سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور ہماری ذمہ داری
شیخ الحدیث حضرت مولانا انوار الحق مدظلہ
مہتمم جامعہ دارالعلوم حقانیہ
نَحْمَدُہُ وَ نُصَلّیِ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمْ اَمّا بَعْدْ فَاَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمْ بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْ ہُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَ لَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ (الصف:۹)
’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اسے سب دینوں پر غالب کرے پڑے بُرا مانیں مشرک‘‘
عَنْ عُرْوَۃَ قَالَ: وَثُوَیْبَۃُ مَوْلَاۃٌ لِاَبِی لَہَبٍ، کَانَ اَبُوْ لَہَبٍ اَعْتَقَہَا، فَاَرْضَعَتِ النَّبِیَّ صلی اﷲ علیہ وسلم فَلَمَّا مَاتَ اَبُوْ لَہَبٍ اُرِیَہٗ بَعْضُ اَہْلِہٖ بِشَرِّ حِیْبَۃٍ. قَالَ لَہٗ: مَاذَا لَقِیْتَ؟ قَالَ اَبُوْ لَہَبٍ: لَمْ اَلْقَ بَعْدَکُمْ غَیْرَ اَنِّی سُقِیْتُ فِی ہٰذِہٖ بِعَتَاقَتِی ثُوَیْبَۃَ (البخاری: ۴۸۱۳)
’’حضرت عروہ بیان کرتے ہیں کہ ثویبہ ابو لہب کی لونڈی تھی جسے اس نے آزاد کر دیا تھا، اُس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا تھا جب ابو لہب مر گیا تو اُس کے اہلِ خانہ میں سے کسی کے خواب میں وہ نہایت بری حالت میں دکھایا گیا۔ اس (دیکھنے والے) نے اُس سے پوچھا: تمہارا حال کیا ہوا؟ ابو لہب نے کہا: میں بہت سخت عذاب میں ہوں۔ اِس سے کبھی چھٹکارا نہیں ملتا البتہ مجھے (ایک عمل کی جزا کے طور پر) اس (انگلی) سے قدرے سیراب کر دیا جاتا ہے جس سے میں نے (محمدؐ کی ولادت کی خوشی میں) ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔‘‘
بعثتِ نبیؐ سے قبل عرب کے حالات
معزز سامعین کرام! آپ کے علم میں ہے کہ ماہ ربیع الاول کا چاند طلوع ہوچکا ہے اور یہ مہینہ اسلامی کلینڈر کا اہم مہینہ ہے کیونکہ اس ماہ میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارک ہوئی ہے۔اس وجہ سے اس ماہ اسلامی فکر میں بہت اہمیت دی جاتی ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے عرب بلکہ پوری دنیا کو تہذیب و تمدن اور صالح معاشرتی نظام سے ہمکنار ہونے کا موقع ملا، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل عرب معاشرہ انتہائی زوال پذیر اور اخلاقی انحطاط کا شکار تھا، اس دور کو جاہلیت کا دور کہا جاتا ہے، جس میں لوگ اخلاقی، سماجی، مذہبی اور سیاسی لحاظ سے گمراہی میں مبتلا تھے۔ عرب معاشرہ میں رائج رسوم و رواج اور سماجی حالات کی وجہ سے وہاں ظلم، ناانصافی اور انتشار کا راج تھا۔ عرب معاشرے کی مذہبی حالت نہایت بگڑی ہوئی تھی اور لوگ بت پرستی میں مبتلا تھے۔ہر قبیلہ اپنے مخصوص بتوں کی پوجا کرتا تھا۔ خانہ کعبہ جو حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیلؑ نے اللہ کی عبادت کیلئے تعمیر کیا تھا، بتوں سے بھر چکا تھا، ہر بت کے پیچھے مختلف دیومالائی کہانیاں اور روایات جڑی ہوئی تھیں۔ بتوں کی پرستش کے علاوہ، عربوں میں توہمات اور جادوگری کا بھی رواج تھا، لوگوں کا عقیدہ تھا کہ بت ان کی زندگی کے مسائل حل کر سکتے ہیں، اور وہ ان بتوں کے سامنے جانوروں کی قربانی کرتے تھے۔ ستاروں کی پوجا، قسمت کے تیر چلانااور مختلف قسم کے جھوٹے دیوی دیوتاؤں کی عبادت بھی ان کے مذہبی عقائد کا حصہ تھے۔ صرف مذہبی نہیں بلکہ عرب معاشرے کے سماجی حالات بھی انتہائی بگڑے ہوئے تھے۔ معاشرتی ناانصافی عام تھی اور طبقاتی تفریق اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ قبائلی نظام عرب معاشرت کی بنیاد تھا اور ہر شخص اپنے قبیلے سے وابستہ ہوتا تھا۔ قبائلی عصبیت کی بنا پر اکثر لڑائیاں اور جنگیں ہوتی رہتی تھیں، جو بعض اوقات سالہا سال تک جاری رہتی تھیں، عورتوں کو مال و دولت کی طرح خریدا اور بیچا جاتا تھا، ان کی کوئی عزت اور حقوق نہیں تھے، بلکہ اکثر قبائل میں عورتوں کو وراثت سے بھی محروم رکھا جاتا تھا، بیٹیوں کی پیدائش کو باعثِ شرم سمجھا جاتا تھا اور بچیوں کو زندہ دفن کرنے کا رواج عام تھا، اشرافیہ اور سردار طبقہ ہمیشہ غریبوں اور کمزوروں پر ظلم کرتا اور انہیں حقیر سمجھتا تھا۔ قبائلی سرداروں کے پاس بے پناہ اختیارات تھے اور وہ قانون سے بالاتر سمجھے جاتے تھے۔عربوں کی اخلاقی حالت بھی انتہائی خراب تھی۔ جھوٹ، دھوکہ دہی، فریب کاری اور بے حیائی معاشرت کا حصہ بن چکی تھیں۔ عرب معاشرے میں قماربازی، شراب نوشی، اور زناکاری عام تھی، یہ تمام برائیاں معاشرتی نظام کا حصہ بن چکی تھیں اور ان میں ملوث ہونا فخر سمجھا جاتا تھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش میں مختلف اقوال ہیں لیکن مشہور یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ۱۲؍ ربیع الاول کو مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ تاریخی روایات کے مطابق، آپ کی پیدائش ۵۷۰ عیسوی یا ۵۷۱ عیسوی کی متوقع ہے، جسے عام طور پر’’عام الفیل‘‘کہا جاتا ہے۔ یہ نام اس سال کے واقعہ کی طرف اشارہ کرتا ہے جب ابرہہ، ایک حبشی سردار، نے مکہ مکرمہ پر حملہ کیا تھا۔ ابرہہ نے ایک بڑا فوجی دستہ اور ہاتھیوں کی مدد سے مکہ مکرمہ پر حملہ کیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کی حفاظت کیلئے ’’فیل‘‘ (ہاتھی) کے فوج کو تباہ کردیا اور مکہ مکرمہ محفوظ رہا، یہ واقعہ نبی کریم ؐکی پیدائش کے سال میں ہوا اور اس نے آپکی پیدائش کو ایک اہم موقع بنایا، اس واقعہ کا تذکرہ قرآن میں ملتا ہے کہ:
اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِOاَلَمْ یَجْعَلْ کَیْدَہُمْ فِیْ تَضْلِیْلٍO وَّاَرْسَلَ عَلَیْہِمْ طَیْرًا اَبَابِیْلَOتَرْمِیْہِمْ بِحِجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍO فَجَعَلَہُمْ کَعَصْفٍ مَّاْکُوْلٍ (الفیل:۵۔۱)
’’اے محبوب کیا تم نے نہ دیکھا تمہارے رب نے ان ہاتھی والوں کا کیا حال کیا کیا ان کا داؤں تباہی میں نہ ڈالااور ان پر پرندوں کی ٹکڑیاں(فوجیں) بھیجیںکہ انہیں کنکر کے پتھروں سے مارتے تو انہیں کرڈالا جیسے کھائی کھیتی کی پتی‘‘
قبل از ولادت بشارت
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے قبل آپؐ کی والدہ آمنہ بنت وہب نے ایک خواب دیکھا تھا جس میں انہیں بشارت دی گئی کہ آپ کے بیٹے کی پیدائش سے بڑے بڑے فوائد اور برکتیں آئیں گی۔ اس خواب میں انہیں بتایا گیا کہ ان کا بیٹا دنیا کو روشنی دے گا اور امتوں کو ہدایت دے گا۔ آمنہ نے حمل کے دوران ایک خواب میں دیکھا کہ ان کے پیٹ سے ایک نور نکل رہا ہے جو آسمانوں اور زمین کو روشن کر رہا ہے۔ یہ خواب ان کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور اہمیت کی علامت تھا،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ آمنہ نے اپنے شوہر عبداللہ بن عبدالمطلب کے انتقال کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت اکیلا ہونے کا سامنا کیا۔ عبداللہ کی وفات کی وجہ سے آمنہ کی حالت مشکل تھی کیونکہ عبداللہ کی وفات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے قبل ہی ہو گئی تھی، جب آمنہ چھ ماہ کی حاملہ تھیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے وقت کعبہ کی چھت پر روشنی چھا گئی اور بہت سی نشانیاں ظاہر ہوئیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کی جگہ مکہ مکرمہ کے قریش قبیلے کے خاندان میں واقع تھی جو کہ ایک معزز اور ممتاز خاندان تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے بعد، آپ کو آپ کی والدہ آمنہ نے بہت پیار اور محبت کے ساتھ پالا۔ والد عبداللہ کی وفات کی وجہ سے آپ کی پرورش میں اہم کردار آپ کی دادھیال اور نانی نے ادا کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھ ماہ کی عمر میں، قریش کی ریت کے مطابق، ایک دودھ پلانے والی عورت حلیمہ سعدیہ کے حوالے کیا گیا۔ حلیمہ سعدیہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے قبیلے میں پالنے کا شرف حاصل کیا اور اس دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحرا کی زندگی اور عربی زبان و ثقافت کا گہرا علم حاصل کیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک انقلابی شخصیت
معزز سامعین کرام!نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی اور تعلیمات کے ذریعے دنیا کے نظام کو بنیادی طور پر تبدیل کیا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت نے نہ صرف عرب بلکہ پوری دنیا کی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے وقت دنیا کے مختلف حصوں میں موجود نظام میں بہتری اور تبدیلی کے آثار نظر آنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعثت کے ذریعے انسانیت کو نئی راہ پر گامزن کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے ساتھ ہی عرب معاشرہ میں اخلاقی، سماجی، معاشرتی، قانونی اور حکومتی سطح پر نمایاں تبدیلیاں واقع ہوئیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی واحدیت (توحید) کی تعلیم دی اور شرک( جو کہ عرب معاشرہ میں عام تھا) کے خلاف جنگ کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بت پرستی سے نکال کر اللہ واحد کی عبادت کی طرف مائل کیا۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:وَاعْبُدُوا اللَّہَ وَلَا تُشْرِکُوا بِہِ شَیْئًا (النساء:۳۶)’’اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔‘‘
اس تعلیم نے لوگوں کی روحانی حالت کو درست کیا اور ان کے دلوں میں خالص عقیدہ و توحید کو پروان چڑھایا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلیٰ اخلاقی اصول متعارف کروائے، جیسے سچائی، امانت داری اور نیک نیتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ارشاد فرمایا کہ ’’میں مکارمِ اخلاق کو مکمل کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں‘‘(صحیح بخاری و مسلم)اس نے معاشرتی اخلاقیات کا معیار بلند کیا اور لوگوں کو اچھے کردار کی طرف مائل کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر انسان کی ذاتی عزت و احترام کو برقرار رکھنے کی تعلیم دی جو کہ معاشرتی برائیوں کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوا۔آپؐ نے معاشرت میں نسلی اور قبائلی تفریق کو ختم کیا اور برابری کا اصول قائم کیا اورغریبوں اور یتیموں کی مدد کرنے اور ان کے حقوق کی حفاظت کرنے پر زور دیا۔ اسلامی قوانین اور عدلیہ کے نظام کی بنیاد رکھی جو کہ معاشرتی زندگی کو منظم کرنے اور انصاف فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عدل و انصاف کو اپنی تعلیمات کا حصہ بنایا اور معاشرتی فیصلے کرنے میں انصاف کی اہمیت پر زور دیا۔
معزز سامعین کرام! طویل سیاسی و مزاحمتی جدوجہد کے بعد آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست قائم کی جو کہ ایک نیا سیاسی اور حکومتی نظام تھا۔ اس ریاست میں اسلامی قوانین کے مطابق حکومت چلائی گئی اور مسلمانوں کے درمیان ایک معاہدہ کیا گیا جس میں حقوق و فرائض کی وضاحت کی گئی۔ یعنی نبی کریم ؐکی تعلیمات اور عمل نے معاشرتی، اخلاقی، اور سیاسی سطح پر نمایاں تبدیلیاں کیں، جو آج بھی پوری دنیا میں مسلمانوں کی زندگیوں میں جھلکتی ہیں۔ آپؐ کی زندگی اور تعلیمات نے دنیا کے نظام کو نئے انداز میں تبدیل کر دیا اور ایک بہتر اور انصاف پسند معاشرت کے قیام کی بنیاد رکھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل اور تعلیمات کے ذریعے انسانیت کو ایک نئی روشنی عطا کی جو آج بھی موجود ہے اور اس سے دنیا بھر میں ہزاروں افراد استفادہ کر رہے ہیں۔
ہماری ذمہ داری
معزز سامعین کرام!آج کل ہم نے ربیع الاول کے مہینے میں بدعات و رسومات کا آغاز کیا جو ہرگز شرعی امور نہیں بلکہ غیر شرعی افعال ہیں جن سے بچنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔ نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی مناسبت سے جشن منانا، چراغاں کرنا، اور گھروں کو سجانا اسلامی تعلیمات کا حصہ نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی ولادت کے دن جشن نہیں منایا اور نہ صحابہ کرامؓ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین نے بھی اس دن کو جشن کے طور پر نہیں منایا۔ربیع الاول میں چراغاں کرنا اور دیگر مخصوص رسوم اختیار کرنا بدعت ہے۔ ایسی بدعات اور خرافات سے بچنا ضروری ہے جو اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں ہیں۔ہمیں اپنی زندگی اور اعمال پر غور کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ ہماری زندگی سنتوں کے مطابق گزر رہی ہے یا نہیں جو اعمال سنت سے دور ہیں، ان میں سنتوں کی پیروی کی کوشش کرنی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق جو شخص فساد کے زمانے میں سنتوں کے احیاء کی کوشش کرتا ہے، اسے سو شہیدوں کا ثواب ملتا ہے۔
من تمسک بسنتی عند فساد أمتی فلہ أجر مائۃ شہید’ (مشکوۃ المصابیح)
’’میری امت کے بگڑنے کے وقت جس آدمی نے میری سنت کو مضبوطی سے تھاما، اسے سو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔‘‘
اسی طرح جامع الترمذی کی روایت ہے کہ:من أحیا سنۃ من سنتی قد أمیتت بعدی فإن لہ من الأجر مثل أجور من عمل بہا من غیر أن ینقص من أجورہم شیئًا، و من ابتدع بدعۃ ضلالۃ لایرضاہا اللہ و رسولہ کان علیہ من الإثم مثل آثام من عمل بہا لاینقص من أوزارہم شیئًا(جامع الترمذی)’’جس آدمی نے میری کسی ایسی سنت کو زندہ کیا جو میرے بعد چھوڑ دی گئی تھی تو اس کو اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا کہ اس سنت پر عمل کرنے والوں کو ملے گا، بغیر اس کے کہ ان کے ثواب میں کچھ کمی کی جائے اور جس آدمی نے گمراہی کی کوئی نئی بات (بدعت) نکالی، جس سے اللہ اور اسکے رسول خوش نہیں ہوتے، تو اس کو اتنا ہی گناہ ہوگا جتنا کہ اس بدعت پر عمل کرنے والوں کو گناہ ہوگا، بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کچھ کمی کی جائے۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین