دینی علوم میں علم منطق کی اہمیت اورضرورت

مفتی محمد سفیان حقانی/متخصص جامعہ علوم القرآن پشاور

مفتی محمد سفیان حقانی
متخصص جامعہ علوم القرآن پشاور
علم منطق دیگر علوم کی طرح اصطلاحات اور قواعد کا مجموعہ ہے ،جس کے سمجھنے سے مقاصد کو کماحقہ سمجھنا آسان ہوجاتا ہے یعنی جس طرح علوم عالیہ کو سمجھنے کے لیے صرف ،نحو،معانی وغیرہ علوم بطور آلہ پڑھے پڑھائے جاتے ہیں،اسی لیے ان معاون علوم کو علوم آلیہ بھی کہتے ہیں،تا کہ علوم عالیہ کوسمجھاجاسکے،اسی طرح علم منطق بھی ہے کہ یہ علوم عالیہ(قرآن،حدیث،فقہ،اصول ِ تفسیر،اصولِ حدیث،اصولِ فقہ)کے سمجھنے میں بہت کارآمد ہے بلکہ اس کی ضرورت واہمیت بھی دیگر علوم آلیہ سے کم نہیں ہے ،جیسا کہ آگے معلوم ہوگاجس طرح دیگر علوم عالیہ اور آلیہ اصطلاحات اور قواعد کا مجموعہ ہوتے ہیں،علم منطق بھی اصطلاحات اور قواعد پر مشتمل ایک نہایت ہی مفید علم ہے ۔علم ِ منطق کی افادیت کیاہے؟حضرت امام شاہ ولی اللہ ؒکلا م(خواہ کتاب وسنت کے نصوص ہوں،فقہا کا کلام ہویا عام بول چال)سے معنی مراد سمجھنے کے دس طریقوں میں سے ایک طریقہ استدلال کا بھی ذکر کرتے ہیں کہ کبھی مضمونِ کلام سے استدلال کر کے معنی مراد سمجھا جاتا ہے اور استدلال کے تین طریقے ہیں:
(۱)   الدرج فی العموم،مثل :الذئب ذوناب،وکل ذی ناب حرام،وبیانہ بالاِقترانی۔۔۔الخ۔
شاہ صاحب یہ فرماتے ہیں کہ کبھی قیاسِ اقترانی کے ذریعہ معنی مراد سمجھا جاتاہے ۔درج فی العموم قیاسِ اقترانی میں ہوتاہے،یعنی اکبر عموماً اصغر سے اعم ہوتاہے تو حدِ اوسط کے ذریعہ اصغر کو اکبر میں درج کرکے نتیجہ نکلتا ہے،اسی اندراج کی وجہ سے تمام اشکال(منطقی شکلیں اول، دوم، سوم، چہارم) میں کسی ایک مقدمہ کا کلیہ ہونا ضروری ہوتا ہے، کیونکہ کلیت میں عموم ہوتاہے،جس کی وجہ سے اس میں اندراج سے نتیجہ میں کوئی خرابی پیدا نہیں ہوتی ،ورنہ اگر دونوں مقدمات جزئیہ ہوںتو جزئیہ میں چوں کہ بعض محکوم علیہ ہوتے ہیں لہٰذا نتیجہ میں یہ احتمال ہوتا ہے کہ اکبرکا جس اصغر پر حمل ہوا ہے، شاید یہ وہ اصغر نہ ہو،جو اوسط کامحکوم علیہ تھا تو نتیجہ غلط ہوگا۔یہ شکلِ اول میں ہوتا ہے ،شکلِ ثانی اور شکلِ ثالث میں بھی کلیت کی وجہ یہی اندراج ہی ہے،تاکہ نتیجہ درست نکلے،شکلِ رابع تو ساقط الاعتبارہے لیکن پھر بھی علامہ محب اللہ بہاریؒنے اس کی شرائط میں اسی کلیت کا ذکرفرمایا ہے۔تمام اشکال میں اسی کلیت کے پیشِ نظر منطق کا مسلمہ قاعدہ ہے:لاقیاس من جزئتین ولا سالبتین۔
حضرت شاہ صاحب قدس سرہ مذکورہ عبارت میں یہی فرمارہے ہیں کہ کبھی کلام سے معنی مراد سمجھنے کے لیے درج فی العموم (جوکہ قیاس اقترانی میں ہوتا ہے)کی ضرورت ہوتی ہے،جیسے یہاں ذئب (جزئی)کو عموم(کل ذی ناب حرام)میں داخل کر کے اس کا حکم معلوم کیا گیا ہے۔
(۲)  والاستدلال بالملازم و المنافاۃ،مثل:لو کان الوتر واجبا،لم یؤد علی الراحلۃ،لکنہ یؤدی کذلک،وبیانہ بالشرطی۔۔۔الخ۔یہ قیاس استثنائی کا بیان ہے کہ کبھی اس سے بھی معنی مراد سمجھا جاتاہے۔قیاسِ استثنائی اگر متصل ہو تو اس میں مقدم اور تالی کی صورت میں ملازمہ ہوتاہے اور اگر منفصل ہو تو منافات ہوتی ہے۔استثنائی متصل میں اگر مقدم اورتالی میں مساوات نہ ہو،تو دو استثناء ات منتج ہوتے ہیں جبکہ استثنائی منفصل میں چار استثناء ات نتیجہ دیتے ہیں۔استثنائی منفصل کی مثال:العالم اِما قدیم،واِما حادث۔یہاں چار استثناء ات منتج ہیں، استثنا عین اِحداھماینتج نقیض الأخری۔استثنا نقیض اِحداھماینتج عین الأخری اور استثنائی متصل کی مثال حضرت شاہ صاحب نے ذکر فرمائی ہے۔استثنائی متصل میں استثنا عین المقدم ونقیض التالی منتج ہوتے ہیں۔ شاہ صاحب نے جو مثال ذکر فرمائی ہے،اس میں نقیض التالی کااستثنا ہے اور نقیض التالی،عینِ مقدم کے نقیض کانتیجہ دیتا ہے تویہ نتیجہ ہوگا:فالوتر لیس بواجب۔انتہائی ادب کے ساتھ یہ عرض کرناضروری سمجھتا ہوں کہ حضرت شاہ صاحب کی اس عبارت کی تشریح میں حضرت مفتی سعید احمد پالنپوریؒ سے کچھ تسامح ہوا ہے۔حضرت پالنپوری، شاہ صاحب کی اسی مثال کے بارے میں فرماتے ہیں:اور اس میں دوچیزوں میں منافات سے استدلال کیا گیا ہے۔وجوبِ وتر اوراداء علی الراحلۃ میں منافات ہے انتہی(رحمۃ اﷲالواسعہ ،باب:کیفیۃ فھم المراد من الکلام، ج:۲) یہ سمجھنا چاہیے کہ دو چیزوں میں منافات سے استدلال استثنائی منفصل میں ہوتاہے،نہ کہ متصل میں اور شاہ صاحب نے استثنائی متصل کی مثال بیان فرمائی ہے،لہٰذایہاں استدلال بالملازمہ ہے۔استدلال بالمنافات کی مثال حضرت شاہ صاحب نے بیان نہیں فرمائی ہے۔ استدلال بالمنافات کی صورت میں مذکورہ مثال یوں ہوگی:الوتر اِما واجب أو یؤد علی الراحلۃ،لکنہ یؤد علی الراحلۃ،فھو لیس بواجب۔ اسی کے قریب مثال امام غزالیؒ بھی بیان فرماتے ہے:اِن کان الوتر یؤدی علی الراحلۃ،فھو نفل،لکنہ یؤدی علی الراحلۃ،فھو نفل۔انہوں نے عینِ مقدم کااستثنا کیا ہے(معیا ر العلم فی المنطق،الصنف الثانی فی الشرطی المتصل)۔حضرت شاہ صاحب کے اس بیان سے علمِ منطق کی افادیت آشکارا ہے اور اسی وجہ سے منطق کے بارے میں علمائے کرام نے ایک مشہور بات کہی ہے:المنطق خادم العلوم کلھا
ہمارے اکابر علمائے دیوبند کی منطق اور فلسفہ کے سا تھ جوتعلق اور مناسبت تھی وہ بھی اس علم کی افادیت کو آشکارہ کرتی ہے کیونکہ یہ ایک طبعی بات ہے کہ باکمال لوگ جس چیز کو اہمیت دیتے ہیں تو باقی لوگ ان کی پیروی میں اس چیز کو اہم سمجھتے ہیں۔حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ معقول وفلسفہ بھی جس پر اعقاد نہ ہو،محض استعداد کے لیے پڑھایا جائے ،خدا کی نعمت ہے۔ان سے دینیات میں بہت مدد ملتی ہے۔لطیف فرق ان ہی سے سمجھ میں آتے ہیں۔فلسفہ،سفہ(بیوقوفی)سے تو اچھا ہے (ملفوظات حکیم الامت،ج:۱عنوان:علم بھی بڑی نعمت ہے)۔
حضرت شاہ عبدالعزیز ؒجس طرح ایک جلیل القدر محدث اور مفسر تھے ،اسی طرح معقولات پربھی کامل دسترس رکھتے تھے۔علم منطق کی مشہور کتاب بدیع المیزان پر شاہ صاحب کے تعلیقات ہیں،صدرا کے حاشیہ پر جابجا ان کے حواشی ہیں بلکہ مثناۃ بالتکریر پر تو شاہ صاحب کی ایک مستقل اور جامع تقریر بھی ہے جو صدرا کے آخر میں چھپی ہے،اسی طرح تصور اور تصدیق پرمیرزاہد کا جو حاشیہ ہے ،اس پر بھی شاہ صاحب کے تعلیقات ہیں۔حضرت مولانا محمد قاسم ناناتوی ؒکی آب حیات کوتو سمجھنا بہت مشکل ہے۔حضرت شیخ الہندؒ نے الجہد المقل کی ابتداء میں جو مقدمات تحریر فرمائے ہیں ، اُن کے سمجھنے میں کافی غور کرنا پڑتا ہے۔حضر ت مولانا محمد حسین بٹالوی مرحوم نے علمائے احناف سے نماز میں عدم رفع یدین پر کوئی حدیث صحیح پیش کرنے کامطالبہ کیا تھا،جس کے جواب میں حضرت شیخ الہندؒ نے ’’ادلہ کاملہ‘‘ میں عجیب مطالبہ فرمایا کہ آپ دوام رفع یدین پر کوئی نصِ صریح پیش کریں۔حضرت بٹالوی مرحوم نے دوام رفع یدین کا دعویٰ نہیں کیا تھا لیکن حضرت شیخ الہند ؒنے ان کا دعویٰ ان کے مطالبہ سے متعین فرمایا ۔یہ بات حضرت شیخ الہند ؒنے ایضاح الادلہ میں خود ہی لکھی ہے کہ غیر مقلد عالم دوام رفع یدین کا،جس کا مفاد ایجاب کلی ہے،مدعی ہے، اس لئے کہ اگر وہ دوام کا مدعی نہ ہو تو پھر ہم سے فعل عدم رفع کا جس کا مفاد سلب جزئی ہے، ثبوت کیوں طلب کیا جاتا ہے؟ سب جانتے ہیں کہ سلب جزئی ایجاب کلی کی نقیض ہوتی ہے،ایجاب جزئی کی نقیض نہیں ہوتی۔
حضرت تھانوی ؒکے ساتھ ایک معقولی عالم نے قدرت علی الاخبار عن خلاف الواقع (یہ مسئلہ امکان کذب کے عنوان سے مشہورہے کہ اللہ تعالیٰ خلاف واقع کی خبر دینے پر قدرت رکھتے ہیں یا نہیں ۔ہمارے علمائے دیوبند فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کیونکہ سب جانتے ہیں کہ قوت فعلیت کو مستلزم نہیں ہوا کرتی ،نیز اس قدرت میں امتناع ذاتی بھی نہیں ہے تاکہ محال لازم ہو، مزید تفصیل کیلئے حضرت شیخ الہندؒ کی کتاب لاجواب الجہد المقل کا مطالعہ نہا یت مفید ہے) پر گفتگو کی۔ حضرت تھانویؒ نے ان سے پوچھاکہ جب زید،قائم نہ ہو تو کیا قضیہ’’زید قائم‘‘کا خلق (وجود پذیر ہونا)ممتنع بالذات ہے؟اس نے کہا کہ ہاں ممتنع بالذات ہے(جو حضرات اس قدرت کو نہیں مانتے، ان سے یہاں غلطی ہوتی ہے کہ وہ اس اخبار کو ممتنع بالذات مانتے ہیں)حضرت تھانویؒ نے پوچھا کہ اگر زید،قائم ہوجائے تواب اگر قادر ہو (زید قائم کہنے پر)تو ممتنع بالذات ممکن کیسے ہوا؟ اور اگر اب بھی قادر نہیں تو صدق پر بھی قادر نہ ہوا؟تو وہ خاموش ہوگیا،اس سے منطق اور فلسفہ کی اہمیت اور ضرورت واضح ہوتی ہے البتہ مزید وضاحت کیلئے چند مثالیں پیش کرنا مناسب ہے۔

سورۃالمائدۃ کی ایک آیت کی توضیح

سورئہ مائدۃ کی ایک آیت میں ہیں کہ اَنَّہٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا وَ مَنْ اَحْیَاھَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک نفس کو قتل کر نایا موت سے بچانا پوری انسانیت کو قتل کرنے یا بچانے کے مترادف کیوں ہے؟ مفسرین نے اس کے جوابات دیئے ہیں لیکن شیخ اکبر محی الدین بن عربیؒ نے اپنی تفسیر میں بہت عجیب وجہ بیان فرمائی ہے کہ خارج میں نوع کاقیام ایک شخص کے ساتھ اور سب افراد کے ساتھ برابر ہے،یعنی نوع میں عدد کااعتبار نہیں ہوتاایسا نہیں کہ ایک شخص کے ساتھ نوع قائم ہو تو اس نوع میں نقصان اور کمی ہوگی اور اگر سب افراد کے ساتھ قائم ہو تو نوع میں زیادتی اور کثرت آئے گی بلکہ نوع افراد کی کمی یا زیادتی سے متاثر نہیں ہوتا،اس لیے ایک فرد کے ساتھ قائم انسانیت اور تمام افراد کے ساتھ قائم انسانیت میں کوئی فرق نہیں،اس لیے ایک انسان کو مارنا تما م انسانیت کو مارناہے۔ شیخ اکبرؒ نے منطق کاایک قاعدہ بیان فرمایا ہے کہ ماہیات میں تشکیک وجو ہ اربعہ کے ساتھ ممنوع ہے۔اس کی تفصیل کتابو ں میں ہے۔

روضۃ الطالبین کی ایک عبارت پر اشکال کا جواب

روضۃ الطالبین وعمدۃ المفتیین میں علامہ نووی ؒکی ایک عبارت ہے:
یحرم مس وجہ الاجنبیۃ وان جاز النظر الیہ،ومس کل ماجاز النظر الیہ من المحارم والاماء۔
اسی طرح علامہ رافعی ؒبھی فرماتے ہیں:ولایجوز للرجل مس وجہ الاجنبیۃ وان جاز النظر الیہ،ولامس کل ما یجوز النظر الیہ من المحارم والاماء یہاں اشکال پید اہوتا ہے کہ محرم کے سراور ہاتھ وغیرہ کو چھونا تو بالاتفاق جائز ہے اور یہی بات علامہ نوویؒنے شرح مسلم ،باب فضل الغزو فی البحر میں فرمائی ہے اور مذکورہ دونوں عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ محرم کے کسی عضو کو بھی چھونا جائز نہیں؟اس کاجواب علامہ تقی الدین سبکیؒ نے اپنی کتا ب ’’قضا الارب فی اسئلۃ حلب‘‘ میں دیا ہے ۔علامہ نوویؒ کے یحرم کو لا یجو ز پر حمل کر کے فرماتے ہیں کہ
 لایلزم من سلب جواز مس کل،تحریم مس کل،وھذا یفھمہ من یفھم الفرق بین سلب العموم وعموم السلب،فعدم جواز مس کل،سلب العموم وھو اعم،وتحریم مس کل عموم فی معنی عموم السلب،فیصدق بان لایجوز مس بعض،ویجوز مس بعض (قضاء الارب فی اسئلۃ حلب،المسئلۃ السادسۃ عشرۃ)
سلب العموم میں چوں کہ ایجاب کلی کا ارتفاع ہوتا ہے اور یہ سب کو معلوم ہے کہ ایجاب کلی کے ارتفاع کیلئے سلب کلی لازم نہیں ہے بلکہ سلب جزی کے ساتھ بھی ایجاب کلی مرتفع ہو سکتا ہے، اسلیے علامہ سبکیؒ نے فرمایا کہ علامہ نووی ؒاور علامہ رافعیؒ کے عبارات میں سلب عموم ہے اور سلب عموم میں ایجاب جزی اور سلب جزی دونوں صادق ہوسکتے ہیں،جیسا کہ انہوں نے کیا ہے لہٰذا کوئی اشکال نہیں ہے۔

ایک حدیث شریف پر اشکال کا جواب

مسلم شریف کی مشہور حدیث ہے :لاتدخلو الجنۃ حتی تؤمنوا،ولا تؤمنوا حتی تحابوا الخ۔ بندہ نے اپنے حدیث اور فنون کے چوٹی کے ممتاز معقولی اور فلسفی استاد حضرت مولانا تاج محمد صاحب مدظلہ(دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک)سے عرض کیا کہ اس حدیث میں تو شکل اول ہے ،جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے: لاتدخلوا الجنۃ حتی تحابوا اشکال یہ ہے کہ شکل اول کے انتاج کے لیے تو ایجاب ِصغری کی شرط ہے اور یہاں دونوں مقدمے سالبہ ہیں۔(سالبہ اس لئے ہیں کہ اول مقدمہ میں محمول ’’دخول الجنۃ‘‘ کی مقید نفی کی گئی ہے ، موضوع ’’أنتم ‘‘ سے اور حمل جس طرح جملہ اسمیہ میں ہوتا ہے ،فعلیہ میں بھی ہوتا ہے)اسی طرح منطق کا قاعدہ ہے کہ لا قیاس من جزئتین ولاسالبتین اور یہاں دونوں مقدمات سالبہ ہیں تو نتیجہ کیسے نکل آیاہے؟حضرت نے جواب دیا کہ قیاس کے لئے حمل مواطاطی شرط ہوتا ہے، مذکورہ جملہ فعلیہ ہے، یہاں حمل ہے لیکن مواطاطی نہیں ہے اور اگر قیاس بنایا جائے تو یہاں حد اوسط مکرر نہیں ہے۔اول مقدمہ میں ایمان سے نفس ایمان مراد ہے اور دوسرے مقدمہ میں کمال ایمان مراد ہے اور قیاس کے لئے حد اوسط کامکرر ہونا ضروری ہے۔

سورۃ انبیاء کی ایک آیت پر اعتراض کاجواب

سورئہ انبیاء میں ایک آیت کے آخر میں ہے  اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ حضرت تھانویؒ کے ملفوظات میں دیکھا کہ ایک مولوی صاحب نے یہ اعتراض کیا تھا کہ کفار زمین کے کیوں مالک ہوئے؟خدانخواستہ یہ تو وعدہ خلافی ہے! حضرت تھانوی ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کہ یہ دائمہ مطلقہ(جس میں موضوع ،محمول کی نسبت ایجابی یا سلبی علی الدوام ہوتا ہے)نہیں ہے بلکہ یہ مطلقہ عامہ ہے اور اطلاق کے صدق کے لیے ایک مرتبہ کا وقوع کافی ہوتا ہے،چناچہ صحابہ کرامؓ روئے زمین کے مالک بن چکے ہیں لہٰذا کوئی اشکال نہیں۔

ایک حدیث کی وضاحت

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہور دعا ہے ،جس کے الفاظ کچھ یوں ہے:لا احصی ثناء علیک ، انت کما اثنیت علی نفسک یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بندوں کی حمد وثنا کیوں ناقص ہے اور اللہ تعالیٰ کی ثنا اپنے لیے کیوں کامل ہے؟میرے ناناشیخ الحدیث حضرت مولانا مغفوراللہ صاحب مدظلہ العالی (دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک)فرماتے ہیں کہ حمد صفات کمالیہ کے اظہار سے عبارت ہے۔ بندے جب صفات کمالیہ کا اظہار کرتے ہیں تو دلالت وضعی کیساتھ کرتے ہیں او راللہ تعالیٰ نے آثار (قدرتیں)کی شکل میں صفات کمالیہ کا اظہار فرمایا ہے اور اثرکی دلالت عقلی ہوتی ہے اور دال عقلی (دلالتِ عقلی)کا تخلف مدلول عقلی سے نہیں ہوتا بخلاف دال وضعی (دلالت وضعی)کے کہ اس میں مدلول وضعی سے تخلف جائزہوتا ہے،اسی وجہ سے الفاظ میں مجاز اور استعارات ہوتے ہیں تو بندے کی حمد الفاظ دالہ موضوعہ کے ساتھ ہوتی ہے اور الفاظ کی دلالت اپنے مدلول پر کمزور اور ناقص ہوتی ہے اور دلالت عقلی میں مدلول پر دلالت مضبوط ہوتی ہے،اسلئے اللہ تعالیٰ کی حمد اپنے لیے کامل ہے۔

سورۃ شوریٰ کی ایک آیت پر شبہ اور اس کا جواب

میرے نانا شیخ الحدیث حضرت مولانا مغفوراللہ صاحب مدظلہ العالی (دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک)نے بخاری شریف کے درس میں وحی کے مباحث میں سورئہ شوری کی وحی والی آیت پرایک عجیب شبہ پیش کرکے پھر اس کا جواب بھی دیاہے۔آیت میں ہے: وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرآیِٔ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا  الخ فرمایا کہ یہاں کلام سے مراد وحی ہے جوکہ مقسم کا درجہ ہے اور مابعد وحیا او من ورا حجاب او یرسل رسولا وحی کے اقسام ہیں۔ اشکال یہ ہے کہ مقسم وحی ہے اور اقسام میں بھی یہ(وَحْیًا) ذکرہے جو کہ دیگر دو قسموں کا قسیم ہے تو اقسام میں مقسم ملحوظ ہوکر قسم الشئی قسیمامنہ لازم ہو ا اور یہ باطل ہے کیونکہ قسم الشئی کا شئی )کے ساتھ اتحاد ہوتا ہے اور قسیم الشئی کا شی(قسم)کے ساتھ تباین ہوتا ہے،تو علی تقدیر الاتحاد تباین لازم ہواجو اجتماع النقضین ہے؟
اس کا جواب یہ دیا کہ یہاں اقسام میں جو وحی ہے اس سے مقسم کادرجہ مراد نہیں ہے تا کہ اقسام میں مقسم ملحوظ ہوبلکہ اس سے ایک خاص قسم کی وحی مراد ہے کیونکہ وحیا میں نون تنویع کے لیے ہے تو اب اقسام میں سب اقسام (قسمیں)ہیں ،ایسا نہیں کہ اقسام میں ایک مقسم ہے اور دو قسمیں ہیں تاکہ قسم الشئی قسیما منہ کی خرابی لازم آئے۔

ایک حدیث پر شبہ اور اس کا جواب

حضرت تھانویؒ کے ملفوظات میں ہے کہ حضرت سے ایک طالبعلم نے سوال کیا کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ التثاؤب من الشیطان حالانکہ بعض دفعہ آدمی غفلت کی حالت میں نہیں ہوتا پھر بھی اسے جمائی آتی ہے،تو یہ جمائی شیطان کی طرف سے کیسے ہوئی؟حضرت نے جواب دیا کہ یہ قضیہ مہملہ ہے اور قضیہ مہملہ ،جزئیہ کے حکم میں ہوتا ہے،لہٰذا حدیث کا مطلب یوں ہے:بعض التثاؤب من الشیطان۔

سورۃانفال کی ایک آیت پر شبہ کا جواب

سورئہ انفال میں ایک آیت ہے:وَ لَوْ عَلِمَ اللّٰہُ فِیْھِمْ خَیْرًا لَّاَسْمَعَھُمْ وَ لَوْ اَسْمَعَھُمْ لَتَوَلَّوْا وَّ ھُمْ مُّعْرِضُوْنَ۔اس آیت پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ یہ قیاس اقترانی ہے جس کے دونوں مقدمات شرطی ہیں اور نتیجہ یہ نکلتا ہے: وَ لَوْ عَلِمَ اللّٰہُ فِیْھِمْ خَیْرًا ، لَتَوَلَّوْا (اگر اللہ تعالیٰ کو ان کے خیر کا علم ہوتا،تو یہ اعراض کرتے)اور یہ محال ہے کیو نکہ اگراللہ تعالیٰ کوان کے بارے میں خیر کا علم ہوتا تو پھر اعراض نہیں بلکہ انقیاد کرتے،لہٰذا یہ قیاس ہے اور نتیجہ غلط آرہاہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ شکل اول ہے اوراس کے دونوں مقدمات مہمل ہیں اور قضیہ مہملہ جزئیہ کے حکم میں ہوتا ہے،حالانکہ شکل اول کے انتاج کے لیے کبری کا کلیہ ہونا ضروری ہے اور اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ یہ قیاس شرائط پر پورااترتاہے ،تو پھر جواب یہ ہے کہ اس قیاس میں دونوں قضایا شرطیہ میں مقدم اور تالی کے مابین لزوم نہیں ہے تاکہ نتیجہ لزومی کی شکل میں ہوکراعتراض واردہو بلکہ کبھی مقدم اور تالی میں اتفاق ہوتا ہے،جس کا کوئی اعتبار نہیں جیسے :ان کان زید انسانا کان الحمار ناھقااور جس قیاس میں دونوں مقدمات اتفاقیہ ہوں یا ایک مقدمہ اتفاقیہ اور ایک لزومیہ ہو تو نتیجہ اتفاقیہ ہی آئے گااور اتفاقی نتیجہ کا کوئی اعتبارنہیں ہوتا،چنانچہ آیت میں بھی دونوں مقدمات میں سے کو ئی بھی لزومیہ نہیں لہٰذاجو نتیجہ آرہا ہے وہ اتفاقیہ ہے اور اتفاق تو کسی بھی دو چیزوں کا ہوسکتا ہے تو کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتااوراگر یہ بھی تسلیم کرلیا جائے کہ اس آیت شریف کے اندر شرطیات میں لزوم ہے (جس کا مطلب یہ ہے کہ ا ب نتیجہ لزومیہ ہوگا جو کہ غلط ہے)،تب بھی کوئی اعتراض نہیں ہے کیونکہ نتیجہ یہ آرہا ہے : وَ لَوْ عَلِمَ اللّٰہُ فِیْھِمْ خَیْرًا  لَتَوَلَّوْا ۔اب یہاں مقدم محال ہے اور منطق کا قاعدہ ہے المحال جاز ان یستلزم المحال وان کان بدون علاقۃ عقلیۃ(اس قاعدہ میں مذاہب اور دلائل منطق کی کتابوں میں ہے)توزیادہ سے زیادہ آیت سے حاصل ہونے والے نتیجہ میں دو محال امور کے درمیان لزوم ثابت ہوتا ہے ،جو کہ باتفاق عقلا جائز ہے،لہٰذاکوئی اشکال نہیں ہے۔
علامہ تفتازانی ؒنے اس سوال اور دئیے گئے جوابات کو بالکل بے بنیاد قرار دیا ہے کہ سوال اسلئے غلط ہے کہ کلمہ لوفصیح کلام میں قیاس اقترانی نہیں بلکہ قیاس استثنائی میں استعمال ہوتا ہے کیوں کہ عندالمناطقہ لو تستعمل لان یستدل بھا علی امتناع الاول بامتناع الثانی اور اسی وجہ سے پھر قیاس استثنائی میں تالی کے نقیض پر تصریح نہیں کی جاتی کیونکہ نقیض تالی ،نقیض مقدم کا نتیجہ دیتا ہے (مثلا،لوکانت الشمس طالعۃ فالنھار موجود،لکن النھار لیس موجودا،فالشمس لیست طالعۃ، یہاں نقیض تالی لکن النھار لیس موجودا نے نقیض مقدم فالشمس لیست طالعۃ کا نتیجہ دیا)جو کہ امتناع الاول لامتناع الثانی ہی ہے۔
جواب اسلئے غلط ہے کہ مجیب نے آیت کا قیاس ہونا تسلیم کیااور یہ بھی تسلیم کیا کہ قیاس شرائط پر پورا نہ ہونے کی وجہ سے نتیجہ نہیں دے رہا۔علامہ تفتازانیؒ فرماتے ہیں کہ اتنے بڑے حکیم کا کلام اور اس میں انتاج کے شرائط نہ ہوں تو پھر ایسے کلام کا مطلب ہی کیا ہے؟اور کیا قیاس کا مقصد نتیجہ نہیں ہواکرتا ؟پھر یہاں کیوں قیاس کو تسلیم کرکے شرائط کے فقدان کا اقرار ہے؟یہ تو ایک معمولی عاقل بھی نہیں چاہتا۔
مذکورہ سوال وجواب کی تغلیط کے بعد علامہ تفتازانیؒ نے کلمہ لوپر عجیب بحث فرماکر آیت شریف کا بہت خوبصورت مطلب بیان فرمایا ہے۔مزید تفصیل کے لیے روح المعانی،مطول مع حاشیہ سیالکوٹی،حاشیہ دسوقی وغیرہ معانی کی کتب دیکھی جاسکتی ہیں۔

سورۃ انبیاء کی ایک آیت کی توضیح

سورئہ انبیا کی ایک آیت میں ہے: لَوْ کَانَ فِیْھِمَآ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا  اس آیت شریف کا صحیح مطلب سمجھنے کے لیے پہلے کلمہ لو کی وضاحت ضروری ہے۔لو کے استعمال میں اہل لغت اور مناطقہ کا نقطہ نظر الگ الگ ہے۔اہل لغت کے نزدیک یہ کلمہ لامتناع الثانی (الجزا)فی الخارج لامتناع الاول(الشرط)من غیر التفات الی ان علۃ العلم بانتفا الجزا ماھی۔ خارج میں جزا اس لیے نہیں ہے کہ شرط نہیں ہے یعنی دونوں امورخارج میں منتفی ہیں اور مخاطب کو جزا کے انتفا کا علم ہے،لیکن وہ یہ چاہتاہے کہ خارج میں اس جزا کے منتفی ہونے کی کیا وجہ ہے؟ جیسے ارشاد باری ہے:
فَلَوْشَآء لَھَدٰکُمْ اَجْمَعِیْنَ (الآیۃ)یعنی خارج میں انتفائے مشیت ،انتفائے ہدایت کاسبب ہے۔
اس کے برعکس مناطقہ کا کام استدلال اور تحصیل علوم کے ساتھ ہے۔ان حضرات کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا کہ خارج میں انتفا یا ثبوت کا سبب کیا ہے؟اس لیے یہ حضرات اول (شرط ،مقدم) کو ملزوم اور ثانی(جزا،تالی)کو لازم قرار دیتے ہیں۔فرماتے ہیں:لو للدلالۃ علی ان العلم بانتفا الثانی علۃ للعلم بانتفا الاول ضرور انتفا الملزوم بانتفا الازم من غیر التفات الی ان علۃ انتفا الجزا فی الخارج ما ھی یعنی علم میں جزا کے امتناع سے شرط ممتنع ہوگی کیو نکہ جزا کو وہ لازم اور شرط کو ملزوم کہتے ہیں اور مسلمہ قاعدہ ہے کہ لازم کے انتفاسے ملزوم منتفی ہوتاہے۔اب خارج میں جزا کے انتفاکی کیا وجہ ہے؟اس سے ان کا کوئی سروکار نہیں ہے۔دونوں استعمالوں میں فرق یہ ہے کہ جہاں تالی ،مقدم سے عام ہو،تواہل لغت کا قاعدہ نہیں چلے گاجیسے :لو کان ھذا انسانا،لکان حیوانا۔یہاں تالی اعم ہے لہٰذا مناطقہ کا قاعدہ تو درست ہوگا کہ تالی کی نقیض (انتفائے لازم)کا استثنا کیا جائے جو نقیض مقدم (انتفائے ملزوم)کا نتیجہ دے گا،لیکن اہل لغت چونکہ جزا کی انتفا، شرط کی وجہ سے مانتے ہیں اور یہاں شرط اخص ہے،جس کی انتفا سے جزا کا انتفا لازم نہیں۔اسی طرح جب تالی (جزا)علت اور مقدم (شرط)معلول ہو تو اہل لغت کا قاعدہ کار گر نہ ہوگا، جیسے:لو اضا العالم،لطلعت الشمس یہاں تالی علت ہے تو اہل عربیہ کا قاعدہ درست نہیںکیونکہ ثبوت یا نفی علت کی وجہ سے ہوتی ہے نہ کہ معلول کی وجہ سے،لہٰذا تالی کے ثبوت یا عدم سے مقدم کا ثبوت یا نفی امر معقول ہے لیکن مقدم کے ثبوت یا نفی سے تالی کو ثابت یا منتفی کرنا درست نہیں، حاشیہ دسوقی میں ان دونوں استعمالات کے درمیان فرق کو ایک اور طریقہ سے بھی سمجھایا گیا ہے۔
مذکورہ آیت میں مناطقہ کا طرزہے اوراللہ تعالیٰ اپنی وحدانیت پر استدلال فرمارہے ہیں، انتفائے فسادکے خارجی سبب کابیان مقصود نہیں،کیوں کہ تعددآلہ کے انتفاسے عدم فساد لازم نہیںبلکہ یہ جائز ہے کہ اِلہ ایک ہو اور کسی حکمت کے سبب فساد بھی ہو،لہٰذا یہاں امتناع فساد(استثنا التالی)سے تعدد آلہ کے امتناع(استثنا المقدم)پر استدلال مقصود ہے ،جو کہ مناطقہ کا طرزہے۔
آیت مذکورہ میں تعدد آلہ کے امتناع پر جو دلیل ہے ،اس کے بارے میں علامہ تفتازانیؒ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ ایک اقناعی اور ظنی حجت ہے یعنی ایک مسلمان اس پر قناعت کرسکتاہے کیونکہ آیت میں مذکور ملازمہ قطعیہ اور عقلیہ نہیں بلکہ عادیہ ہے،یعنی عادۃً ایسا ہوتا ہے کہ کسی جگہ جب ایک سے زیادہ حاکم جمع ہو ں تو تمانع اور نزاع ہوتا ہے۔اس کے برعکس علامہ خیالی ؒاس ملازمہ کو قطعیہ اور عقلیہ ثابت کرکے اس کوایک قطعی حجت مانتے ہیں اور غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ خیالی ؒکا موقف درست ہے اور اسی وجہ سے نبراس میں ہے:ولعل قلب المومن یتمنی کونھا حجۃ قطعیۃ۔
اشکال: یہاں یہ اشکال ہوتا ہے کہ قرآن مجید عربی کتاب اوراہل عرب کے محاورات کے مطابق یہ نازل ہواہے تو پھر مذکورہ آیت میں اہل لغت کے طرز کے بجائے مناطقہ کا طرز کیوں اختیار کیا گیا؟
جواب: علامہ دسوقی ؒفرماتے ہیں کہ دراصل یہ دونوں استعمال اہل لغت کے ہیں لیکن ایک استعمال  اہل عرب کے ہاں مشہور ہے اورایک مناطقہ کے ہاں ،البتہ کبھی عرب بھی مناطقہ والا طرز اختیار کرتے ہیں،کیونکہ یہ بھی عرب ہی کا طریقہ ہے،مثلاً جب زید کے بارے میں پوچھا جاتا ہے کہ وہ موجود ہے یا نہیں؟تو کبھی عرب یوں بھی کہتے ہیںلو کان ،لحضریہاں وہی مناطقہ کا طرز ہے کہ امتناع ثانی (تالی)سے امتناع اول(مقدم )پر استدلال کیا گیا۔

سورۃ زخرف کی ایک آیت کی توضیح

سورہ زخرف میں ایک آیت ہے: قُلْ اِِنْ کَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ ۔روح المعانی میں ہے کہ یہاں قیاس استثنائی ہے،جس میں لازم بین (فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ) کے انتفا سے مقدم(کَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ )کاانتفامقصود ہے۔لازم بین یہ ہے کہ لازم اور ملزوم کے تصور سے جزم باللزوم حاصل ہو۔اس لزوم کو ملازمہ بھی کہاجاتا ہے اور یہ ملازمہ علامہ آلوسی ؒنے بیان فرمایا ہے،اسی وجہ سے وہ فرماتے ہیں کہ جب لازم( فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ )اور ملزوم (کَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ )کا تصور کیا جائے تو ان کے درمیان لزوم پر جزم حاصل ہوجاتا ہے۔یہ جزم انہوں نے بیان فرمایا ہے۔
یہ چند مثالیں ہیں،جس سے معلوم ہواکہ منطقی اصطلاحات اور قواعد کاانکار یا ان کونظر انداز کرناصحیح نہیں ،ورنہ پھر فقہا،اصولیین،محدثین اورمفسرین کی بعض منطقی توضیحات اور تشریحات کو کماحقہ نہیں سمجھا جاسکے گا۔اصول فقہ کی اکثرکتب مثلاً المستصفی للاما م الغزالی،التحریرمع التیسیر للابن الہمام،التوضیح والتلویح،مسلم الثبوت للقاضی محب اللہ البہاری مع فواتح الرحموت وغیرہ معقولات میں مہارت کے بغیر ان کا سمجھنا اور پڑھنا پڑھانا بہت مشکل ہے ،اسی وجہ سے علما فرماتے ہیں کہ تبحر فی العلوم فرض کفائی ہے بلکہ حضرت تھانوی قدس سرہ تو فرض عین فرماتے ہیں(ملفوظات حکیم الامت ،ج۱:،عنوان:علم بھی بڑی نعمت ہے)۔مسلم الثبوت ،شرح مواقف وغیرہ میں ہے کہ متاخرین متکلمین نے تو منطق کو علم کلام کا جز بنایا ہے اور رد المحتار(جس کے مطالعہ سے کوئی فقیہ مستغنی نہیں ہوسکتا)میں بھی جابجا منطقی اصطلاحات اور قواعد موجود ہیں بلکہ حضرت امام ابو یوسفؒ کے قول :مالیس بحدث لیس بنجس پر تو علامہ شامیؒ نے ایک لمبی منطقی تقریر فرمائی ہے۔اس تقریر میں انہوں نے علم منطق کی متعدداصطلاحا ت اورقواعد بیان فرمائے ہیں۔یہ قول ہمارے متو ن عبارت کی کمی بیشی کے ساتھ ذکر کرتے ہیں (اس تقریر پر بندے کی تعلیق بھی ہے ،جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ پوری تقریر فقہی لحاظ سے تو درست ہے البتہ علم منطق کے قواعد کے خلاف ہے)۔اب اگر کو ئی منطقی قواعد نہ جانتا ہوتو وہ ان کتا بوں کو کما حقہ کیسے سمجھے گا؟لہٰذا گزارش ہے کہ شائقینِ علمِ دین کوچاہیے کہ اس علم کوپڑھنے اور سمجھنے کی طرف بھرپور یا بقدرِ ضرورت توجہ دیں۔

استعداد کاواویلا

بعض حضرات مشکل علوم وفنون سے فی زمانہ اس لیے کتراتے ہیں کہ لوگوں کی استعدادیں کمزور ہوگئی ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ لوگوں کی فطری استعدادیں گزشتہ حضرات کی استعدادوں کے مقابلہ میں کم ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر دور کی استعدادوں کی سرے سے آبیاری ہی ختم کردی جائے بلکہ ہر دور کی فطری استعدادکو جلا دینے کے لیے بھر پور کوشش کرنی چاہیے۔موجودہ دورمیں عصری علوم سائنس اور ٹیکنالوجی وغیرہ میں بے تحاشا ترقی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے جوان علوم کے ماہرین کی محنت کا نتیجہ ہے اگر ان میدانوں کے ماہرین بھی استعدادوں کاواویلا شروع کردیں تو سائنس اورٹیکنالوجی کی ترقی رک جائے گی یا پھر ختم ہوجائے گی،اگر عصری علوم والے ترقی کرسکتے ہیں تو دینی علوم کے حامل حضرات یہ واویلا کیوں کرتے ہیں کہ استعدادیں کمزور ہیں۔یہ توجان بوجھ کر فطری استعدادوں کو کمزور یا ختم کرنا ہے۔
مخالفین اسلام اور گمراہ فرقوں کے بعض افراد اسلام کو کمزور کرنے اور شکوک وشبہات پیدا کرنے کے لیے معقولی علوم میں خوب مہارت حاصل کرتے ہیں اور کرر ہے ہیں۔ہمارا بھی فریضہ بنتا ہے کہ الحاد کے اس دور میں بھر پور مقابلہ کے لیے معقولی علوم میں مہارت پیدا کریں اوراس کے ساتھ حجۃ الاسلام حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کی کتاب حجۃ اللہ البالغہ کو سمجھنے کی پوری کوشش کریں۔اس طرح اسلام ہر دور میں ان شا اللہ حجت اورحقانیت کے اعتبار سے ہر ملحد اور گمراہ پر غالب رہے گا۔جہاں تک ہمارا ناقص علم ہے ۔حضرت شاہ عبدالعزیز ؒسے شاہ عبدالغنی مجددیؒ تک اور حضرت نانوتویؒ اور حضرت گنگوہی ؒسے قاری محمد طیبؒ اور مفتی سعید احمد پالنپوریؒ تک سب حضرات دیوبند عقلی علوم(منطق اور فلسفہ)اور حجۃ اللہ البالغہ کی طرح دیگر قیمتی کتب کے علوم کے حامل اور ماہر تھے،جس کی وجہ سے یہ حضرات حدیث،فقہ اور تفسیر میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔اکابرین ِ دیوبند کے معقولی علوم کا اندازہ لگانے کیلئے صرف تین کتابوں کا مطالعہ بھی کافی ہے،الجہدالمقل للشیخ محمود حسن الدیوبندی، آبِ حیات للشیخ النانوتوی،تقریر ِ دلپذیر للشیخ النانوتوی۔