قومی اسمبلی میں قادیانیت کے خلاف مسلمانوں کی فتح مبین

جامع مسجد اکوڑہ خٹک میں خطبہ جمعۃ المبارک، یوم تشکر13ستمبر1974ء، 25شعبان 1394ھ

نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم أعوذ باﷲمن الشیطٰن الرجیم
 إِنَّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّکرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَٰفِظُونَ۔
میرے محترم بھائیو! اللہ جل جلالہ کا پاکستان اور ساری دنیا کے مسلمانوں پر بہت بڑا احسان ہے اور ایک عظیم فتح اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دی ہے۔ ہمارے جسم کا ایک ایک رواں بھی اگر سربسجود ہوکر اس احسان اور نعمت کا جو اللہ نے ہم پر فرمائی ہے، شکر ادا کرنا چاہے تو ادا نہیں کرسکے گا۔

ناموس رسالتؐ پر ڈاکہ زنی ناقابل منظور ہے

بھائیو! ہم اور آپ اپنی جان، اپنے مال، اپنے بچوں کا انتظام کرتے ہیں، ہر شخص اپنی حیثیت اور طاقت کے مطابق ایک گھر بناتا ہے، چاردیواری کھینچتا ہے، دروازے لگاتا ہے صرف اس لیے کہ میرا گھر اور بال بچے چور ڈاکو اور سارے خطرات سے محفوظ رہیں اور جب گھر کی ہرطرح حفاظت ہوجائے تو سب کی خوشی کا باعث ہوتا ہے۔ دنیا میں ہر قوم اپنے ملک کی حفاظت کرتی ہے۔ ہمارا ملک ہے، ہم اس کی سرحدات کی حفاظت کرتے ہیں، ملک میں کسی قسم کی خلفشار برداشت نہیں کرتے۔ ہر ملک اپنے بجٹ میں اربوں روپے رکھتے ہیں، فوج کا کام یہی ہے۔ پولیس داخلی خلفشار کو روکتی ہے۔ فوج بیرونی حملوں سے حفاظت کرتی ہے۔ ملک اور سرحدات کی حفاظت کے لیے ہزاروں لاکھوں لوگ قربان ہوجاتے ہیں اور جب ملک محفوظ ہوجائے تو قوم فتح کی خوشی مناتی ہے تو جیسا کہ اپنی جان، مال، عزت و آبرو، ماں باپ اور اولاد کی حفاظت ہوجانے سے ہمیں خوشی ہوتی ہے، روح کو اطمینان ہوجاتا ہے تو ایک مسلمان کے نزدیک تو حضور اقد س صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس ان سب چیزوں سے بڑھ کر عزیز ہے تو جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس، ان کی شان رفیع، ان کی بلند مرتبت و مقام کی حفاظت ایک چور اور ڈاکو سے ہوجائے تو کتنی خوشی ہوگی۔بیوی بچوں، ماں باپ کی حفاظت سے زیادہ اس پر خوشی ہوتی ہے۔ ملک کی حفاظت ہوجائے وہ بھی خوشی کی بات ہے، مگر اس سے بھی بڑھ کر سب سے بڑھ کر مسرت یہی ہے کہ دین اسلام محفوظ ہو اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس، عزت و مرتبت کو خداوند تعالیٰ محفوظ فرمادے۔

سات ستمبر کا مبارک فیصلہ

میرے محترم بزرگو! اللہ جل مجدہ نے مسلمانانِ پاکستان اور عالمِ اسلام پر بڑی مہربانی ۷؍ستمبر کی تاریخ کو فرمائی، اس لیے کہ قادیانی جماعت اور لاہوری جماعت جو احمد ی کہلاتے ہیں اور ان کے پیشوا مرزا غلام احمد وہ نقب لگارہا تھا، ختم نبوت کے قلعہ میں اور اس تاج عظیم میں دست اندازی کررہا تھا خو خاتم النبوۃ کی شکل میں اللہ جل مجدہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر رکھا تھا مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَآ أَحَدٖ مِّن رِّجَالِکُم وَ لَٰکِن رَّسُولَ اللَّہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیِّنَ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے نبوت کو درجہ کمال پر اللہ تعالیٰ نے پہنچادیا ہے اور دیکھیے ہر چیز کی دنیا میں ایک انتہا ہوتی ہے سوائے خدائے حی و قیوم کے کہ وہ سرمدی، ابدی، ازلی اور دائمی ہیں ان کے علاوہ ہر چیز کی ایک ابتدا ہوتی ہے اور ایک انتہا، ایک آغاز ہوتا ہے اور ایک کمال، انسان کو لیجیے! پہلے بچہ ہوتا ہے، 40 سال میں کمال کو پہنچتا ہے، پھر زوال، پھر ختم ہوتا ہے، قبر میں جاتا ہے،یہی حالت ہر چیز کی ہے۔ نبوت کا سلسلہ اللہ جل مجدہ نے حضرت آدم ؑ  سے شروع فرمایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات سے اسے کمال اور عروج تک پہنچادیا الیَومَ أَکمَلتُ لَکُم دِینَکُم وَأَتمَمتُ عَلَیکُم نِعمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الإِسلَامَ دِینٗا اس مقام و مرتبہ پر اللہ تعالیٰ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو فائز فرمادیا۔

مرزا غلام احمد کا دعوی نبوت

مرزا غلام احمد نے ختم نبوت سے انکار کر بیٹھا اور خود نبوت کا دعویٰ کربیٹھا اور ایک شخص جب بے حیا ہوجائے تو اس کے لیے کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہتی إذا لم تستحی فاصنع ما شئت جیسے دنیا میں چور ہوتے ہیں۔ پہلے چوری چھپے معمولی معمولی چیز چراتے ہیں پھر بڑھتے بڑھتے بالکل جری ہوجاتے ہیں تو اس مرزا غلام احمد نے بھی کہا کہ میں آدم ہوں، میں نوح ہوں، میں ابراہیم ہوں، میں موسیٰ اور عیسیٰ ہوں، یہاں تک کہا کہ میں محمد رسول اللہ ہوں اور سب انبیاء سے بھی افضل ہوں اور ایک جگہ اس نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعینہٖ میری شکل میں آج آئے۔ مرزا غلام احمد نے یہ بھی کہا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پہلی رات کے چاند ہیں تو میں چودھویں صدی میں آیا تو میں بدر (چودھویں کا چاند) ہوں۔ یہ مرزا کی وہ باتیں ہیں، جس کا اسمبلی میں مرزا ناصر سے انکار نہیں ہوسکا اور اپنے آپ کو بدر کامل اور حضور افضل الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلی رات کا چاند کہا۔ صرف ایک نبی کی توہین نہیں بلکہ سید الکائنات رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی اور تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی بھی توہین کی ہے، کہتا ہے کہ عیسیٰ بن مریم ؑکون ہے کہ میرے منبر پر بھی قدم رکھ سکے۔

مرزا ناصر کا مسلمانوں کے بارے میں موقف

جب ناصر سے یہ پوچھا گیا کہ مسلمانوں کو کیا سمجھتے ہو؟ تو نظر نیچی کرکے کہا کہ ہم مسلمانوں کو مسلمان سمجھتے ہیں تو ہم نے مرزا غلام احمد، مرزا بشیر کی ایسی عبارتیں پیش کیں کہ وہ تو کافر کہتے ہیں۔ کہا کافر ہیں مگر کچے قسم کے کافر ہیں، معمولی قسم کے کافر ہیں۔ تو کہا کہ اچھا وہ تو اسی عبارت میں کہتا ہے کہ کافر ہیں، پکے کافر ہیں تو اب پکے کافر، کچے کافر کیسے ہوگئے؟ والد اور دادا تو ہم سب کو کافر کہتا ہے، سمجھتا ہے۔ تم کیسے مسلمان کہہ سکتے ہو؟ تو خاموش۔
بہرحال! مرزائی ہم مسلمانوں کو ۹۰سال سے کافر کہتے تھے اور جب یہی چیز اسمبلی میں پیش ہوئی تو اپنی مطلب برآری کے لیے انکار کرنے لگتے۔ تو جب وہ عبارتیں پیش ہوئیں کہ تم نے تو نہ ماننے والوں کو دائرہ اسلام سے خارج اور کافر ار اور پکا کافر کہا ہے تو کہا کافر تو ہیں مگر ملت میں داخل ہیں اور ملت کے تین دائرے ہیں، ایک اسلام، ایک اسلام سے نیچے اور ایک تیسرا درجہ ہے۔ رانا حنیف صاحب مرکزی وزیر ہیں۔ اسمبلی سے باہر ملے، بیمار تھے، پڑے ہوئے تھے۔ میں نے کہا وزیر صاحب کیا حال ہے؟ ہنس کر مذاقاً کہا کہ مولانا تیسرے دائرے میں ابھی پھر رہا ہوں۔ پتہ نہیں، اس سے بھی کب نکالتے ہیں۔مرزا ناصر سے کہا گیا کہ مسلمانوں کے معصوم بچوں پر جنازہ کا کیا حکم ہے؟ آپ کے بڑوں نے کہا تھا کہ بالکل ناجائز ہے اور جس طرح تم ہندو، سکھ، عیسائی بچوں پر جنازہ نہیں پڑھ سکتے، اسی طرح غیرمرزائی مسلمان بچوں کا حکم ہے، اس لیے کہ کافر کا بچہ کافر کا تابع ہے۔ مسلمان کافر تو اس کا بچہ بھی کافر ہے۔

قادیانی اور نکاح

نکاح کے بارہ میں کہا کہ کیا کوئی مسلمان عورت فرنگی یا ہندو یا سکھ سے نکاح کرسکتی ہے؟ اگر نہیں تو کسی مرزائی عورت کا بھی مسلمان مرد سے نکاح جائز نہیں البتہ مرزائی مسلمانوں کی لڑکیاں اپنے عقد میں لے سکتے ہیں جیسے کہ اہل کتاب کی۔ یہ تھا نکاح کے بارے میں ان کا عقیدہ۔
الغرض ! اسمبلی میں جرح کے لیے سینکڑوں سوالات داخل کیے گئے، جن میں چند کا انتخاب ہوا اور جرح اور بحث کا محور زیادہ تر دوچار اصولی باتیں رہیں۔ الحمدللہ آئین میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے آخری نبی ہونے کا ذکر پہلے سے موجود تھا۔ صدر اور وزیراعظم کے حلف کی عبارت میں تو ختم نبوت کا جھگڑا تو طے شدہ تھا کہ مسلمان صرف وہی ہوگا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانتا ہو، کمیٹی کی بحث میں یہ طے کرانا تھا کہ کیا مرزا نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا یا نہیں؟ اور کیا اس کے پیروکار اس کو نبی مانتے ہیں یا نہیں؟ اور کیا ان کے نزدیک ان کے نہ ماننے والے غیرمرزائی مسلمان ہیں یا کافر؟ تو ربوہ والوں نے بھی اور لاہوریوں نے بھی یہ سب چیزیں مانی ہیں اور اقرار کیا کہ وہ الگ امت اور گروہ ہیں۔ لاہوریوں کا جھگڑا تو محض خلافت اور گدی نشینی کا تھا، مگر مسلمانوں کو اپنے جال میں پھنسانے کیلئے مسلمانوں کو مسلمان کہنے لگے۔ جرح کے دوران لاہوریوں نے بھی اقرار کیا کہ تم مسلمان حقیقی مسلمان نہیں ہو، البتہ مجازی مسلمان ہو اور جب مرزائیوں سے اس دورنگی کردار کے بارہ میں پوچھا گیا کہ مسلمانوں کو کافر بھی سمجھتے ہو اور ان کے لیے مسلمان کا نام بھی استعمال کرتے ہو تو جواب دیا کہ حقیقی مسلمان تو نہیں البتہ دنیا میں ایک قوم مسلمان کے نام سے معروف ہے، اس لیے ہم بھی عرفاً انہیں مسلمان کہتے ہیں۔ یہود وہ قوم تھی جو حضرت موسیٰ ؑ پر ایمان لائی مگر عیسیٰ ؑکی آمد پر ان کا انکار کرنے سے کافر ہوگئے مگر معروف اب تک یہودی نام سے ہیں، عیسائی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بعد انکار کرنے سے کافر ہوگئے، عیسائی نہ رہے مگر کہلاتے اب بھی عیسائی ہیں اور جس طرح عبداللہ نامی شخص اللہ کی سرکشی اور نافرمانی کے باوجود عبداللہ کہلاتا ہے، حقیقی نہیں صرف نام کی شہرت سے، اسی طرح ہم نے بھی کہیں کہیں مسلمانوں کو مسلمان کہا ہوگا۔ لاہوریوں نے حدیث نبوی سینزل نبی اﷲعیسی بن مریم کے ضمن میں اعتراف کیا کہ مرزا نبی تھا۔
الغرض! جب نوے سال سے وہ خود ہمیں کافر کہتے رہے، سمجھتے رہے اور اپنے آپ کو الگ امت اور گروہ، مگر انہیں اپنے نہ ماننے والے ان ’’کافروں ‘‘میں شرکت پر اصرار محض مفادات حاصل کرنے اور درپردہ مار آستین بنے رہنے کے لیے ہے۔ اس برصغیر میں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی تھے، مگر ہندو زیادہ تھے مسلمان کم، تو اقلیت کو تو نقصان ہوتا ہے۔اب مرزائیوں نے یہ چاہا کہ شامل تو مسلمانوں میں رہیں اور اسی نام سے سارے اختیارات اور حقوق پر قابض ہوں اور کاروائی ان کے ساتھ غیرمسلموں جیسی ہو، حالانکہ کسی مسلمان کی غیرت برداشت نہیں کرسکتی کہ وہ ہندو، سکھ یا عیسائی اکثریت میں محسوب رہے ہیں اور یہ مرزائی طبقہ اتنا بے غیرت کہ ہم مسلمان تو ان کے نزدیک ہندو، سکھ سے بھی بڑھ کر کافر مگر ان ’’کافروں ‘‘میں شرکت پر ہمیشہ اصرار رہا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا ہوجانے سے مفادات پر ضرب پڑے گی اور سازشیں نہیں کرسکیں گے۔

تحریک ختم نبوت کے محرکات

پاکستان کے اندر ربوہ کے نام سے دوسری ریاست ختم کردی جائے، اسے مفتوح کرلیا جائے تو اللہ کے کرم سے اللہ نے دین کی حفاظت فرمائی۔ کالج کے لڑکے بلاوجہ ظلم کا نشانہ بنے، ساری قوم اٹھی، ملازم، تجار، علماء، عوام، طلبہ سب نے جرأت ایمانی کا ثبوت دیا۔ ساری قوم اٹھی۔ تین دن مرکزی قیادت نہ تھی تو کچھ گڑبڑ ہوئی۔ پھر مجلس عمل کی تشکیل ہوگئی، ساری جماعتیں اس میں شامل ہوگئیں، سب نے حلف اٹھایا تھا کہ اس مسئلہ میں سیاست بازی نہ ہوگی، وہ حضور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق اور اسلام کی خاطر اس تحریک کو چلائیں گے۔ بہت بڑے دو چار افسروں نے مجھے لاہور میں ایک میٹنگ کے بعد کہا کہ کیا کرنا ہے؟ ہم صرف ۷؍ ستمبر تک منتظر رہیں گے۔ میں نے پوچھا پھر کیا کروگے؟ کہا آپ سب کو اور ساری دنیا کو معلوم ہوجائے گا کہ ہم کیا کچھ کرسکتے ہیں؟ اسلام آباد کے تمام ملازموں نے ایمان و عزیمت کے عجیب مظاہرے کیے۔ اللہ تعالیٰ نے ساری قوم کو متفق کردیا۔ مجلس عمل نے تدبر سے کام لے کر مسلمانوں کی قیادت سنبھالی پھر اسمبلی میں حزب اختلاف کے علماء اور جماعتوں نے مجلس عمل کی رہنمائی میں کام کیا۔ پھر پوری اسمبلی، کیا حزب اقتدار اور کیا حزب اختلاف اس جہاد میں شریک ہوگئی اور حق کو فتح نصیب ہوئی اور اتنی آسانی اور اللہ کے کرم سے فتح ہوئی کہ ہم سے تو حضور نبی کریم ؐکا حق ادا نہ ہوسکا۔ مسیلمہ کذاب کے مقابلے میں ہزاروں صحابہ ؓنے جان کی قربانی دی۔ ۲۸ ہزار کافر اور مرتد تہہ تیغ کردیے گئے اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم کہ چند مسلمان شہید ہوئے۔ ساری قوم کو ذرا سی محنت اٹھانی پڑی اور فتح عظیم حاصل ہوگئی اگر اس راہ میں پوری مسلمان قوم شہید ہوجاتی اور ناموس ختم نبوت محفوظ ہوجاتی تو پھر بھی بہت بڑی فتح ہوتی۔

اقلیتی فیصلہ اور ارکان اسمبلی کی غیرت ایمانی

اب ماشاء اللہ، اللہ تعالیٰ اس ملک کو، اس قوم کو اس مسئلہ کی بدولت اپنے فضل و کرم سے مالامال کردے گا۔ اس مسئلہ کا کریڈٹ کل قوم کو، ساری اسمبلی کو پہنچتا ہے۔ ہم علماء کا تو کام یہی ہے، موضوع ہی توحید و رسالت ہے مگر تعاون بحث و تحقیق کے سلسلہ میں ہر رکن اسمبلی ایک دوسرے سے سبقت کرتا رہا کہ کوئی شبہ نہ رہے۔ الحمدللہ آج پوری قوم خوشی منارہی ہے۔ پون صدی کے اکابر کی قربانیاں رنگ لائیں۔ مٹھائی تقسیم ہورہی ہے۔ آج نماز جمعہ کے بعد اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دو رکعت شکرانہ کی پڑھی جائیں۔ البتہ ابھی غافل نہیں ہونا ہے۔ یہ قادیانی منظم ہیں، ان کی پشت پر امریکہ، برطانیہ اور صیہونی طاقتیں ہیں۔ اگر یہ لوگ ذمی بن کر پرامن ہوکر رہتے ہیں تو ان کی حیثیت دوسری ہوگی اور اگر متحارب ہیں، ذمہ و عہد کا پاس نہ کریں، مسلمانوں اور عالم اسلام کے خلاف کام کریں تو پھر مسلمانوں کو بھی مناسب طرز عمل اختیار کرنا پڑے گا۔ ان کا سیاسی احتساب کرنا ہوگا۔ اب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں میں شامل رکھے اور شعائر اسلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و شوکت قیامت تک بلند سے بلند ہوتی رہے۔ آمین۔وآخر دعوانا أن الحمد ﷲ رب العالمین۔   (ماہنامہ الحق :ستمبر۱۹۷۴ء، ج ۹، ش ۱۲)

 

حضرت مولانا سمیع الحق شہیدؒ

اسمبلی رپورٹنگ