افکار و تاثرات بنام مدیر

ادراہ

’’تفسیر لاہوری‘‘ پر مہتمم دارالعلوم دیوبند کی قیمتی تقریظ : ایک عظیم علمی تحفہ

مولانا ابوالقاسم نعمانی (مہتمم دارالعلوم دیوبند)

شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے تفسیری افادات کا مجموعہ ’’تفسیر لاہوری‘‘ ایک عظیم علمی تحفہ ہے۔ حضرت مولانا احمد علی صاحبؒ کو قر آن پاک کے ساتھ جو شغف تھا اور ان کے درس تفسیر قرآن کو جو امتیاز حاصل تھا وہ اہل علم کے درمیان محتاج تعارف نہیں رہا۔حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ جیسے اساطین علم بھی اس ممتاز درس قرآن سے استفادہ کے لیے شریک درس ہوتے تھے اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت مولانا علی میاں صاحبؒ کو جو قرآن پاک کا ذوق نصیب ہوا وہ اس حلقہ درس میں شرکت کا ثمرہ تھا۔مجھے اپنی درسی و انتظامی مصروفیات کی بنا پر تفصیل کے ساتھ کتاب کے مطالعہ کا موقع تو نہیں ملا لیکن حضرت مولانا سمیع الحق صاحب شہیدؒ کے ضبط و تالیف اور ان کے رفقار کار کی تکمیل و نگرانی اور ترتیب و تدوین کے بعد جو مجموعہ سامنے آیا ہے وہ اعتماد کے لیے کافی ہے،حضرت مولانا مفتی محمد تقی صاحب عثمانی زید مجدہم نے اس تفسیر کے سلسلہ میں جو محتاط تبصرہ فرمایا ہے بندہ اس سے متفق ہے اور دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ اس خدمت کو قبول فرمائیں اور اہل علم کو زیادہ سے زیادہ استفادہ کی توفیق عطا فرمائے۔

ماہنامہ ’’الحق‘‘کی خصوصی اشاعت پر ہدیہ تبریک …

حضرت مولانا غلام الرحمن(مہتمم جامعہ عثمانیہ)

بخدمت اقدس حضرت مولانا راشد الحق سمیع مدظلہ زیدمجدکم (مدیر ماہنامہ ’’الحق‘‘ جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے!ماہنامہ ’’الحق‘‘کی خصوصی اشاعت بابت ’’شیخ الحدیث مولانا عبدالقیوم حقانی :حیات و خدمات‘‘کو منصہ شہود پر دیکھ کر بے ساختہ دل کی دنیا میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی، حضرت حقانی صاحب مدظلہ میرے زمانہ طالب علمی اور احاطہ دارالعلوم حقانیہ کے رفقاء اور مخلصین میں سے ایک ممتاز رفیق ہیں، آپ کی جتنی علمی اور تحقیقی خدمات کا آج ایک سلسلہ رواں دواں ہے وہ تمام تر صلاحیتیں ہمیں آپ کی جوانی کے دور میں بھرپور نظر آئی تھیں، پھر مزید حضرت شیخ الحدیث مولانا عبدالحق صاحبؒ کی شفقت بھری نگاہوں نے اسے جلا بخشا اور رہی سہی کسر شہید مظلوم حضرت مولانا سمیع الحق نوراللہ مرقدہ کی بے پناہ خلوص و محبت اور وسعت ظرفی اور فراخدلی کی رویوں نے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ مجھے آج حضرت حقانی صاحب مدظلہ کی رفاقت اور آپ کی معیت میں احاطہ دارالعلوم حقانیہ میں بیتے ایام پر بجاطور پر ایک فخر اورسعادت حاصل ہے، آج کی نسل نو اور نوجوان طلباء وفضلاء کو یقینا حضرت حقانی مدظلہ کی حیات و خدمات سے ایک نئی راہ اوران کے ولولوں کو بجا طور پر ایک ٹھکانہ مل سکے گا، تحریر و تقریر اور درس و تدریس بمع ادارتی سرگرمیوں کے یہ تمام مراحل عبور کرنا درحقیقت اولوالعزمی کی دلیل ہے، حقانی برادری کے حوالے سے یہ تمام باغبان و مالیار گلشن حقانیہ کے بعد الموت کرامت ہے کہ آپ کے ادارے سے منسوب افراد کو حق تعالیٰ نے دین متین کے متنوع اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کام کے حوالے سے قیادت بخشی ہے، حق تعالیٰ اس گلشن کو اور حضرت شیخ کے خانوادہ اقدس کو اپنے اکابر کی امانتوں کا حقیقی وارث بنادیں اور یہ گلشن تاقیامت تروتازہ اور باغ و بہار رکھے۔ ادارہ ماہنامہ ’’العصر‘‘ آپ کے ضخیم کتاب پر آئندہ شمارے میں تعارف اورتبصرہ کی سعادت حاصل کرے گا،ساتھ ہی ماہنامہ ’’الحق‘‘ کی خصوصی اشاعت بحوالہ ختم نبوت نمبر پر بھی ان کے شایان شان نقوش پیش کئے جائیں گے، حق تعالیٰ آپ کی زندگی میں ہمیشہ خیروبرکت عطا فرمائے ، درس حدیث اور دیگر علمی و انتظامی ذمہ داریوں کے نبھانے کی بہتر توفیق مرحمت فرمائے۔ (آمین) حضرت مولانا مفتی غلام الرحمن (بانی ومہتمم جامعہ عثمانیہ پشاور)

ماہنامہ ’’الحق‘‘ کا مولانا سمیع الحق شہید نمبر،ایک عہدِ جلیل کی داستان …

مولانا عبدالجبار سلفی

جب ماہنامہ الحق اکوڑہ خٹک کے شہید مولانا سمیع الحق نمبر کی چار ضخیم جلدیں، جو کہ علم و حکمت کی روشن مشعل اور تاریخِ عصرِ رواں کی جیتی جاگتی تفسیر ہیں، جناب مولانا راشد الحق سمیع کی جانب سے نومبر 2020 میں موصول ہوئیں تھیں، تو دستِ سپاس دراز ہوا اور دل شکر و تحسین کی روشنی میں نہا گیا۔ اس کی وصولی پر شکریہ کی رسید ارسال کر دی گئی تھی، مگر گوناگوں مشاغل، کتب کی بے موسمی بارش اور فطری تساہل نے قلم کو دیر تک غیرمتحرک رکھا۔اگرچہ استفادہ کی یہ سعادت انہیں دنوں میسر آ گئی تھی کہ اس کے گوش و کنار کا مطالعہ مکمل کر لیا گیا تھا مگر آج یہ خوش بختی مقدر ہوئی کہ اس بے مثل خزین علوم و معارف پر باضابطہ تبصرہ قلم بند کیا جا رہا ہے۔ الحمدللہ علی ذلک
یہ علمی و فکری شاہکار چار جلدوں میں منقسم ہے، جن کے کل صفحات کی مجموعی تعداد 2255 کے قریب پہنچتی ہے جبکہ مضامین کی تعداد کم و بیش 585 ہے اور ابواب کی تقسیم پندرہ عدد پر محیط ہے۔مولانا شہید کے انٹرویوز اور خطوط و بیانات اس کے علاوہ ہیں۔یہ ضخامت محض کاغذ کی نہیں بلکہ مولانا سمیع الحق شہیدؒ کی علمی، فکری، روحانی، سماجی اور ملی خدمات کا ایک بے مثال مرقع ہے، جو ہر ورق پر اپنے قاری کو کسی نئے زاوی فکر سے روشناس کراتا ہے۔ یہ علمی انسائیکلوپیڈیا نہیں تو اور کیا ہے کہ جس میں علمائے ربانیین، شیوخِ حدیث، شیوخِ طریقت، زعمائے سیاست، قائدینِ افکار، ماہرینِ صحافت، اربابِ قلم و قرطاس، خطبا و واعظین، عرب و عجم کے مفکرین غرضیکہ ہر مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے اصحابِ علم و دانش نے اپنے خراجِ عقیدت کو الفاظ کا قالب عطا کیا ہے۔یہی تو وہ کمال ہے، جو صرف انہی ہستیوں کو میسر آتا ہے جو اپنی زندگی کو ایک نظریہ، ایک پیغام اور ایک تحریک بنا کر گزارتے ہیں۔ یہ فقط مضامین کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک عہد کی جھلکیاں ہیں، ایک تاریخ کا بیان ہے، ایک تحریک کی سرگزشت ہے۔ مولانا سمیع الحق شہیدؒ کی عظمت اور تاثیر کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان پر لکھنے کے لیے صرف ایک یا دو جلدیں ناکافی تصور کی گئیں اور یہ علمی شہ پارہ چار ضخیم جلدوں میں پرویا گیا، جس کا ایک ایک ورق علم و بصیرت کا آئینہ ہے۔ کتاب کی ظاہری و طباعتی جمالیات بھی کسی شاہکار سے کم نہیں۔یہ محض کاغذ پر سیاہی کا بکھرا نہیں بلکہ علم کی وہ کہکشاں ہے جس میں ہر لفظ موتی، ہر جملہ زمرد، اور ہر باب ایک تابندہ چراغ ہے۔ اعلی درجے کے کاغذ، نفیس طباعت، مضبوط جلد بندی، سرورق کا جاذبِ نظر امتزاج، عنوانات کا حسن، عبارت کی صحت اور حسنِ کتابت یہ سب مل کر اسے ایسی نایاب یادگار میں ڈھال دیتے ہیں جو دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے وقار اور علمی فتوحات کا زندہ ثبوت ہے۔ یہ علمی انسائیکلوپیڈیا سوانحی ادب میں ایک زلزلہ برپا کر چکا ہے اور وہ علمی و فکری تحریک جو مولانا سمیع الحق شہیدؒ کی حیات میں تھی، یہ مجموعہ اس کی ایک پائندہ و تابندہ یادگار کے طور پر باقی رہے گا۔ یہ کہنا ہرگز مبالغہ نہیں کہ اسے ہر صاحبِ ذوق کے کتب خانے کی زینت ہونا چاہیے کہ یہ فقط ایک کتاب نہیں بلکہ ایک دبستانِ فکر ہے۔کاتب السطور نہ صرف اس عہدِ آفریں علمی و فکری کاوش کی اشاعت پر مبارکباد پیش کرتا ہے بلکہ یہ بھی کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ ضخیم نمبر ماضی کی ایک یادگار نہیں بلکہ مستقبل کے راہ روں کے لیے ایک روشن چراغ ہے، جسکی روشنی میں آئندہ نسلیں اپنے علمی و فکری سفر کا تعین کریں گی۔ یہ کتاب اسلاف کے علم و عرفان کی وہ امانت ہے، جسے ہر متلاشئی حق کے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔ یہ شہیدِ علم و عرفان کے نام ایک ایسا ہدیہ ہے جو قرطاس و قلم کی دنیا میں ہمیشہ محفوظ رہے گا۔ کوئی کتب خانہ اس گوہرِ نایاب سے خالی نہ ہو کہ یہ صرف ایک علمی سرمایہ نہیں بلکہ ایک عہد کی داستان ہے۔کتاب سے متعلق مزید تفصیلات جاننے کیلئے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے موتمر المصنفین کے رابطہ نمبر 0333-9167789 پر معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔