ملفوظاتِ امام لاہوریؒ ’’تفسیر لاہوری‘‘کی روشنی میں(قسط11)

مرتب: حافظ خرم شہزاد

ملفوظاتِ امام لاہوریؒ
’’تفسیر لاہوری‘‘کی روشنی میں
  مرتب: حافظ خرم شہزاد،مدیر بزم شیخ الہند گوجرانوالہ

مولاناتاج محمود امروٹی ؒاور مساجد کا تحفظ

’’ مولانا تاج محمودامروٹیؒ نے سندھ میں انگریز کے ساتھ جنگ کا اعلان کیا تھا کیونکہ انگریز دریائے سندھ سے چھ بڑی نہریں نکال رہا تھا اور نکالنے کا طریقہ یہ رکھا تھا کہ ان نہروں کو بالکل سیدھا کھودا جائے تو اس محاذ پہ جو بھی بستی آتی اس کو وہاں سے ختم کردیتا ۔ اگر مسجد بھی آتی تو اس کو بھی وہاں سے شہید کر دیتے، حضرت امروٹی ؒنے فرمایا کہ ہم مسجدیں شہید کرانے نہیں دیں گے ، مسجدوں کو تمھیں بحال رکھنا پڑے گا، ان کے نیچے پل بناؤ اور مساجد کو پختہ کرو، ورہ ہم تم سے لڑیں گے۔ ایک گولی تو چلا کر دیکھواگر میں نے تجھے سندھ سے نہ نکالا تو میں اپنے باپ کا نہیں ،تم نے کیا سمجھ رکھا ہے کہ امت محمدیہ بالکل فنا ہوچکی ہے، چنانچہ ویسے ہی ہوا اور مسجدیں پکی بناکر بحال رکھی گئیں کیونکہ انگریز بھی زر پرست اور خدا پرست جانتے تھے ۔اگر حضرت امروٹی ؒ اس جہاد کا اعلان نہ کرتے تو انگریز مسجدوں کونہ چھوڑتا اور تمام مساجد کو شہید کرادیتا۔‘‘(تفسیر لاہوری: ج۶، ص۳۶۲)

مٹی سے لے کر زندہ انسان بنانے تک احساناتِ الٰہیہ

’’ (۱) مٹی سے غذا بنانا(۲)غذا سے نطفہ بنانا(۳) ماں کے رحم میں نطفہ رکھنا(۴)نطفہ سے علقہ (خون کا لوتھڑا بنانا)(۵)خون کے لوتھڑے سے گوشت بنانا(۶)گوشت میں پھر ہڈیاں بنانا(۷) پھرہڈیوں پر گوشت چڑھانا(۸)پھر اس تیار شدہ ڈھانچے میں روح پھونکنا(۹)آنکھوں میں بینائی ڈالنا (۱۰)کانوں میں سننے کی طاقت ڈالنا(۱۱)زبان میں بولنے کی طاقت ڈالنا(۱۲)دماغ میں عقل ڈالنا(۱۳)ہاتھ میں پکڑنے کی طاقت ڈالنا(۱۴)ٹانگوں میں چلنے کی طاقت ڈالنا
(۱۵)ناک میں سونگھنے کی طاقت ڈالنا(۱۶)سارے بدن میں ایک حس کا رکھنا جس سے انسان ہر اس چیز کو معلوم کرسکے جو بدن پر لگ جائے کہ گرم ہے یاسرد۔‘‘  (تفسیر لاہوری: ج۶، ص۴۰۰)

حیوانات میں احساسِ ممنونیت

’’اگر غور سے دیکھا جائے تو حیوانات میں بھی اپنے محسن کے ممنونِ احسان ہونے کا جذبہ پایا جاتا ہے ۔ لاہورکے چڑیا گھر میں جاکر تماشا دیکھئے کہ شیر کی خدمت پر جو خادم مامور ہے جب وہ پنجرے کے پاس جاکر کھڑا ہوجاتا ہے اور شیر کو بلاتا ہے تو لیٹا ہوا شیر بھی فوراً اُٹھ کر پنجرے کے پاس جاکر کھڑا ہوجاتا ہے ،پھر وہ خادم اس کی گردن پر اور اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتا ہے ، شیر اس طرح چپکے سے کھڑا رہتا ہے جس طرح گائے یا بھینس کھڑی ہو۔ یہ جانور کیوں کھڑا ہے؟ اس لیے کہ یہ اپنے محسن کے حکم کی تعمیل کررہا ہے۔‘‘(تفسیر لاہوری: ج۶، ص۴۰۰)

نبی علیہ السلام کی غربت کی حکمتیں

’’اللہ تعالیٰ بڑی برکت والی ذات ہے، اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ان کے خیال سے بہتر چیزیں آپ کو عطا فرماتا لیکن یہ اس کی مصلحت کے خلاف ہے کیونکہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مال و متاع و خزائن سیم و زر بکثرت ہوتے تو جھوٹے مکار فریبی زرپرست آپ کے ہاں جمع ہو جاتے۔ کھرے اور کھوٹے کی کوئی تمیز نہ ہو سکتی اور اسی طرح یہ قاعدہ بھی ہے کہ دولت مندوں کے ساتھ خوشامدی لگ جاتے ہیں، بس جائز و ناجائز تعریفوں سے ملک صاحب اور خان صاحب کا جی خوش کرا کر اُسے غرور میں لاتے اور اپنا پیٹ بھر کر عمر بھر جس کا کھاتے اس کا گن گاتے رہتے تو پھر آپ کے پاس بجائے مخلص،منافق اور طمع دار زیادہ اکٹھے ہوتے اور اب جو آئے گا کھرا ہوگا کیونکہ فقر و فاقہ والوں کے پاس کون آتا ہے؟ اگر آتا ہے تو مخلص اور صادق ہوگا جیسے کہ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک صحابی نے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میری آپ کے ساتھ محبت ہے، یہ جملہ دوبارہ دہرایا اور آپ خاموش تھے، تیسری مرتبہ جب کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر فقر و فاقہ کے لیے تیار ہو جاؤ اور حدیث میں آتا ہے: اشدالناس بلاء الانبیاء ثم الامثل فالامثل(سنن دارمی ۲۸۲۵ )‘‘ (تفسیر لاہوری جلد۷، ص:۵۲)

حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کا معمول

’’میں جہاں جاتا ہوں تو میری شرط یہ ہوتی ہے کہ میرے پاس اپنا کرایہ ہوا تو آجاؤں گا، ورنہ خلاف وعدہ پر محمول نہ کیجئے گا۔ اب اللہ تعالیٰ نے وسعت دی تو حتی الوسع (پیسے) نہیں لیتا، پنجاب میں میرا یہی معمول ہے اب میں مدرسہ قاسم العلوم ملتان کے اجلاس میں گیا تھا ساڑھے ستاون روپے اپنی جیب سے خرچ کر کے آیا ہوں، مدرسہ سے ایک پیسہ نہیں لیا، اب تین خاندان ہیں میرے اور میری اولاد کے، میں کما کے انکو دیتا ہوں، اللہ تعالیٰ کا فضل ہے سب کچھ پورا ہوتا ہے، نسخہ یہ ہے کہ اللہ والوں کی صحبت سے یہ رنگ چڑھ جاتا ہے۔ اللہ کے پاک نام سے سب برکات حاصل ہوتی ہیں۔‘‘(تفسیر لاہوری جلد۷، ص:۷۵)

روحانی امراض کے پہلے معالج

’’سید المرسلین خاتم النبیین علیہ الصلوٰۃ والسلام کی برکات میں سے ایک برکت روحانی امراض سے شفا بھی ہے، اسی کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ویزکیھم کے لفظ سے بھی ارشاد فرمایا ہے یعنی آپ لوگوں کوروحانی امراض سے شفایاب فرماتے ہیں۔ امراضِ روحانی میں شرک، کفر، حسد، عجب وغیرہ بہت سے امراض شمار کیے جا سکتے ہیں۔‘‘(تفسیر لاہوری جلد۷، ص:۲۸۸ )

شفا کی قسمیں

’’شفا کی دو قسمیں ہیں وہبی اور کسبی۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک آدمی گرم کپڑا نہ ہونے کے باعث سردی سے ٹھٹھر رہا تھا، اب سردی زائل کرنے کی دو صورتیں ہیں اگر وہ دھوپ میں جا کر بیٹھے گا تو سردی خود بخود دور ہو جائے گی۔اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں حاضر ہونے کی برکت سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر کیمیا اثر کے طفیل سے حسد، کبر، عجب وغیرہ امراض سے انسان پاک ہو جاتا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی کوئلہ سلگائے اور انگیٹھی میں ڈال کر کمرہ بند کر کے اندر بیٹھ جائے، اس آگ کے سینکنے سے بھی سردی دور ہو جائے گی مگر یہ طریقہ وہبی نہیں بلکہ کسبی ہے۔‘‘(تفسیر لاہوری جلد۷، ص:۲۸۸ )

مقصد ِ نماز

’’نماز میں خدا تعالیٰ کی بندگی کا حق ادا کرنا مقصود ہے تاکہ اس کی نعمتوں کاشکر بجا لائیں، ہاتھ جوڑیں،سرجھکائیں،سجدے میں گریں،اس کی عظمت کے گن گائیںاورروحانی لذت پائیں،اس کے علاوہ اپنی لغزشوں سے توبہ کریں۔غرضیکہ اپنے حقیقی مولیٰ سے غلامی کا تعلق تازہ کرکے آئیں۔‘‘(تفسیر لاہوری جلد۷، ص:۳۲۹ )