھنا نصیب ہوجائے تو ہماری قبروں پر آکر مژدہ سنادیا جائے۔ آج علامہ انورشاہ کشمیری اور سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ کی ارواح خوشی سے جھوم اٹھی ہیں۔ وہ دیکھو علامہ اقبال، ظفر علی خانؒ اور الیاس برنی ؒکتنے شاداں و فرحاں ہیں۔ ثناء اللہ امرتسریؒکی سرخ روئی میں اور بھی اضافہ ہوچکا ہے۔ پیر مہرعلی شاہؒ اور محمد علی مونگیریؒ کی خانقاہیں جگمگا اٹھی ہیں۔ حبیب الرحمن لدھیانویؒ، محمدعلی جالندھریؒ، احسان احمد شجاع آبادیؒ، لال حسین اخترؒ، چوہدری افضل حق ؒکی محنتیں رنگ لائی ہیں۔ دیوبند،لکھنؤ، لدھیانہ، میرٹھ اور سہارنپور کے قدوسیوں میں جشن برپا ہے۔ الغرض! ملائے اعلی کی ساری کائنات محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمزموں سے گونج اٹھی ہے۔ باطل مٹ چکا، اہل باطل ماتم کناں ہوئے، یہی ہونا تھا۔ ِان الباطِل کان زہوقا

محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم

کہ آبروئے ہر دوسر است

کسے کہ خاک درش

نیست خاک بر سر او

۶؍ ستمبر پاکستان کی جغرافیائی سرحدات کا یوم دفاع تھا تو ۷ستمبر نہ صرف پاکستان بلکہ پورے عالم اسلام کی نظریاتی سرحدات کے ناقابل تسخیر ہونے کا اعلان ہے۔ ۷ستمبر کا فیصلہ عظیم فیصلہ، عظیم کارنامہ، عظیم اجر و منزلت اور عظیم نتائج اور ذمہ داریوں کا دن ہے۔ خوشیوں اور مسرتوں کا دن۔ پورے عالم اسلام کے نام لیوایان محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کہ ان کے آقا اور مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ابدی عظمتوں اور دائمی رفعتوں پر ایک اور مہر لگ گئی۔ پوری ملت اسلامیہ کی شادمانی کا دن ہے، اس لیے کہ ملت کی وحدت و یگانگت ان خائن ہاتھوں سے محفوظ کردی گئی جس کی چیرہ دستیوں سے ملت کا شیرازہ دولخت ہورہا تھا۔ یہ فیصلہ باعث صد ہزار تحسین و تبریک ہے پوری قوم کے لیے، علما اور طلبہ کے لیے، تجار اور ملازمین کے لیے، اہل دانش اور اہل قلم کے لیے، اہل علم و فضل کے لیے، حاکم اور محکوم کے لئے، عامۃ المسلمین کے لیے، پارلیمنٹ اور اس کے تمام ارکان کے لیے، حزب اختلاف اور حزب اقتدار کے لئے، دینی اور سیاسی تنظیموں کی متحدہ مجلس عمل کے لیے اور اس کے ایمانی بصیرت سے سرشار رہنماؤں کے لیے اور ان سب کے ساتھ وزیراعظم بھٹو کے لیے سب اپنی اپنی نیت اور عمل کے مطابق رضائے مصطفوی اور خوشنودی ربانی کے سزاوار ٹھہرے۔ ان شاء اللہ

مسلمانو!یہ فیصلہ ہمارے ذمہ ایک قرض تھا۔ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا سامنا اس کے بغیر مشکل تھا نہ ہم امیدوار شفاعت ہوسکتے تھے۔ مغربی سامراج کا پالا ہوا کتا، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمتوں کے آفتاب و ماہتاب کو ۷۰،۸۰سال سے دیکھ کر بھونکتا رہا۔ وہ سامراج کا پروردہ تھا اور ہم سامراج کے غلام، اس لیے مجبور و بے بس۔ تو اے لوگو!جشن آزادی منانے والو!اب تم ہمیشہ ۱۴؍اگست کی بجائے ۷؍ستمبر کو جشن آزادی منایا کرو کہ انگریزی استعمار ۱۴؍اگست کو نہیں ۷ستمبر کو مرچکا۔ انگریزی مقاصد ۷؍ستمبر کو خاک میں مل گئے۔ جھوٹے مدعی نبوت کی متعفن لاش ٹھکانے کے ساتھ ۷ستمبر کو ہمیں استعمار کی گرفت سے نجات ملی۔مگر اس کے ساتھ ہوشیار بھی رہوکہ یہ ضرب کاری استعمار و صیہونیت اور پورے عالم کفر کے لیے ناقابل برداشت ہے، وہ اسے ٹھنڈے پیٹوں نہیں سہے گا، اس کی سازشیں اور ریشہ دوانیاں اور بھی بڑھ جائیں گی اور منصوبے اور بھی گہرے ہوجائیں گے۔ ہمیں بھی اس سے بڑھ کر تدبر و فراست، دینی حمیت اور اتحاد و یگانگت سے کام لینا ہوگااور ملت مسلمہ کے تمام افراد کو اس کی فتنہ سامانیوں سے خبردار رکھناہوگا۔ پورے عالم اسلام بلکہ پوری دنیا میں اس فتنہ کا تعاقب اور احتساب۷ستمبر کے فیصلے کا منطقی تقاضا ہے۔

مسلمانو!یہ فیصلہ ملت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ کا ایک سنہری فیصلہ ہے۔ مسیلمہ پنجاب مرچکا ہے اور عالم اسلام پر نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی ابدیت کا پرچم لہرا رہا ہے۔ اس کی رسالت و شریعت کی ہمہ گیری کا اعلان چودہ سو سال کے بعد بھی ہوچکا ہے۔

یہ فیصلہ ارشاد خداوندی ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ کا ایک اور ظہور ہے۔ یہ سب کچھ اس ذات کبریا عزوجل کی ان رحمتوں کا منطقی نتیجہ ہے جو اس کے آخری نبیؐ کیلئے محفوظ و مخصوص ہیں، جس نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ سے مخاطب کیا اور جس نے انہیں وَ کَانَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا اور وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی کی بشارتیں دیں، حضور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ أبی وأ میؑ) امر اور لافانی ہیں، اس کی نبوت و رسالت دائمی ابدی اور سرمدی ہے۔

پس اے اقوام عالم!دیکھ لو، چودہ سو سال گزرجانے پر بھی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر تاج ختم نبوت کیسا جگمگا رہا ہے اور ان کی ذات پر قباے تکمیل دین کتنی فٹ اور خلعت اتمام نعمت دین کتنی زیبا ہے۔ کہیں اقوام عالم اور تاریخ ادیان و ملل میں اس ابدیت اور دوام کی کوئی دوسری مثال مل سکتی ہے؟ اگر نہیں تو آؤ اس ابدی صداقت، لافانی حقیقت کبری، نبوت کے مقام معراج اور انسانیت کے مرکز ثقل سے اپنے آپ کو وابستہ کرلو اور اس کا دامن تھام لوجبکہ وہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تو سارے ادیان و ملل، احکام و فرامین اور دساتیر و قوانین کا بھی اسی پر خاتمہ ہوچکا ہے یہی ختم نبوت کا مطالبہ ہے، اب ساری تہذیب، سارے ازم اور سارے تمدن اس کے مدنی تمدن کے سامنے مٹ چکے ہیں، آج کے اس عظیم اور بے مثال فیصلہ پر پوری ملت کی طرح میری خوشیوں اور مسرتوں کی انتہا نہیں۔ میں اپنے آپ کو اس احساس حمد و ثنا اور ان جذبات مسرت و ابتہاج کے اظہار سے قطعی عاجز پارہا ہوں۔ پھر بھی جذبات کے طوفان میں رواں رواں خداے رب العالمین کا احسان مند اور شکرگزار رہنا چاہیے۔

میرے عزیز قارئین!خدارا مجھے بتائیے! میں ان لامحدود اور غیر فانی مسرتوں کو اپنے محدود اور ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں کس طرح سمیٹ سکتا ہوں؟
الحمد ﷲ الذی نصر عبدہ، وأنجز وعدہ، و ہزم الاحزاب وحدہ، ہو الذی أرسل رسولہ بالہدی و دین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ و کفی باﷲ شہیدا_ اللہم لک الحمد ملا السموات و الارض لانحصی ثناًء علیک أنت کما اثنیت علی نفسک، والصلٰوۃ و السلام علیک یا امام المرسلین یا قائد الخیر یا نبی الرحمۃ یا نبی الانبیاء یاامام الرشد و الہدی نفدیک بآباء نا و اولادنا و ارواحنا یا سید المرسلین. و اﷲیقول الحق و ہو یہدی السبیل (سمیع الحق )

 

(ماہنامہ ’’الحق‘‘ ستمبر۱۹۷۴ء ، ج۹، ش۱۲)

 

Ahmadinonmuslim

Qadianinonmuslim

Qadiyaninonmuslim